غزل ۔۔۔ گلناز کوثر

بے سبب خوں بہانا تو معمول کی بات ہے اور معمول کی بات پر سوچتا کون ہے؟

ہاں مگر ننھے جسموں کے پرزے اڑاتے ہوئے وحشیو! یہ بتاؤ تمہارا خدا کون ہے؟

 

یہ بتاؤ کہ معصوم دل اور آنکھیں کچلتے ہوئے روح لرزی نہیں؟ ہاتھ کانپے نہیں؟

تم ابھی بھی اگر خود کو انساں سمجھتے ہو پھر شہر میں دندناتا ہوا بھیڑیا، کون ہے؟

 

اور تم بھی جو کمزور کے دکھ پہ کڑھتے ہو، نعرے لگاتے ہو انصاف کے، رحم کے، امن کے؟

تم کہو چیتھڑوں میں دبی سانس کو ٹوٹتے دیکھ کر مُسکراتا ہوا، مسخرا، کون ہے؟

 

اور تم سب بھی جو یہ سمجھتے ہو ہم تو پیمبر ہیں، ہادی ہیں، صوفی ہیں، شاعر ہیں، درویش ہیں

تو جلو میں تمہارے چلی آ رہی ہے جو انسان کے ماس پر پلنے والی بلا، کون ہے؟

 

کیا کہوں میں تو اپنے ہی اندر کہیں سر اٹھاتی ہوئی ایک کایا پلٹ سے پریشان ہوں

مجھ میں میرے سوا اور کوئی نہیں ہے تو بڑھ بڑھ کے جی کی رگیں نوچتا، کاٹتا، کون ہے؟

 

یہ بھی کیوں مان لوں دفن ہوتے ہوئے بیَن کے شور میں میری اپنی صدائیں بھی موجود ہیں

میں یہاں گر جنازے اٹھانے پہ مامور ہوں تو وہاں قاتلوں کی صفوں میں کھڑا، کون ہے؟

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے