نظمیں۔ ۔ ۔ ندا فاضلی

 

 

کوئی بھی محفوظ نہیں

 

ایم ایم کلبرگی کی یاد میں

 

 

اپنی طرح سے بولنے والا

اپنی طرح سے سوچنے والا

اپنی طرح سے اپنے گھر کے دروازوں کو کھولنے والا

اپنی طرح سے لکھنے والا

ٹی وی پر اپنے چہرے سا دکھنے والا

ہندوستان میں اب ہندو بھی

اپنے دیس کے ہتّیاروں کے گھیرے میں ہے

ہر آزادی پہرے میں ہے

ایک ہی جیسا ہر بھوجن ہو

ایک ہی جیسا ہر آنگن ہو

ایک ہی جیسا ہر چنتن ہو

حکم ہے مٹھی بھر لوگوں کا

ہم ہیں جیسے

سب ہوں ویسے

٭٭٭

 

ایک تصویر

 

 

صبح کی دھوپ

کھلی شام کا روپ

فاختاؤں کی طرح سوچ میں ڈوبے تالاب

اجنبی شہر کے آکاش

دھندلکوں کی کتاب

پاٹھ شالا میں

چہکتے ہوئے معصوم گلاب

 

گھر کے آنگن کی مہک

بہتے پانی کی کھنک

سات رنگوں کی دھنک

 

تم کو دیکھا تو نہیں ہے لیکن

میری تنہائی میں

یہ رنگ برنگے منظر

جو بھی تصویر بناتے ہیں

وہ

تم جیسی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ایک بات

 

اس نے

اپنا پیر کھجایا

انگوٹھی کے نگ کو دیکھا

اٹھ کر

خالی جگ کو دیکھا

چٹکی سے ایک تنکا توڑا

چرپائی کا بان مروڑا

 

بھرے پرے گھر کے آنگن

کبھی کبھی وہ بات!

جو لب تک

آتے آتے کھو جاتی ہے

کتنی سندر ہو جاتی ہے !

٭٭٭

 

 

 

سحر

 

 

سنہری دھوپ کی کلیاں کھلاتی

گھنی شاخوں میں چڑیوں کو جگاتی

ہواؤں کے دوپٹے کو اڑاتی

 

ذرا سا چاند ماتھے پر اگا کے

رسیلے نین کاغذ سے سجاکے

چمیلی کی کلی بالوں میں ٹانکے

 

سڑک پر ننھے ننھے پاؤں دھرتی

مزا لے لے کے بسکٹ کو کترتی

 

سحر مکتب میں پڑھنے جا رہی ہے

دھندلکوں سے جھگڑنے جا رہی ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے