غزلیں ۔۔۔ مصحف اقبال توصیفی

ہاں۔ مرا ذکر درمیان میں تھا

تیر لیکن ابھی کمان میں تھا

 

ناشتہ کر رہا ہوں سب کے ساتھ

رات میں اپنے ہی مکان میں تھا

 

اب یقیں آیا میں اسی کا ہوں

میں کسی اور ہی گمان میں تھا

 

خود کشی تھی کہ قتل تھا میرا

کس گلی میں تھا؟ کس مکان میں تھا

 

اس نے سوچا عجیب پاگل ہے

وہ زمیں پر تھی میں مچان میں تھا

 

ایسی کوئی خوشی کی بات نہ تھی

جشن سا کیوں مرے مکان میں تھا

 

رات اندھیری تھی لیکن اچھی تھی

اک ستارہ بھی آسمان میں تھا

٭٭٭

 

 

دل میں ہے اور آنکھ سے نہاں ہے

منزل ہے کہ گرد کارواں ہے

 

وہ شخص ہے کون؟ میں کہ تم ہو

کوئی تو ہمارے درمیان ہے

 

ہاں سوچ لیا ہے خوب ہم نے

اچھا یہ ہمارا امتحان ہے

 

یہ نام بس ایک نام ہے یہ

چھوڑو یہ طویل داستان ہے

 

اس دل میں رہیں گے ہم وہ بولی

میں نے کہا آپ کا مکاں ہے

 

دیکھیں مرے دل میں آ گئے آپ

یہ آپ کے پاؤں کا نشاں ہے

 

تارہ سا دعا کا آسماں پر

سجدے کا زمین پر نشاں ہے

 

اس عشق کو دل لگی نہ سمجھو

اس کھیل میں جان کا زیاں ہے

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے