فلسطینی بچے کی فریاد ۔۔۔ سلمیٰ جیلانی

دنیا کے دوسرے بچوں کی طرح

اسکول کے میدان میں کھیلنا

لائبریری میں کتاب پڑھنا

میرے مقدر میں نہیں

کیونکہ میں غزہ میں پیدا ہوا

اچھی زندگی کیا ہوتی ہے

میں نہیں جانتا

ہم پتھروں سے کھیلتے ہیں

بدلے میں گولیاں کھاتے ہیں جو بچ جائیں تو

فوجی عدالتوں سے سزا پاتے رہتے ہیں

ایک پتلی سی لکیر جیسا وطن ہے میرا

یہاں تابوت سکینہ دفن ہے

انبیاء کی میراث

سکوں بخش اور فرحت آمیز

مگر اس کے سائے میں میرے لئے

بادلوں سے پانی نہیں

بارود برستا ہے

آسماں والے تک

میری فریاد پہنچتی نہیں

گو قبلہ اول کا رکھوالا ہوں

انبیاء کی اصل میراث ہوں

مگر میرے اطراف ملبے کے ڈھیر ہیں

جہاں سب کچھ جل کر راکھ ہو گیا

میرے ان دیکھے خواب بھی

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے