گُم شدہ پرندے کی آواز– انتظار حسین۔ ۔ ۔ مسعود منور

 

انتظار حسین کے بارے میں لکھنا، برِ صغیر پاک و ہند کی نو دہائیوں کی شاہراہ پر پیدل چلنے کا عمل ہے جو مجھ سے ممکن نہیں اور نہ ہی یہ میرے بس کی بات ہے۔ میں کوئی ادبی مفتی ہوں اور نہ ہی میرے پاس حکومتِ پاکستان کا جاری کر دی ادبی لائسنس ہے کہ میں انتظار حسین کی شخصیت اور فن کے دریا کو ایک تاثراتی مضمون کے کوزے میں بند کر سکوں۔ اور اس وقت تو میرے پاس کوئی ایسی تصویر بھی نہیں جس میں انتظار حسین میرے ساتھ کھڑے ہوں اور میں نے ان کے کندھے پر ہاتھ کا بوجھ ڈالا ہوا ہو، جسے میں فیس بک پر لگا سکوں۔

میرا اور انتظار حسین کا تعلق ٹی ہاؤس اور حلقہ اربابِ ذوق کا ہے جو لگ بھگ بارہ برس پر محیط ہے۔ اسے دوستی کہئے یا قلم کے رشتے پر مبنی سمبندھ، لیکن اسے گہری دوستی میں نہیں کہہ سکتا۔ میں ساٹھ کے عشرے کے چھٹے سال، پینسٹھ کی جنگ کے بعد کراچی سے لاہور آیا اور ٹی ہاؤس سکول میں داخلہ لیا۔ جہاں انتظار حسین کو موجود پایا۔ وہ دوسرے ادیبوں کے ہمراہ چائے کی میز کے گرد منڈلی جمائے بیٹھے ہوتے۔ دوستوں میں احمد مشتاق، زاہد ڈار، مظفر علی سید، منیر نیازی، شہرت بخاری، انجم رومانی، انیس ناگی، سجاد باقر رضوی، سہیل احمد خان، جاوید شاہین اور گاہے گاہے اعجاز حسین بٹالوی اور حبیب جالب بھی نظر آتے۔ یہ ایک ہم خیال گروپ تھا جو اکثر و بیشتر یکجا نظر آتا لیکن کبھی کبھی شاکر علی کا اضافہ ہو جاتا۔ علمی اور فکری بحثیں ہوتیں۔ جدید مغربی ادبی رویوں کا تذکرہ ہوتا۔ ژاں پال سارتر اور ژاں ژینے کی بات ہوتی، کبھی پال والری اور ناصر کاظمی کے پسندیدہ فرانسیسی شاعر آرتھر رامبو کی نظمیں زیرِ بحث آتیں۔

سن چھیاسٹھ سے اناسی تک لگاتار میں نے انتظار حسین کو دیکھا جو ایک مرنجان مرنج، شائستہ، نرم خو اور نرم گفتار آدمی تھے۔ ” مشرق ” میں ان کا لاہور نامہ باقاعدگی سے پڑھا، حلقے میں ان کی کہانیاں سنیں، ان پر بحثیں ہوتی دیکھیں اور ان کے ساتھ ریڈیو اور ٹی وی کے ادبی پروگراموں میں شرکت کی۔

انتظار حسین کی کہانیوں سے میرا پہلا تعارف ان کے افسانوی مجموعے ” آخری آدمی ” سے ہوا۔ یہ کہانی فرد کی موت کا نوحہ ہے، جس میں فرد کایا کلپ سے گزر کر بوزنہ بن جاتا ہے اور ان بوزنوں کے درمیان الیاسف آخری آدمی ہے، جو سوگند اٹھاتا ہے کہ وہ عمر بھر آدمی ہی رہے گا۔ ہاں مگر بوزنوں کی معاشرت میں آدمی کب تک آدمی رہے۔ بالآخر، خیر چھوڑئیے میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔ کہانی اپنے اسلوب میں نیم دیومالائی ہے۔ متن کے اعتبار سے جدید نفسیاتی واردات پر مبنی۔ ۔ میٹا مارفوسس۔ ۔ اس کا بیانیہ برِ کوچک کی جملہ لسانی روایات کا ماحصل ہے۔ اس کتاب کی جو دوسری کہانی مجھے یاد آ آ کر مسحور کرتی رہتی ہے وہ "زرد کتّا ” ہے۔ زرد کتا ایک علامتی صوفی کہانی ہے جس میں زرد کتا، نفسِ امارہ کی علامت ہے۔ کہانی میں وارداتِ نفس کو اس دلکش انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ کہانی ایک طویل نثری نظم لگتی ہے۔ اس کتاب کا ایک کردار شیخ عثمان کبوتر ہیں جو ہماری تصوف کی روایت کے ایک ایسے کردار ہیں جو تصوف کے عملی اطلاق کی مجسم تصویر اور معتبر ترین مثال ہیں۔

انتظار حسین نے جس طرح ہند مسلم تہذیب کی کہانیاں پاکستان میں لکھیں، انہیں پڑھ کر وہ مجھے مورخ اور شارح زیادہ اور کہانی کار کم لگے۔ یار ! آخر زندگی بھی تو ایک کہانی ہے جس کا اختتام موت اور حیات بعد موت کا تصور ہے۔ انتظار حسین نے سہیل احمد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ، ” مجھے ماضی اور حاضر میں اتنی تقسیم نظر نہیں آتی، میں تو ایک زمانے میں زندہ ہوں، معلوم نہیں کہ اس میں ماضی کتنا ہے اور حاضر کتنا۔ ” ( مجموعہ سہیل احمد خان۔ گمشدہ پرندوں کی آوازیں۔ مطبوعہ سنگِ میل لاہور )

جیسا کہ عرض کر تا آیا ہوں، انتظار حسین کی زندگی برِ صغیر کی ہند مسلم تہذیب کا سنتھی سس تھی۔ وہ خود کسی گم شدہ پرندے کی آواز تھے۔ ایسی آواز جسے اُنہوں نے کہیں بچپن میں برندا بن سے آتے سنا تھا۔ دیکھئے میں نے کیا دیکھا :

میرے ایک دوست شیخ ریاض کے بیٹے سہیل ریاض نے کہا کہ وہ نیشنل کالج آف آرٹس میں داخلہ لینا چاہتا ہے اور اس کو مدد از قسم سفارش درکار ہے۔ میں نے انتظار حسین سے درخواست کی کہ وہ شاکر علی صاحب کے نام چٹھی لکھ دیں جو پرنسپل اور اُن کے دوست ہیں۔ تو اُنہوں نے شام کے وقت گھر آنے کا کہا۔

سردیوں کے دن تھے۔ میں سہیل ریاض کو لے کر جب انتظار حسین کے ہاں پہنچا تو چراغ جل چکے تھے۔ خاصا اندھیرا تھا۔ ہم نے دستک دی کیونکہ گھنٹی انتظار حسین کی تہذیبی روایت کی نفی تھی۔ چند لمحوں میں قدموں میں کی چاپ سنائی دی، دروازہ کھلا اور انتظار حسین کھیس کی بکّل مارے ہاتھ میں جلتی ہوئی لالٹین لئے برآمد ہوئے۔ انتظار حسین کو کسی ماڈرن نائٹ گاؤن کے بجائے کھیس کی بکل مارے ہاتھ میں جلتی لال ٹین لئے دیکھ کر مجھے رومی کا شیخ با چراغ یاد آ گیا۔ مجھے لگا کہ انتظار حسین اپنی زندگی کی کہانی کا وہ ہزار ماسک والا کردار ہے جو خود کو کہانی کے روپ میں کہتا رہتا ہے۔ آمدم بر سرِ مطلب۔ خط مل گیا۔ سہیل کا داخلہ ہو گیا۔ سو میری گواہی ہے کہ انتظار ضرورت مندوں کے کام آنے والا دل رکھتے تھے۔

جب انتظار حسین کا ناول ” بستی ” چھپ کر آیا تو بہت سی تنقید کے علاوہ یہ اعتراض بھی ہوا کہ یہ اُن معنوں میں ناول نہیں جسے آج کا ماڈرن ناول نگار لکھ رہا ہے۔ ہم باتیں کرتے ہوئے گول باغ کی طرف رواں دواں تھے، جب اعجاز حسین بٹالوی نے کہا کہ ” انتظار صاحب ! آپ کی بستی ناول کم اور رپورتاژ زیادہ ہے ” تو انتظار حسین نے کہا کہ صاحب ! میں بنیادی طور پر افسانہ نگار ہوں، ناول نگار نہیں۔ لیکن ’ بستی ‘ بہر کیف ٹی ہاؤس میں موجود کرداروں پر مشتمل طویل کہانی ہے جس میں ناول ہونے کے تمام امکانات موجود ہیں۔

انتظار حسین اپنے معاشرتی رشتوں میں بھی سولہ آنے پورے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے، جب لاہور کے بلبلِ خوش نوا ناصر کاظمی بیمار تھے اور میو ہسپتال کے البرٹ وکٹر وارڈ میں داخل تھے۔ سہ پہر کا وقت ہو گا، میں ٹی ہاﺅس کے باہر کھڑا تھا کہ انتظار حسین نمودار ہوئے اور بولے، ” چلو ناصر کاظمی کی عیادت کو چلتے ہیں "۔ ہم بہرِ عیادت البرٹ وکٹر وارڈ میں پہنچے تو مریض کا بستر خالی تھا۔ اور کوئی اتا پتہ نہ تھا کہ مریض کہاں ہے۔

” ارے یہ ناصر صاحب ! کیا ہوئے ؟”

میں نے تسلی دے کر کہاں کہ میں جانتا ہوں کہ ہمارا شاعر کہاں ہو گا۔ بھلا اس کا جی بیمارستان کی ان دوائیوں کی بو میں کیسے لگ سکتا ہے۔ ہم نکل کر ٹولنٹن مارکیٹ پہنچے اور مریض کو ایک کبابی کے اڈے کے پاس کھڑے سگریٹ پیتے پایا۔ شاید دوائیوں کی بو کو ختم کرنے کے لئے شاعر کبابوں کی مہک سگریٹ کے دھوئیں کے ساتھ اپنے تنفس کے معدے میں اتار رہا تھا۔ عیادت کرنے والوں کو دیکھ کر مریض کمال مہربانی سے واپس ہسپتال آیا اور پھر کمرے میں خیام کی صراحی ٹوٹنے لگی اور خدا سے عیش کے دروازے بند ہونے کی شکایت ہونے لگی۔ ان دونوں دوستوں کو جنہوں نے ہجر کو پہنا اور سہا تھا، میں ایک عالمِ حیرت میں ڈوبے دیکھتا رہا۔

انتظار حسین اپنی ذات میں ایک پورا عہد، پوری گنگا جمنی تہذیب اور پورا لسانی ثقافتی سرمایہ ہیں۔ انہوں نے ہم عصر موضوعات کا مطالعہ خصوصی طور پر کیا ہے اور ہجرت کے تجربے کے حوالے سے دیروز و امروز کی تہذیبی روایات کی خاک چھانی ہے اور اپنے تجربے کے مخفی پہلوؤں کو بڑی مہارت اور محنتِ شاقہ سے اپنی کہانیوں میں سمویا ہے۔ جس طرح مصوری، نقاشی اور مجسمہ سازی ایک فن کار پر انسانی اعضا، خال و خط اور حسن و خوبی کے مخفی رازوں کو رنگوں اور پلاسٹر میں بیان کرنے کا ہنر بخشتی ہے وہ راز کسی عام آدمی کی آنکھ پر افشا نہیں ہوتے۔ اسی طرح ایک باریک بیں اور صاحبِ الہام ادیب کے لئے ہر شے کہانی ہے اور ہر شے میں کہانی ہے۔ کہانیوں میں بیان کی گئی علامتیں اسرار و رموز کی کائنات کے بند دروازوں کی کنجیاں ہیں جنہیں کہانی کار کھولتا ہے۔

ہر چند کہ انتظار حسین نے زندگی کے روز مرہ عمومی پہلوؤں کے بارے میں کہانیاں لکھی ہیں، مگر وہ قارئین کے لئے دور کی کوڑیاں اور افسوں سازیاں ہیں، جب کہ خود انتظار حسین کے لئے ادبی ریاضی کے عمومی کلیے ہیں۔ ما قبلِ تقسیم کے تہذیبی نقوش اس قدر پر پیچ نہیں تھے جتنے آج کے الیکٹرومکینیکل دور میں ہو گئے ہیں۔ آج کا آدمی مشینوں کے نشے میں مبتلا ہو کر رہ گیا ہے اور اس نشے کو روز مرہ ضرورت بھی قرار دے دیا گیا ہے۔ مگر انتظار حسین نہ صرف کہانیوں میں لال ٹین جلاتے ہیں بلکہ جیسا کہ میں نے اس مضمون کے آغاز میں بتایا ہے، وہ اپنے گھر میں بھی بلب کو لال ٹین دکھاتے تھے اور قدیم و جدید کا یہ امتزاج اُن کی زندگی اور اور اُن کی تحریروں کا بنیادی رویہ رہا ہے۔ وہ کیک کے ہوتے ہوئے کڑکڑاتی ریوڑی کو فراموش نہیں کرتے۔ وہ بیک وقت جدید عہد کے ٹائی سوٹ میں ملبوس ایک صحافی، ایک گلیم پوش صوفی، ایک عزا دار ماتمی مسٹر انتظار حسین ہیں جو یک جان سہ قالب ہیں۔

وہ اپنی خود نوشت ” جستجو کیا ہے ؟ ” میں رقمطراز ہیں :

” غالب نے صحیح کہا : کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے۔ مگر آدمی اپنی فطرت سے مجبور ہے۔ کھوئے ہوؤں کی جستجو اُس کا پرانا مشغلہ ہے۔ جو بیت رہی ہے وہ بر حق ہے۔ مگر جو دن بیت گئے وہ کیا تھے۔ وہ تہذیب جو بکھر گئی اور گذر گئی وہ کیا تھی۔ ”

یہی انتظار حسین کی کہانیوں کا موضوع ہے اور وہ اپنے پیچھے اتنا قیمتی اثاثہ چھوڑ گئے ہیں جو ہر عہد کے قاری کو فکری تمول سے نوازتا رہے گا۔

انتظار حسین خدا حافظ! مگر یہ مت سمجھنا کہ آپ نے ہم سے جان چھڑ الی۔ نہیں کبھی نہیں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے