نظمیں ۔۔۔ ستیہ پال آنند

 

چوہے دانوں کی مخلوق

 

 

(ایک غصیلی نظم)

 

بد صورت، مکروہ چڑیلوں کی مانند گلا پھاڑتی، بال نوچتی     ؎۱

دھاڑیں مارتی، چھاتی پیٹتی

باہر ایک غصیلی آندھی

پتے، شاخیں، کوڑ کباڑ، کتابیں اپنے ساتھ اڑاتی     ؎۲

مُردہ گِدھوں کے پنجوں سے جھٹک جھٹک کر

زندہ حیوانوں سے ان کی جان چھینتی

کھڑکی پر دستک دیتی ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بار بار کہتی ہے مجھ سے

چوہوں کی مانند بلوں میں چھُپ کر مت بیٹھو، اے شاعر

باہر نکلو!

 

بار بار یہ آندھی مجھ کو چیخ چیخ کر ایک ہی بات کہے جاتی ہے

باہر نکلو ۔ ۔ ۔

اور اگر ہمت ہے تو ان گِدھوں کے پنجوں سے

’پنگا‘ لے کر دیکھو

تم نے شایدسقراطوں کی

نئی نسل کے بارے میں کچھ سن رکھا ہو

گھر کے اندر چھپ کر بیٹھے چوہے ہیں سب!

 

سب کو علم ہے

باہر نکلے تو سب کے سر

نوچ لیے جائیں گے۔ ۔ ۔ ۔ چوراہوں پر

بجلی کے کھمبوں سے لٹکائے جائیں گے !

 

کیا سوچا ہے ؟

میں البتہ یہی کہوں گی

باہر مت نکلو اے چوہے دانوں کی مخلوق

کہ داناؤں نے کہا ہے

"دُم سے باندھو چھاج کہ چوہا بل سے باہر آ نکلا ہے !”

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

؎ ۱چڑیلیں : استعارہ ۔ ۔ ۔ شیکسپیئرؔ سے مستعار

؎۲ کوڑ، کباڑ، کتابیں۔ ۔ ۔ استعارہ لوئی میکنیسؔ سے

٭٭٭

 

 

 

 

فی فساد الارض و فی امان اللہ

 

فلک کی جانب رحیل تھا میں کہ راستے میں

خدا ملا جو زمیں کی جانب سے

آبلہ پا، نڈھال، بے دم

تکان، درماندگی سے بوجھل

پلٹ رہا تھا

 

رُکو، ذرا دیر کو یہاں

آؤ بیٹھو، یہ بِسرام کی جگہ ہے

کمر کو سیدھا کرو، ذرا دیر بیٹھ جاؤ

بتاؤ، پروردگار، مولا

کہاں گئے تھے ؟

 

ہمارا سائیں، وہ سب کا بھگوان، رک گیا۔ ۔ ۔

اور نڈھال سا ایک سانس لے کر

کہا یہ پروردگار نے

"۔ ۔ ۔ چار دانگِ عالم کی چودھراہٹ، یہ بادشاہت

کسی کو کب راس آ سکی ہے، جو ہم کو آتی!

کہ ہم تو آقا تھے۔ ۔ ۔

اپنی مخلوق کے تئیں ہم

ملائمت کا رویہ رکھتے تھے

ضبط طرزِ عمل ہمیشہ رہا ہے اپنا!

معاف کرنا ہماری فطرت ہے

مطلق الحکم ہیں مگر ہم شفیق بھی ہیں

دَیا ہے دل میں، رحیم ہیں ہم !

یہ فیصلہ ہم نے خود کیا تھا

کہ نسل آدم کو حد و وسعت تلک رسائی ملے

اُسے اختیار ہو، اِذن ہو، اجازتِ عام ہو

کہ جیسا چاہے، کرے۔ ۔ ۔ وہ بے قید و بند ہو

وہ کھلا پھرے، اپنے کام سے کام رکھے، پر وہ ۔ ۔ ۔ ”

 

۔ لگا مجھے جیسے ذاتِ باری بھی ایک دُبدھا میں پڑ گئے ہیں

تو میں نے پوچھا، "حضور یہ تو بتائیں مجھ کو

کہ کیا کیا ہے اِس آب و گل کے بشر نے جو آپ

اتنے بیزار ہیں، خفا ہیں ؟”

 

کہا خدا نے، "ہمیں یہ خبریں تو ملتی رہتی تھیں

کہ یہ بریّہ، یہ اِنس، بندہ

خود اپنی ابنائے یک جہاں میں

کچھ ایسے کھل کھیلتا ہے جیسے وہی خدا ہو!”

 

میں چپکا بیٹھا رہا، تو پھر خالقِ جہاں نے

کہا (ذرا کچھ درشت لہجے میں )

جیسے خود سے ہی کہہ رہے ہوں۔ ۔ ۔

"غلط تھا شاید۔ ۔ ہمارا یہ تجربہ۔ غلط تھا

وہ اسپ تازی تھا، اس کو یوں بے لگام دنیا میں چھوڑ دینا۔ ۔

غلط تھا یہ فیصلہ ہمارا!”

 

یہ کہتے کہتے ٹھٹھک گئے ذوالجلال اک لمحہ ۔ ۔ ۔

"خیر، اب تو ۔ ۔ ۔ یہ ہو چکا ہے

یہی ہے درماں، یہی مداوا ہے

حل یہی ہے کہ اب بشر کو

خود اس کی مرضی پہ چھوڑ دیں ہم

یہ جیسے خود کو اجاڑنے میں لگا ہوا ہے

فنا کی جانب ہی گامزن ہے تو چلتا جائے !

یہ نسل کُش اپنی نسل کا اجتماعی قاتل بنے گا۔ ۔ ۔

مرگ دوام اس کا مآل ہے تو یہی رہے گا!”

 

میں اور کچھ پوچھنے کو تھا، پر خدائے برتر اٹھے

۔ ۔ ۔ کہا، ” آخرش فراغت ملی ہے اس دردِ سر سے مجھ کو۔ ۔ ۔ !”

چلے گئے۔ ۔ ۔

جیسے ایک لمحے کے لاکھویں حصے میں ہی مولا!

 

میں جیسے اک خوابِ دیر خوابی سے چونک کر اٹھ گیا

تو مجھ کو لگا کہ میں اپنے آپ سے ہم سخن تھا۔ ۔ ۔

یہ قیل و قال خود سے ہی ہو رہی تھی

مرے مقابل تو میرا اپنا ہی ذہن تھا اور کچھ نہیں تھا!

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے