فلسطین ۔۔۔ عابد رشید

میں فلسطین کا غم کیسے سناؤں مولا

ان پہ جو بیتی وہ کس طرح بتاؤں مولا

تُو بتا تیرے سِوا کِس کو سُناؤں مولا

کس کے دربار میں فریاد لگاؤں مولا

میں کہاں عدل کی زنجیر ہلاؤں مولا

 

پھر سے کھیلی گئی غزّہ میں لہو کی ہولی

آسماں لرزہ نہ دھرتی نے زباں تک کھولی

تیرے قبلے کے لئے بچوں نے کھائی گولی

کیسے یہ ننھے سے لاشے میں اُٹھاؤں مولا

میں کہاں عدل کی زنجیر ہلاؤں مولا

 

آج صیہونی ہیں پھر خصلتِ حیوانی پہ

خون کے دھبّے ہیں انصاف کی پیشانی پہ

بھیڑیئے بیٹھے ہیں بھیڑوں کی نگہبانی پہ

ایسے انصاف کو میں آگ لگاؤں مولا

میں کہاں عدل کی زنجیر ہلاؤں مولا

 

شرم آتی ہے اب امّت کے نگہبانوں پہ

تیغ زن ہیں یہ مسلمان مسلمانوں پہ

خون کے چھینٹے ہیں امت کے گریبانوں پہ

کیسے اپنوں کو میں اپنوں سے بچاؤں مولا

میں کہاں عدل کی زنجیر ہلاؤں مولا

 

ہے فلسطین کا دکھ اور کبھی کشمیر کا ہے

کیسے کہہ دوں کہ یہ لکھا ہُوا تقدیر کا ہے

معاملہ سارا فقط عدل کی زنجیر کا ہے

آ زمیں پر تجھے دکھ ان کے سناؤں مولا

’’میں ترے عدل کی زنجیر ہلاؤں مولا‘‘

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے