قصہ گورکنوں کا ۔۔۔۔ زبیر رضوی

 

پُرانی بات ہے

لیکن یہ انہونی سی لگتی ہے

وہ ایسے گورکن تھے

چار، چھ قبریں

ہمیشہ مرنے والوں کے لئیے تیار رکھتے تھے

کوئی مرتا

تو وہ روتے

سیہ چادر لپیٹے مرنے والے کی

بہت سی خوبیوں کا تذکرہ کرتے

اعزّا، اقربا سے تعزیت کرتے

جنازہ اپنے کاندھوں پر اُٹھاتے

اور دفناتے ہوئے ہر رسم کی تکمیل کرواتے

وہ ایسے گورکن

چالیسویں دن تک

سبھی تازہ بنی قبروں پہ

ہر شب روشنی کرتے

جمعہ کے دن

سپارے پڑھ کے

مرحومین کے حق میں

دعائے مغفرت کرتے

مگر اک دن کہ جب

قبریں پُرانی اور خستہ ہو چکی تھیں

اُن کی اولادوں نے

قبروں پر لگی لوحیں اُکھاڑیں

تازہ قبروں کے لئے ہر سو

زمیں ہموار کی

وہ بھی

بزرگوں کی طرح روتے

سیہ چادر لپیٹے مرنے والے کے

اعزّا، اقربا سے تعزیت کرتے

جنازہ اپنے کاندھوں پر اُٹھاتے

اور دفناتے ہوئے ہر رسم کی تکمیل کرواتے

مگر جب رات آتی تو

وہ قبریں کھودتے

اور تازہ دفنائی ہوئی لاشوں کو

لا وارث بنا کر

شہر کے مردہ گھروں کو بیچ آتے تھے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے