نظمیں ۔۔۔۔ ڈاکٹر انور سدید

درد

 

درد پھوٹا تو یہ محسوس ہوا ہے مجھ کو

جیسے اک شمع شبستان جلی

جس کی کرنیں مرے اس خاک نگر میں آئیں

نور پھیلا نہ سکیں

روشنی لا نہ سکیں

قریہ ءِ جاں کو محیطِ غم دوراں کر کے

میری پلکوں پہ رکیں

کرب میں تحلیل ہوئیں

ان کی آغوش میں ہے

درد مرا __ ایک مجسم آنسو!

٭٭٭

 

 

 

کھڑکی

 

 

مجھے احساس ہے میں نے

ابھی کچھ کام کرنے ہیں

ستارے جو مری پلکوں پہ آنسوبن کے چمکے تھے

انہیں میں نے نئے منکوں کی مالا میں پرونا ہے

نئے مفہوم کے میں نے ابھی اشعار کہنے ہیں

اور ان اشعار کو لوگوں کے دل میں

جاگزیں کرنا بھی، اک دیرینہ خواہش ہے

جوانی میں جو میں نے شاعری کی تھی

وہ اب مجھ کو ادھوری شاعری لگتی ہے

نا پختہ خیالوں __ اور نا آسودہ جذبوں کی

اگرچہ زندگی کا ساتواں عشرہ سرکتا جا رہا ہے

مگر اب ایک کھڑکی دل میں اپنے کھول دی میں نے

خیالوں کی جو تازہ آکسیجن سے

مجھے سیراب کرتی ہے

یہ کھڑکی میرا داخل ہے

یہ کھڑکی میرا خارج ہے !

٭٭٭

 

 

 

پناہ گاہ

 

 

میں اپنے دل کے اک تاریک گوشے میں

چھپا بیٹھا ہوں

فرغل میں لپیٹے اپنی یادوں کو

کہ یہ جگنو نہ چمکیں

اور نہ شب خوں میری تنہائی پہ ماریں

روشنی کی جلتی بجھتی تیز کرنوں سے

میں اپنے دل کے اک تاریک گوشے میں

چھپا بیٹھا ہوں

٭٭٭

 

 

آواز کی آلودگی

 

 

مری آواز کی دنیا میں

کتنی دیر سے گھمبیر سناٹا

بلاتا ہے مجھے ___کہتا ہے

آؤ دونوں مل کر

اپنی تنہائی کا غم بانٹیں

مجھے تم دیکھ کر روؤ

تمہیں میں دیکھ کر روؤں

اور ان اشکوں میں

اپنے دہر کی آلودہ آوازوں کو

سارے شور و غل کے زہر کو

اک لمبا گہرا سانس لے کر

آکسیجن میں ڈبو ڈالیں

٭٭٭

 

 

4 دسمبر 2007

 

(1)

 

 

دسمبر اس برس آیا

تو اس نے آٹھویں عشرے

کے دروازے پہ دستک دی

یہ دروازہ کھلا

تو سامنے اس کے کھڑا تھا

ایک بندہ۔ ۔ سال خوردہ۔ ۔ ہار دیرینہ دسمبر کا

جو ماہ و سال کی لمبی مسافت میں

ہمیشہ گردش دوراں میں

اس کے ساتھ رہتا تھا

تھپک کر پیٹھ اس کی

حوصلہ اس کا بڑھایا تھا

دسمبر نیچے گر پڑتا

تو وہ اس کو اٹھاتا تھا

صعوبت کے زمانے میں

٭٭٭

 

 

 

 

(2)

دسمبر اس برس آیا

تو اس کا سال خوردہ ہار دیرینہ

زمیں پر چاروں شانے چِت پڑا تھا

اس کو تکتا تھا

بڑی پژ مردہ آنکھوں سے

بہت ہی ملتجی لہجے میں کہتا تھا

دسمبر! تھام لو مجھ کو

اٹھاؤ مجھ کو فرش خاک سے

پہلو میں رکھا ہے مرے

عمرِ گزشتہ کا اثاثہ

ایک گٹھڑی میں

یہ سب لے لو

مجھے بس چار دن کی زندگی دے دو

کہ میں دو اک ضروری کام کر لوں

اپنے ہاتھوں۔ ۔ اپنی مرضی سے

 

(4 دسمبر میری پیدائش کا دن ہے۔ اس برس میں نے 79 واں سال عبور کیا ہے۔ ) انور سدید

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے