ڈاکٹر امام اعظم کے مونوگراف ’مظہر امام‘ کا اجمالی جائزہ ۔۔۔ ڈاکٹر مظفر نازنین

ڈاکٹر امام اعظم (ریجنل ڈائریکٹر ، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ، کولکاتا ریجنل سینٹر) شاعر، ادیب اور صحافی ہیں۔ ان کی کتاب ’’گیسوئے تحریر‘‘ دراصل ان کی شخصیت کی آئینہ دار ہے۔ 192 صفحات پر مشتمل اس کتاب ’‘‘گیسوئے تحریر‘‘ کی اشاعت 2012ء میں ہوئی۔ یہ کتاب 39 نادر و نایاب ادبی مضامین کا مجموعہ ہے ۔ ڈاکٹر امام اعظم نے اس کتاب کو ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کے نام سے منسوب کیا ہے جو وزیر تعلیم کے ساتھ ہی ساتھ ممتاز انشاپرداز ، صحافی، مدیر، دانشور، ماہر تعلیم اور سیاسی قائد کے ساتھ بھارت رتن بھی تھے۔ کتاب کو انتساب کرتے ہوئے یہ قطعہ لکھتے ہیں:

علم و دانش کے تھے پیکر مولانا آزاد

ابھرے جید عالم بن کر مولانا آزاد

اپنے سینے میں رکھتے تھے وہ دنیا کا علم

کوئی نہیں تھا آپ کا ہمسر مولانا آزاد

بقول پروفیسر مجید بیدار (حیدر آباد) ’’امام اعظم اپنے مطالعات کو کم لفظوں میں بیان کرنے پر قادر ہیں۔‘‘ صفحہ 21 پر اپنے پیش لفظ ’’کچھ کہنا نہیں…!‘‘ میں ڈاکٹر امام اعظم ذاتی معلومات فراہم کرتے ہیں کہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے ریجنل ڈائرکٹر دربھنگہ کی حیثیت سے ان کی تقرری 4 جولائی 2005ء کو ہوئی۔ اس سے قبل وہ بہار اسٹیٹ یونیورسٹی سروس کمیشن کے ذریعہ منتخب ہو کر 5 نومبر 1996ء سے آر این کالج پنڈول میں لکچرار کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ ان مشغولیات کے باوجود زبان و ادب کی خدمت کا جنون ان کے سر میں سمایا ہوا تھا جس نے انہیں ہمیشہ تیز گام رکھا۔ اس کتاب میں کئی ادبی مضامین ہیں جن میں بطورِ خاص ’’مولانا آزاد اور جنگ آزادی‘‘، ’’اردو کی ترقی میں سرکاری نیم سرکاری اور رضاکار تنظیموں کا کردار‘‘، ’’ اردو زبان مسائل اور حل‘‘، ’’متھلا کا ادبی و ثقافتی منظرنامہ‘‘، ’’1857ء کا صحافتی رجحان‘‘ ، ’’فاصلاتی تعلیم: ادھورے خواب کی تعبیر کا زرّیں وسیلہ‘‘ ،’’شمع: ادبی اوصاف سے مزین فلمی جریدہ ‘‘قابل ذکر ہیں۔

اسی پیش لفظ میں صفحہ 23 پر موصوف ناقد کی تعریف بڑے ہی خوبصورت انداز میں کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’اگر تنقید نگار کسی فن پارے یا تخلیق ذکی سچی قدر و قیمت متعین نہیں کرتا تو یہ ادبی جرم ہے۔ عام طور پر تخلیق کار سے تنقید نگار کی یہ توقع رہتی ہے کہ وہ اس کی تحریر کی تعریف و توصیف کرے اور اس کی دکھتی رگوں پر انگلی نہ رکھے۔‘‘ بلاشبہ یہ کھلی حقیقت کا اعتراف ہے۔

ایک دوسرے مضمون بعنوان ’’مولانا آزاد اور جنگ آزادی‘‘ کے عنوان سے ہے جہاں وہ لکھتے ہیں: ’’…ان کا ماننا تھا کہ ہندوستان ایک قدیم تہذیبی گہوارہ ہے جسے یہاں کے تمام باشندوں نے مل کر سینچا اور سنوارا ہے۔ اس لئے یہ ملک انگریزوں کی غلامی برداشت نہیں کر سکتا۔ مسلمان وطن پرستی کے جذبہ سے سرشار تھے…۔‘‘

بلاشبہ مسلمانوں کا ذہن حب الوطنی کے جذبے سے سرشار تھا اور آج بھی ہے۔ ان میں قومیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے اور مر کر بھی اس زمین میں پیوند خاک ہونا چاہتا ہے۔ بقول شاعر:

وہ رنگ اب کہاں ہے نسرین و نسترن میں

رکھ دے ذرا سی کوئی خاکِ وطن کفن میں

صفحہ 28 پر ڈاکٹر امام اعظم آخری پیراگراف میں مولانا آزاد کے تناظر سے یوں رقم طراز ہیں: ’’…مولانا آج کے تناظر میں جب بھی دیکھے جائیں گے تو وہ ہندو اور مسلمان کی حیثیت سے نہیں دیکھے جائیں گے بلکہ آزادی کے علمبرداروں کی طرح ان کا جائزہ لیا جائے گا۔ کیونکہ برصغیر مشترکہ تہذیب کا گہوارہ تھا…۔‘‘ انہوں نے ہندوستان میں کثرت میں وحدت کا اظہار کیا ہے۔ آج ہندوستان میں مختلف نسل، زبان اور تہذیب کے رہنے والے لوگ ہیں۔ اس کے باوجود یہاں اختلاف میں اتحاد Unity in the midst of diversity برقرار ہے اور یہی وطن عزیز ہندوستان کی شان ہے۔ آج بھی ہندوستان میں دیش واسیوں کا ذہن حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہے۔ بقول شاعر:

چشتیؒ نے جس زمیں پر پیغام حق سنایا

نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا

تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا

میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے

ڈاکٹر امام اعظم نے اپنی اس کتاب میں چند ایسی علمی اور ادبی شخصیات سے متعارف کرایا ہے‘ بلاشبہ جن کا تعلق مختلف شعبہ ہائے حیات سے ہے۔ اور اس کے باوجود جنہوں نے اردو ادب اور شاعری کی بے لوث خدمت کی ہے جو بلاشبہ اردو ادب کے سرمائے میں گراں قدر اضافہ ہے ساتھ ہی اردو طلباء و طالبات کے لئے ذہنی تشنگی کی تسکین کا ذریعہ بھی ہے جن میں ڈاکٹر سیّد تقی عابدی، حفیظ بنارسی، انور سدید کے نام قابل ذکر ہیں۔

صفحہ 55 میں ڈاکٹر سید تقی عابدی:’’ اقبال اور غالب کے مخفی گوشے‘‘ کے عنوان سے پہلے جملے میں یوں رقمطراز ہیں ’’ ڈاکٹر سید تقی عابدی اردو کے معروف و معتبر شاعر، نقاد، محقق اور دانشور ہیں۔ ان کی کئی معرکۃ الآرا کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں اور داد تحسین وصول کر رہی ہیں۔ پیشہ سے ماہر امراض قلب لیکن تحقیق سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں…۔‘‘ یعنی ایک ایسی شخصیت سے روشناس کرایا ہے جو Cardiologist ہیں۔ اس کے باوجود اردو کے بہترین محقق و ناقد ہیں۔

صفحہ 88 پر امام اعظم صاحب کا ایک مضمون بعنوان ’’انور سدید کا سلف لٹریری زون‘‘ ہے جہاں کہتے ہیں کہ ’’ڈاکٹر انور سدید نے بہت لکھا ہے۔ تنقید، انشائیہ، غزلیں، نظمیں، طنز و مزاح، تبصرے اور خاکے وغیرہ پر ان کے بیش بہا مضامین اور کتابیں ہیں …حالانکہ پیشے کے اعتبار سے وہ انجینئر رہے اور جب ملازمت میں آگئے تب انہوں نے سائنس کی بجائے بی اے کیا… پھر انہوں نے ایم اے ، پھر پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ ‘‘

اسی طرح صفحہ 69 پر پروفیسر حفیظ بنارسی کو متعارف کراتے ہوئے ڈاکٹر امام اعظم صاحب کہتے ہیں کہ ’’…آپ مہاراجہ کالج آرہ میں انگریزی کے پروفیسر تھے لیکن آپ کا لگاؤ اردو سے گہرا تھا۔‘‘

کل ملا کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر امام اعظم نے اپنے اس کتاب کے حوالے سے ان عظیم شخصیات کی حیات، فن اور کارنامے کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق اردو سے نہ ہونے کے باوجود ان کے گرانقدر خدمات موجود ہیں۔ اس ضمن میں ڈاکٹر امام اعظم کی کتاب کسی دُرِّ نایاب سے کم نہیں۔ ان کی اس کتاب ’’گیسوئے تحریر‘‘ کو پڑھ کر جہاں قاری بحرِ علم سے سیراب ہوتا ہے ‘ذہنی تسکین کا ذریعہ ہے تو ایسی اہم شخصیات کے فن اور کارناموں سے بھی روشناس ہوتا ہے جو ایک نشست میں ایک جگہ مل جاتی ہیں۔ اردو ادب میں اس معیار کی کتابیں کمیاب تو کیا نایاب ہی کہی جاسکتی ہیں۔ بلاشبہ ڈاکٹر امام اعظم کی یہ شاہکار تخلیق اردو ادب کے سرمائے میں گرانقدر اضافہ ہے۔

بلاشبہ وطن عزیز ہندوستان میں بہت پوشیدہ صلاحیتیں ہیں جنھیں اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ پوشیدہ صلاحیتیں وہ talent جو ناموافق حالات، ناسازگار ماحول ، نامساعد وسائل کے بنا پر ابھرتی ہیں اور منظر عام پر نہیں آتی ہیں بلکہ یونہی خوابیدہ حالت میں پڑی رہتی ہیں۔ اس ضمن میں آج جہاں تعلیمی نظام education system دراصل Commercialised ہے اور ایک متوسط یا غریب طالب علم talent یعنی ذہانت اور فطانت کے باوجود اپنی صلاحیتوں کو منظر عام پر لا نہیں سکتا ہے۔ ان کے اور ان کے والدین کے ادھورے خواب کی تکمیل کے لئے فاصلاتی تعلیم ایک بہترین ذریعہ ہے۔ جن میں اگنو (IGNOU-Indira Gandhi National Open University) کا نیٹ ورک بہت وسیع ہے جو کافی مقبولیت اور افادیت کا حامل ہے۔ اس کے علاوہ ISRO-Indian Space Research Organisation کی سرپرستی میں EDUSTAT (سیٹیلائٹ) کام کر رہا ہے جو تعلیمی مواد کی فراہمی کے لئے مکمل طور پر dedicated channel ہے۔

صفحہ 138 پر ایک مضمون ’’متھلا کا ادبی اور ثقافتی منظرنامہ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ ڈاکٹر امام اعظم صاحب کا تعلق متھلا کی سرزمین سے ہے اور جو انسان جہاں پیدا ہوتا ہے اس کی خاک سے اس سرزمین سے اسے محبت، انسیت، رغبت ہوتی ہے۔ بقول شاعر:

اہل وطن سے پوچھو تم خوبیاں وطن کی

بلبل ہی جانتی ہے آزادیاں چمن کی

بلاشبہ ڈاکٹر امام اعظم کو بھی اپنے آبائی وطن سے خاصی رغبت ہے۔ متھلا کی سرزمین علم و فن کا گہوارہ ہے۔ تعلیم و تہذیب کا مرکز ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے اس مضمون کو پڑھنے سے متھلا کی زبان، تہذیب، کلچر کے ساتھ ہی یہاں کے جغرافیہ اور تاریخ کا بخوبی پتہ چلتا ہے اور یہ وہ سرزمین ہے جو امن و شانتی کا گہوارہ ہے۔ یہاں کے باقیات سے عہد وسطیٰ کی تاریخ کا پتہ چلتا ہے۔ بقول چکبست:

سب سور بیر اپنے اس خاک میں نہاں ہیں

ٹوٹے ہوئے کھنڈر ہیں یا ان کی ہڈیاں ہیں

یہاں پرانے کھنڈرات عہد ماضی کی یاد دلاتے ہیں۔ اور مضمون کے آخر میں امام اعظم اس قطعے کو رقم کرتے ہیں:

ودیاپتی کے شعر و سخن کا نہیں جواب

اردو زبان پھیلی یہاں مثل آفتاب

آسی۱؎، امام۲؎ اور مجاہد۳؎ کا یہ وطن

دربھنگہ ’ایک شہر ہے عالم میں انتخاب‘

اب بھی زبانِ اردو کے خدّام ہیں یہاں

اس واسطے زمین ہے متھلا کی دلنشیں

یوں تو زبان میتھلی چلتی گلی گلی

لیکن زبان زد رہی اردو کی شاعری

کتاب کے آخری صفحے پر پروفیسر وہاب اشرفی صاحب کے تاثر ہیں۔ ڈاکٹر امام اعظم کے لئے جہاں وہاب اشرفی لکھتے ہیں کہ’’… ڈاکٹر امام اعظم نئے نقادوں کی صف میں اپنی جگہ بنا چکے ہیں۔ ادبی فعل دراصل ان کا خاندانی ورثہ بھی ہے۔‘‘ بلاشبہ ڈاکٹر امام اعظم اپنی مصروفیات کے باوجود ادب کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور اپنے خاندانی وراثت کو سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔

آخر میں ڈاکٹر امام اعظم صاحب کو ان کی اس شاہکار تخلیق پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے پُر خلوص مبارکباد پیش کرتی ہوں اور بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہو کر دعا کرتی ہوں کہ خدا انہیں صحت کے ساتھ طویل عمر عطا کرے۔ ان کی اس کتاب کو پڑھ کر ادبی شخصیتوں کو جاننے کا موقع ملا ۔ اس کتاب میں اردو کے عظیم شخصیات کو یکجا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور اردو ادب کے سرمائے میں گرانقدر اضافہ ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ یہ میری ذہنی تشنگی کی تسکین کا بہترین ذریعہ ہے۔ ایک بار پڑھنے کے بعد بار بار پڑھنے کا جی چاہتا ہے اور خود کو بحیرۂ علم میں غوطہ زن پایا۔

میں ایک بار پھر انہیں مبارکباد دیتی ہوں کہ میں نے اس کتاب میں جو پڑھا اور پڑھ کر جیسا محسوس ہوا اسے لفظوں میں بیان کیا ہے ۔ ورنہ ڈاکٹر امام اعظم محتاجِ تعارف نہیں ۔ ان کے لئے کچھ کہنا یا کچھ لکھنا مجھ جیسی قلمکار کے لئے ہرگز ممکن نہیں ۔

۱؎ مولانا عبد العلیم آسی مرحوم، ۲؎ جناب مظہر امام مرحوم ، ۳؎ حضرت مجاہد الاسلام قاسمی

 

ماخذ:

https://ishtiraak.com/index.php/2021/09/19/dr-imam-azam-ke-monograph-mazhar-imam-ka-ijmali-jayeza/

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے