مجھے کہنا ہے کچھ ۔۔۔۔۔

 

رفتگاں کا نوحہ ’سمت‘ کا مقدر بن گیا ہے کچھ عرصے سے۔ جو بادہ کش تھے پرانے، وہ اٹھتے جا رہے ہیں، اور یہ عرصہ جنوری تا مارچ ۲۰۱۶ء تو اردو پر بہت بھاری گزرا ہے۔

۲۶ جنوری جب ہندوستان میں سارا ملک جشن جمہوریہ منا رہا تھا، لکھنؤ میں اردو کی ایک اہم آواز خاموش ہو گئی۔ عابد سہیل، مؤقر اردو اور انگریزی صحافی، ادبی صحافی (مدیر ’کتاب‘ مرحوم)، اور معروف فکشن نگار عابد سہیل کا ممبئی جا کر انتقال ہو گیا۔ ’سب سے چھوٹا غم‘ اور ’غلام گردش‘ جیسے افسانوی مجموعوں کے خالق کی اہمیت اس وقت اور بڑھ گئی، جب انہوں نے خاکہ نگاری اور سوانح نگاری شروع کی۔ اور ’جو یاد رہا‘ اور ’پورے، آدھے، ادھورے‘ اپنے پیچھے چھوڑے ۔ ان کی یاد میں مصحف اقبال توصیفی کا مضمون جو ان کی زندگی میں ہی لکھا گیا تھا اور کتاب ’کچھ نثر میں بھی‘ میں شامل ہے۔ دیا جا رہا ہے۔ راشد اشرف نے ان کی خاکوں کی کتاب کا ذکر اپنے مخصوص انداز میں کیا ہے۔

افسانوی ادب کا روشن ستارہ، بلکہ ’پٹ بیجنا ‘، ’بستی‘ کا ’آخری آدمی‘ انتظار حسین بھی جہانِ اردو سے دور جا بسے۔ اور داستان گوئی کے ’گلی کوچے‘ سونے ہو گئے۔ ادھر پاکستان میں ہی فاطمہ ثریا بجیا راہیِ ملکِ عدم ہوئیں۔ انتظار حسین کا ذکر اس شمارے میں کافی حد تک معاصر ’ہم سب‘ سے مستعار ہے۔

۸ فروری کو ممبئی میں ہی ندا فاضلی جیسا اردو ہندی کا البیلا شاعر دونوں زبانوں کو ’لفظوں کا پل‘ پار کرتا ہوا اداس کر گیا۔ ممبئی جیسے شہر میں ’شہر میں گاؤں ‘کے نقیب نے اپنے آنسو اور مسکان بھرا تھیلا اٹھا لیا۔ ان کی یاد میں ہم نے ہندی کے ادیبوں کے تاثرات بھی جمع کر رکھے ہیں۔

اور ندا فاضلی کے بارہ دن بعد ہی علی بن متقی   پھر رو اٹھا کہ اس کا خالق چل بسا۔ ’ذہن جدید‘ کے مدیر اس کائنات کے رنگ منچ سے باہر چل دیا اور پردہ گر گیا۔ اردو اکادمی دہلی کے سیمنار کا صدارتی خطبہ دیتے ہوئے زبیر رضوی نے آخری الفاظ کہے:

’میں سسکیوں کے ساتھ رونے کا قائل نہیں، درد کے حد سے گزرنے پر بھی آنکھوں کو بس نم کر لیتا ہوں‘ اور جذباتی ہو کر وہ اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکے،، اور ڈائس سے اتر گئے اور بیٹھ گئے، اور اس جہان سے ہی اٹھ گئے۔

یہ شمارہ ترتیب دیا ہی جا رہا تھا کہ انور سدید کی رحلت کی خبر بجلی کی طرح گری۔ ان کی یاد کے لئے چنیدہ تخلیقات کے لیے میں حیدر قریشی اور ارشد خالد صاحبان کا شکر گزار ہوں کہ یہ ’جدید ادب‘ اور ’عکاس‘ سے لی گئی ہیں، اور ان کی حیات میں ہی لکھی گئی تھیں۔ انشائیے پر ان کا مضمون ان کی حیات میں ہی ملا تھا لیکن اسے تحقیق و تنقید کے زمرے کی بجائے یاد رفتگاں میں شامل کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔

کس کس کو یاد کیجیے کس کس کو روئیے۔

ا۔ ع

 

پس تحریر: اپ لوڈ کرتے ہوئے خبر ملی کہ پروفیسر آفاق احمد بھی دنیائے اردو سے کوچ کر گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون

One thought on “مجھے کہنا ہے کچھ ۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے