شاما چڑیا کو پکارتا آخری آدمی۔ ۔ ۔ حسنین جمال

 

 

شاما چڑیا، تمہیں پکارنے والا آخری آدمی اب تمہاری تلاش میں بہت دور جا چکا۔ بیر بہوٹیوں کو بھی جا کر یہ سناﺅنی تمہیں نے دینی ہے۔ دیکھو، حوصلہ رکھنا شاما، جتنے جگنو وہ آدمی بکھیر گیا، وہ اس جنگل میں اس کی یاد مناتے رہیں گے، ٹمٹماتے رہیں گے۔ ڈبائی سے اگر تمہارا گزر ہو تو وہاں بھی پکار آنا کہ تمہیں یاد کرتے کرتے تمہارے بیٹے نے مٹی اوڑھ لی۔

نہر کے درختوں کو جا کر پرسہ دے دو شاما، کہ یہ کام تم سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا۔ میرے ہم زاد ان کی زبان جانتے ہیں نہ ان کے درد۔ وہ جو ان کو اپنی اولاد جانتا تھا وہ انہیں یتیم کر گیا۔ ان کے سائے اب کسی کام کے نہیں، کم از کم اب کوئی ایسا نہیں جو بار بار انہیں قتل کرنے کی مذمت کرے، تو اب کے جب تم جاؤ تو انہیں یہ بھی بتا دینا کہ ایسی کوئی آواز اب نہیں اٹھے گی جو ان پر چلتی آریاں اگر روک نہ بھی سکے تو چلانے والوں کے ہاتھ ضرور تھام لیتی تھی، انہیں جھنجھوڑ دیتی تھی۔

تھر کے مور جو اپنی فنا کے خوف سے بے نیاز جھومتے پھرتے ہیں انہیں خبر کر دو، پی کہاں کی آواز لگانے کا اب کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ پیا اب کے اس دیس سدھارے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ انہیں یہ بھی بتانا کہ تم ہر سال مرتے تھے تو پیا ہر سال غم مناتے تھے، اب تم مرو گے تو تمہارا غم منانا تو دور کی بات تمہاری خبر بھی ان ہواؤں تک نہیں پہنچے گی۔

کوئل سے جا کر ایک آخری سلام کہہ دینا۔ اسے بتانا کہ ایک دوانہ ایسا تھا کہ جس بہار تمہاری آواز نہ سن پاتا، اپنے چاہنے والوں میں بیٹھ کر یہ دکھڑا روتا تھا۔ اور جب تمہاری آواز سن لیتا تو مارے خوشی کے باقاعدہ خبر بنا کر سناتا۔ اسے کہنا کہ تم ایسی کالی کلوٹی کو اب کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اب تم چاہے کوکتی پھرو چاہے ہوکتی رہو، کوئی محسوس بھی نہیں کرے گا۔ اور یوں ہے کہ اب تمہارا ہونا یا نہ ہونا ایک برابر ہے۔

پیاری شاما، زاہد ڈار کی آنکھیں دیکھنے کا حوصلہ مجھ میں نہیں ہے۔ انہیں میری ڈبڈباتی آنکھوں کا بتا دینا، میں ان کا دکھ نہیں جان سکتا، میں ساٹھ برس سے زیادہ کسی کے ساتھ گزاروں تو کہوں۔ میری تو عمر کل ملا کر بھی اتنی نہیں بنتی۔ اتنے برس کی رفاقت ٹوٹنے کا دکھ، شاما، میں تصور کر بھی نہیں سکتا، میں تصور کرنا بھی نہیں چاہتا۔

اس سوزوکی گاڑی کو تم کیسے بتاؤ گی کہ تمہارا مالک اب کبھی تم سوار نہیں ہو گا۔ تم بھی ویسے ہی بیچی جاؤ گی جیسے احمد فراز کی گاڑی بکی۔ جو بازار کا بھاؤ ہو گا، اسی بھاؤ تمہارا مول تول ہو گا۔ تمہاری نسبت خاک میں مل گئی۔ اپنے کرموں کو روتی پھرو اب۔ جو تمہیں لیے لیے الحمرا جاتا تھا، ایرج مبارک کے یہاں جاتا تھا، کبھی تم نیرنگ کے باہر ہوتیں، کبھی تم مال روڈ کی سیر کرتیں، کبھی تم سنگ میل پر ٹھکانا کرتیں، کبھی تمہیں مجلس کے دفتر لے جاتا تھا، وہ تو کھو گیا۔ اب تم بن سنور کر نکلنا تو تکے کڑاھی کی دکانوں پر نظر آنا۔ یا بہت ہوا تو باغ جناح کی پارکنگ میں نظر آ جانا۔ اس سے زیادہ لطافت اب تم نہیں دیکھنے والی۔ تو اسے میری طرف سے تعزیت کر لینا۔

دیکھو شاما، بیتال پچیسی، سنگھاسن بتیسی، آلہا اودل، جاتک کتھاؤں اور ایسی تمام داستانوں کو یہ پیغام سنا دو کہ اب باقاعدہ تمہارا دور تمام ہو گیا۔ اب کوئی تمہیں پڑھے گا تو اسے اپنا مقالہ مکمل کرنا ہو گا یا پرچہ دینا ہو گا۔ تمہیں مزے مزے سے پڑھنے اور سنانے والا آخری آدمی رخصت ہوا۔

شاما، مرنے والی کی لاڈلی، ذرا زیادہ اڑو تو کراچی بھی ہوئے آنا۔ آصف فرخی کو پیغام دے آنا کہ سفر کی خوش نصیبی تمام ہوئی۔ اب نہ وہ ہم سفر رہ گیا، نہ وہ سفر باقی رہے۔ اب تو بس ایک دھول سی اڑتی ہے، اسی میں جانے والے کی راہ دیکھا کرو، اسی سے یادیں کی کھوج کرتے پھرو۔ ان لمحوں کو یاد کرو جو اس کے ساتھ گزرے اور وہ کہانیاں ہمیں بھی سنا دو۔ ہم تمہاری راہ دیکھتے ہیں۔

اے اڑتے رہنے والی شاما، وجاہت مسعود نام کا ایک شخص ادھر پاس ہی میں رہتا ہے۔ وہ اپنے دکھ کسی کو بتاتا بھی نہیں ہے اور کوئی اس سے پوچھتا بھی نہیں۔ اس کی آنکھیں خود ہی دھندلاتی ہیں، خود ہی اٹھ کر چشمہ صاف کر آتا ہے کہ پانی بہت آتا ہے آنکھوں سے، پھر لال سرخ آنکھیں لیے جاگتا رہتا ہے۔ میں اس سے کیا کہوں، کیسے کہہ سکتا ہوں، ابھی میں خود بے یقینی میں ہوں۔ تو اگر تمہیں یقین ہے تو اس کو بتا دو کہ تمہارا ساونت، تمہارا بدھ، تمہارے لاہور کا چھتنار درخت اٹھ گیا۔

میرے لاہور کے تیسرے حسین کی سلامتی کی دعا مانگو شاما۔ بہت لوگ پکارتے پھرتے تھے کہ لاہور تین حسینوں کا شہر ہے۔ انہی کی نظر کھا گئی۔ دو حسین انہی کی نظر کی نذر ہو گئے، میرے تیسرے حسین کی خیر مانگو شاما۔ اسے کہہ دو کہ تم صبح کی سیر مت چھوڑنا کہ باقی رہ جانے والوں میں اب تم ہی ہو جو ہر درخت پہچانتا ہے۔ جسے ہر پرندہ آن کر مل لیتا ہے۔ جو صبح سویرے شہر لاہور کے درختوں کو وہ محبت دے دیتا ہے جو انہیں تمام دن نہال رکھتی ہے۔ یاد رہے شاما، مستنصر حسین تارڑ کا پتہ بدل گیا ہے، بھٹک مت جانا۔

شاما۔ مجھے ایک بات کا اطمینان ہے۔ جانے والا تنہا نہیں ہو گا۔ وہاں ناصر کاظمی ہو گا، وہاں مظفر علی سید ہو گا، وہاں حسن عسکری ہو گا، وہاں شاکر علی ہو گا، وہاں عبداللہ حسین ہو گا، وہاں کرار صاحب ہوں گے، بہت لوگ ہوں گے، پر جو اب گیا ویسا وہاں کون ہو گا شاما؟ ویسا اب یہاں بھی کون ہے، کوئی ہے میرے انتظار حسین جیسا؟

گوری سووے سیج پہ

مکھ پرڈارو کیس

چل خسرو گھر آپنے

سانجھ بھئے چودیس

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے