غزل۔ ۔ ۔ عنبرین حسیب عنبر

 

جز ترے کچھ بھی نہیں اور مقدر میرا

تو ہی ساحل ہے مرا، تو ہی مقدر میرا

 

تو نہیں ہے تو ادھوری سی ہے دنیا ساری

کوئی منظر مجھے لگتا نہیں منظر میرا

 

منقسم ہیں سبھی لمحوں میں مرے خال و خد

یوں مکمل نہیں ہوتا کبھی پیکر میرا

 

کس لئے مجھ سے ہوا جاتا ہے خائف دشمن

میرے ہمراہ نہیں ہے کوئی لشکر میرا

 

میں نے دشمن کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی نہیں

میرے پندار نے جھکنے نہ دیا سر میرا

 

میرے جذبوں کی دھنک سے ہے سجاوٹ اس کی

میرے احساس کی تجسیم بنا گھر میرا

 

کل وراثت یہی اجداد سے پائی میں نے

فکر میراث مری۔ علم ہے زیور میرا

 

اس نے مجھ سے بھی جدا کر دیا مجھ کو عنبر

وہ جو اک شخص ملا تھا مجھے بن کر میرا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے