انجام قصّہ گو کا ۔ ۔ ۔ زبیر رضوی

 

پُرانی بات ہے لیکن

یہ انہونی سی لگتی ہے

وہ شب وعدے کی شب تھی

گاؤں کی چوپال

پوری بھر چکی تھی

تازہ حقّے ہر طرف رکھے ہوئے تھے

قصّہ گو نے

ایک شب پہلے کہا تھا

صاحبو

تم اپنی نیندیں بستروں پر چھوڑ کر آنا

میں کل کی شب

تمھیں اپنے سلف کا

آخری قصّہ سناؤں گا

جگر کو تھام کر کل رات تم چوپال میں آنا

وہ شب وعدے کی شب تھی

گاؤں کی چوپال پوری بھر چکی تھی

رات گہری ہو چلی تھی

حقّے ٹھنڈے ہو گئے تھے

لالٹینیں بجھ گئی تھیں

گاؤں کے سب مرد و زن

اُس قصّہ گو کی راہ تکتے تھک گئے تھے

دُور تاریکی میں گیدڑ اور کتے

مل کے نوحہ کر رہے تھے

دفعتاً بجلی سی کوندی

روشنی میں سب نے دیکھا

قصّہ گو برگد تلے بے حس پڑا تھا

اُس کی آنکھیں

آخری قصّہ سنانے کی تڑپ میں جاگتی تھیں

پر زباں اُس کی کٹی تھی

قصّہ گو کا، ان کہا اپنے سلف کا

آخری قصّہ لبوں پر کانپتا تھا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے