پیاس ۔۔۔ انور فرازؔ

میری سروس ہی کچھ ایسی ہے کہ ہر ماہ دو چار دنوں کے لیے گھر سے باہر رہنا پڑتا ہے، اور جب بھی باہر رہتا ہوں، کسی ریسٹ ہاؤس یا کسی ہوٹل میں ٹھہرنا پڑتا ہے، اور جتنے دنوں ٹھہرتا ہوں، مسٹر کھنہ اور اس کی بیوی ضرور یاد آتے ہیں، وہ یادیں برابر چار سال سے میرے ساتھ ہیں، جہاں بھی جاتا ہوں، وہ یادیں آ جاتی ہیں، میں انہیں بھول نہیں پاتا، بھول نہیں سکتا۔

چار سال پہلے میں سیتا پور کے ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرا ہوا تھا۔ شام کا وقت تھا نو کرچائے بنا کر لایا، میں اپنے روم میں بیٹھا چائے پی رہا تھا اور اخبار بھی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ کہ کامن روم سے ایک زوردار قہقہہ کی آواز آئی۔۔۔۔ اور ساتھ میں کسی کی سریلی اواز،

میں نے چائے ختم کی اور اخبار ہاتھ میں لیے کامن روم کی طرف گیا، دیکھا تو چالیس پینتالیس سال کی عمر کا ایک آدمی بیٹھا ہے، اس کے ساتھ ایک خوبصورت عورت بھی بیٹھی ہے۔ میں آگے بڑھ کر کرسی پر بیٹھنا چاہتا تھا کے وہ آدمی اٹھا اور میری طرف بڑھا کر اپنا تعارف یوں کرایا۔

’’مجھے رمیش کھنہ کہتے ہیں۔۔۔۔ ایکسائز ڈپارٹمنٹ میں سروس کرتا ہوں‘‘

’’میں معراج انور ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ جیولوجیکل سروے سے میرا تعلق ہے۔‘‘ اور پھر میں اس پیکر حسن کی طرف دیکھنے لگا۔

’’اوہو۔۔۔۔۔۔!‘‘ اتنا کہہ کر کھنہ نے پر زور قہقہہ مارا۔۔۔۔ میں سوچنے لگا قہقہہ کا یہ کیا محل ہے۔؟ جب قہقہہ ختم ہوا تو کھنہ نے کہا ’’یہ ہماری ڈارلنگ ہے۔‘‘

’’آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔‘‘ میں نے کہا اور وہ صرف مسکرا دی تھی، اف! اُس کا وہ تبسم۔۔۔۔ جیسے گلاب کی دو پنکھڑیاں کھلیں اور بند ہو گئیں! میں اسے دیکھتا رہا تھا۔

اُس کی آنکھوں کی طرف، جس میں چھلکتے ہوئے جام دکھائی دے رہے تھے

اُس کے بالوں کی طرف، جو کالی گھٹا کو مات کر رہے تھے

اُس کے صحت مند گورے جسم کی طرف، جو مستی سے بھرا ہوا تھا۔

اُس کے سینہ کے ابھاروں کی طرف، جو چشمِ شوق کو دعوتِ نظارہ دے رہے تھے

میرے کانوں میں ایک زوردار قہقہہ پڑا۔ میں چونک پڑا۔ یہ مسٹر کھنہ کا قہقہہ تھا، قہقہہ ختم ہوا تو انھوں نے کہا۔

’’ڈارلنگ! ابھی تک ہم نے شام کی چائے بھی نہ پی، لاؤ فلاسک لاؤ!‘‘

وہ اندازِ دلربائی سے اٹھی اور شاخ گل کی طرح لچکتی ہوئی فلاسک لے آئی، اور ہمارے لیے چائے بنانے لگی۔

میں نے اپنے لیے منع کی۔ لیکن اُس نے بنا ہی دی۔ ہم چائے پینے لگے اور باتیں کرتے رہے، کھنہ برابر قہقہے لگاتا رہا۔ میں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ قہقہہ لگانا کھنہ کی عادت ہے، اتنی دیر میں یہ بھی اندازہ لگایا کے کھنہ بہت دلچسپ اور زندہ دل آدمی ہے۔ ہم باتیں کر رہے تھے لیکن میری نظر بار بار اس کی بیوی کی طرف اٹھ جاتی اور دل چاہتا اُسے ہی دیکھتا رہوں اور ہر بار کھنہ کا قہقہہ مجھے چونکا دیتا۔

’’مسٹر انور! کیا آپ شراب پیتے ہیں؟‘‘

’’جی۔۔۔۔۔ جی نہیں۔۔۔!!‘‘ میں اس اچانک سوال سے گھبرا گیا تھا۔

کھنہ نے زوردار قہقہہ لگایا اور کہا ’’تو آپ دور سے پینے کے عادی ہیں‘‘

میں اس جملے پر غور کرنے لگا کہ کھنہ نے پھر قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ’’کچھ لوگ شراب کو دور سے دیکھ کر مد ہوش ہو جاتے ہیں، لیکن میں ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا ہوں!‘‘ پھر اپنی بیوی سے کہا۔

’’ڈارلنگ! ذرا شراب کی بوتل لانا‘‘ اور پھر وہ دلربا انداز سے چلتی ہوئی شراب کی بوتل لے آئی۔

’’ڈارلنگ! آج تم اپنے ہاتھ سے بناؤ۔‘‘ اس نے اپنی بیوی سے کہا۔

اُس نے شراب بنا کر کھنہ کو دی اور وہ گلاس پر گلاس پیے جا رہا تھا اور اس کی بیوی پلاتی جا رہی تھی، میں اس کی بیوی کو دیکھ رہا تھا، اسے دیکھ کر ہی مد ہوش ہوا جا رہا تھا، میں اس کے ہونٹوں سے، اُس کی آنکھوں سے چھلکتی ہوئی شراب سے مد ہوش و مخمور ہو رہا تھا کہ کھنہ کا قہقہہ سنائی دیا اور اُس نے فلاسک بوتل کی فرمائش کی اور اُس کی بیوی لچکتی ہوئی اٹھی اور فلاسک لے آئی، اور ہمارے لیے چائے بنانے لگی۔

کھنہّ نے کہا ’’مسٹر انور! زندگی بہت حسین ہے۔ جب بھی موقع ملے اپنے دامن میں مسرتوں کے پھول بھر لو، خوبصورت تتلی ملے تو اُسے چھو کر بھی دیکھ لو اُس کا رنگ اپنے ہونٹوں پرلے لو۔۔ خوبصورت پھول مل جائے تو اس کی خوشبو میں کھو جاؤ۔‘‘

کھنہ کی باتیں مجھے کچھ عجیب سی معلوم ہوئیں، اور میں سوچ کر چپ ہو جاتا اور کچھ سمجھ نہ پاتا پھر بھی میں اُس کی ہاں میں ہاں ملاتا رہا ’’آپ ٹھیک کہتے ہیں۔‘‘

’’میں حسن کا پجاری ہوں، محبت کا بھوکا ہوں، مجھے زندگی میں حسن چاہیئے یا پھر شراب! شراب تو مل جاتی ہے کیونکہ ایکسائز میں کام کرتا ہوں۔‘‘

یہ کہہ کر اس نے قہقہہ لگایا اور پھر کچھ سنجیدہ ہو کر بولا ’’لیکن حسن بہت مشکل سے ملتا ہے! کیوں ڈارلنگ؟‘‘

اور اس کی بیوی مسکرا دی تھی۔

میں سوچنے لگا۔ شاید کھنہ کو اکثر باہر رہنا پڑتا ہو اور اس کی بیوی اس کے ساتھ نہ رہتی ہو، اس کی ان باتوں کا مطلب اور کیا ہو سکتا تھا۔ اس کی بیوی تو خوبصورت ہے، کیا یہ اِس کے حسن و شباب سے مطمئن نہیں ہے؟ میں سوچنے لگا مجھے ایسی خوبصورت بیوی مل جائے تو میں جنت کی تمنا نہ کروں۔!!

اِتنے میں میرے نو کرنے آ کر اطلاع دی ’’صاحب! کھانا لگا دیا ہے!‘‘ اور دل نہ چاہتے ہوئے بھی میں وہاں سے اٹھ گیا تھا۔

کھانے پر بیٹھا لیکن کھانا کھایا نہیں جا رہا تھا۔ بس دماغ کھنہ کی بیوی کی طرف ہی چلا جاتا۔ ایک حسین پیکر آنکھوں میں گھوم جاتا۔ میں کمرے میں ٹہلنے لگا، میں دماغ سے کھنہ کی بیوی کے خیالات ہٹانے کی کوشش کرنے لگا، گھڑی دیکھی تو رات کے دو بجے تھے۔ پلنگ پر جا لیٹا۔ وہاں بھی خیالات کے حملے جاری رہے۔ اسی وقت دروازے پر دستک سنائی دی۔ دروازہ کھولا اور دیکھ کر چونک پڑا۔

’’آپ۔۔۔!؟‘‘ میں حیراں کھنہ کی نیم برہنہ بیوی کو دیکھ رہا تھا۔

’’ہاں۔۔۔۔ میں!‘‘ وہ مسکرائی۔

’’اتنی رات گئے؟ُ‘‘

’’پیاس لگ رہی تھی۔۔۔۔۔!‘‘ اس نے کہا اور اندر آ گئی۔

’’آپ کو اس وقت نہیں آنا چاہیئے تھا‘‘

’’بہت پیاس لگی تھی!‘‘ اُس نے کہا۔

پھر کہا۔

’’وہ نہ آئیں گے۔۔۔۔ وہ شراب میں دھت پڑے سو رہے ہیں‘‘

’’آپ کو پیاس ہی لگی تھی تو کسی سے پانی منگوا لیا ہوتا‘‘

میں نے کہا۔

’’پیاس۔۔۔۔۔ پانی کی پیاس۔!‘‘ وہ مسکرائی پھر اس نے کہا۔

’’پانی سے میری پیاس نہ بجھتی۔۔۔۔ آپ میری آنکھوں میں نہیں دیکھ رہے ہیں۔۔۔!؟‘‘

یہ سننا تھا کہ میرے سارے جسم سے پسینہ چھوٹنے لگا۔ ……. تاریک رات۔۔۔۔ تنہا خوبصورت جواں عورت!! میرا دل تیز تیز دھڑکنے لگا۔

’’بس! مسٹر انور میری پیاس بجھاؤ۔!!‘‘ اس نے بھرپور انگڑائی لی۔

’’میں۔۔۔۔ میں۔۔۔‘‘ میں گھبرا رہا تھا، کچھ دیر پہلے دل میں جو آرزوئیں تھیں، جو خیالات موجیں مار رہے تھے وہ ایک دم ختم ہو گئے تھے، یکایک آ جانے والے طوفان سے مجھے کچھ بھی نہ سوجھ رہا تھا۔ دماغ میں ہتھوڑے برس رہے تھے۔ بیوی۔۔۔ بیوی۔۔۔ یہ کھنہ کی بیوی ہے۔

’’آؤ انور! ………مرے قریب آؤ۔۔۔!‘‘ کھنہ کی بیوی نے پھر کہا۔ ’’مجھے اپنی بانہوں میں لے لو۔۔۔۔ آج میرے جسم کا ہر حصہ تمہارا ہے!‘‘

’’میں۔۔۔۔۔ میں، ایسا نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔!‘‘ میرے منھ سے بڑی مشکل سے نکلا! لیکن وہ میرے قریب سے قریب تر آتی گئی، پھر۔۔۔۔۔۔ پھر اس نے مجھے اپنی بانہوں میں بھینچ لیا اور خود رفتگی کے عالم میں میرا بوسہ لیتی رہی۔ میں اس کی بانہوں سے نکلنے کی کوشش کرتا رہا، لیکن میں جکڑا ہوا تھا۔۔۔۔۔ ایک پنچھی کی طرح۔۔۔ ایک بچہ کی طرح جس کے پاپا کے دوست نے اسے جکڑ لیا ہو اور جب تک بوسہ نہ لے لیں اُسے نہ چھوڑیں گے۔

پھر اس کی بانہیں ڈھیلی پڑ گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں تلملا کر آزاد ہو گیا اور جیسے ہی آزاد ہوا، کمرے سے نکل گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ بھی باہر نکل گئی۔ مجھے دیکھا اور مسکرائی۔۔۔۔۔’’آپ بہت بزدل ہیں۔‘‘

’’کچھ بھی سمجھ لیجئے‘‘ میں نے ہاتھ جوڑ کر کہا، اور وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔

میری گھبراہٹ کچھ کم ہوئی تو میں نے اپنے ماتھے سے پسینہ پونچا اور خود پر مسکرا پڑا۔۔۔۔۔ بزدل انور پر مسکرا پڑا۔

—————

آج بھی میں انہی باتوں کو یاد کر کے مسکرا رہا تھا، بزدل انور پر ہنس رہا تھا کے باہر کار کی آواز آئی۔ میں نے اپنے روم میں بیٹھے بیٹھے دیکھا، کار سے رمیش کھنہ نکل رہا ہے۔ اُسے دیکھتے ہی میرا دل تیز تیز دھڑکنے لگا۔۔۔۔۔ اُسی طرح جیسے چار سال پہلے ایک تاریک رات۔۔۔۔۔ تنہا کمرے میں اُس کی جواں بیوی کے آ جانے سے دھڑکنے لگا تھا۔ میں کار کی طرف دیکھ رہا تھا کہ اب کھنہ کی بیوی کار سے نکلے گی اتنی دیر میں میرے سارے جسم سے پسینہ چھوٹنے لگا۔۔۔۔۔۔ لیکن کار سے کھنہ کے سوا اور کوئی نہ نکلا۔ میری گھبراہٹ کم ہوئی تو میں کھنہ کے روم میں گیا، اس نے مجھے دیکھتے ہی پہلے کی طرح ایک زوردار قہقہہ مارا۔۔۔۔۔’

’مسٹر انور آپ بھی یہاں۔‘‘

’’جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!‘‘

کھنہ پھر قہقہہ لگا کر بولا ’’خوب! اِسے کہتے ہیں حسن اتفاق۔‘‘

’’دیکھیے قدرت نے ملنا لکھا تھا پھر مل گئے!‘‘ میں نے جواب دیا۔

’’ہاں۔۔۔۔۔۔ سب وقت کے کھیل ہیں۔۔۔۔۔ ارے بھائی۔۔۔۔۔۔!!‘‘ کھنہ کو کچھ یاد آیا۔

’’چار سال بعد بھی آپ اکیلے ہیں؟‘‘

’’جی ہاں۔۔۔۔۔۔ ابھی تک شادی نہیں کی۔ ……. لیکن آپ بھی تو اپنی مسز کے ساتھ نہیں ہیں!!‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

کھنہ نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔۔۔ ’’بچاری نہیں آ سکتی۔‘‘

’’خیر تو ہے۔۔۔۔ آخر کیوں!؟‘‘ نہ جانے کیوں پھر میں اُس کی بیوی میں دلچسپی لے رہا تھا۔

’’اپنے موٹاپے کی وجہ سے نہیں آ سکتی، گاڑی میں بیٹھے تو سانس پھولنے لگتی ہے، دوسری بات آپ کو بتاؤں۔۔۔!‘‘

کھنہ پہلے ہی کی طرح پہلیاں بجھا رہا تھا۔

’’بات یہ ہے کے مجھے خود شرم آتی ہے اس موٹی بھدی بھینس کو اپنے ساتھ لیے پھروں، میں ٹھہرا ایک آفسر، اس کی بیوی کالی بھینس۔ آپ ہی کہیے لوگ دیکھیں گے تو کیا کہیں گے؟ ہنسی کے سوا کچھ بھی نہ مِلے گا۔‘‘

میں کچھ بھی نہ سمجھ پا رہا تھا۔ آخر کھنہ یہ کس کے بارے میں بتا رہا تھا، اس کی بیوی کالی، پھول سے نازک، اُس کی بیوی موٹی۔

میں نے کچھ بھی نہ سمجھتے ہوئے کہا ’’آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا وہ چار سال میں اتنی بدل گئی ہیں!؟‘‘

کھنہ نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور بولا ’’وہ میری بیوی نہیں تھی۔‘‘ میں حیران اُسے دیکھ رہا تھا۔ کھنہ نے پھر قہقہہ لگایا اور لگاتا ہی رہا۔

’’وہ۔۔۔۔۔۔ آپ کی بیوی۔۔۔۔۔۔ نہیں تھی!؟‘‘ میں کھنہ کو دیکھ رہا تھا۔

’’ہاں مسٹر انور! وہ میری بیوی نہیں تھی۔۔۔۔۔ وہ تو ایک پراس تھی، ایک طوائف تھی، پانچ ہزار روپیوں کے بدلے ایک رات کے لئے میری بیوی تھی‘‘

یہ سُنتے ہی میرا حلق سوکھ گیا، میرے ہونٹ سوکھ گئے۔۔۔۔ اور مجھے پیاس محسوس ہونے لگی۔۔۔۔ لیکن پانی کہیں نہیں تھا۔۔۔۔۔ میں پہلے ہی کی طرح پیاسا تھا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے