ناصر کاظمی ایک مجتہد العصر شاعر ۔۔۔ ڈاکٹر انور سدید

 

 

ہندوستان میں اردو کے ممتاز نقاد ڈاکٹر وہاب اشرفی "اردو ادب کی تاریخ” لکھ رہے تھے اور جب ناصر کاظمی کی شاعری پر اظہار رائے دینے کا مرحلہ آیا تو انہوں نے سوال کیا "ناصر کاظمی کا امتیاز کیا ہے؟” اس کا جواب انہوں نے ناصر کاظمی کی شاعری کے تناظر سے اخذ کیا اور لکھا…. "اسلوب کو اس حد تک شگفتہ بنانا کہ ذہن مکدر نہ ہو اور تصور آئینہ بن جائے…. ان کا دوسرا امتیاز عشق و محبت کو نئی سمت دینے کا ہے یعنی روایت کے ساتھ جدت کا پہلو اور جدت کا یہ پہلو نادر تشبیہہ اور استعارے کی دین نہیں بلکہ عمومی سطح پر لفظوں کو برت کر ایک نیا طور پیدا کرنا ہے

"….ڈاکٹر وہاب اشرفی سے بہت پہلے پاکستان میں ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنی معرکہ آرا کتاب "اردو شاعری کا مزاج” میں اردو غزل کی برصغیر ہند میں افزائش و فروغ کو اس خطے میں تہذیبوں کے تصادم اور انضمام کے تناظر میں دیکھا تو ناصر کاظمی کو ایک ایسا غزل نگار قرار دیا جس کی غزل کا مزاج سابقہ ادوار کی غزل سے مختلف تھا۔ ناصر کاظمی کی غزل نے ایک بار پھر خود کو زمانے کی آواز بنا کر پیش کیا اور ایسا علامتی انداز اختیار کیا جو اردگرد کی اشیائی، مظاہر اور علائم کا ترجمان بھی تھا اور عکاس بھی اور خوبی کی بات یہ کہ ناصر کاظمی کی غزل نے ایرانی علائم و رموز میں ظاہر ہونے کی بجائے اپنا بندھن گرد و پیش کے ماحول کے ساتھ باندھا اور نہ صرف ایرانی گلشن سے نجات حاصل کر لی بلکہ اس زمین کی باس کو بھی غزل میں سمو لیا جو شاعر کے پاؤں سے مس کر رہی تھی۔ غزل کے قدیم روایتی پیکر میں یہ نئے انداز کی غزل تھی جس کی قبولیت کا دائرہ سلسلہ در سلسلہ پھیلتا چلا گیا اور اس کے اثرات اس خطے کے شعرا نے بھی قبول کئے جسے آزادی کی لگن میں ناصر کاظمی واہگہ کی دوسری طرف چھوڑ آئے تھے۔

ڈاکٹر وزیر آغا نے اس پورے عہد کو جو 1947ء سے 1965ء تک پھیلا ہوا ہے ناصر کاظمی کے نام انتساب کیا ہے چنانچہ ہندوستان کے ایک اور عظیم نقاد جناب شمس الرحمن فاروقی نے اپنے تحفظات کے ساتھ تسلیم کیا:

"وہ (ناصر کاظمی) فراق اور فیض وغیرہ سے بہت مختلف آدمی ہیں، اس کی دلیل ان کا عشقیہ رویہ ہے۔ جو زمانے کے اور غموں کو خاطر میں نہیں لاتا۔ نکتہ یہ ہے کہ عشقیہ شاعری ہونے کے باوجود ان کی شاعری متروک (Archaic) نہیں ہے کیونکہ انہوں نے طرح طرح سے اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ صرف اپنی طرف سے بول رہے ہیں”۔

ان آرا کی روشنی میں یہ کہنا درست ہے کہ ناصر کاظمی ایک مجتہد العصر شاعر تھے جنہوں نے نہ صرف اپنی انفرادیت قائم کی بلکہ اپنی غزل میں وہ خوشبو بھی پیدا کی جو گملے تک محدود نہیں رہتی بلکہ دیوارِ چمن عبور کر جاتی ہے۔ گمان غالب یہ ہے کہ ناصر کاظمی کی غزل میں یہ خمیر اس وقت پیدا ہونا شروع ہو گیا تھا جب وہ اپنی جنم بھومی انبالہ سے حصولِ تعلیم کے لئے لاہور آئے۔ آزادی کے ہنگام کو دیکھا جو اپنے ساتھ صد ہا اقسام کے آلام لایا تھا اور سامنے مظاہر مناظر آگ اور خون میں لپٹے ہوئے تھے۔ رقصِ شیطان نے جو ہر طرف جاری تھا پورے ماحول کو خوں رنگ بنا دیا تھا اور پھر ناصر کاظمی جیسے حساس شاعر کے ہاں غزل کا ایسا پیکر تعمیر ہونے لگا جو سابقہ ادوار کی غزل سے مختلف تھا اور اس غزل سے ناصر کاظمی واحد متکلم میں بات کر رہا تھا

 

تو جو اتنا اداس ہے ناصر

تجھے کیا ہو گیا بتا تو سہی

 

چہکتے بولتے شہروں کو کیا ہوا ناصر

کہ دن کو بھی مرے گھر میں وہی اداسی ہے

 

تو شریکِ سخن نہیں ہے تو کیا

ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی

 

ناصر کاظمی 8 دسمبر 1925ء کو انبالہ شہر میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد محمد سلطان کاظمی سرکاری ملازم تھے۔ اس لئے ناصر کاظمی کا بچپن کئی شہروں میں گزرا اور ہر شہر نے ان کے مزاج پر الگ اثر ڈالا۔ میٹرک مسلم ہائی سکول انبالہ سے کیا اور مزید تعلیم کے لئے اسلامیہ کالج لاہور آ گئے۔ میں نے اسی کالج میں اپریل 1944ء میں داخلہ لیا تو معلوم ہوا کہ ناصر کاظمی اس دور کے مشہور شعراء عابد علی عابد، محمد دین تاثیر، اختر شیرانی، حفیظ جالندھری، عبدالمجید سالک اور حفیظ ہوشیار پوری جیسے شعراء کے ساتھ مشاعرے پڑھ چکے تھے۔ اس وقت ان کا یہ شعر زبان زدِ خاص و عام تھا

 

اے دوست ہم نے ترکِ محبت کے باوجود

محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی

 

ناصر کاظمی اقبال ہوسٹل میں رہتے تھے اور اتنے اہم تھے کہ رفیق خاور جیسے اساتذہ ان کو ملنے کے لئے اقبال ہوسٹل میں جاتے اور ان کے کمرے میں شعر و شاعری کی اور بحث و مباحثہ کی محفل گرم کرتے۔ ان کی شاعری خوب پروان چڑھ رہی تھی اور ان کا مطالعہ نصابی کتب سے آگے نکل گیا تھا لیکن نامساعد حالات کی وجہ سے بی اے نہ کر سکے۔ آزادی کے بعد ان کا خاندان لاہور آ گیا۔ ان کے خاندان کی اس دور کی عسرت ہجرت کا اثاثہ تھی، جسے خندہ پیشانی سے قبول تو کیا گیا لیکن منفی اثرات بھی جلد ہی ظاہر ہونے لگے۔ پہلے والد فوت ہوئے، پھر والدہ بھی چل بسیں۔ اس دور میں ناصر کاظمی نے قلم قرطاس کو اپنی معاش کا وسیلہ بنایا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ شاعر کی حیثیت میں معاشرے میں اپنا مقام بنا چکے تھے۔

ادبی رسالہ "اوراق نو” کی ادارت کے فرائض انجام دیے۔ 1952ء میں رسالہ "ہمایوں” کی ادارت سے مظہر انصاری دہلوی دست کش ہوئے تو میاں بشیر احمد نے "ہمایوں” کی ادارت ناصر کاظمی کے سپرد کر دی ا ور 1957ء میں "ہمایوں” بند کر دیا گیا تو ناصر کاظمی محکمہ دیہات سدھار میں چلے گئے لیکن یہ ملازمت ان کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں تھی چنانچہ زندگی کے آخری آٹھ برس ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ 2 مارچ 1972ء کو فوت ہوئے تو انتظار حسین نے "مشرق” میں تعزیت نامہ لکھا:

"اوپر کبوتر چکر کاٹ رہے تھے اور نیچے میت سج رہی تھی، میت اٹھنے کا وقت جوں جوں قریب آتا جاتا تھا، کبوتروں کی پرواز میں اضطراب پیدا ہوتا جاتا تھا۔ ناصر کاظمی کی میت کبوتروں کے سائے میں گھر سے نکلی”

ٹی ہاؤس کے باہر ایک تعزیتی نوٹس چسپاں تھا جس پر ناصر کا یہ شعر لکھا تھا

 

وہ ہجر کی رات کا ستارہ، وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا

سدا رہے اس کا نام پیارا، سنا ہے کل رات مر گیا وہ

 

ناصر کاظم نے بیسویں صدی میں ایک سچے تخلیق کار کی زندگی گزاری۔ ممتاز مفتی کی زبان میں وہ نہ صرف شاعر تھے بلکہ شاعر دِکھتے بھی تھے اور ایک گہری سوچ ان کے چہرے پر ہر وقت عیاں رہتی تھی۔ شعر کہنا ان کی فطرت میں شامل تھا اور ان کے مضامین اگرچہ زمینی احساس کی آئینہ داری کرتے تھے لیکن یہ اترتے غیب سے تھے جو سننے والے کو عالمِ تحیّر میں لے جاتے۔

ان کا پہلا مجموعہ "برگِ نے” 1952ء میں چھپا اور اس کی غزلوں کی صدائے بازگشت دور دور تک سنی جاتی رہی، نئے لکھنے والوں نے "برگِ نے” سے رہنمائی حاصل کی۔ وجہ یہ کہ ناصر کاظمی نے بقول خود "اس باؤلے کا بھیس بنا رکھا تھا جو ہر گاؤں کے گرد چکر کاٹتا ہے اور آنے والے حادثوں کی خبر دیتا ہے”

 

شور برپا ہے خانۂ دل میں

کوئی دیوار سی گری ہے ابھی

 

کیوں ٹھہر جاتے ہیں دریا سرِشام

روح کے تار ہلا، غور سے سُن

 

کیا سے کیا ہو گئی دنیا پیارے

تو وہیں پر ہے، جہاں تھا پہلے

 

شہر اجڑے تو کیا، ہے کشادہ زمین خدا

اک نیا گھر، بنائیں گے ہم، صبر کر، صبر کر

 

اس شہرِ بے چرغ میں جائے گی تو کہاں

آ اے شبِ فراق! تجھے گھر ہی لے چلیں

 

"دیوان” اور "پہلی بارش” ناصر کاظمی کی غزلوں کے اور "نشاطِ خواب” نظموں کا مجموعہ ہے۔ "سر کی چھایا” منظوم ڈرامے کی کتاب ہے۔ نثر کے مضامین”خشک چشمے کے کنارے” کے نام سے چھپ چکے ہیں۔

ناصر کاظمی کی مطبوعہ ڈائری ان کی شخصیت کو سمجھنے میں بڑی معاونت کرتی۔ میر تقی میر، نظیر اکبر آبادی، انشاءاللہ خان انشاء اور ولی دکنی کی شاعری کے انتخابی مجموعے ناصر کاظمی کے مطالعے کے آئینہ دار ہیں تو یہ اس کے اعلیٰ شعری ذوق کی نشاندہی بھی کرتے ہیں اور یہ کہنا بھی مناسب ہے کہ کلاسیکی شعرا کے یہ دیوان ہی ناصر کاظمی کی شاعری کا عقبی دیار تھا جسکی آرائش انہوں نے فطرت کے عطا کئے ہوئے حسنِ ذوق سے ہے اور اپنی انفرادیت کا وہ چراغ جلایا جو ان کی وفات کے بعد زیادہ روشنی تقسیم کر رہا ہے لیکن کڑی دھوپ کا یہ مسافر جس نے سر پر خیالِ یار کی چادر اوڑھ رکھی ہے اب ہمیں نظر نہیں آتا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے