بیدی کی ’اِندو‘ کے نام ۔۔۔ شناور اسحاق

عورت کا شریر

ایک راج محل یے

پُر شکوہ

پُر اسرار

وہ تمہیں اپنا مان کر

اِس کی چابیاں

تمہیں سونپ دیتی ہے

تم عمر بھر

اس کی راہداریوں میں دندناتے رہتے ہو

بُرجیوں پر کلیلیں کرتے پھرتے ہو

 

اس راج محل میں مخفی

ایک آئینہ خانہ ہے

جس کے وسط میں

سنہری تپائی پر موجود

اُس کی آتما کا رتن

عکس در عکس

دھنک کے ریشوں سے

بُنتا رہتا ہے

سَت رنگے آکاش

اور بیلوں بھرے باغات

 

لیکن

عورت اور دھرم کے معاملے میں

تم ظاہر پرست ہو

 

عورت

جیون بِتا دیتی ہے

اس انتظار میں

کہ تم کب متوصّل ہوتے ہو

اُس کی آتما سے

 

وہ

کسی بد عُنوان مذہبی ریاست میں موجود

آثارِ قدیمہ کی طرح

رفتہ رفتہ کھنڈر میں بدل جاتی ہے

اور…… آخرِ کار

نا دریافت آئینہ خانے سمیت

معدوم ہو جاتی ہے

 

(’اِندو‘ راجندر سنگھ بیدی کے افسانے ’اپنے دکھ مجھے دے دو‘ کا مرکزی کردار)

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے