غزلیں۔ ۔ ۔ فریاد آزر

 

 

برے حالات ہیں، اچھا نہیں ہونے دیتے

اب مجھے بھی مرے جیسا نہیں ہونے دیتے

 

ہر گھڑی کا م میں مصروف رکھا کرتے ہیں

میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے

 

بیج نفرت کے وہ بوتے ہیں سیاست کے دلال

جو کسی کو بھی کسی کا نہیں ہونے دیتے

 

پہلے  حالات   پہ آ جاتا   تھا غصہ اکثر

اب تو حالات بھی غصہ نہیں ہونے دیتے

 

کیا خیالات تمھارے ہیں کہ تنہائی میں بھی

مجھ اکیلے کو اکیلا نہیں  ہونے  دیتے

 

ایسے حالات سے کرنا پڑا سمجھوتا کہ جو

میری آنکھیں ترا چہرہ نہیں ہونے دیتے

 

یہ فلک بوس   عمارات   کے سائے آزرؔ

میرے آنگن میں اجالا نہیں ہونے دیتے

٭٭٭

 

 

آج کل جیسی تجارت پہ اتر آئے ہیں

اہلِ ایمان بھی دولت پہ اتر آئے ہیں

 

جو تھے مخصوص کنہیں اور ہی قوموں کے لئے

کچھ عذاب ایسے بھی امت پہ اتر آئے ہیں

 

کیا بزرگوں میں بھی کچھ خامیاں پائی گئی ہیں ؟

آج کیوں بچے نصیحت پہ اتر ّ آئے ہیں ؟

 

عرش کیوں ہلنے لگا ہے، کہیں  ایسا تو نہیں !

کچھ گنہگار   عبادت   پہ   اتر آئے ہیں

 

شہر تو شہر، جہاں شہر کا سایہ بھی نہیں

کیوں پرند ے وہیں ہجرت پہ اتر آئے ہیں ؟

 

کیا مرا   نامہ ء ا عمال ہی کافی نہیں تھا؟

میرے اعضا بھی شکایت   پہ اتر آئے ہیں

 

ماتحت عقل کے  اب اور نہیں ر ہ سکتے

دل کے    جذبات بغاوت   پہ اتر ائے ہیں

 

جن کو جاں بخش کے آزاد کیا تھا ہم نے

پھرسے وہ لوگ شرارت پہ اتر آئے ہیں

 

روکھی سوکھی پہ سدا   شکر ادا کرتے تھے

اب توہم لوگ بھی لذت پہ اتر آئے ہیں

 

بے حسی دیکھ کے اب اپنوں کی اکثر شبِ غم

درد خود اپنی عیادت   پہ   اتر آئے ہیں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے