ندا فاضلی:جانے والوں سے دِلوں کا سلسلہ جاتا نہیں ۔ ۔ ۔ غلام ابن سلطان

 

کسی علاقے کا زیرک تخلیق کاروں، کفن بر دوش جان نثاروں اور حریتِ فکر کے قلم بہ کف مجاہدوں سے محروم ہو جانا ایسا بُرا شگون ہے جس کے نتیجے میں وہاں ہر سُو نحوست اور بے برکتی کا عفریت منڈلانے لگتا ہے۔ مہیب سناٹوں، سفاک ظلمتوں اور جانگسل تنہائیوں میں بسر کی جانے والی بے مقصد اور ناکام زندگی تو موت سے بھی کہیں بڑھ کر الم ناک اور بھیانک ہوتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کیسے کیسے پیارے پیارے لوگ ہماری بزم سے اُٹھ گئے اور ہماری آنکھیں دیکھتی کی دیکھتی رہ گئیں۔ اس دنیا کے آئینہ خانے کو غور سے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات میں ہر چیز راہِ رفتگاں پر چل رہی ہے اور تیزی سے اپنی آخری منزل کی طر ف بڑھ رہی ہے۔ آغاز سفر میں جب ہم دو رویہ کھڑے شجر سایہ دار، بور لدے چھتنار اور بانکے پہرے دار دیکھتے ہیں توہم سکھ کا سانس لیتے ہیں کہ قدرتِ کاملہ نے ہمیں آلامِ روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھنے کا مناسب انتظام کر رکھا ہے۔ ہم اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ خود دھُوپ میں جل کر دوسروں کو خنک چھاؤں فراہم کرنے والے، پھُولوں اور پھلوں سے لدے یہ نخلِ تناور بدستور وہاں موجود رہیں اور اپنی مسافر نوازی کا سلسلہ جاری رکھیں۔ سمے کے سم کے ثمر سے کون انکار کر سکتا ہے، تقدیر جب ان اشجار کو فنا کے ایندھن کے لیے کاٹ کر گراتی ہے تو وقت کے قاتل تیشے ان ساونتوں کے اجسام کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ کتاب زیست کا یہی ورق عبرت کا سبق قرار پاتا ہے۔

ندا فاضلی (مقتدا حسن )(پیدائش: گوالیار، بارہ۔ اکتوبر 1938، وفات:آٹھ۔ فروری 2016)دہلی میں دل کا دورہ پڑنے سے چل بسے۔ اس یگانۂ روزگار ادیب کی رحلت پر دنیا بھر میں ان کے مداح شدت غم سے سکتے کے عالم میں ہیں۔ ندا فاضلی نے بھارتی فلموں کے لیے جو گیت لکھے انھیں بہت پسند کیا گیا۔ بھارتی ٹیلی ویژن کے لیے انھوں نے کئی ڈرامہ سیریل تحریر کیے جنھیں ناظرین کی بہت پذیرائی ملی۔ علمی و ادبی محافل کی نظامت میں ان کی مؤثر کارکردگی کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ ان کی گل افشانیِ گفتار سے ہر محفل کشتِ زعفران بن جاتی۔ وہ زیرک، فعال اور مستعد تخلیق کار جس کی علم دوستی اور ادب پروری کو دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا زینۂ ہستی سے اتر گیا۔ اپنی تخلیقی فعالیت میں اسلوب اور ہئیت میں تکنیک کے تنوع اور ترقی پسند ادب کے تسلسل کو ملحوظ رکھنے والے اس نابغۂ روزگار ادیب کی رحلت سے اردو زبان و ادب کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ بھارت کی کئی ریاستوں جن میں آندھرا پردیش، اتر پردیش، بہار، راجستھان، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر شامل ہیں کی طرف سے ندا فاضلی کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں سپاس گزاری کے اعلیٰ ایوارڈ عطا کیے گئے۔ انھیں غالب ایوارڈ، جے دیال ایوارڈ، روٹری ایکسی لینٹ ایوارڈ، اسکرین ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کے دوسرے بڑے ایوارڈز درج ذیل ہیں :

ساہتیہ اکادمی ایوارڈ1998

سٹار سکرین ایوارڈ 2003

بالی وڈ مووی ایوارڈ   2003

پدم شر ی ایوارڈ     2013

ندا فاضلی ایک کثیر التصانیف ادیب تھے۔ ان کی تصانیف کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ ان کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں :

شاعری:لفظوں کا پُل (1971)، مور ناچ(1978)، آنکھ اور خواب کے درمیان(1984)، کھویا ہوا سا کچھ(1996)، شہر تو میرے ساتھ چل(2004)

نثر : ملاقاتیں (تنقید، 1986)، دیواروں کے بیچ ( سوانحی ناول)، دیواروں کے باہر ناول (2000)، چہرے (مشاعرے کے شاعروں کے خاکے )2003

ہندی : مور ناچ، آنکھ بھر آکاش، کھویا ہو ا سا کچھ، شہر میں دھوپ، ہم قدم

انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو سدا پیش نظر رکھتے ہوئے حق و صداقت کا علم بلند رکھنا ندا فاضلی کا شیوہ تھا۔ اپنے تجربات، مشاہدات اور جذبات و احساسات کو انھوں نے جس بے باکی سے پیرایۂ اظہار عطا کیا وہ ان کی انفرادیت کی دلیل ہے۔ اپنی تخلیقی تجربات سے انھوں نے افکارِ تازہ کے وسیلے سے جمود کا خاتمہ کر کے جہانِ تازہ کی جانب روشنی کا سفر جاری رکھنے پر اصرار کیا۔ انھوں نے اپنے منفرد اسلوب سے ایک خاص نوعیت کی فکر ی منہاج اور ذہنی فضا تیار کی جس کے معجز نما اثر سے حریت فکر کو اپنا کر حریت ضمیر سے جینے کا ولولہ پیدا ہوا۔ ان کی مستحکم شخصیت کی تشکیل میں ان کے اعلیٰ کردار کا گہر ا عمل دخل رہا ہے۔ شعر و ادب کے ساتھ ان کی قلبی وابستگی اور انسانیت کے ساتھ ان کا والہانہ پیار ان کی شخصیت کا امتیازی وصف سمجھا جاتا ہے۔ بادی النظر میں ندا فاضلی کی تصنیف "دیواروں کے بیچ”ایک ایسا سوانحی ناول ہے جو آپ بیتی کا آہنگ لیے ہوئے ہے۔ ابتدائی دور میں یہ آپ بیتی قسط وار سلسلے میں ادبی مجلے "شاعر ” کی زینت بنی۔ اس کے بعد جب یہ آپ بیتی کتابی صور ت میں سامنے آئی تو اسے علمی و ادبی حلقوں نے بہت سراہا۔ قارئین نے اس میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا لیکن ایک بات شدت سے محسوس کی گئی کہ کئی مقامات پر رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے منابع کی صورت میں سامنے آنے والے کرداروں کے ساتھ جو ادھوری ملاقاتیں ہوئیں ان میں متعدد ضروری باتیں نا گفتہ رہ گئیں۔ مثال کے طور پر "عشرت”کا کردار ایسا ہے جس کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ یہ عجیب مانوس اجنبی کردار کہاں سے آیا اور کدھر چلا گیا۔ اس دنیا کے آئینہ خانے میں وہ قاری کو تماشا بنا کے چلا گیا اور قاری مصنف کے بجائے اس کردار کے بارے میں جستجو کرنے لگتا ہے۔ ندا فاضلی کا کمال یہ ہے کہ تخلیق فن کے لمحوں میں وہ اس انہماک کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ قاری کی توجہ اپنی ذات سے ہٹا کر دوسرے کرداروں کی جانب مبذول کر دیتے ہیں۔

ہلاکت خیزیوں کے موجودہ دور میں قلزم ہستی کی غواصی کی نسبت اپنی ذات کے بحر بے کراں میں غوطہ زن ہو کر حقیقت اور معرفت کے گوہر نایاب تلاش کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اپنے من میں غوطہ زن ہو کر زندگی کے اسرار و رموز کے گو ہر نا یاب تلا ش کیے جا سکتے ہیں۔ ندا فاضلی نے سب سے پہلے اپنی ذات کو تنقید اور احتساب کا ہدف بنا یا اس کے بعد معاشرتی زندگی کے تضادات اور بے ہنگم ارتعاشات کے خلاف کھل کر لکھا۔ انھوں نے معاشرتی زندگی کو امن و عافیت سے ثروت مند بنا نے کے لیے ہر قسم کی عصبیت کو بیخ و بن سے اُکھاڑ پھینکنے پر زور دیا۔ ہوسِ زر اور جلب منفعت کے پیدا کردہ ذاتی عناد با ہمی، مناقشات اور تعصبات کے عذاب زندگی کو جان لیوا سراب کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ انھوں نے سماجی اور معاشرتی زندگی کے حوالے سے اپنی ذات کی تفہیم کی خاطر اپنی ذات کو نشانے پر رکھ کر جو منفرد انداز اپنایا، اسی طرز فغاں میں ان کی مستحکم شخصیت کا راز پنہاں ہے۔

اپنا غم لے کے کہیں اور نہ جایا جائے

گھر میں بکھری ہوئی چیزوں کو سجایا جائے

باغ میں جانے کے آداب ہوا کرتے ہیں

کسی تتلی کو نہ پھُولوں سے اُڑایا جائے

جن چراغوں کو ہواؤں کا کوئی خوف نہیں

اُن چراغوں کو ہواؤں سے بچایا جائے

دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے

مِل جائے تو مٹی ہے، کھو جائے تو سونا ہے

بات کم کیجیے، ذہانت کو چھپاتے رہیے

اجنبی شہر ہے یہ، دوست بناتے رہیے

دشمنی لاکھ سہی ختم نہ کیجیے رشتہ

دِل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہیے

معاشرتی زندگی پر بے حسی کے منڈلاتے عفریت کو دیکھ کر ندا فاضلی اکثر دل گرفتہ رہتے تھے۔ مادی دور کی لعنتوں نے لوگوں سے سماعتیں اور گویائی سلب کر لی ہے اور حق گوئی اور بے باکی کے مظہر تکلم کے سلسلے عنقا ہیں۔ الفاظ کی گھن گرج کے آئینہ دار دبنگ لہجے اور ان سے وابستہ حقائق اب خیال و خواب بن چکے ہیں۔ اس مسموم ماحول میں بے ثبات کارِ جہاں میں حیات اپنی معنویت کی صفات کھو بیٹھی ہے اور زندگی موت سے بھی گمبھیر صورت اختیار کرتی چلی جا رہی ہے۔ اس کا لرزہ خیز اور اعصاب شکن نتیجہ یہ نکلا ہے کہ افراد انسانیت کی سطح سے گر تے چلے جا رہے ہیں اور قحط الرجال میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اپنی تخلیقی فعالیت کو مقصدیت سے مزین کر کے ندا فاضلی نے حرف صداقت لکھنا شعار بنایا۔ نثر ہو یا نظم ہر صنفِ ادب میں ان کے اسلوب میں موجود واقعیت اور حقیقت کی معجز نما اثر آفرینی کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے اور ان کی انفرادیت ہر پیرایۂ اظہار میں قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔

کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا

کہیں زمیں تو کہیں آسماں نہیں ملتا

تمام شہر میں ایسا نہیں خلوص نہ ہو

جہاں امید ہو اس کی وہاں نہیں ملتا

آج ذرا سی فرصت پائی، آج اسے پھر یاد کیا

بند گلی کے آخری گھر کو کھول کے پھر آباد کیا

اپنی حقیقت کی جستجو اور اس کے بارے میں گفتگو ندا فاضلی کی شاعری کا اہم پہلو ہے۔ انھوں نے فلسفہ و منطق کے سرابوں میں سر گرداں ہونے کے بجائے زندگی کے حقائق کی اس انداز میں لفظی مرقع نگاری کی ہے کہ قاری چشم تصور سے تمام حالات دیکھ سکتا ہے۔ ندا فاضلی نے معاشرے کو آئینہ دکھاتے ہوئے بتایا ہے کہ اس بے حس معاشرے میں تخلیق فن کے لمحوں میں حساس تخلیق کار کو کس کرب سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ظالم و سفاک، موذی و مکار استحصالی عناصر کے جبر کے باعث معاشرتی زندگی کی پستی تحت الثریٰ میں جا پہنچی ہے۔ گزشتہ سات عشروں کے دوران بر صغیر میں زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کا جنازہ اُٹھنے لگا ہے۔ جس طر ف نظر دوڑائیں ہوس، دہشت، افراتفری، بیگانگی، اضطراب، خود غرضی اورسادیت پسندی نے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ بہیمانہ استحصالی نظام کے جبر نے عوامی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ ندا فاضلی نے اس صورت حال کو ایک برا شگون قرار دیا اور اپنے قلبی اور روحانی کرب کا بر ملا اظہار کیا:

کبھی کبھی یوں بھی ہم نے اپنے جی کو بہلایا ہے

جن باتوں کو خود نہیں سمجھے اوروں کو سمجھایا ہے

میر و غالب کے شعروں نے کس کا ساتھ نبھایا ہے

سستے گیتوں کو لکھ لکھ کر ہم نے گھر بنوایا ہے

دل میں نہ ہو جرأت تو محبت نہیں ملتی

خیرات میں اتنی بڑی دولت نہیں ملتی

کچھ لوگ یوں ہی شہر میں ہم سے بھی خفا ہیں

ہر ایک سے اپنی طبیعت نہیں ملتی

تہذیب و تمدن کی داعی اقوام کے دوغلا پن کا یہ حال ہے کہ ان کی قیادت کے جنگی جنون اور ہوسِ اقتدار نے دکھی انسانیت کو پتھر کے زمانے کی جانب دھکیلنے کے مذموم مقاصد کی تکمیل کی خاطر ہلاکت خیزیوں کا ایک غیر مختتم سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ بر صغیر کی تقسیم کے بعد منزلوں پر ان مفاد پرست، ابن الوقت، طالع آزما اور مہم جُو عناصر نے غاصبانہ قبضہ کر لیا جو شریکِ سفر ہی نہ تھے۔ اس کے نتیجے میں اُجالا داغ داغ اور سحر شب گزیدہ ہو کر رہ گئی اور عوام آزادی کے ثمرات سے محروم ہو گئے۔ ندا فاضلی نے تقسیم ہند کے بعد اس سیاسی و سماجی المیے کو یوں بیان کیا ہے۔

انسان میں حیوان یہاں بھی ہے وہاں بھی

اللہ نگہبان یہاں بھی ہے وہاں بھی

خونخوار درندوں کے فقط نام الگ ہیں

ہر شہر بیابان یہاں بھی ہے وہاں بھی

اُٹھتا ہے دل و جاں سے دھواں دونوں طرف ہی

یہ میر کا دیوان یہاں بھی ہے وہاں بھی

اُردو زبان میں دوہا نگاری کے ابتدائی آثار تیرہ سو سو برس قبل بھی پائے جاتے تھے۔ جب پُوری دُنیا آفتابِ اِسلام کی ضیا پاشیوں سے بُقعۂ نُور ہو گئی تو اس خطے میں بھی فکر و نظر کا ایک انقلاب بر پا ہو گیا۔ ہر قسم کے نسلی، علاقائی اور لسانی امتیازات کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کے سلسلے کا آغاز ہو گیا۔ اس عہد آفریں انقلاب کے بعد افکار تازہ کی مشعل تھامے یہاں کے تخلیق کاروں نے جہانِ تازہ کی جستجو کو اپنا مطمحِ نظر بنا لیا۔ اُردو میں دوہے کے ارتقا میں اس خطے میں اسلام کے ابد آشنا پیغام کو سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ جہاں تک شاعری میں تزکیہ نفس کی شعوری یا غیر شعوری کوشش کا تعلق ہے اِس کی اولین صورت دوہے میں دکھائی دیتی ہے۔ وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ دوہا نگاروں نے اس صنف میں وہ گُل ہائے رنگ رنگ پیش کیے جن کے اعجاز سے دوہا واقعیت، حقیقت، مقصدیت اور سبق آموز نصیحت کے روپ میں قلب و نظر کی تسخیر میں اہم کردار ادا کرنے کے قابل ہو گیا۔ دوہے کی صنف کو خونِ دِل سے سینچ کر پروان چڑھانے والے تخلیق کاروں میں بہت سے نام شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ مقبول مسلمان دوہا نگاروں کے نام درجِ ذیل ہیں :

امیر خسرو (۱۲۵۳تا۱۳۲۵)، بابا فرید الدین مسعود گنج شکر (۱۱۷۳تا ۱۲۶۶)، سید عبداللہ بلھے شاہ (۱۶۸۰تا۱۷۵۷)، عبدالرحیم خانِ خاناں (۱۵۵۶تا۱۶۲۸)، ملک محمد جائسی (۱۴۷۷تا۱۵۴۲)، بہادر شاہ ظفر (۱۷۷۵تا ۱۸۶۲)

دوہا نگاری کے فروغ میں متعدد ہندو شعرا نے بھی اہم کر دار ادا کیا۔ جس طرح زندگی اپنے لیے لائحۂ عمل کا انتخاب خود ہی کر لیتی ہے بالکل اُسی طر ح اصنافِ ادب بھی اپنے لیے موضوع اور اظہار کے مواقع تلاش کر لیتی ہیں اس میں مسلک یا عقیدے کی طرف سے کوئی قدغن نہیں۔ تاہم ہندو شعرا نے بالعموم اپنے دھرم اور ہندی معاشرت کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ جن ہندو شعرا نے دوہے کو اظہار و ابلاغ کا وسیلہ بنایا ان میں سے چند نام درجِ ذیل ہیں :

کبیر داس (۱۴۴۰تا۱۵۱۸)، عبد الر حیم خانِ خاناں (۱۵۵۶ تا ۱۶۲۷)، سنت کوی سورداس (۱۴۷۸تا۱۵۸۴)، تُلسی داس (۱۴۹۷تا۱۶۳۲)بہاری لال (۱۵۹۵تا۱۶۶۳)

۱۸۵۷کی ناکام جنگ آزادی کے بعد جب تاجر کے روپ میں آنے والے انگریز اپنے مکر کی چالوں سے تاج ور بن بیٹھے تو اس خطے کی تہذیب و ثقافت بھی اس سانحے سے متاثر ہوئی۔ زندگی کے ہر شعبے پر اس سانحے کے مسموم اثرات مرتب ہوئے۔ یورپی تہذیب کے غلبے کے باعث مقامی تہذیب کے ارتقا کی رفتار قدرے سست پڑ گئی۔ نوے سالہ غلامی کے دور میں اس خطے کے باشندوں پر جو کوہِ سِتم ٹوٹااس نے تو محکوم قوم کی امیدوں کی فصل غارت کر دی اور ان کی محنت اکارت چلی گئی۔ جب لوگ پرا گندہ روزی اور پراگندہ دِل ہوں توکیسے ماہیے، کہاں کے دوہے، کہاں کی رباعی اور کہاں کی غزل، سب کچھ پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ دوسری اصنافِ سخن نے تو اس جان کنی کے عالم میں بھی اپنا ارتقائی سفر جاری رکھا لیکن دوہا ادیبوں کی تخلیقی توجہ سے محروم رہا۔ جب آزادی کی صبحِ درخشاں طلوع ہوئی تو یورپی پیرتسمہ پا اور بیرونی طفیلی اپنی دُکان بڑھا گئے۔ اس کے بعد دوہے کو بھی نئے سرے سے پنپنے کا موقع ملا۔ دوہا نگاروں نے اپنے موثر اسلوب کے ذریعے زندگی کے تمام موسموں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ صرف دو مصرعوں میں قاری کو قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل کا منظر دکھا کر ان شاعروں نے قلب و نظر کو مسخر کر لیا۔ ان کے اسلوب میں جذبات، احساسات اور تخیل کی ندرت اور پاکیزگی کا جادو سر چڑھ کر بو لتا ہے۔ دوہا نگاروں نے بالعموم حُسن کی تجریدی کیفیت کی لفظی مرقع نگاری پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔ ان کے اسلوب میں دو پہلو قابل توجہ ہیں ایک تو روحانیت کا عکاس ہے اور دوسرا مادیت کا پر تو لیے ہوئے ہے۔ مادہ پرستی ایک تخلیق کار کو رومانیت کی وادی میں مستانہ وار گھومنے پر مائل کرتی ہے جب کہ روحانیت کے زیرِ اثر تخلیق کار ما بعد الطبیعات اور مافوق الفطرت عناصر میں گہری دلچسپی لینے لگتا ہے۔ دوہا نگاروں کے اسلوب میں ان دونوں کیفیات کا امتزاج دھنک رنگ منظرنامہ پیش کرتا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں دوہا نگاری کے اسلوب میں ایک واضح فرق دکھائی دیتا ہے۔ پاکستانی دوہا نگاروں نے سرسی چھند کو اپنایا ہے جب کہ بھارت میں دوہا چھند کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت میں دوہا لکھنے والے شعرا نے پاکستانی شعرا سے الگ ایک نئی طرز ادا کو اپنایا ہے۔ آزادی کے بعد پاکستان میں جن شعرا نے دوہا نگاری پر توجہ دیتے ہوئے اس صنف شعر کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ان میں سے کچھ ممتاز شعرا کے نام درجِ ذیل ہیں :

احمد حسن مجاہد، الیاس عشقی، الطاف پرواز، امین خیال، بشیر منذر، تاج سعید، تاج قائم خانی، جلال میرزا خانی، جمال پانی پتی، جمیل الدین عالی، جمیل عظیم آبادی، دِل محمد خواجہ، ذکیہ غزل، رشید قیصرانی، رئیس احمد رئیس، شاعر صدیقی، شاہد جمیل، شمیم انجم وارثی، صہبا اختر، صابر آفاقی، طاہر سعید ہارون ڈاکٹر، عبدالعزیز خالد، عرش صدیقی، ع۔ س۔ مسلم، فراز حامدی، قتیل شفائی، کشور ناہید، مشتاق عاجز، مناظر عاشق ہرگانوی، نذیر فتح پوری، وحید قریشی ڈاکٹر ۔

آزادی کے بعد پاکستان میں دوہا نگاری کے فن پر تخلیق کاروں نے زیادہ توجہ نہیں دی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ رہی ہے کہ اکثر شعرا نے غزل کو اظہار و ابلاغ کا موثر ترین وسیلہ سمجھتے ہوئے اسی پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ جن دوہا نگاروں نے لفظ کی حرمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے حرفِ صداقت کو زندگی کی تمام نسبتوں کا اہم ترین حوالہ اور ربطِ باہمی کا موثر ترین وسیلہ سمجھا، اُنھوں نے دوہے کو اجتماعی بھلائی کی ندا کے طور پر اپنے اسلوب میں جگہ دی۔ اُن کی یہ طرزِ فغاں بہت مقبول ہوئی اور پاکستان میں دوہا نگاری نے اب ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت اختیار کر لی ہے۔ آلامِ روزگار کو حرف حرف بیان کرنے والے ان شعرا نے اپنی دوہا نگاری کی دھاک بٹھا دی اور اُن کے دوہوں کے مجموعے شائع ہوئے، جنھیں قارئین کی جانب سے بے حد پذیرائی نصیب ہوئی۔ یہ اِس صنف شاعری کی مقبولیت کی دلیل ہے۔ جِن شعرا کے دوہوں کے مجموعے شائع ہو چُکے ہیں اُن میں خواجہ دِل محمد، جمیل الدین عالی، اِلیاس عشقی، پرتو روہیلہ، جمیل عظیم آبادی، رشید قیصرانی، تاج قائم خانی، طاہر سعید ہارون اور مشتاق عاجز شامل ہیں۔ اُردو زبان میں دوہے کے ارتقا پر تحقیقی کام کا جو معیار ڈاکٹر عرش صدیقی نے پیش کیا اس کے اعجاز سے اس صنف شاعری کو تاریخی تناظر میں دیکھنے میں بہت مدد ملی۔ ڈاکٹر عرش صدیقی کا عالمانہ تحقیقی مقالہ "پاکستان میں اُردو دوہے کا ارتقا”جو ۱۹۹۱میں شائع ہوا ادبی تحقیق کا وقیع نمونہ ہے۔ اس گراں قدر تحقیقی مقالے میں دوہے میں طبع آزمائی کرنے والے اُن تمام ممتاز پاکستانی شعرا کے اسلوب کا مطالعہ شامل کیا گیا ہے جنھوں نے گزشتہ نصف صدی کے عرصے میں اس صنفِ شاعری کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر عرش صدیقی خود بھی دوہے لکھتے تھے اس لیے اس تحقیقی مقالے میں ان کے دوہے بھی شامل ہیں۔ دوہے کے ارتقا سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اس تحقیقی مقالے کا مطالعہ بہت افادیت کا حامل ہے۔ ندا فاضلی کا شمار بھارت میں دوہا نگاری کے ارتقا میں دلچسپی رکھنے والے ممتاز شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کے دوہے قاری کو زندگی کے اسرار و رموز کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔

چڑیا نے اُڑ کر کہا، میرا ہے آکاش

بولا شکرا ڈال سے، یوں ہی ہوتا کاش

لے کے تن کے ناپ کو، گھومے بستی گاؤں

ہر چادر کے گھیر سے باہر نکلے پاؤں

چاقو کاٹے بانس کو، بنسی کھولے بھید

اتنے ہی سُر جانیے، جتنے اس میں چھید

سودا لینے ہاٹ میں، کیسے جائے نار

چاقو لے کے ہاتھ میں، بیٹھا ہے بازار

سب کی پُوجا ایک سی، الگ الگ ہر رِیت

مسجد جائے مولوی، کویل گائے گیت

اچھی سنگت بیٹھ کر سنگی بدلے رُوپ

جیسے مل کر آم سے میٹھی ہو گئی دھُوپ

سیدھا سادہ ڈاکیہ، جادو کرے مہان

ایک ہی تھیلے میں بھرے، آنسو اور مُسکان

سارے دِن بھگوان کے، کیا منگل کیا پِیر

جس دن سوئے دیر تک، بھُو کا رہے فقیر

وہ صوفی کا قول ہو یا پنڈت کا گیان

جتنی بیتے آپ پر، اتنا ہی سچ مان

دُور سمندر پار سے کوئی کرے بیوپار

پہلے بھیجے سر حدیں، پھر بھیجے ہتھیار

بہنیں چڑیاں دھُوپ کی دُور گگن سے آئیں

ہر آنگن مہمان سی پکڑو تو اُڑ جائیں

میں رویا پردیس میں بھیگا ماں کا پیار

دُکھ نے دُکھ سے بات کی بِن چٹھی بِن تار

بوڑھا پیپل گھاٹ کا، بتیائے دِن رات

جو بھی گزرے پاس سے، سر پر رکھ دے ہاتھ

سپنا جھرنا نیند کا:جاگی آنکھیں  پیاس

پانا، کھونا، کھوجنا، سانسوں کا اِتہاس

پنچھی بالک، پھول جل، الگ الگ آکار

ماٹی کا گھر ایک ہی، سارے رشتے دار

بچہ بولا دیکھ کر مسجد عالی شان

اللہ تیرے ایک کو، اتنا بڑا مکان

جادو، ٹونا روز کا، بچوں کا بیوپار

چھوٹی سی اِک گیند میں بھر دیں سب سنسار

ندا فاضلی نے بھارتی فلموں کے لیے گیت بھی لکھے لیکن اس میں مقدار کے بجائے معیار کو پیش نظر رکھا۔ ان کے لکھے ہوئے گیت فلمی صنعت میں بہت مقبول ہوئے۔ جگجیت سنگھ کا گایا ہوا ان کا یہ گیت آج بھی شائقین فلم کے دل کی دھڑکن سے ہم آہنگ ہو کر ان پر وجدانی کیفیت طاری کر دیتا ہے :

ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے

عشق کیجیے پھر سمجھیے زندگی کیا چیز ہے

اُن سے نظریں کیا ملیں روشن فضائیں ہو گئیں

آج جانا پیار کی جادو گری کیا چیز ہے

تمام اصناف شاعری میں ندا فاضلی کی گل افشانیِ گفتار کے سوتے بر صغیر کی تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت کی صدیوں پُرانی اقدار و روایات سے پھُوٹتے ہیں۔ وہ ان اقدار و روایات کی اساس پر اپنے افکار کا قصر عالی شان تعمیر کرتے ہیں۔ یہی اقدار و روایات ان کی تخلیقی فعالیت کو مہمیز کر کے اس کی اثر آفرینی کو چار چاند لگا دیتی ہیں۔ ان کی قوت ارادی اور زورِ استدلا ل کے پس پردہ یہی اقدار و روایات کا فرما ہیں۔ ان کے تخیل کی جولانیاں زمانہ حال کے مدار تک محدود نہیں رہتیں بل کہ وہ ماضی بعیدسے بھی اپنا معتبر ربط پیدا کر لیتے ہیں۔ تخلیقِ فن کے لمحوں میں وہ میر و سودا، غالب و مومن، آتش و ناسخ کے دور سے اکتساب پر اکتفا نہیں کرتے بل کہ وہ امیر خسرو، تلسی داس، رحیم، کبیر اور میرا بائی کے دور سے بھی فیض یاب ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ ماہیا پنجابی شاعری کی بے حد مقبول صنف ہے۔ اس صنف میں تخلیق کار موضوع اور مواد کے لیے ارضی و ثقافتی عوامل پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ ندا فاضلی کے ماہیے پیمانِ وفا، خلوص و درد مندی، ہجر و فراق، ایثار و انتظار کی پر سوز کیفیات کے امین ہیں۔ یہ ماہیے معاشرتی زندگی میں افراد کے جبلی جذبات کا مکمل احاطہ کرتے ہیں۔

پاگل ہے مراقی ہے

مردہ ہے نہ زندہ

یہ بچہ عراقی ہے

 

بے نام سا مرقد ہے

مٹی ہوئی مٹی

اب جنگ نہ سر حد ہے

چھجے پہ کبوتر ہے

دھوپ میں ہے قاصد

حجرے میں قلندر ہے

 

نالے میں لگی چابی

بھیا کی تھالی میں

گُڑ رکھنے لگی بھابی

 

سُر بنسی کا لہرایا

رادھا کی گاگر میں

پھر چاند اُتر آیا

اردو میں سوانح کی اساس پر ناول لکھنے کا اسلوب ادب میں تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند قریۂ جاں کو معطر کرنے وسیلہ ثابت ہوتا ہے۔ "کارِ جہاں دراز ہے ” کی اشاعت کے بعد ندا فاضلی نے ” دیواروں کے بیچ” اور "دیواروں سے باہر” جیسے آپ بیتی کا رنگ لیے سوانحی ناول لکھ کر اردو ادب کی ثروت میں اضافہ کیا۔ عبداللہ حسین نے اپنے ناول "باگھ” میں تجریدیت کو زاد راہ بنایا ہے جب کہ ندا فاضلی نے اپنے سوانحی ناولوں میں تجسیم کو مرکز نگاہ سمجھا ہے۔ ندا فاضلی کے اسلوب میں ان کی فراخ حوصلگی، وسیع النظری اور عالی ظرفی قاری کو ایک نئے آہنگ سے متعارف کراتی ہے۔ ایک جری تخلیق کار کی حیثیت سے وہ کسی مصلحت کی پروا نہیں کرتے اور نہ ہی الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا ان کا شیوہ ہے۔ اپنی ذات کے نہاں پہلو عیاں کرنے کے لیے بڑے ظرف اور قوی دِل گُردے کی احتیاج ہے۔ ندا فاضلی نے اپنی ذات کو منکشف کرتے وقت کبھی پارسائی اور تقدس کا جامہ زیب تن کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ان کی فکری پرواز محض دیواروں کے بیچ نہیں رہتی بل کہ اس عالمِ آب و گِل کے تمام مسائل پر بے لاگ انداز میں اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھانے میں وہ جس انہماک کا ثبوت دیتے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اپنی سوانحی تصنیف” دیواروں کے بیچ”میں ندا فاضلی نے گوالیار کا ذکر بہت محبت سے کیا ہے۔ دہلی سے 319کلو میٹر جنوب اور آگرہ سے 118کلو میٹر کے فاصلے پر واقع مدھیہ پردیش کا یہ قدیم شہر جو راجا سراج سین نے آٹھویں صدی عیسوی میں اپنے ایک معالجہ ہرمیت سینٹ گوالیپا کی یاد میں بسایا۔ یہ شہر اپنے تاریخی قلعے کی وجہ سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ ندا فاضلی نے گوالیار کی نہایت دلچسپ لفظی مرقع نگاری کی ہے مگر عہد اکبری کے نامور موسیقار تان سین کا ذکر کرنا وہ بھول گئے۔ جب تان سین کا فتح پور سیکری میں انتقال ہوا تو اس کی راکھ کو گوالیار کے ایک مرقد میں ٹھکانے لگایا گیا جہاں سال 1930سے ہر برس تان سین جشن کا انعقاد ہوتا ہے۔

ندا فاضلی کی تصانیف ” دیواروں کے بیچ” اور "دیواروں کے باہر ” کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ان میں مرکزی کردار خود ندا فاضلی ہیں۔ ان کی ذات کو تمام اہم واقعات کے محور کی حیثیت حاصل ہے۔ کئی مقامات پر ندا فاضلی نے اپنی نظموں کو نثر سے مربوط کرنے کی سعی کی ہے۔ بعض قارئین کا خیال ہے کہ نثر کے بیانیہ میں اچانک نظم کی پیوند کاری سے جہاں تسلسل بر قرار نہیں رہتا وہاں نظم و نثر کا یہ امتزاج اصناف ادب کے مزاج سے بھی مطابقت نہیں رکھتا۔ ندا فاضلی کی تصنیف "دیواروں کے بیچ” کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ تمام باتیں بے وقت کی راگنی ثابت ہوتی ہیں۔ ندا فاضلی کو خود نمائی سے کوئی دلچسپی نہیں بل کہ وہ اپنی شخصیت کے عیوب کو بھی بر ملا بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ ندا فاضلی نے اپنی زندگی کے نشیب و فراز جس صداقت اور صراحت سے بیان کیے ہیں وہ اردو ادب میں اپنی مثال آپ ہیں۔ جس طرح یہ نا تمام کائنات پیہم اپنے سر بستہ راز منکشف کر رہی ہے اسی طرح شخصیت کے اوراقِ ناخواندہ کے اسرار و رموز بھی ہمیشہ توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ ندا فاضلی نے اپنی شخصیت کا حقیقی روپ قارئین کے سامنے پیش کرنے میں کوئی تامل نہیں کیا۔ اپنے رہن سہن، ماحول، خاندانی پس منظر، اپنی ذات اور اپنی اوقات کے بارے میں انھوں نے جس جرأت، بے باکی اور سچائی سے قلم اُٹھایا ہے، وہ ان کی عالی ظرفی کی دلیل ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اندر ایک محتسب موجود ہے جو تلوار تھامے انھیں عدل و انصاف اور توازن سے کام لیتے ہوئے اپنی شخصیت کے راز ہائے سر بستہ کی گرہ کشائی پر آمادہ کرتا ہے۔ اپنی آپ بیتی میں انھوں نے جس بے باکی اور بے رحمی سے اپنی شخصیت کا اصلی روپ پیش کیا ہے وہ اردو ادب میں ایسا قوی تجربہ ہے جس میں کوئی ان کا شریک وسہیم نہیں۔ بے دردی کی مظہر حقیقت نگاری کی اساس پرایسا جارحانہ انداز اپنا کر اپنے اسلوب کو گہری معنویت کا حامل بنانا اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں۔ ندا فاضلی کا اپنی ذاتی زندگی کے پوشیدہ پہلو سامنے لانے کا ایک انداز قابل غور ہے :

"انہی دنوں میں اس(ندا)کی ملاقات بیر کمار کی طوائف شیلا سے ہوتی ہے، بیر کمار کا کچھ دن سوگ منانے کے بعد اب وہ مستقل طور پر کوٹھے پر بیٹھنے لگی ہے۔ اس کے ہاتھ پاؤں میں سونے چاندی کے گہنے اور چہرے پر خوشحالی کی چمک ہے۔ شیلا اپنے مرحوم عاشق کو اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی بھول نہیں پائی ہے۔ وہ جب بھی ندا کے ساتھ ہوتی ہے پرانی یادوں سے آنکھیں ضرور بھگوتی ہے ان یادوں کے سہارے وہ اکثرجسمانی دوریوں کو عبور کرنے کے لیے مجبور ہو جاتے ہیں۔ وہ پیشہ ور ہونے کے باوجود ان مشترک یادوں کے احترام میں ندا سے فیس نہیں لیتی۔ وہ جب پیسے دینے پر اصرار کرتا ہے تو شیلا سنجیدگی سے صرف اتنا کہتی ہے "تم میرے دوست ہو۔ وہ (بیر کمار)تمھیں بہت چاہتا تھا، میرے تمھارے بیچ گاہکی کیسے ہو گی، گھر کے لوگوں سے بھی کوئی لین دین کرتا ہے۔ ۔ ۔ ؟”

قیام پاکستان کے وقت ندا فاضلی کا پورا خاندان ہجرت کر کے کراچی منتقل ہو گیا لیکن ندا فاضلی نے تنہا ممبئی میں قیام کا فیصلہ کیا۔ جب ان کے والد کا کراچی میں انتقال ہوا تو دونوں ہمسایہ ملکوں میں سرحدی کشیدگی کے باعث وہ اپنے والد کے جنازے میں شامل نہ ہو سکے۔ اس سانحہ کو انھوں نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے :

والد کی وفات پر (نظم)

تمھاری قبر پر

میں فاتحہ پڑھنے نہیں آیا

مجھے معلوم تھا

تم مر نہیں سکتے

تمھاری موت کی سچی خبر جس نے اُڑائی تھی

وہ جھُوٹا تھا

وہ تم کب تھے

کوئی سُوکھا ہوا پتہ ہوا سے ہِل کے ٹوٹا تھا

مری آنکھیں

تمھارے منظروں میں قید ہیں اب تک

میں جو بھی دیکھتا ہوں

سوچتا ہوں

وہ۔ ۔ ۔ ۔ وہی ہے

جو تمھاری نیک نامی اور بد نامی کی دنیا تھی

کہیں کچھ بھی نہیں بدلا

تمھارے ہاتھ

میری انگلیوں میں سانس لیتے ہیں

میں لکھنے کے لیے

جب بھی قلم کاغذ اُٹھاتا ہوں

تمھیں بیٹھا ہوا میں اپنی ہی کرسی میں پاتا ہوں

بدن میں میرے جتنا بھی لہو ہے

وہ تمھاری

لغزشوں، ناکامیوں کے ساتھ بہتا ہے

مری آواز میں چھپ کر

تمھارا ذہن رہتا ہے

مری بیماریوں میں تم

مری لا چاریوں میں تم

تمھاری قبر پر جس نے تمھارا نام لکھا ہے

وہ جھُوٹا ہے

تمھاری قبر میں مَیں دفن ہوں

تم مجھ میں زندہ ہو

کبھی فُرصت ملے تو فاتحہ پڑھنے چلے آنا

ندا فاضلی اپنے احباب سے رشتۂ دِ ل استوار کر کے زندگی بھر محبتوں کے گل ہائے رنگ رنگ کھلاتے رہے لیکن ہوائے دشت فنا کے مسموم بگولے سب پھولوں کو اُڑ ا لے گئے۔ ندا فاضلی کے نہ ہونے کی ہونی دیکھ کر ہر دِل سوگوار اور ہر آنکھ اشک بار ہے۔ الوداع ندا فاضلی !الوداع! اس وقت دنیا بھر میں لاکھوں لوگ تمھاری مغفرت کی دعا مانگ رہے ہیں اور فاتحہ خوانی میں مصروف ہیں۔ رنج و غم سے جاں بہ لب تمھارے مداح تمھیں یاد کر کے یہی کہہ رہے ہیں :

تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے