عابد سہیل : "کھُلی کتاب”۔ ۔ ۔ ۔ مصحف اقبال توصیفی

 

"کھلی کتاب” عابد سہیل کے تحریر کردہ خاکوں کا ایسا مجموعہ ہے جس میں ڈاکٹر عبد العلیم، حیات اللہ انصاری، ایم چلپت راؤ ( ایم سی )، پنڈت آنند نرائن ملا، آل احمد سرور، عشرت علی صدیقی، منظر سلیم، عابد پشاوری، وجاہت علی سندیلوی، احمد جمال پاشا، مقبول، احمد لاری، ڈاکٹر عبدالحلیم، راجیش شرما اور نسیم انہونوی پر خاکوں کے علاوہ ایک خاکہ نما مضمون "اولڈ انڈیا کافی ہاؤس” بھی شامل ہے۔

اس کتاب کے پیش لفظ میں عابدسہیل لکھتے ہیں "ہر شخصیت دوسری شخصیت سے مختلف ہوتی ہے اور اسی طرح اس کی جانب دوسروں کا رویہ بھی دیکھنے کا انداز بھی، خاکہ نگار بھی ان "دوسروں ” ہی میں ہوتا ہے۔ چناں چہ خاکہ نگاری میں دو شخصیتوں کے درمیان معاملہ ہر خاکے کو اپنے رنگ و آہنگ میں دوسرے خاکے سے مختلف بنا دیتا ہے اور کسی متعین معیار پر اس کا پورا اترنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے ” میرے خیال میں خاکہ نگاری کی یہ بے حد مختصر لیکن جامع تعریف ہے۔ اس کے علاوہ عابد سہیل نے خاکہ نگاری کے چند اصول وضع کیے ہیں اور اپنی خاکہ نگاری کے دوران اُنہیں برتا بھی ہے لیکن کسی میکانکی انداز میں برتنے کے بجائے اپنے فنی تقاضوں کا زیادہ پاس رکھا ہے۔

خاکہ نگاری کے بارے میں عابد سہیل کی جو رائے میں نے سب سے پہلے نقل کی ہے کہ خاکہ نگاری دراصل دو شخصیتوں کے درمیان ایسا معاملہ ہے جو ہر خاکے کو اپنے رنگ و آہنگ میں دوسرے خاکوں سے مختلف بنا دیتا ہے نہ صرف یہ کہ یہ خیال صد فی صد صحیح ہے بلکہ اس کتاب میں جن لوگوں پر خاکے ہیں ان کے بارے میں عابد سہیل کے طرز احساس کو سمجھنے میں بھی ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ ایک وہ لوگ ہیں جن سے عابدسہیل کی مکمل طور پر ذہنی اور جذباتی ہم آہنگی ہے اور زیادہ تر خاکے ان ہی لوگوں پر ہیں، لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو بہ عینہٖ وہی خواب نہیں دیکھتے جو عابد سہیل دیکھتے ہیں تو عابد سہیل کو حیرت ہوتی ہے، بلکہ جب کوئی ان سے پوچھتا ہے کہ "کیا یہ حضر ت جھکنا نہیں جانتے ” تو عابد سہیل کہتے ہیں کہ "اپنے آقاؤں کے سامنے ضرور جھکتے ہوں گے ” یہ مکالمہ حیات اللہ انصاری کے بارے میں ہے لیکن ان خاکوں کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے میں چاہوں گا کہ ہم دوسری شخصیت یعنی خاکہ نگار کے بارے میں کچھ جان لیں۔

پہلی شخصیت کے ذیل میں وہ "ممدوح” ہیں جن پر یہ خاکے لکھے گئے ہیں، دوسری شخصیت اس پردۂ زنگاری میں عابد سہیل کی ہے۔ عابد سہیل کا تعلق ترقی پسند مصنفین کی اس نوع سے ہے جن کے لیے تحریک نام و نمود یا عزت و ثروت کے حصول کے بجائے ایک مقدس نصب العین کا درجہ رکھتی تھی اور اب بھی رکھتی ہے۔ سماج کو ظلم و ستم سے آزاد کرانے، اپنے ملک سے مفلسی کو ختم کرنے کا جو خواب انہوں نے دیکھا تھااس کے مقابل انہیں اپنی زندگی اور اپنے مستقبل کی فکر تک بے مایہ نظر آتی ہے۔ ایسی صورت میں جو لوگ ان "خوابوں کی راہ میں روڑے اٹکانے والے ” ہوں ان کے بارے میں عابد سہیل کا رویہ کیا ہو سکتا ہے ؟ حیات اللہ انصاری کے خاکے میں یہ دو شخصیتوں کے درمیان ایسا معاملہ ہے جس میں دخل دینا ہمارے لیے مناسب نہیں۔ ہمیں بس یہ دیکھنا ہے کہ کیا عابد سہیل نے کسی سیاسی بغض یا تعصب سے کام لیا ہے، نہیں۔ ۔ ۔ بلکہ اس خاکے میں سیاسی سطح کے اختلافات سے زیادہ حیات اللہ انصاری کی خوبیوں کا ذکر ہے۔ البتہ زندگی، ادب اور سیاست کے بارے میں خود عابد سہیل کا رویہ ان کی سوچ اس خاکے میں در آئی ہے اور یہ ناگزیر بھی تھا۔ حیات اللہ انصاری کی شخصیت کے وہ پہلو، وہ ابعاد جنہیں مصنف ذہنی طور پر قبول کرنے سے عاجز ہے کہیں گہری خفگی اور طنز کی صورت میں ابھر آتے ہیں۔ معاملات من و تُو کی آفریدہ اس آویزش نے اس خاکے میں تلخی کو جگہ دینے کے بجائے کچھ خوبصورت رنگ بکھیر دیے ہیں بس ایک جگہ معروضیت کا دامن ان سے چھوٹ گیا ہے۔ جہاں وہ حیات اللہ انصاری کے متشدد مخالف تحریک رویے کے ڈانڈے کسی، "چارمنگ لیڈی” سے اور مجاز، سبط حسن، سردار جعفری اور فرحت اللہ انصاری کی رقابت سے جوڑ دیتے ہیں۔ اس واحد لغزش مستانہ سے قطعِ نظر مصنف نے حیا ت اللہ انصاری کی شخصیت کی کئی خوبیوں پر جس طرح روشنی ڈالی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عابد سہیل اپنے سیاسی عقائد یا سیاسی نظریات سے وابستہ تو ہیں لیکن اپنی آنکھیں کھلی رکھتے ہیں اور اپنے دل کی سرحدوں کا احترام بھی کرتے ہیں۔ صحافت کے میدان میں انصاری صاحب کی خدمات، انصاری صاحب کا اپنے ہی اخبار میں اپنے اداریے کے خلاف ایک طویل مضمون شائع کرنے کا ظرف اور حوصلہ، مصنف کی سخت کلامی کے باوجود ایک اسامی پر ان ہی کا تقرر، منٹو اور عبدالماجد دریابادی کی انصاری صاحب کے بارے میں رائے، ایسے کئی واقعات اس خاکے میں جس انداز سے بیان کیے گئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ عابد سہیل کے دل میں حیات اللہ انصاری کے لیے کس قدر محبت اور عزت تھی۔

عابد سہیل، آل احمد سرور کے خاکے میں بھی کشش اور گریز کی اسی کیفیت سے دو چار ہیں جو انہیں حیات اللہ انصاری کا خاکہ لکھتے وقت در پیش تھی۔ یہاں کشش زیادہ ہے اور گریز کم۔ اس کا سبب سرور صاحب کی شخصیت کی دل فریبی ہو سکتی ہے یا ترقی پسندی کے وہ ابتدائی اسباق جو انہوں نے سرور صاحب کے بیر روڈ والے مکان پر انجمن کے جلسوں میں پڑھے تھے۔ لیکن عابد سہیل کا جھکاؤ احتشام صاحب کی طرف زیادہ تھا۔ اس وقت یونی ورسٹی میں طلبا کے دو گروپ تھے "احتشامیے ” اور "سروریے "۔ جب مولوی عبدالحق نے ریڈر شپ کے لیے احتشام صاحب کے بجائے سرور صاحب کا انتخاب کیا تو عابد سہیل کو اس قدر ناگوار گزرا کہ انہوں نے اپنا اختیاری مضمون بدل کر اردو کی جگہ اکنامکس کرا لیا۔ بہ قول ان کے احتشام صاحب کی شخصیت کا جادو اور اس سے زیادہ جارحانہ احتشامیت دل و دماغ کو کچھ اس طرح گرفت میں لیے ہوئی تھی کہ سرور صاحب سے اردو پڑھنا ان کے لیے ممکن نہ تھا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں "یہ سب اپنی جگہ لیکن سرور صاب کے عزت و احترام میں کبھی کمی نہ آئی اور ان کی شخصیت کی محبوبیت سے آزاد ہونا کبھی ممکن نہ ہو سکا” اگر کسی شخص کی سمجھ میں یہ نہ آ سکے کہ یہ متضاد بلکہ متصادم جذبات کس طرح عابد سہیل کے دل میں جگہ پا سکتے ہیں تو اسے سرور صاحب پر ان کا لکھا یہ خاکہ پڑھنا ہی ہو گا۔ یونی ورسٹی میں سرور صاحب کی مقبولیت، نئے ادیبوں کے لیے ان کی حوصلہ افزائی، ان کی زود رنجی، کبھی کبھار غصے کا اظہار، عابد سہیل کی سرور صاحب کے ساتھ جذباتی وابستگی، چند ایسی شکایتیں جو اپنوں ہی سے ممکن ہیں، یہ ساری باتیں انہوں نے جس وارفتگی سے اس خاکے میں تحریر کی ہیں یہی اس کا جواب ہو سکتا ہے۔ دبی زبان میں کہیں کہیں عابد سہیل نے یہ شکایت بھی کی ہے کہ کئی موقعوں پر جہاں سرور صاحب کو انجمن کی حمایت میں آواز اٹھانی چاہیے تھی وہ خاموش رہے بلکہ ایک بار تو انجمن کے مخالفین نے جب کسی بات پر استہزانیہ قہقہہ لگایا تو سرور صاحب کی آواز سب سے بلند تھی۔ لیکن سرور صاحب کے اس رویے کی تاویل انہوں نے پہلے ہی یہ کہہ کر کر دی ہے کہ "ان کی ترقی پسندی اس قدر لطیف تھی اور حریری پردوں میں لپٹی ہوئی کہ مجھ ایسے نو سکھیے کے لیے اسے سمجھنا بھی مشکل تھا۔ ” سرور صاحب کی تائید میں خود کو نوسکھیا کہنا، عابد سہیل کی عقیدت مندی یا انکسارہی نہیں ان کی بڑائی بھی ہے۔

مقبول احمد لاری کی شخصیت ایسی نہیں کہ ان سے کسی نظریاتی اختلاف کی راہ نکل سکے۔ لیکن چوں کہ انہیں ایک سماجی مرتبہ حاصل ہے اس لیے ان سے لاتعلق بھی نہیں رہا جا سکتا تھا۔ ان کا برتاؤ عابد سہیل کے ساتھ رئیسانہ اور مربّیانہ ہے اور وہ ان مجلسی آداب سے بھی لا پرواہ نظر آتے ہیں جن کی ایک حساس ادیب توقع رکھتا ہے اور یہی ان کے مراسم میں اجنبیت اور دوری کا اصل سبب ہے لیکن اگر کسی پتھر میں بھی اندر سے کوئی روشنی کی کرن پھوٹ رہی ہو تو ایک جوہری کی نگاہ اسے فوراً تاڑ لیتی ہے۔ فن کار کی مثال ہی ایک جوہری کی سی ہے اور عابد سہیل اس مدھم روشنی میں اجنبیت سے تعلق خاطر تک کا سفر بہ آسانی طئے کر لیتے ہیں۔ یہ خاکہ ایک سسپنس فلم کی طرح شروع ہوتا ہے ( عابد سہیل نے اپنے ادبی سفر کے آغاز میں جاسوسی ناول کے تراجم بھی کیے ہیں )۔ خاکہ آدھے سے زیادہ ختم ہو جاتا ہے لیکن قاری کا تجسس برقرار ہے کہ عابد سہیل کو لاری صاحب پر مضمون لکھنے سے اس قدر احتراز کیوں تھا۔ آخر ان کی شخصیت میں ایسی کیا کجی یا ان ہونی بات ہے ؟ خاکے کے اختتام کے پہنچتے پہنچتے یہ کھلتا ہے کہ سیاہ و سفید کی آمیزش مختلف شخصیتوں میں مختلف تناسب میں کیسے کسیے Shades پیدا کر سکتی ہے اور کبھی کبھی شخصیتوں کا تضاد کس طرح انسانی رشتوں کے حسن میں ڈھل جاتا ہے، بعض اوقات عابد سہیل کو اپنے دشمنوں یا بیگانوں پر ایسا پیار آتا ہے کہ وہ اپنے ہتھیار پھینک کر انہیں گلے لگا لیتے ہیں اور ہنسنے لگتے ہیں۔

ان خاکوں سے ہٹ کر اس کتاب میں شامل اکثر خاکے ان اشخاص پر لکھے گئے ہیں جو بیش تر صورتوں میں مصنف کے ہم سفر ہی نہیں ان کے ہم صفیر بھی ہیں۔ ڈاکٹر عبد العلیم کی حیثیت نہ صرف عابد سہیل بلکہ اس دور کے سبھی نوجوانوں ادیبوں اور دانش وروں کے لیے میرِ کارواں کی سی ہے۔ اس کتاب میں جن لوگوں پر خاکے شامل ہیں ان میں ڈاکٹر عبد العلیم کی شخصیت سب سے قد آور ہے۔ وہ ہندوستان اسوسی ایشن آف سنٹرل یورپ کے اس وقت صدر تھے جب ڈاکٹر رام منوہر لوہیا اس کے سکریٹری تھے۔ سروجنی نائیڈو انہیں بیٹا کہتی تھیں۔ جب وہ انہیں فٹ پاتھ پر پیدل جاتے ہوئے دیکھتی ہیں تو کار ر کوا کر باہر آ جاتی ہیں اور ان کے ساتھ کئی ریاستی وزراء بھی۔ علیم صاحب نے ڈاکٹر لوہیا کے ساتھ مل کر ایک جرمن رسالہ شائع کر کے جرمنی اور آس پاس کے ملکوں میں ہندوستان کا مطالبۂ آزادی گھر گھر پہنچا دیا تھا۔ انہوں نے جرمنی سے ہندستان لوٹ کر   جے پرکاش نارائن کے ساتھ سوشلسٹ پارٹی کی بنیاد بھی ڈالی تھی۔ علیم صاحب کے بارے میں ایسے کئی انکشافات ہیں جو اس خاکے کے ذریعے ملتے ہیں۔ اس خاکے میں عابد سہیل، علیم صاحب سے متعلق کئی چھوٹے چھوٹے واقعات چند مختصر جملوں میں اس طرح پیش کرتے ہیں کہ یہ جملے سلولائیڈ کی تصویروں میں ڈھل جاتے ہیں، پھر یہ تصویریں آپ ہی آپ جڑ جاتی ہیں اور ہمارے ذہن و دل کے پردے پر حرکت کرنے لگتی ہیں۔ یہ تکنیک ڈاکٹر علیم کے خاکے ہی سے مخصوص ہے اور دوسرے خاکوں میں کم کم ہی نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر علیم کی شخصیت کے کئی پہلوؤں، ان کی سماجی حیثیت، ان کی علمیت، کئی مشرقی اور مغربی زبانوں پر ان کا غیر معمولی عبور، ان کی کم آمیزی، درد مندی، کردار کی استقامت، ان سب کا اظہار کچھ اس طرح ہوا ہے کہ علیم صاحب ہماری آنکھوں کے سامنے چلتے پھرتے، آدھے ادھورے جملوں میں گفتگو کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ علیم صاحب کی شخصیت ایک ایسے قلعے کی طرح ہے جسے باہر سے دیکھا تو جا سکتا ہے اس کا محاصرہ بھی کیا جا سکتا ہے لیکن اس میں راہ پانے کی کوئی صورت نہیں تو اس میں عابد سہیل کا کوئی قصور نہیں کیوں کہ اس میں داخل ہونے کے سارے راستے خود علیم صاحب نے مسدود کر رکھے ہیں۔

ڈاکٹر عبد العلیم پر لکھے گئے خاکے میں عابد سہیل رقم طراز ہیں "۔ ۔ ۔ پہلا خاکہ ڈاکٹر عبد العلیم کے انتقال کے چند دن بعد تقریباً قلم برداشتہ لکھا گیا۔ ۔ ۔ یہ بھی فرمائش کی گئی کہ ایسا ہی ایک اور مضمون مرحوم کے بارے میں لکھ دوں ظاہر ہے یہ ممکن نہ تھا”۔ یہ بات عابد سہیل اپنے ہر خاکے کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ یہ سارے ہی خاکے قلم برداشتہ لکھے گئے ہیں۔ ان میں کوئی منصوبہ بندی نہیں۔ ڈاکٹر عبد العلیم کے بعد شاید ایم۔ چلپت راؤ ( ایم۔ سی) کی شخصیت ان کے لیے سب سے دل آویز اور مسحور کن ہے۔ ایم۔ سی پر لکھا ہوا عابد سہیل کا خاکہ سب سے طویل اور ان کے لکھے ہوئے چند بہترین خاکوں میں گنا جا سکتا ہے۔ ایم۔ سی نیشنل ہیرالڈ کے ایڈیٹر تھے۔ ان کی شہرت کا یہ عالم تھا کہ اقوام متحدہ تک میں ان کے اداریوں کے وجہ سے ہندستان کے سبھی اخباروں میں سب سے زیادہ نیشنل ہیرالڈ کا ذکر ہوتا۔ ایم۔ سی اور پنڈت نہرو کے درمیان فکری ہم آہنگی، پنڈت جی سے ایم۔ سی کے بے تکلف دوستانہ مراسم کے کئی دلچسپ واقعات اس خاکے میں ملتے ہیں۔ ایک دن پنڈت جی اچانک ایم۔ سی کے دفتر میں اس لمحے آ جاتے ہیں جب ایم۔ سی میز پر پیر پھیلائے ایک اخبار پڑھنے میں محو ہیں۔ جب ایم۔ سی کسی کی آمد کے احساس سے اخبار آنکھوں کے سامنے سے ہٹاتے ہیں تو پنڈت جی کو میز کی دوسری جانب دیکھتے ہیں اور اپنی ٹانگیں تیزی سے ہٹانا چاہتے ہیں تو پنڈت نہرو کہتے ہیں "M.C. take it easy, take it easy”۔ پنڈت جی کے انتقال پر ایم۔ سی بہ ظاہر پُر سکون نظر آتے ہیں جیسے کوئی خاص بات نہ ہو۔ اچانک پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک مہینے کی چھٹی پر جانا چاہتے ہیں۔ ان سے پوچھا جاتا ہے کیوں ؟ تو کہتے ہیں "I want to weep” ایم۔ سی کی صحافتی زندگی کے کئی واقعات اس خاکے میں اس طرح بیان کیے گئے ہیں کہ اس خاکے کو اس دور کی صحافتی زندگی اور معیارات کا کرانیکل کہا جا سکتا ہے۔ گورنر ایم۔ سی سے ملنا چاہتے ہیں تو وہ اس شرط پر تیار ہوتے ہیں کہ ان کے لیے کار نہیں بھیجی جائے گی اور وہ وہاں رکشا میں جائیں گے۔ گورنر ہاؤس سے ڈنر کا دعوت نامہ مسٹر اور مسز چلپت راؤ کے نام آتا ہے اور نوٹ کے ساتھ کہ اس میں ایم۔ سی ڈنر سوٹ میں آئیں۔ ایم سی اس دعوت نامہ پر یہ لکھ کر اسے لوٹا دیتے ہیں

So far as Mrs. Chalpathi Rao is concerned, she does not exist and Mr. Chalpathi Rao does not have a dinner suit.

وہ کانگریس حکومت کے خلاف بھی اداریے لکھتے ہیں جب پنڈت نہرو سے شکایت کی جاتی ہے تو پنڈت جی اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہیں کہتے ہیں۔ نیشنل ہیرالڈ میرا نہیں ایم۔ سی کا اخبار ہے۔ ایسے بے شمار واقعات جو ایم۔ سی کی اصول پسندی، ان کے کردار کی استقامت اور بے خوفی کو ظاہر کرتے ہیں اور بھی کئی واقعات ہیں ان کی بے پناہ علمیت، انگریزی زبان و ادب پر ان کے عبور کے علاوہ ان کی حسِ مزاح کے بارے میں جو اس طرح بیان کیے گئے ہیں کہ اس طویل خاکے کی آخری سطر تک قاری کی دل چسپی اور انہماک قائم رہتا ہے۔

اسی طرح احمد جمال پاشا کے خاکے کا شمار بھی عابد سہیل کے بہترین خاکوں میں ہو گا۔ لیکن انداز ذرا مختلف ہے۔ احمد جمال پاشا کا کردار ہی کچھ ایسا ہے شوخ، کھلنڈرا، دوست نواز۔ عابد سہیل، عبدالحلیم خاں اور احمد جمال پاشا کی دوستی ایسے مثلت کی طرح تھی جس کے بارے میں عابد سہیل لکھتے ہیں ـ:”۔ ۔ ۔ غرض لوگ بچھڑتے رہے اور جدا ہوتے رہے لیکن اس (مثلث) میں جمال کی وہی حیثیت رہی جو علم الحساب میں L.C.M. کی ہوتی ہے … جمال، عابد سہیل اور حلیم خاں کی اقلیدسی شکل کو بہ ہر حال خاصی پائدار حیثیت حاصل تھی اور ٹوٹنے بکھرنے کے بعد اس کے یہ تینوں زاویے جانے کیسے پھر یک جا ہوتے تھے "۔ یہ خاکہ عابد سہیل نے خونِ دل میں قلم ڈبو کر لکھا ہے۔ ایسی ہنس مکھ، زندہ شخصیت کیسے مر سکتی ہے۔ عابد سہیل کو اس کا یقین نہ آتا تھا اور جب آیا تو انہیں کے لفظوں میں "جسم نے دل کا ساتھ چھوڑ دیا”۔ ان کی سمجھ میں آ گیا کہ ایسے دیوانے کو دار پر لے جا کر سلانا کس قدر ضروری تھا اور یہ کہ احمد جمال پاشا کی بیوی نے ٹھیک ہی کیا جوا نہیں کوئے یار، ( یعنی بزم احباب) سے سوئے دار (حج کے فریضے کے لیے اور مستقلاً اپنے مائکے یعنی سیوان) لے گئیں۔

آنند نرائن ملا اور عشرت علی صدیقی کے لیے بھی عابد سہیل کے دل میں محبت و احترام کے جذبات ہیں لیکن یہاں جذبات کی وہ پگھلانے والی شدت نہیں جو ایک دوست جیسے احمد جمال پاشا یا چند بزرگوں جیسے علیم صاحب اور ایم۔ سی کے لیے ان کے دل میں رہی ہے۔ اس کی تلافی انہوں نے قلم کی جولانی سے کی ہے۔ عشرت علی صدیقی کے خاکے میں صحافتی زندگی کے کئی واقعات جو بہ ظاہر معمولی ہیں لیکن انہوں نے بڑے دل چسپ پیرائے میں لکھے ہیں۔ ایک محمد متین صاحب جنہیں ضد ہے کہ جس بات کے لیے منع کیا جائے وہ ضرور کریں گے۔ عشرت صاحب جو حیات اللہ انصاری کے بعد قومی آواز کے ادارتی حلقے کے سب سے اہم رکن تھے ان سے کہہ رہے ہیں "۔ ۔ ۔ آپ سے کتنی بار کہا "مہلوک” کوئی لفظ نہیں ہے۔ لیکن آپ۔ ۔ ۔ آج بھی وہ خبروں میں ہے "۔ متین نہایت اطمینان سے سر اٹھاتے، قلم دوات سے لگاتے اور بے حد مسکین صورت بنا کر ان کی طرف دیکھتے۔ ۔ ۔ یہ قصہ بار بار دہرایا جاتا لیکن متین صاحب کی مسکین صورت ایسی ڈھال تھی کہ عشرت صاحب کے سارے تیر دائیں بائیں نکل جاتے ” یا پھر عشرت صاحب کا ایک رات سوتے سوتے اچانک بستر چھوڑ کر دفتر آ جانا اس لیے کہ انہوں نے خواب میں ’قومی آواز‘ کے دفتر کو آگ کی لپیٹوں میں گھرا ہوا دیکھا تھا اور خواب کا کیا بھروسا، سچا بھی ہو سکتا ہے۔ عابد سہیل واقعات کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ وہ جذبات اور دلی کیفیات میں ڈھل جاتے ہیں۔ اسی انداز میں انہوں نے آنند نرائن ملا کے خاکے میں ان دو اہم واقعات کا ذکر کیا ہے جس نے ملا صاحب کو ملک گیر شہرت عطا کی۔ ایک تو وہ مقدمہ تھا جس میں انہوں نے یو۔ پی پولیس کے خلاف فیصلہ سنایا تھا۔ اور دوسرا واقعہ اردو متحدہ محاذ کانفرنس کے پلیٹ فارم سے ان کی وہ تقریر تھی جس کا ایک جملہ تھا "میں اپنا مذہب بدل سکتا ہوں، زبان نہیں بدل سکتا”۔ اس کے علاوہ ملا صاحب کی کشادہ دلی اور ان کا انکسار بھی دلوں کو چھوتا ہے کہ اتنے بڑے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود وہ اپنے دہلی پولیس سے متعلق فیصلے سے متاثرہ ایک معمولی انسپکٹر سے ملاقات کے لیے اس کے گھر جانے کے لیے بے چین تھے تاکہ اس سلسلے میں اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کرسکیں۔

منظر سلیم پر عابد سہیل کا خاکہ بھی ان کے اچھے خاکوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ منظر سلیم کے مزاج کا شرمیلا پن، نام و نمود سے بے رغبتی، کبھی اپنی پریشانیوں کا ذکر نہ کرنا، چھوٹوں کی دل داری، یہ ایسی صفات تھیں جنہوں نے عابد سہیل کو منظر سلیم کا گرویدہ بنا رکھا تھا۔ ایک بار کسی رنجش کے سبب جب مراسم میں کچھ کشیدگی کی صورت پیدا ہو گئی تو ایک دن منظر سلیم خود ہی بغیر کسی اطلاع کے عابد سہیل کے گھر ان کے کمرے میں آ گئے اور الماری سے ایک کتاب لے جانے کے لیے مانگی۔ یہ دراصل عابد سہیل کو منانے کی کوشش تھی۔ عابد سہیل لکھتے ہیں "میرے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات کیا ہو سکتی تھی۔ ۔ ۔ (میں ) کچھ دور تک انہیں رخصت کرنے گیا اور یکایک میں نے محسوس کیا کہ برف کا وہ ٹکڑا جو میری غلطی کے سبب ہمارے درمیان معلق ہو گیا تھا پگھل کر غائب ہو چکا ہے۔ اپنے چھوٹوں سے دل داری کا یہ انداز منظر بھائی ہی سے سیکھا جا سکتا تھا”۔

وجاہت علی سندیلوی سے عابد سہیل کی ذہنی وابستگی ان ادبی اور سیاسی نظریات کی ہم آہنگی کے سبب ہے جو ان دونوں کے درمیان قدرِ مشترک کا درجہ رکھتی تھی۔ عابد سہیل کے لیے ان کی کشش کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ بہ قول ان کے "اطلس و کم خواب کی پوشاکیں کہ ان کے والدین روسائے سندیلہ میں تھے ان کے جسم پر کھدر کے کپڑوں کو رشک و حسد سے دیکھتیں ” وجاہت علی سندیلوی کا یہ کردار اور ان کی کئی اور خوبیوں نے عابد سہیل کو مسحور کر رکھا تھا۔ شاید اسی سبب سے انہوں نے سندیلوی صاحب کی افسانہ نگاری، طنز و مزاح اور خاص طور پہ شاعری کو بے حد سراہا ہے۔ ممدوح کے فن افسانہ نگاری اور طنز و مزاح کے نمونے تو عابد سہیل اس خاکے میں نہیں دکھا سکے لیکن ان کے جو اشعار یہاں نقل کیے گئے ہیں انہیں پڑھ کر کم سے کم ان کی شاعری کے بارے میں اس طرح کا کوئی تاثر پیدا نہیں ہوتا۔ ہاں سندیلوی صاحب سے عابد سہیل کی محبت کے رنگ ضرور اپنی چھب دکھاتے ہیں۔ اس خاکے میں ایک انوکھے واقعے کا ذکر ہے۔ کالج کے اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے اس تاسیسی اجلاس کا جس کا افتتاح محمد علی جناح اور جس کی صدارت پنڈت جواہر لعل نہرو نے کی تھی۔

نسیم انہونوی کے خاکے میں ان کی نیک نفسی، اپنے ادارے کے ملازمین کے ساتھ افراد خاندان جیسا سلوک اور ان کے فرشتہ صفت کردار پر روشنی پڑتی ہے۔ راجیش شرما کسی طرح کے تکلّفات کے قائل نہیں نہ دوستوں سے نہ گھر والوں سے، حتیٰ کہ زندگی اور موت سے بھی نہیں۔ ایک دن وہ معمول سے کچھ پہلے دفتر آتے ہیں۔ آفس پیڈ پر دو مختصر نوٹ لکھتے ہیں۔ ایک میں زندگی سے اوب کر، دنیا سے رشتہ توڑ لینے کا فیصلہ ہے۔ دوسروی تحریر ان کی بیوی لیلا کے لیے ہے اور بھی مختصر "میں بہت شرمندہ ہوں۔ بہت کشٹ آئے گا” پھر وہ ڈرائیور کو بلا کر اپنی پرانی قیام گا ہ کا رخ کرتے ہیں جو ایک سترہ منزلہ عمارت ہے اور اس کی چھت سے چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ عابد پشاوری کی شخصیت بڑی باغ و بہار قسم کی ہے۔ عابد پشاوری اور راجیش شرما کے ساتھ عابد سہیل کے گھریلو مراسم بھی ہیں۔ یہاں وہاں عابد سہیل کے قلم نے اپنا جادو تو جگایا ہے لیکن مجموعی طور پر یہ خاکے پھیکے ہیں۔ یہی بات نسیم انہونوی کے خاکے کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالحلیم کا خاکہ پڑھ کر پتہ چلتا ہے یہ وہ حلیم خاں نہیں جو مصنف اور احمد جمال پاشا کے ساتھ مل کر ایک مثلث کی تشکیل کرتے ہیں۔ یہ ڈاکٹر عبد العلیم کے بیٹے ہیں جنہیں عابد سہیل نے پہتیا سے غازی پور جاتے ہوئے بیل گاڑیوں پر دو خاندانوں کے سفر کے دوران ان کی شرارتوں سے تنگ آ کر سڑک پر اتار دیا تھا۔ حلیم صاحب اس وقت پان سات برس کے بچے تھے اور عابد سہیل کی عمر ۱۴۔ ۱۵ برس رہی ہو گی پھر عابد سہیل گاڑی رکوا کر اس بچے کو اپنی گود میں بٹھا لیتے ہیں اور وہ روتا ہوا بچہ ان کے گلے میں بانہیں ڈال کر انہیں پیار کرنے لگتا ہے، ڈاکٹر عبدالحلیم، عابد سہیل کا اسی طرح ادب اور احترام کرتے ہیں جیسے عابد سہیل علیم صاحب سے پیش آتے تھے۔ خاندانی رشتوں کی یہ کڑیاں، محبتیں، شفقتیں، بڑوں کا ادب اور لحاظ اب داستان پارینہ ہیں۔ وہ الھڑ، شریر لڑکا جسے عابد سہیل نے بیل گاڑی سے نیچے اتار دیا تھا، بڑا ہو کر کیسے کیسے مصائب برداشت کرتا ہے عابد سہیل نے یہ داستان نہایت پُر اثر انداز میں لکھی ہے۔

ان خاکوں کی ایک بڑی خوبی مصنف کی ان تمام شخصیتوں سے شیفتگی اور وہ بے غرض معاملت ہے جس نے ان خاکوں کو ایک سرشارانہ لیَ عطا کر دی ہے۔ یہی نہیں انہیں ان در و دیوار سے بھی محبت ہے جہاں یہ لوگ اپنی محفلیں سجاتے تھے۔ اپنے خاکے "اولڈ انڈیا کافی ہاؤس” کی ابتدا عابد سہیل نے اس کیفے کے ذکر سے کی ہے جس میں کھڑکی کے پاس کی ایک نشست ژاں پال سارتر کے لیے محفوظ رہتی تھی۔ پیرس کا وہ کیفے ہو، اولڈ انڈیا کافی ہاؤس یا حیدرآباد کا اورینٹ ہوٹل ان سب میں ایک بات مشترک تھی اور وہ یہ کہ یہ ہوٹل اپنے اپنے شہروں کے سبھی قابل ذکر دانش وروں، مفکروں، شاعروں، سیاست دانوں کا مرکز رہے ہیں۔ عابد سہیل نے جن لوگوں کو اس کافی ہاؤس کی زینت بڑھاتے ہوئے دیکھا ہے ان کے نام ہیں ڈی۔ پی۔ مکھر جی، ڈاکٹر رام منوہر لوہیا، ڈاکٹر عبد العلیم، ڈاکٹر احتشام حسین، آلِ احمد سرور، ڈاکٹر محمد حسن، یشپال، امرت لال ناگر، ڈاکٹر ویر بہادر سنگھ مجاز، شوکت صدیقی، آر۔ این۔ بشٹ، منیب الرحمٰن، کمال احمد صدیقی، ڈاکٹر زیڈ۔ اے احمد اور بہت سے دوسرے۔ جن لوگوں کے بارے میں سنا ہے کہ وہ پہلے کبھی یہاں آتے تھے ان میں پنڈت نہرو، رفیع احمد قدوائی، آئی۔ کے گجرال اور کیسکر کے نام شامل ہیں۔ کوئی ادیب یا شاعر لکھنو آتا اور اسے کسی اہل قلم کا پتہ درکار ہوتا تو وہ یہیں کا رخ کرتا۔ ڈاکٹر لوہیا کا کسانوں کے ایک بہت بڑے اجتماع سے خطاب کے بعد سیدھا کافی ہاؤس کی اس میز کا رخ کرنا جہاں ڈاکٹر علیم اور یشپال کی نگاہیں ان کا استقبال کر رہی ہیں۔ مجاز کے لطیفے، سلام مچھلی شہری کا یہ جملہ کہ "موت سے نہیں ڈرتا بس”نقوش” میں اپنی نظم دیکھ لوں تو آخری سانس۔ ۔ ۔ ” یشپال کی اردو دشمنی کے ساتھ فرقہ واریت کے خلاف مسلسل جنگ، ادبی اور سیاسی مباحث، سجاد ظہیر کی لکھنو میں آمد پر اردو، ہندی کے ادیبوں، شاعروں کا انہیں گھیر لینا، یہ سارے منظر ہماری آنکھوں میں بس جاتے ہیں اور یہ مضمون پڑھتے ہوئے اگر کوئی چائے یا کافی کی پیالی ہمارے آگے رکھ دے تو ہمیں لگے گا کہ ہم اولڈ انڈیا کافی ہاؤس ہی میں بیٹھے ہیں۔

اس "کھلی کتاب” میں تقریباً نصف صدی کا لکھنو اپنی تمام تر ادبی اور صحافتی سرگرمیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ ترقی پسندی کے عروج کا وہ دور جس کا ایک اہم مرکز لکھنو تھا وہ بھی اس میں روشن ہے۔ آج کے سیاسی حالات میں جب کہ امریکہ کی جارحانہ پالیسی کے پیشِ نظر بعض ادبی حلقوں میں تو پھر ترقی پسندی کے احیا کی بات چھڑ رہی ہے۔ اس کتاب کے بارے میں دل چسپی اور اس کی اہمیت میں اضافہ ہو جاتا ہے، لیکن وہ لوگ جن کے خیالات ترقی پسند افکار سے مطابقت نہیں رکھتے انہیں یہ محسوس ہو سکتا ہے کہ ان خاکوں میں واقعات اور نظریات کی یک رخی پیش کش حاوی ہے۔ اگر ایسا ہوا بھی ہے تو یہ ناگزیر بھی تھا کیوں کہ ترقی پسند نظریات اور افکار کے بغیر عابد سہیل کا ادبی وجود ہی نا مکمل ہے۔ اگر حیات اللہ انصاری کے ناول "لہو کے پھول” کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ "اس ناول نے ان سارے مقامات پر فن کی بلندیوں کو چھو لیا ہے جہاں مصنف نے اپنے سیاسی نظریات کو ذرا آرام کرنے کی مہلت دی ہے ” تو یہ بات صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی اور انصاری صاحب کے علاوہ کئی ادیبوں اور شاعروں کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ کئی ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کے بارے میں بھی عابد سہیل یا کسی اور سے اتفاق یا اختلاف رائے کا ہمارا حق اپنی جگہ برقرار رہتا ہے۔ ہمارے لیے اہم اور خوش گوار بات یہ ہے کہ عابد سہیل نے ان مشاہیر علم و فن کی زندگی کے واقعات اور ان کی شخصیت کے کئی پہلو نہایت فن کارانہ انداز میں ہمارے سامنے پیش کیے ہیں۔ وہ ایک اچھے افسانہ نگار ہیں اس لیے واقعے کو افسانہ بنانے کا ہنر جانتے ہیں، اس طرح کہ واقعہ اور افسانے کی دوئی باقی نہ رہے۔ اس کتاب میں کئی واقعات کو انہوں نے اس طرح بیان کیا ہے گویا وہ پتھر پر نقش ہوں۔ کئی چھوٹی چھوٹی حقیقتوں کو وہ اس طرح دیکھتے اور دکھاتے ہیں کہ ان کے اندر چھپا ہوا حسن بے پردہ ہو جاتا ہے۔ چوں کہ خاکہ نگاری کا یہ سفر انہوں نے افسانہ نگاری سے شروع کیا ہے۔ اس لیے وہ جانتے ہیں کہ بات کو کیسے شروع اور کہاں اور کب ختم کیا جائے۔ بیش تر خاکوں کا اختتام بہت خوب صورت ہے تو بعض خاکوں کا آغاز ( جیسے "ڈاکٹر عبد الحلیم” اور "ایم۔ چلپت راؤ”)۔ اکثر انہیں اپنے ممدوح سے کچھ ایسا جذباتی اور ذہنی قرب حاصل ہوتا ہے کہ وہ اس کی خوشیوں کو اپنی خوشی اور اس کے دکھ کو اپنے دکھ کی طرح محسوس کرسکتے ہیں جیسے ڈاکٹر عبد العلیم کے خاکے میں جب عابد سہیل ان سے احتشام صاحب کے انتقال کے فوراً بعد مرحوم پر مضمون لکھنے کی فرمائش کرتے ہیں تو علیم صاحب جو جواب دیتے ہیں وہ جواب ہی نہیں اس کی پیش کشی بھی ہمارے دل پر اثر کرتی ہے۔ عابد سہیل نفسیات کے بارے میں بھی درک رکھتے ہیں۔ خاص طور پور ان لوگوں کی نفسیات کا مطالعہ انہیں زیادہ اکساتا ہے جن کے ساتھ کشش اور گریز کا معاملہ ہے جیسے حیات اللہ انصاری اور آل احمد سرور۔ ایک ناخوش گوار واقعے کے بعد جب مصنف کی دو بارہ سرور صاحب سے ملاقات ہوتی ہے تو سرور ساحب اس واقعے کو بالکل بھول چکے ہیں۔ عابد سہیل لکھتے ہیں کہ سرور صاحب ہر شخص کو یوں معاف نہیں کرتے تھے اپنے ہم عصروں اور ہم مرتبہ لوگوں کے ساتھ ان کا رویہ مختلف ہوتا تھا۔ ان ہی کے الفاظ میں "اگر ملاقات کے بجائے دل برداشتگی، پڑھا جائے تو ’ عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے ‘ کا معاملہ ہوتا تھا”۔ حیات اللہ انصاری اور مقبول احمد لاری کے علاوہ چند اور خاکوں میں بھی اس دروں بینی اور انسانی نفسیات سے ان کی دل چسپی کا اندازہ ہوتا ہے۔ گہری نظریاتی وابستگی کے باوجود وہ معروضیت کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ وہ بغیر کسی تکلف کے باقر مہدی کا وہ جملہ بھی دہرا سکتے ہیں جو انہوں نے انجمن کے ایک جلسے میں عابد سہیل کے مضمون پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا اور جوہر گز توصیفی نہیں تھا۔ عابد سہیل کی نگاہ اکثر چھوٹی چھوٹی جزئیات کو کیمرے کی طرح دیکھتی اور ان لارج بھی کر لیتی ہے۔ ایم۔ سی کی چپل کے فیتے جو ہمیشہ کھلے رہتے تھے ملا صاحب کی سفید شیروانی، سفید ٹوپی، چوڑی دار پاجامہ اور انگلیوں میں گھومتا ہوا کار کی چابی کا چھلّا یا عشرت علی صدیقی کا بار بار کان کے اوپر اور ٹوپی کے نیچے سر کھجانا۔

عابد سہیل کی خاکہ نگاری کی ان تمام خصوصیات پر میں نے بات کی کہیں کھل کر مثالوں سے کہیں مختصراً یا اشاروں میں، ان خاکوں پر انفرادی طور پر اظہار رائے کے دوران، لیکن ان خاکوں کی خوبیاں اتنی ہیں کہ مجھے اپنی یہ کوشش ناکام سی لگتی ہے۔

میں آخر میں ان کی طرز نگارش کی صرف چند اور مثالیں دے کر اس گفتگو کو ختم کرنا چاہوں گا۔

"گردن جھکائے، پتلون کی جیبوں میں اس طرح ہاتھ ڈالے جیسے وہ اسے سنبھالے ہوئے ہوں، ایم۔ سی شاید اپنے جسم کے بوجھ کے سبب دھیرے دھیرے چلتے تو ان کے چپل کے فیتے جو ہمیشہ کھلے رہتے، ایک عجیب سی آواز پیدا کرتے۔ اس سب میں ایسا کچھ نہ تھا جس سے کسی کے دل میں ڈر پیدا ہو لیکن جانے کیا تھا کہ انہیں دیکھ کر خوف محسوس ہوتا۔ ۔ ۔ ”

( ایم۔ چلپت راؤ۔ ( ایم۔ سی)، ص: ۳۸)

"میں نے اس نقطہ، نظر سے نہیں سوچا تھا” حیات اللہ صاحب مسکائے اور اپنے کمرے میں دیوار پر ٹنگی ہوئی پنڈت نہرو کی تصویر کی طرف دیکھنے لگے۔ گاندھی جی کی ایک چھوٹی سی تصویر دوسری دیوار پر آویزاں تھی”۔

(حیات اللہ انصاری، ص: ۲۵)

"۔ ۔ ۔ ۔ لیکن انگور کی بیٹی اپنا کام کر چکی تھی۔

اسی وقت مجھے احساس ہوا کہ پاس کا ایک کھمبا جو ہے تو دوسرے کھمبوں کی طرح بے حد خو ب صورت ان سے کسی قدر چوڑا معلوم ہو رہا ہے۔ اپنے اس خیال کی تصدیق کے لیے میں اس طرف بڑھا تو پاس جا کر ہوش ہی اُڑ گئے۔ کھمبے سے ٹیک لگائے اور گلاس ہاتھ میں لیے ایم۔ سی کھڑے تھے "۔

(ایم۔ چلپت راؤ ( ایم۔ سی )، ص: ۳۷)

"ایسی دل کش شخصیتیں، معاملت میں چوکھے، بات کے دھنی، کام کے پکے، با وضع اور نام و نمود سے بے نیاز افراد خدا کرے جنم لیتے رہیں کہ اے خدا تیری اس دنیا میں روشنی کے چراغ کم سے کم ٹمٹماتے ہی رہیں "۔

(نسیم انہونوی، ص:۱۹۲)

"ٹاٹ میں ٹاٹ کا پیوند بھی لگایا جائے تو چھپائے نہیں چھپتا اور رفو گری مجھے آتی نہیں "۔

(مقبول احمد لاری، ص: ۱۵۹)

"ان کا خط پڑھ کر عابد سہیل کو وہ تصویر یاد آ گئی جس میں چالیس پینتالیس سال قبل کے لکھنو کا ایک نوجوان کارل مارکس کی قبر پر دعا مانگ رہا تھا یا اللہ مسلمانوں کو مارکس کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما”۔

یہ دعا تصویر کی پشت پر درج تھی جسے پڑھ کر ہم لوگ خوب ہنسے تھے لیکن رضیہ آپا نے تقریباً ڈانٹتے ہوئے کہا تھا "تحقیق طلب امر یہ ہے کہ مارکس کی قبر پر یہ ونیٹی بیگ کس خاتون کا رکھا ہوا ہے "۔

(احمد جمال پاشا، ص: ۱۵۳)

اب نہ وہ لوگ رہے نہ وہ باتیں۔ لیکن یہ خاکے اس طرح لکھے گئے ہیں گویا "گردش ایام”، "پیچھے کی طرف” لوٹ گئی ہو۔ یہ لوگ جن پر یہ خاکے لکھے گئے ہیں محض ماضی کا عکس نہیں بلکہ ان کے شب و روز ہمارے لیے آج بھی متحرک، زندہ اور معنویت سے بھر پور ہیں۔

_________

(سہ ماہی "شعر و حکمت”)

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے