سلطان جمیل نسیم کی جدیدیت کی طرف پیش قدمی ۔۔۔ ڈاکٹر انور سدید

 

میں سلطان جمیل نسیم کے افسانوں کا پرانا قاری ہوں، ان کے بعض افسانوں نے میرے ذہن میں کہرام بھی برپا کیا تھا، اور زندگی کی اِس حقیقت سے جو مجھے نظر آتی تھی اور جس کا اثبات جمیل نسیم کے افسانے پوری جرأت سے کرتے تھے، اکثر اوقات نفرت ان افسانوں نے ہی پیدا کی، میں نے ان کے افسانے "گھر کا راستہ” ۔ ” میرے لئے” "آدھا سورج” اور "گواہی” پڑھے تو انہیں پریم چند کی اس روایت کا پاسبان سمجھا ،   جس کی تعریف ایک ترقی پسند افسانہ نگار نے یوں کی تھی:

” یہی تو وہ روایت ہے جو دنیا بھر میں فکشن کے غیر فانی شاہکارو ں کی صورت میں محفوظ ہے

اور آئندہ بھی سچے اور کھرے افسانے اور ناول کی عمارت اِس روایت پر اٹھائی جائے گی۔ ”

میں نے ان کے افسانے "سنگ زادوں کی بستی میں” شعریت آمیز نثر کے چند استعاراتی جملے پڑھے اور اُن کے پس منظر چھپی ہوئی حقیقت سے معانقہ کرنے کی کوشش کی تو مجھے احساس ہوا کہ سلطان جمیل نسیم شاید تجریدی علامتی افسانے کے فنکار ہیں اور اب اپنی خوبصورت تخلیقی نثر کو افسانے میں استعمال کر کے رشید امجد کو مات دینے کی کوشش کر رہے ہیں، اِن کے چند جملے جو افسانہ لکھنے کی پریم چندانہ روایت سے یکسر انحراف کی مثال ہیں،   ملاحظہ کیجئے۔

۱۔ ” پھر یوں ہوا کہ سمندر کی گستاخ لہروں نے ساحل کے گریبان پر ہاتھ ڈالا اور ساحل نے وہ ہاتھ جھٹک کر ہچکولے کھاتی ہوئی بادبانی کشتی کو سینے سے لگا لیا۔ ”

۲۔ بوڑھے کی صدف جیسی آنکھوں نے لفظوں کے موتیوں کو پرکھنا شروع کر دیا۔ ایسے الفاظ جن کے معنی کی آب اتر چکی تھی اُن کو اٹھا کے جانب رکھا کہ وہ ان کی عظمتِ رفتہ آگاہ تھا اور ثابت و سالم آبدار الفاظ اپنے قلم جیسے ہاتھوں سے اُٹھاتا رہا۔ ”

یہ جملے سلطان جمیل نسیم کے ایک ہی افسانے میں لوحِ حقیقت سے اسلوبِ علامت میں اُترے ہیں اور ایک مربوط کہانی کا حصہ ہیں لیکن اگر آپ اِن کی علامتی توضیح کریں تو اِ ن جملوں میں آپ کو دو الگ الگ کہانیاں پوشیدہ نظر آئیں گی۔ سلطان جمیل نسیم کے فن کی ایک منفرد جہت، کہانیوں سے وحدتِ تاثر کو گزند نہیں پہنچایا اور آپ کو بنیادی اور مرکزی مربوط کہانی کی طرف ہی توجہ مبذول رکھنے کی راہ دکھائی ہے اور اس کے فن کی ایک منفرد جہت ہے۔ ان جملوں کی توضیح حسبِ ذیل ہے۔

پہلے جملے میں ساحل ایک منفعل نسوانی کردار ہے جس پر بپھرا ہوا سمندر (جو ایک مرد کی علامت ہے)مسلسل حملہ کر رہا ہے، مجھے ہچکولے کھاتی ہوئی بادبانی کشتی وہ بچہ نظر آتا ہے جس کی ماں ایک ہوس پرست مرد کی زد میں ہے اور جس کا ہاتھ اس کے گریبان تک بھی پہنچ چکا ہے، گریبان کی طرف پیش قدمی ظاہر کرتی ہے کہ حملہ جنسی جذبے کے تحت کیا گیا ہے اور عورت محض عورت ہی نہیں ہے ایک بچے کی زندگی کی محافظ اور ضامن بھی ہے۔ اِس توضیح کو اگر آپ افسانہ "میرے لئے” کے متصل رکھ کر دیکھیں تو آپ کو یقیناً تسلیم کرنا پڑے گا کہ اوّل الذکر جملے سے جو کہانی میں نے اخذ کی ہے اسی کو مرکزی خیال بنا کر سلطان جمیل نسیم نے تاثر کے معنوی مفہوم کو علامتی صورت دینے کی کاوش کی ہے اور یہ اس معاشرتی المیے کو ظاہر کرتی ہے جب ماضی اور حال میں فاصلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ مشاہدہ اپنی آب اور لفظ اپنا معنی کھو دیتے ہیں۔ اور انسان "کیا پایا ” کی مسرت سے محروم ہو کر "کیا کھویا” کے دکھ سے مغلوب ہو جاتا ہے۔

میں اس طویل تمہید کے لئے معذرت خواہ ہوں، مقصد اِس حقیقت کو نمایاں کرنا تھا کہ سلطان جمیل نسیم نے قدیم افسانے کی روایت سے رشتہ منقطع کئے بغیر جدیدیت کی طرف پیش قدمی کی تو یہ قبولِ عام فیشن کو قبول کرنے کی بد عادت نہیں تھی بلکہ مقصود معنی کے ہیولے اور واقعے کی حقیقت کو ایک نئے انداز میں پیش کرنا تھا۔ اِس قسم کے افسانوں میں انہوں نے منظر کے پسِ پردہ عمل میں آنے والے ہنگامے کو دیکھنے اور کرداروں کے نقوش اور خد و خال الگ ہو کر افعال اور اعمال سے اپنا حقیقی تجربہ پیش کرنے کی کوشش کی۔ ان کا تاثر چونکہ گہرا ہے، اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ سلطان جمیل نسیم افسانے سے جو معاشرتی مقصد بلا اعلان حاصل کرنا چاہتے تھے وہ اس کے حصول میں پوری طرح کامیاب ہو گئے ہیں۔

سلطان جمیل نسیم کے افسانے پڑھتے ہوئے و لیم فاکنر(william Faukner) کا یہ قول متعدد مرتبہ یاد آیا کہ

"افسانہ نگار کو افسانہ لکھنے کے لئے تجربہ۔ مشاہدہ، اور تخیل تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے                           اگر اِن میں سے دو اور بعض اوقات اگر ایک چیز بھی مےّسرآ جائے تو بقیہ چیزوں کمی محسوس نہیں ہوتی․․․․․․․․․․․․․․․․․”

لیکن اگر یہ تینوں مجتمع ہو جائیں تو یقیناً ایک بڑا افسانہ وجود میں آ جاتا ہے۔ سلطان جمیل نسیم کے ہاں ان تینوں اجزاء کا امتزاج بھی ملتا ہے اور انہوں نے ان سے فرداً فرداً استفادہ کی کاوش بھی کی ہے۔ مثال کے طور پر اِن کا افسانہ "گھر کا راستہ” لیجئے․․․․․

یہ افسانہ خالصتاً مشاہدہ کا افسانہ ہے، اس کا مواد اُن اشخاص سے جمع کیا گیا ہے جو بیرونی ممالک میں دولت کمانے کے لئے جاتے ہیں اور پھر غیر ملکی اشیاء سے لدے پھندے آتے ہیں تو دیکھنے والوں کی آنکھوں کو بھی چندھیا دیتے ہیں۔ یہ مشاہدہ روز مرّہ کی ایک ایسی حقیقت ہے جو بیشتر گھروں میں کسی نہ کسی صورت میں ہر روز دہرائی جاتی ہے اور شاید اب اتنی عام ہو چکی ہے کہ متاثر بھی نہیں کرتی۔ سلطان جمیل نسیم نے اِس حقیقت کو اپنے تجربہ کا حصہ بنایا تو اُن پر کھلا کہ دُور دیس سے کندھوں پر دولت لاد کر لانے والاانسان تو اپنے گھر کا راستہ گم کر چکا ہے۔ اور یہ وہی کھویا ہوا انسان ہے جو اپنے دیس میں بھی اجنبی ہے اور اپنی شناخت کھو کر ایک عظیم انسانی المیہ سے دوچار ہو چکا ہے۔ اِس تجربے نے ان کی متخیلہ کو مہمیز لگائی اور پھر وہ افسانہ معرضِ وجود میں آ گیاجس کے واحد متکلم میں معاشرے کے ہر فرد کی صورت موجود تھی۔ اِس افسانے میں سوچ کی تیز رو واقعات کے ساتھ ساتھ چلتی ہے اور آپ کی فکر کو مہمیز ہی نہیں لگاتی بلکہ یہ سوالات بھی اُٹھاتی ہے کہ

"وطن لوٹتے ہی الفاظ کیساتھ واحد متکلم کا روّیہ دشمنوں کا سا کیوں ہو گیا ہے۔ ؟”

"ہجر کی تھکن میں لذّت کیوں تھی اور اپنوں سے آ ملنے میں کرچیوں کی چبھن کیوں ہے۔ ؟”

"گھر اور راستے میں بُعد المشرقین کیوں پیدا ہو جاتا ہے” ؟

” کیا انسانوں کا قصور لفظوں کے سر منڈھا جا سکتا ہے۔ ؟”

"کیا الفاظ سیپی کی طرح معنوں کے موتی سمیٹے انسانوں کے سمندر میں گم سم پڑے رہتے ہیں۔ ؟”

یہ سب سوالات آپ کے سامنے اپنی مجرد حیثیت میں نہیں آتے بلکہ کہانی کے بطون سے اُبھرتے ہیں اور اس تضاد کو آشکار کرتے ہیں جس سے پورا معاشرہ دوچار ہے۔ چنانچہ سلطان جمیل نسیم کے افسانے کی خوبی یہ بھی ہے کہ اِس سے آپ کی سوچ متحرک ہو جاتی ہے اور معاشرہ نئے تناظر میں سامنے آتا ہے۔

"گھر کاراستہ” کے بعد جب میں سلطان جمیل نسیم کا افسانہ "میرے لئے” پڑھتا ہوں تو یہ مجھے بیتی ہوئی حقیقت نظر آتا ہے۔ اِس افسانے کا تاثر اکہرا ہے۔ یہ کہانی بھی معاشرتی المیہ اُبھارتی ہے۔ اِس کے تمام معانی افروز، مجید اور افروز کی ماں کی حرکات و سکنات کے ساتھ ٹنکے ہوئے ہیں اور پھیلنے کے بجائے سمٹتے چلے جاتے ہیں، حتیٰ کہ نقطۂ انجام پر جب یہ دل دوز حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ واقعات و حادثات کی زہر ناکی انسانی ضمیر کو بری طرح کچل دیتی ہے تو شدید جھٹکا لگتا ہے۔ سلطان جمیل نسیم نے اِس افسانے میں تخیل کی نادرہ کاری اور تجربے کا جوہر شامل کرنے کی کوشش نہیں کی اور صاف نظر آتا کہ ولیم فاکنر نے افسانے کے لئے جن تین چیزوں کو اہم شمار کیا تھا ان میں سے سلطان جمیل نسیم نے صرف ایک استعمال کی ہے۔ اِس قسم کے افسانوں میں وہ حقیقت کو سیدھے سبھا ؤ پیش کر دیتے ہیں،   لیکن کرداروں کے آلام سے غمِ دوراں کو ضرور اُبھارتے ہیں۔

اِن کے یہاں خیر و شر کا تصادم بھی عمل میں آتا ہے اور یہ پریم چند عظیم روایت کی توسیع میں بھی معاونت کرتا ہے، چنانچہ میں اِس قسم کے زیرِ سطح معنی کی تلاش غیر ضروری تصور کر تا ہوں۔ میرا خیال یہ ہے کہ اس قسم کے افسانے لکھ کرسلطان جمیل نسیم نے عام قاری کے ذوق کی تسکین کی ہے اور ان کی مقبولیت کا گراف "زیرِ آسماں” ۔ آگ اور سمندر” ۔ آدھا سورج اور ” شکست کی آواز ” جیسی کہانیوں سے بھی مرتب ہوا ہے، جن میں سلطان جمیل نسیم نے ایک ماہر اور فن شناس تماشائی کا کردار ادا کیا ہے لیکن خود تماشا نہیں بنے۔ اِن کہانیوں میں "یونیورسل اپیل” موجود ہے اور یہ اپیل گہری درد مندی اور انسان دوستی کی غماز بھی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ یہ اپیل سطح کے ساتھ ترقی پسندانہ انداز میں چپکا دی گئی ہے اور پڑھنے والوں سے ” رحم کی اپیل”   مانگ رہی ہے اور سلطان جمیل نسیم نے اسے تجربے کا بلند مقام عطا نہیں کیا۔ اِس قسم کے افسانوں میں سلطان جمیل نسیم نے اُن تمام رنگوں کو قبول کیا ہے جو اِن کے چاروں طرف بکھرے ہوئے ہیں، ایک مخصوص نصف قطر کی قوس قزح مرتب کرتے ہیں اور حقیقتِ کل (TOTAL REALITY) کو پیش کر دیتے ہیں کیا اِس سب کو سلطان جمیل نسیم کی خوبی شمار نہیں کرنا چاہئے۔ ؟

تخیل کی خالص صورت کو افسانے میں ڈھالنے کا تجربہ سلطان جمیل نسیم نے "کھویا ہوا آدمی” میں کیا ہے، اِس افسانے میں انہوں نے مواد کو اسلوب میں آمیخت کرنے اور ایک نئی تکنیک وضع کرنے کی کاوش کی ہے۔ افسانہ ہمارے سامنے کسی فلم کی طر ح منظر در منظر گرہ کشا نہیں ہوتا بلکہ یہ آپ کے سامنے جزوی تصویروں کو پیش کرتا ہے۔ کنویں سے آنے والی آوازیں اور آوازوں کی ڈور میں بندھی ہوئی امداد کی التجائیں، مائیکل جوزف،   جسے لاتعلقی کی دیمک نے چاٹ لیا ہے، اور مصنف جس نے ہاتھ سے قلم رکھ دیا ہے اور ان کاغذ پر بکھرے ہوئے خطوط کا چہرہ دیکھ رہا ہے، سب افسانہ نگار کے ذہن کے پاتال سے پیدا ہونے والی لہریں ہیں جو معاشرتی حقیقتوں کے ساتھ بار بار ٹکرا رہی ہیں اور ہمیں اس کرب سے آشنا کرتی ہیں جو تضادات سے پیدا ہو تا ہے۔ اور بیسویں کے ربع آخر کا نادر عطیہ ہے۔ یہ افسانہ چونکہ متخیلہ کی پیدا وار ہے اس لئے اس میں زمان و مکان بھی بے کنار ہیں اور مسرت اور نفرت کے پیمانے بھی الگ ہیں اس کی ایک مثال حسبِ ذیل اقتباس ہے۔

” مین اس منزل میں ہوں جہاں ایک فلسطینی کے چھرا گھونپنے کے بعد خوشی تو ہوتی ہے مگر وہ خوشی راتوں کی نیند چاٹ جاتی ہے۔ صبح ویت نامیوں پر گولیوں کی بوچھار تو کرتا ہوں لیکن رات کو اُن کی لڑکیوں کو بوسوں کی بارش میں نہلا دیتا ہوں۔ نیگرو نسل کو اپنے ملک سے ختم کر دینے کی انتہائی خواہش کے با وجود میں شدید بیماری کے عالم میں کراہت کے ساتھ ایک کالی نرس کے ہاتھوں تیمار داری قبول کرتا ہوں اور اُسے سسٹر کہہ کے پکارتا ہوں․․․․․مگر بھیک کے لئے پھیلے ہوئے ضرورت مند ہاتھوں پر چند سکّے رکھنے سے پہلے یہ اطمینان بھی چاہتا ہوں کہ مانگنے والا میرے ہی ملک اور مذہب کا ہے یا نہیں․․․․․”

سلطان جمیل نسیم کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے زندگی کے ٹوٹے پھوٹے فریم میں جن تصویروں کی رونمائی کی ہے وہ بظاہر بے چہرہ ہیں لیکن وہ عمل جسے وزیر آغا نے کر لین پرا سس کا نام دیا ہے ہمارے سامنے ان تصویروں کو جوڑ کر پیش کرتا ہے اور جذباتی گہرائی کو کروٹ دے دیتا ہے، مایوسی،   نامرادی، اور پژمردگی کے اِن لمحات میں سلطان جمیل نسیم نے بالعموم نہیں بلکہ کبھی کبھی ایک دانا بزرگWise old manکوافسانے میں ابھار کر مصلح کا کردار ادا کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ "کھویا ہوا آدمی” میں یہ دانا بزرگ خود مصنف ہے۔ جس کے ذہن میں مائیکل جوزف کیلئے گالیوں کے بلبلے اُٹھ رہے تھے۔ لیکن جب مائیکل جوزف کے اندرسے نیکی بیدار ہو گئی تورسی کو کنویں میں گرنے سے روکنے کے لئے دوسرے لوگوں کے ساتھ شامل ہو گیا تو اِس دانا بزرگ نے ” مسکرا کر کاغذ کے پھیلے ہوئے ہاتھوں میں قلم کی دعائیں الٹ دیں” یوں ایک مثبت رویہ نکھر کر سامنے آ جا تا ہے۔ "سنگ زادوں کی بستی میں” "عذاب” اور ” پرانا ساتھی” چند ایسے ہی افسانے ہیں جن میں نئی معنویت واقعے کے بطون سے بیدار ہو تی ہے اور کہانی اپنی بے چہرگی کے باوجود قاری کو ذہنی اور فکری آسود گی عطا کر دیتی ہے۔

مجھے کچھ یوں بھی محسوس ہوتا ہے کہ اردو کے بعض افسانہ نگاروں نے افسانے میں خود اپنی زندگی بسر کی ہے۔ سلطان جمیل نسیم کے ہاں مجھے یہ منفرد صورت نظر آتی ہے کہ وہ دوسرے لوگوں میں زندگی بسرکرتے ہیں اور اِس عمل میں وہ اکثر اپنی ذات کو دوسرے لو گوں کے قالب میں بھی ڈھال دیتے ہیں۔ یہ نمایاں خصوصیت مجھے ان کے افسانے ” بے چہرہ آوازیں” آخری کمرہ” اور "علاج” میں نظر آئی ہے۔ اِس قسم کے افسانوں کو سلطان جمیل نسیم نے اپنے تجربے کے جوہر سے نکھارا ہے۔ حقیقت کے منفی روپ سے صداقت کا چہرہ دکھایا ہے،   اور یوں کثیر الالبعاد حقیقتوں اور معانی کو محیط کیا ہے۔ بلا شبہ ان کے جذبے کا رنگ تو ایک ہی ہے، لیکن متذکرہ بالا قسم کی کہانیوں میں انہوں نے اس ایک رنگ کو ہی کچھ اس طرح استعمال کیا ہے کہ ان کی کمی بیشی سے ہمارے سامنے نہ صرف کئی رنگ آ جاتے ہیں بلکہ ان سے کبھی نشاطیہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور کبھی حزنیہ لے اُبھر آتی ہے۔

افسانہ نگار جو گندر پال نے درست کہا ہے کہ:۔

” سلطان جمیل نسیم کی ہر کہانی میں کوئی نہ کوئی آسیب موجود ہے اور قاری بظاہر خالی راستے پر چلتے ہوئے بھی کسی نادیدہ سے ٹکرا کر بمشکل گرتے گرتے بچتا ہے۔ ”

میرا خیال ہے کہ سلطان جمیل نسیم کا مقصد نہ قاری کو گرانا ہے اور نہ گرتے گرتے بچا نا۔ اُن کے پیشِ نظر تو ایک ہی مقصد ہے کہ وہ زندگی کے مشاہدے کو تجربے میں تبدیل کر دیں․․․․․تجربے کو متخیلہ سے مس کر نے کا موقع فراہم کریں، اور پھر وہ افسانہ معرضِ تخلیق میں لائیں،   جس میں بقول ولیم فاکنر مشاہدہ، تجربہ اور متخیلہ کا امتزاج موجود ہو تا ہے اور قاری کو نہ صرف حقیقت سے آگہی ہو جاتی ہے بلکہ کہانی کے پسِ پردہ معنی اور نئی حقیقت سے بھی ملاقات ہو جاتی ہے۔ میں سمجھ تا ہوں کہ افسانہ لکھ کر سلطان جمیل نسیم اپنے اِس مقصد میں پوری طرح کامیاب ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ اردو افسانے کے تجربات کے گھمسان میں وہ ایک ایسی توانا شخصیت بن کر آئے ہیں جن کے فن کی توصیف ادب کی معتبر ہستیوں کی ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے