غزل ۔۔۔ فاتح الدین فاتحؔ

 

جشن تیرہ شبی منانا ہے

خون کو خاک میں ملانا ہے

 

کھا گیا جاں کو آس کا آسیب

وحشتوں کا دیا بجھانا ہے

 

اپنی نظروں سے گر گیا ہوں میں

اور کتنا مجھے گرانا ہے

 

میں نے تقویم ڈال دی پسِ پشت

تیرے آگے ابھی زمانہ ہے

 

زخم بھی، آہ بھی، شکایت بھی

حشر کیا کیا مجھے دبانا ہے

 

یاوہ گوئی ہے ہجر کا قصہ

ہاں کہانی سہی، کہا نا ہے

 

زندگی نے ہمیں گزار لیا

خاک ہم نے اسے بِتانا ہے

 

چاہیے اختیار موجوں پر

پار سوہنی کو بس لگانا ہے

 

ہم بھی قارون سے کہاں کم ہیں

فاقہ مستی بڑا خزانہ ہے

 

کھو گئی آرزوئے خواہش تک

کیا بچا ہے کہ اب گنوانا ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے