بادِ صبا کا انتظار ۔۔۔ سید محمد اشرف؛ اور اس پر آراء

یہ افسانہ واٹس اپ گروپ ’بزم افسانہ‘ میں پیش کیا گیا تھا جہاں اس پر گفتگو کی گئی۔ یہ گروپ مشہور افسانہ نگار سلام بن رزاق کی زیر پرستی فعال ہے۔ زیر نظر تبصرے واٹس گروپ میں زمانی اعتبار سے ہی دئے جا رہے ہیں، یعنی جس ترتیب سے احباب نے اپنی آراء دی ہیں، اس میں تقدیم و تاخیر ملحوظ نہیں رکھی گئی ہے، اس گروپ کے تمام اراکین کی تمام آراء اسی ترتیب سے پیش کی جا رہی ہیں۔ مزید یہ کہ آراء میں صرف املا، رموز و اوقاف کی علامات اور دیگر فاش زبان کی اغلاط کی تصحیح کر دی گئی ہے۔ (مدیر سَمت)

 

تعارف

 

اردو ادب میں جن چند شاعروں ادیبوں نے ستاروں کی سی شہرت پائی ان میں اردو فکشن کے قد آور تخلیق کار سید محمد اشرف کا شمار ناگزیر ہے سید محمد اشرف اپنی منفرد فکر، خیال افروزی، شگفتہ زبان اور زبان کے قادرانہ انداز و لہجے کے ساتھ پچھلے پچاس برسوں سے فکشن کی زمین کو چمن زار کرتے آئے ہیں آپ کا تعلق صوفی گھرانے سے ہے تصوف کے اس ماحول سے ان کے افسانوں اور ناولوں میں اسرار، رمز، علامت اور دبازت پیدا ہو گئی ہے سید محمد اشرف کی اب تک 4 درج ذیل کتابیں (فکشن) منظر عام پر آئیں اور چاروں ہی ادب میں غیر معمولی اضافہ سمجھی گئیں۔ ‘ڈار سے بچھڑے‘ (افسانے 1994)، ’نمبر دار کا نیلا‘ (ناول/ناولٹ 1997)، ’باد صبا کا انتظار‘ (افسانے 2000) اور ‘آخری سواریاں‘ (ناول 2017)، علاوہ ازیں دو ناول زیر اشاعت ہیں، جن کی قسط وار اشاعت موقر ادبی جریدوں میں ہو چکی ہے آپ کے بیشتر افسانے ملک و بیرون ملک کی کئی اہم زبانوں میں ترجمہ ہو چکے ہیں، چند ایک مختلف سطح کی درسیات میں بطور نصاب شامل ہیں موصوف کے غیر معمولی فن اور حساس دل قلم کے اعتراف میں قرۃ العین حیدر سے لے کر عصر حاضر کے تمام تر بڑے چھوٹے نقاد اور فکشن نگار ایک زبان ہیں علاوہ ازاں، آپ کی تحریروں پر ہند و پاک میں یکساں طور پر اکیڈمک نوعیت کے کئی تحقیقی و تنقیدی مقالے لکھے گئے، لکھے جا رہے ہیں بر صغیر کے ایک درجن سے زائد موقر ادبی رسالوں نے موصوف کی شخصیت اور فکر و فن پر نمبر جاری کیے جن میں ’ذہن جدید‘، ’آج‘ (کراچی)، ’سوغات‘ (بنگلور)، ’نیا دور‘ (کراچی) اور ’پندرہویں صدی‘ قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ ’ادب ساز‘ اور ’فکر و نظر‘ رسالے کا ذکر بھی اہم ہو گا کہ سید محمد اشرف کے طویل نمبر کے لیے یہ دونوں رسالے خاص شہرت رکھتے ہیں۔ موصوف کا تعلق تعلیمی میدان سے بھی گہرا رہا ہے۔ آپ کئی تعلیمی اداروں میں اہم عہدوں پر فائز رہے، اس ضمن میں البرکات ایجوکیشنل سوسائٹی کا قیام قابل ستائش ہے اس کے علاوہ ’سارک لٹریری کانفرنس‘ میں خصوصی لیکچر، بے شمار رسالوں کی خصوصی ادارت اور کئی ممالک کے ادبی، تعلیمی اور منصبی اسفار ؛ سید محمد اشرف کی شخصیت کو پیش کرنے کے مستند حوالے ہیں پیشے سے آپ IRS افسر رہے ہیں اور انڈین سول سرویسیز کے تحت ملک بھر میں متعدد معتبر اور سب سے نمایاں عہدوں پر فائز رہتے ہوئے اب سبکدوش ہو چکے ہیں، سر دست آپ علی گڑھ میں مقیم ہیں اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بہ حیثیت وزیٹنگ پروفیسر تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

انعام و اعزاز

دیگر شعبوں کو چھوڑ کر خالص ادب میں سید محمد اشرف صاحب نے دو درجن سے زائد انعامات و اعزازات کو اعتبار بخشا ہے جن میں سے یہاں صرف چند ایوارڈ کی مختصر تفصیل پیش کی جاتی ہے:

کتھا ایوارڈ، اردو میں بہترین افسانے کے لیے 1995

ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ 2003

فکشن میں لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ (یوپی اردو اکادمی 2011)

عالمی فروغ اردو ادب ایوارڈ (2018)

اقبال سمان 2017

زیر نظر افسانہ ’باد صبا کا انتظار‘ ان کے افسانوی مجموعے ’باد صبا کا انتظار‘ کا ٹائٹل افسانہ ہے۔

٭٭

 

ڈاکٹر آبادی میں داخل ہوا۔

راستے کے دونوں جانب اونچے کشادہ چبوتروں کا سلسلہ اس عمارت تک چلا گیا تھا جو ککیا اینٹ کی تھی جس پر چونے سے قلعی کی گئی تھی۔ چبوتروں پر انواع و اقسام کے سامان ایک ایسی ترتیب سے رکھے تھے کہ دیکھنے والوں کو معلوم کئے بغیر قیمت کا اندازہ ہو جاتا تھا۔ سامان فروخت کرنے والے مختلف رنگوں اور نسلوں کے نمائندے تھے جو اپنی اپنی دوکانوں پر چاق و چوبند بیٹھے تھے۔ چبوتروں کا یہ سلسلہ اس عمارت پر جا کر ختم نہیں ہوتا تھا بلکہ عمارت کے دوسرے رخ پر اسی طرح کے چبوترے انواع و اقسام کے سامان کے ساتھ سجے ہوئے دور تک چلے گئے تھے۔ راستے میں گٹھیلے بدن کے مرد، کندھے پر مشکیزے لٹکائے ہاتھوں میں کٹورا پکڑے بجا رہے تھے اور چھڑکاؤ کرتے پھر رہے تھے۔ خریدار مختلف قبیلوں، گروہوں اور رنگوں کی پوشاک پہنے اس چبوترے سے اس چبوترے تک آ جا رہے تھے۔ راستہ طرح طرح کی شیریں، نرم، سخت، کرخت، بھدی، چٹختی ہوئی، دکھی سکھی آوازوں سے بھرا ہوا تھا۔

ککیا اینٹ کی سفید عمارت کے دیواریں ناقابل عبور حد تک اونچی نہیں تھیں۔ ان میں جگہ جگہ در، دریچے اور روشندان تھے اور ان سے آتی ہوئی ہوٗ حق کی پر اسرار گونج دار آوازیں بازار میں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ بازار میں کھڑے ہو کر ان آوازوں کو سن کر ایسا لگتا تھا جیسے ان آوازوں کے جسم ہوں اور ان جسموں پر دراز سفید ریشم جیسی داڑھیاں ہوں اور کانوں سے نیچے تک کھیلتی ہوئی نرم نرم کاکلیں ہوں۔ ان آوازوں کو سن کر ایک ایسے سکون کا احساس ہوتا جو سخت لو میں، کوسوں کا سفر پا پیادہ طے کرنے کے بعد ٹھنڈی صراحی کا سوندھا سوندھا پانی سیر ہو کر پینے پر ملتا ہے۔ نیچی نیچی دیواروں والی اس نورانی عمارت کو چاروں طرف سے ستونوں، برجیوں، مناروں اور پھاٹکوں نے گھیر رکھا تھا جو بظاہر کسی محل کی موجودگی کا احساس دلاتے تھے۔ کسی نے شاید بہت کوشش کی بھی نہیں اور اگر کرتا بھی تو غالباً یہ جاننا بہت مشکل ہوتا کہ بازار اس سفید عمارت کو گھیرے ہوئے ہے یا بازار اس سفید عمارت کا باہری حصہ ہے یا یہ دونوں ستونوں اور مناروں والی عمارت کے ناقابل تقسیم حصے ہیں۔ یہ تینوں کسی واحد نقشے کی بنیادی لکیروں کی طرح ایک دوسرے سے متصل اور مسلسل تھے۔ محل نما عمارت کے اندر سے کبھی کبھی تیز آوازیں بلند ہوتیں جو سفید عمارت کے ’ہو حق‘ اور بازار کی چہکتی رنگا رنگ آوازوں پر ایک لمحے کے لئے چھا جاتیں۔ کبھی کبھی یہ وقفے طویل بھی ہو جاتے۔ پھر اچانک یہ بھی ہوتا کہ بازاروں کی آوازیں دھیمی دھیمی سرگوشیوں کے لب و لہجہ میں بلند ہوتیں ان میں کھنکھناہٹ پیدا ہوتی بہت سی آوازیں مل جاتیں اور پھر سفید عمارت نورانی کاکل دار آوازیں بازار کی آوازوں کے ساتھ مل کر محل کی سب آوازوں کو ڈھانپ لیتیں۔

ڈاکٹر نے ہاتھ لگا کر جنئیوں برابر کیا، گلے میں پڑے آلے کو ٹٹول کر محسوس کیا اور ہاتھ میں تھامے بیگ کو مضبوطی سے پکڑے اس اونچے مستطیل کمرے میں داخل ہو گیا جو اس آبادی اور عمارتوں کے عین درمیان میں واقع تھا۔ ایک لمحہ کو ٹھٹھک کر اس نے کمرے کی سوگوار ٹھنڈی خاموشی بھری فضا سے خود کو ہم آہنگ کیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اس بے پناہ حسین کمرے کو دیکھ کر سہم گیا ہو۔ کمرے کے درمیان مدور پایوں کی ایک بڑی اور حسین مسہری پڑی تھی جس کے سرہانے کے سیاہ حصے میں نفیس کام بنا ہوا تھا۔ مسہری پر قیمتی اور مرعوب کرنے والا بستر لگا ہوا تھا اور اس بستر پر وہ بدن رکھا ہوا تھا۔ وہ ایک دراز قد نہایت حسین و جمیل خاتون تھی۔ اس کے بال ترکی نژاد عورتوں کی طرح سنہرے تھے جن سے عمر کی شہادت نہیں ملتی تھی۔ اس کی پیشانی شفاف اور ناک ستواں اور بلند تھی۔ آنکھیں نیم وا اور سرمگیں تھیں۔ ہونٹ اور رخسار بیماری کے باوجود گلابی تھے۔ ہونٹ بھی نیم وا تھے اور سفید موتی سے دانت ستاروں کی طرح سانس کے زیر و بم کے ساتھ ساتھ رہ رہ کر دمک رہے تھے۔ شفاف گرد پر نیلگوں مہین رگیں نظر آ رہی تھیں اور گردن کے نیچے کا عورت حصہ اٹھا ہوا اور مخروطی تھا۔ ساعد سیمیں کولہوں کے ابھار سے لگے ہوئے رکھے تھے۔ ڈاکٹر نے غور سے اس کے ہاتھوں پیروں کو دیکھا اور ایک عجیب بات محسوس کی کہ خاتون کے بھرے بھرے ہاتھ اور پیر محنت کے عادی ہونے کی غمازی کر رہے تھے لیکن انہیں نرم اور صاف ستھرا رکھنے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ مریضہ کی سانس بے ترتیب تھی۔ کئی لمحوں تک بدن ساکت نظر آتا پھر یکایک جھٹکے کے ساتھ بے ترتیب سانسیں آنے لگتیں۔

مسہری سے ٹکا ہوا وہ دراز قد شخص استادہ تھا جس کے سر اور بالوں کو ایک گوشے دار کلاہ نے ڈھانپ رکھا تھا۔ سرخ و سفید معمر چہرے پر خوبصورت داڑھی تھی جو بالترتیب نہیں تھی۔ اس شخص کی آنکھوں میں جلال و جمال کی پر چھائیاں رہ رہ کر چمکتی تھیں۔ اپنی شخصیت اور لباس سے وہ کبھی بادشاہ لگتا کبھی درویش۔ ڈاکٹر مسہری کی دوسری طرف اس شخص کے مقابل سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔

ڈاکٹر دیر تک مریضہ کو دیکھتا رہا۔ وہ شخص متفکر آنکھوں سے مریضہ کو ایک ٹک دیکھے جا رہا تھا۔ دفعتاً ڈاکٹر کو احساس ہوا کہ اس بڑے مستطیل کمرے کے چاروں طرف بہت سے کمرے ہیں جن پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور ان پردوں کے پیچھے چوڑیوں کی کھنکھناہٹ دھیمی دھیمی مغموم سرگوشیاں اور دبی دبی آہیں سنائی دے رہی ہیں۔ کسی کسی کمرے میں نو عمر بچوں کی شور مچانے والی آوازیں بھی بلند ہو رہی تھیں۔ جب ان آوازوں کا شور ایک خاص آہنگ سے زیادہ بلند ہو جاتا تو دراز قدر شخص کے ماتھے پر ناگواری کی لکیریں کھینچ جاتیں۔ ڈاکٹر نے محسوس کیا کہ پردے کے پیچھے سے بلند ہونے والی سرگوشیاں قابل فہم ہیں لیکن ان کا تعلق کسی ایک زبان سے نہیں ہے۔

ڈاکٹر نے قدرے توقف کے بعد مرض کا حال جاننے کے لئے اس شخص کے رشتے کے بارے میں سوچا۔

’’یہ۔۔۔ آپ کی کون ہیں؟‘‘

’’عزیزہ ہیں‘‘

’’کیا؟‘‘

’’عزیزہ کا مطلب بہت عزت والی اور بہت پیاری بھی‘‘

’’آپ سے سمبندھ کیا ہے؟‘‘

’’میں ہی رب مجازی ہوں۔‘‘

ڈاکٹر آنکھیں پھیلائے اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ پھر آواز صاف کر کے بولا، ’’ڈاکٹر ہونے کے ناطے مجھے جاننا چاہیئے کہ روگی کو کیا روگ ہے۔ روگ کے بارے میں جاننے کے لئے آپ سے ان کے سمبندھ کے بارے پوچھنا آوشک ہے۔ آپ جو سمبندھ بتا رہے ہیں وہ میری سمجھ میں نہیں آ سکا۔‘‘

دراز قد انسان تکلیف کے ساتھ مسکرایا۔

’’آپ معلوم کیجئے جو کچھ میرے علم حضوری میں ہے آپ کے روبرو پیش کروں گا۔‘‘

ڈاکٹر کے چہرے کے تاثرات سے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اس جملے کو مکمل طور پر نہ سمجھ پانے کے باوجود مطمئن ہے کہ وہ شخص مریضہ کے بارے میں بہت کچھ یا سب کچھ جانتا ہے۔

’’یہ دشا کب سے ہے؟‘‘

’’بہت عرصے سے‘‘

پھر دیر تک خاموشی رہی۔ خاموشی اور زیادہ گہری محسوس ہونے لگی تھی کہ برابر کے کمروں سے اسی قابل فہم مگر نامانوس زبان میں سرگوشیاں بلند ہو رہی تھیں۔

دراز قد انسان نے ڈاکٹر کے چہرے پر پریشانی پڑھی اور اس بار وہ تفصیل سے گویا ہوا۔

’’عزیزہ۔۔۔ میری مراد مریضہ نے مدتوں سے غذا کو منہ نہیں لگایا۔ گھریلو نسخوں سے تیار شدہ ادویات ہونٹوں تک تو پہنچ جاتی ہے لیکن معدے تک نہیں جا پاتیں۔ مریضہ اپنے مرض کا اظہار بذات خود کبھی نہیں کرتیں۔ کبھی کبھی جلد بدن بخار کی شدت سے سرخ ہو جاتی ہے اور زندگی کے سارے آثار ختم ہوتے محسوس ہونے لگتے ہیں۔ تنفس کی بے ترتیبی تردد کا سب سے بڑا سبب ہے۔‘‘

’’کس چیز کی بے ترتیبی‘‘ ڈاکٹر نے پوچھا۔

’’تنفس کی، مراد سانسوں کی بے ترتیبی۔‘‘

ڈاکٹر نے ایک گہر سانس لی اور جھجھکتے ہوئے پوچھا۔

’’کیا میں روگی کو آلہ لگا کر دیکھ سکتا ہوں؟‘‘

’’ضرور۔ عزیزہ کبھی بھی پردہ نشین خاتون نہیں رہیں۔‘‘

مریضہ کی سانسیں اس وقت نسبتاً معمول پر تھیں۔ ڈاکٹر نے سینے پر پڑے کام دار دوپٹے کو تہذیب سے ایک طرف کیا اور سینے پر آلہ رکھ کر غور سے سنا۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ اس نے جلدی سے آلہ ہٹایا اور کان لگا کر کمرے کے ہر کونے سے ابھرتی مہین سے مہین آواز کو سننا چاہا۔ کمرے میں سانسوں کے علاوہ اور کوئی آواز نہیں تھی۔ اس نے پھر آلہ لگایا۔ اس کے چہرے پر پھر حیرت کے آثار نمودار ہوئے۔ وہ دیر تک آلے کو سینے پر رکھے آنکھیں بند کئے کچھ سنتا رہا۔ مریضہ کے چہرے پر، جتنے وقت تک آلہ رہا اطمینان رہا۔ ڈاکٹر نے آلہ ہٹایا اور بے چین آواز میں بولا۔

’’روگی کا دل بہت اچھی حالت میں ہے۔ کسی روگ کا کوئی نشان نظر نہیں آتا۔‘‘

دراز قد انسان کے چہرے پر کوئی تحیر نمودار نہیں ہوا۔

’’کیا اس بات سے آپ کو اچرج نہیں؟‘‘

’’نہیں‘‘ دراز قد انسان کا جواب مختصر تھا۔ ڈاکٹر کو اس جواب کی امید نہیں تھی لیکن اس نے خود کو سنبھالا اور ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولا۔

’’اب جو بات آپ کو بتاؤں گا اسے سن کر آپ اچھل پڑیں گے۔ روگی کے دل سے سنگیت کی لہریں نکل رہی ہیں جنہیں میں نے کئی بار سنا۔‘‘

دراز قد انسان دھیمے سے وقار کے ساتھ مسکرایا اور آہستہ سے اثبات میں سر ہلایا۔

دراز قد انسان کے اطمینان پر ڈاکٹر کو حیرت ہوئی لیکن اس نے سلسلہ کلام جاری رکھا۔

’’ہردے کی چال سے جو دھن پھوٹ رہی تھی اس میں ندی کے بہنے کی کل کل تھی۔ ہوا کی مد بھری سرسراہٹ تھی، پنچھیوں کی چہکار تھی۔۔۔‘‘

دراز قد انسان نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا۔ ڈاکٹر کو محسوس ہوا کہ دراز قد انسان کسی پچھلی بات کو یاد کر کے کہیں کھو گیا ہے۔ دراز قد انسان گویا ہوا۔

’’اس آواز میں میدان جنگ میں طبل پر پڑنے والی پہلی ضرب کی آواز کا ارتعاش بھی ہو گا۔ دو محبت کرنے والے بدن جب پہلی بار ملتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنے ہونٹوں سے محسوس کرتے ہیں وہ نرم لذت بھری آواز بھی ہو گی۔ ملا گیری رنگ کی عبا پہنے صوفی کے نعرہ مستانہ کی گونج بھی ہو گی۔ دربار میں خون بہا کا فیصلہ کرنے والے بادشاہ کی آواز کی گرج بھی شامل ہو گی۔ صحراؤں میں بہار کی آمد سے متشکل ہونے والی زنجیر کی جھنک بھی ہو گی اور بنجر زمین پر پڑنے والے موسم برشگال کے پہلے قطرے کی کھنک بھی ہو گی۔ بربط، ستار اور طبلے کی۔۔۔‘‘ وہ خاموش ہو گیا۔

’’ہاں کچھ اس پرکار کی آوازیں ہیں پر انہیں شبدوں میں بتا پانا بہت کٹھن ہے۔‘‘ ڈاکٹر بولا۔ اچانک برابر کے کمرے سے ایک نو عمر لڑکا نکلا۔

’’ڈاکٹر نے لیڈی کو کیا روگ بتایا اندر سے انکوائری کی ہے۔‘‘

یہ آواز سنتے ہی مریضہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور سانسیں یکایک بے ترتیب ہو گئیں۔ دراز قد شخص کے چہرے پر ناگواری کا دھواں پھیل گیا۔

’’اندر جاؤ۔ اندر جاؤ۔ خبر دار بلا اجازت یہاں قدم نہ رکھنا۔‘‘ نو عمر بچہ حیرت سے اسے دیکھتا ہوا اندر چلا گیا۔

ڈاکٹر نے مریضہ کے سنہرے بالوں میں کنگھی کرنے والے انداز سے جڑوں تک انگلیاں لے جا کر کاسہ سر پر ہتھیلی جما دی۔

’’فیور بڑھ رہا ہے‘‘ وہ بڑبڑایا۔ پیشانی کی پسینے کے قطروں سے اپنی ہتھیلی کو نم کرتا ہوا وہ آنکھوں تک ہاتھ لے گیا۔ انگوٹھے کے نرم پیٹ سے آنکھ کے پپوٹے کو آہستگی سے اوپر اٹھایا۔ آنکھوں کی سفیدی چمکی۔ رخساروں کی گرمی ہاتھ کی پشت سے محسوس کرتا ہوا وہ دھیمے سے بولا۔

’’اصل مرض کا تعلق تنفس سے ہے۔‘‘

ڈاکٹر نے اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر کچھ سوچا اور پھر مریضہ کے ابھرتے ڈوبتے سینے پر آنکھیں جما دیں اور بے ترتیب سانسوں کا معائنہ کرنے لگا۔ ڈاکٹر نے سیدھے کھڑے ہو کر بہت یقین کے ساتھ کہا۔

’’اس روگی کے سارے شریر میں جیون ہے۔ کیول سانس کی پرابلم ہے اور یہی سب سے بڑی پرابلم ہے۔ پھیپھڑے کی خرابی کا کوئی علاج نہیں ہے۔‘‘

’’کیا آپ کو یقین کامل ہے کہ اعضائے تنفس قطعاً بیکار ہو چکے ہیں؟‘‘ ڈاکٹر نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے ڈاکٹر کو آسان زبان میں سوال سمجھایا۔

ڈاکٹر نے آلہ لگا کر پہلی بار پھیپھڑوں کو دیکھا۔ دیر تک دیکھتا رہا۔ پھر بولا۔

’’بڑی وچتر بات ہے۔ پھیپھڑے بالکل ٹھیک ہیں پر پوری سانس نہیں لے پا رہے۔‘‘

’’پوری سانس لینے سے بدن کے دیگر اعضا کی قوت کا کیا تعلق ہے‘‘؟ دراز قد انسان نے سوال کیا

’’بہت بڑا سمبندھ ہے۔ تازہ ہوا جب پھیپھڑوں کے راستے رکت میں ملتی ہے تو جیون کا سروپ بنتا ہے۔ وہ جیون رکت کے ساتھ مل کر شریر کے ہر انگ کو شکتی دیتا ہے۔ پوری ہوا نہ ملے تو رکت۔۔۔ لال رکت تھوڑی دیر بعد نیلا پڑ جاتا ہے اور شریر کے ہر بھاگ میں روگ چھا جاتا ہے۔‘‘

’’آپ کا گمان ہے اعضائے تنفس اپنا کام بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں تو پھر بدن میں تازہ ہوا کی کمی کیوں ہے؟‘‘

’’شریر میں تازہ ہوا کی کمی اس لئے ہے کہ اس کمرے میں تازہ ہوا نہیں ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے اعتماد کے ساتھ جواب دیا۔

’’اس کمرے میں کھلنے والے باقی کمروں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں ان کمروں میں باہر کی طرف بے شمار کھڑکیاں ہیں‘‘ دراز قد انسان نے تفصیل سے بتایا۔

’’پر مجھے لگتا ہے کہ کسی کھڑکی سے تازہ ہوا نہیں آ رہی۔‘‘

دفعتاً برابر کا ایک کمرا کھلا اور ایک نو عمر فراک اسکرٹ پہنے داخل ہوئی۔

’’ماما نے پوچھا کہ لیڈی کا فیور ڈاؤن ہوا کہ نہیں؟‘‘

مریضہ کا بدن ایک لمحے کو تڑپا اور سانس پھر بے ترتیب ہو گئی۔

’’دور ہو جاؤ میرے نگاہوں کے سامنے سے۔ ناہنجار۔‘‘ دراز قد انسان شدید طیش کے عالم میں دانت پیستے ہوئے آواز کے آہنگ کو کم کرتے ہوئے بولا۔

’’آپ اینگری کیوں ہوتے ہیں۔ میرے کو حال پوچھنے اندر سے ماما بھیجتی ہے۔ میری مسٹیک کدھر ہوتی۔‘‘ لڑکی نے ناک پھلا کر احتجاج کیا۔

اس لڑکی کے الفاظ، لہجے اور آواز سے دراز قد انسان پر پاگل پن جیسا دورہ پڑ گیا۔ ڈاکٹر نے بمشکل اسے سمجھایا۔ لڑکی کو ہاتھ کے اشارے سے اندر جانے کو کہا۔

پھر ڈاکٹر بولا۔ ’’میرے پاس ایک ہی دوا ہے۔ اس پرکار کے روگی کے لئے کسی بھی ڈاکٹر کے پاس ایک ہی میڈیسن ہوتی ہے۔ وہ میڈیسن دے کر پھیپھڑوں کی باریک باریک نسوں کو پھلایا جا سکتا ہے تاکہ ان میں تازہ ہوا بھلی بھانت بھر جائے۔ پر۔۔۔‘‘

’’پر کیا؟۔۔۔‘‘ دراز قد انسان نے بے صبری سے پوچھا۔

’’پر یہ دوا تبھی کام کرتی ہے جب روگی کو اچھی ماترا میں تازہ ہوا مل سکے۔ تبھی تو پھیپھڑوں کی پھولی ہوئی نسوں میں ہوا جا سکے گی۔ جب تازہ ہوا ہی نہ ہو تو کیول پھیپھڑوں کی نسوں کو پھلا کر کیا کیا جا سکتا ہے۔‘‘

’’تب‘‘؟ دراز قد انسان نے متفکر ہو کر پوچھا۔

’’اس کا کوئی اپائے نہیں ہے۔‘‘ ڈاکٹر کا لہجہ مایوسانہ تھا۔ پھر کچھ دیر کی خاموشی کے بعد بولا۔

’’کیا روگی کا کمرہ بدلا نہیں جا سکتا۔‘‘ ڈاکٹر نے پوچھا۔

’’نہیں یہ عزیزہ کا مخصوص کمرہ ہے۔ زندگی اسی میں گزری ہے۔ باہر پھیلی تمام عمارتوں کے درمیان یہ کمرہ عزیزہ کے علاوہ کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔‘‘

’’لیکن روگی کو اس کمرے کے علاوہ دوسرا کمرہ تو دے سکتے ہیں۔‘‘

’’لیکن بنا تازہ ہوا کے روگی اتنے دن تک جیوت کیسے رہا؟‘‘

تازہ ہوا کی کمی کا مسئلہ بہت پرانا نہیں ہے۔ اس کمرے کے چاروں طرف مریضہ کے متعلقین کے کمرے ہیں۔ ان میں دریچے اور روشندان ہیں، دروازے ہیں لیکن وہ لوگ ان کو کھولتے نہیں۔‘‘

’’کیا ان لوگوں کو دوسروں سے ملنے کے لئے اپنے کمروں سے نکلنا نہیں پڑتا؟‘‘

’’نہیں۔ انہوں نے سہولت اور آرام کے پیش نظر دوسروں سے ملنے کے لئے اندر ہی اندر دیواروں میں راستے بنا لئے ہیں۔‘‘

’’پھر تو بہت اچنبھے کی بات ہے کہ روگی اب تک جیوت کیسے ہے۔ دن رات اسی پرانی ہوا میں جیوت رہنا بہت کٹھن ہے۔‘‘

’’نہیں۔ در اصل اس عمارت کے ایک کمرے میں شام ڈھلے باہر کا دروازہ کھلتا ہے اور تازہ ہوا کی ایک لہر اندر آ جاتی ہے۔ شاید اسی سے کاروبار ہستی قائم ہے۔ یوں بھی عزیزہ بہت سخت جان ہے۔‘‘ وجیہہ مرد نے بستر پر لیٹی خاتون کو محبت سے دیکھتے ہوئے کہا۔

ڈاکٹر کچھ دیر تک سوچتا رہا پھر بولا۔

’’میں نے اس پرکار کا روگی پہلی بار دیکھا ہے۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ان کے اور ناطے دار بھی ہیں۔ کبھی کبھی بیماری پرکھوں سے بھی مل جاتی ہے۔‘‘

’’عزیزہ کی کئی بہنیں ہیں۔ ایک بہن بہت معمر ہے۔ اس کا گھر اس ملک سے باہر ہے۔ وہ نوجوانوں کی طرح ترو تازہ ہے۔ وہ اپنے دیس کے باہر بھی عقیدت و احترام کی نظر سے دیکھی جاتی ہے۔‘‘

’’اور؟‘‘

’’ایک بہن جو اس سے کچھ بڑی ہیں وہ بھی اس ملک سے باہر رہتی ہیں اور اپنے ملک میں بہت خوش و خرم ہیں۔ تمام تر عیش و لذت کوشی ان کی قسمت میں نوشت کر دی گئی ہے۔ ایک بہن اس ملک میں بھی ہے۔ اور بہت آرام سے ہے۔ اس کے متعلقین عزیزہ کو بھی اس کی روش پر چلانا چاہتے ہیں لیکن مریضہ کے عزیزوں نے انکار کر دیا۔‘‘

’’کیا اس بہن کے چال چلن میں کوئی برائی ہے؟‘‘ ڈاکٹر نے آلہ گردن میں لٹکاتے ہوئے پوچھا۔

’’نہیں کوئی برائی نہیں لیکن اگر عزیزہ اس کی چال چلتی تو اپنا آپا کھو دیتی۔‘‘

اچانک دراز قد شخص کو کچھ یاد آیا۔ وہ ہلکے ہلکے جوش کے انداز میں گویا ہوا۔ ’’عزیزہ کے بزرگوں میں ایک ضعیفہ ہے۔ ان کے گھر والے انہیں بہت عزت دیتے ہیں لیکن کبھی گھر سے باہر نکلنے نہیں دیتے۔ مسموع ہوا کہ وہ طاقت ور ضعیفہ محبوس ہو کر اب کمزور ہو گئی ہیں۔ ان کے متعلقین احتراماً انہیں سلام تو کر لیتے ہیں لیکن کوئی ان کے پاس دیر تک بیٹھنا گوارا نہیں کرتا۔‘‘

یکایک کسی پردے کے پیچھے سے دال بھات مانگنے کی آواز آئی۔ یہ ایک شیریں نسوانی آواز تھی۔ وہ آواز تھوڑی دیر بعد رام سیتا، لنکا اور ہنومان کے قصے سنانے لگی۔

ڈاکٹر نے دراز قد انسان کو حیرت سے دیکھا جیسے اسے اعتبار نہ آیا ہو لیکن دراز قد انسان کے چہرے کے سنجیدہ تیوروں نے ڈاکٹر کا اعتماد اسے واپس کیا۔

ڈاکٹر نے مریضہ پر نظریں گاڑ دیں۔ اس کی حالت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔

’’آپ بتا رہے تھے کہ شام ڈھلے برابر کے کمرے کی کھڑکی سے تازہ ہوا کا جھونکا اندار آتا ہے؟‘‘

’’ہاں! حالاں کہ وہ وقت شام کا وقت ہوتا ہے لیکن وہ ہوا باد صبا کی طرح دل خوش کن ہوتی ہے۔‘‘

’’کیا شام ڈھل چکی۔‘‘ دراز قد انسان نے بے چینی سے پوچھا۔

’’نہیں ابھی کچھ دیر ہے۔ کیا آپ کو سمے بیتنے کا اندازہ نہیں ہوتا؟‘‘ دراز قد انسان خاموش رہا۔ اس سوال کے اندر ایسا کچھ تھا جس نے اسے مزید بے چین کر دیا۔

ڈاکٹر اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتا رہا۔ جب یہ نظریں سوئی بن کر دراز قد انسان کے چہرے پر جگہ جگہ کھب گئیں تب اس نے گہری اور مجبور آواز میں کہا۔

’’نہیں۔‘‘

’’اچرج کی بات ہے۔‘‘ ڈاکٹر اور کچھ نہیں بول سکا۔

لیکن اس کی نگاہیں مرد کے چہرے پر جمی رہیں۔ مرد ان نگاہوں کی تاب نہ لا سکا۔ دھیمے دھیمے گویا ہوا۔

’’بہت دنوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر گھڑی وقت غروب چھایا ہوا ہے۔‘‘

’’کیا آپ بھی ہر وقت دیواروں کے بیچ بند رہتے ہیں؟‘‘ ڈاکٹر نے کرید نے والے انداز میں پوچھا۔

اس مرتبہ مرد کی خاموشی مہیب تھی۔ ڈاکٹر سہم کر رہ گیا۔

مرد نے ڈاکٹر کی دلی کیفیات کا اندازہ لگا لیا۔ شگفتہ لہجے میں بولا۔

’’بہت سی باتیں پر اسرار ہوتی ہیں اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ میں بھید پر سے پردہ ہٹا بھی دوں تب بھی آپ پوری بات نہیں سمجھ سکیں گے۔‘‘

دونوں دیر تک خاموش رہے۔ پھر ڈاکٹر نے پہل کی۔

’’میں بس یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جب تازہ ہوا کا جھونکا اس کمرے میں آتا ہے تو روگی کی حالت میں کس طرح کا فرق آتا ہے؟‘‘

’’شام ڈھلے آپ دیکھ لیجئے گا۔‘‘

’’شام ڈھلنے میں ابھی دیر ہے۔‘‘

دونوں پھر خاموش ہو گئے۔ ڈاکٹر کو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اس مرد کے علاوہ کسی اور کو خاتون کی زندگی میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ مریض کی حالت پوچھنے والیوں کو اس نے دیکھا نہیں لیکن اتنا اندازہ تھا کہ وہ بھی مریض کی حالت میں بس اتنی ہی دلچسپی لے رہی ہیں جیسے لوگ موسم کی تبدیلی کے بارے میں ایک دوسرے سے معلوم کرتے ہیں۔ اس کی سمجھ کام نہیں کر رہی تھی کہ اس رعب دار مرد کی اس آبادی میں کیا حیثیت ہے۔ اس عمارت کے دوسرے مکینوں سے اس کا کیا تعلق ہے اور باہر پھیلی ہوئی اس بستی سے مرد کا کیا علاقہ ہے۔ اس کے دل میں رہ رہ کر سوال اٹھ رہے تھے لیکن وہ مرد کے لہجے کی سنجیدگی اور موقع کی نزاکت کے پیش نظر زیادہ سوالات نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔ اس نے کچھ گھما کر معلوم کرنا چاہا۔

’’یہ باہر کا علاقہ کس کا ہے؟‘‘

’’کیا آپ پہلی مرتبہ آئے ہیں؟‘‘

’’جی ہاں۔ بس دور سے دیکھتا رہتا تھا۔ دیکھنے میں یہ پوری آبادی بہت اچھی لگتی تھی۔ دور سے ان عمارتوں کی اونچائی، مضبوطی اور پرانا پن من کو کھینچتا تھا۔ آج قریب سے بازار بھی دیکھا۔ رنگا رنگ چیزیں، طرح طرح کی پوشاکیں، الگ الگ نسلوں کے لوگ، پھر ہو حق کرتی سادھو سنتوں کی آوازیں۔ میں زیادہ نہیں دیکھ پاتا تھا۔ لیکن ککیا اینٹ کی باہر کی ایک عمارت کو دیکھ کر من کو بہت شانتی ملی کہ اس آبادی میں ایسی سادگی بھی ہے۔‘‘

’’آئیے میں آپ کو آبادی کی ایک جھلک دکھا دوں۔ جب سورج ڈھلنے کا وقت قریب آ جائے تب مجھے بتا دیجئے گا۔ ہم لوگ مریضہ کے پاس واپس آ جائیں گے۔‘‘

ساگوان کے سیاہی مائل اونچے دروازوں کو کھول کر وہ دونوں باہر نکلے۔ غلام گردش میں کئی طرح کے لوگ ملے لیکن کوئی ان دونوں سے مخاطب نہیں ہوا۔ ڈاکٹر نے محسوس کیا کہ مخاطب کوئی نہیں ہوتا لیکن تمام افراد اس با رعب، وجیہہ اور خوش پوش مرد کو عقیدت و محبت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ غلام گردش کا یہ حصہ چوڑی سیڑھیوں والے ایک زینے کے مقابل تھا۔ دونوں اس پر چڑھے۔ اونچی نیچی چھتوں والی بے شمار عمارتوں کو عبور کرتے ہوئے وہ لوگ زینے پر چڑھتے رہے۔ یہاں تک کہ سب سے اونچی چھت آ گئی۔ چھت پر کنگورے دار حصار تھا۔ مرد نے اس کا ہاتھ پکڑ کر حصار کے پاس لا کر کھڑا کر دیا۔ نیچے پوری بستی پھیلی ہوئی تھی۔ چھت پر ابھی سورج کی زرد شعاعیں تھیں لیکن نیچے — بہت نیچے بستی میں اندھیرا اتر چکا تھا۔

ڈاکٹر نے محسوس کیا کہ اندھیرا اترنے کے باوجود نیچے ابھی بھی رونق ہے۔ تب اسے محسوس ہوا کہ رونق کا لطف روشنی سے نہیں آبادی سے ہوتا ہے۔ یہ بلند اور مضبوط عمارت چاروں طرف سے بازاروں سے گھری ہوئی تھی اور اس عمارت سے متصل ککیا اینٹ کی وہ عمارت بھی ریشم جیسے اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی جہاں اس نے ہو حق کی صدائیں سنی تھیں۔

’’یہ سب کس کا ہے؟‘‘ اس نے نیچے آبادی پر نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا۔

یہ عمارتیں، یہ ستون، یہ بالا خانے، یہ حصار، یہ بازار یہ ہو حق کی صدائیں یہ سب میری ہیں۔۔۔ ان سب کا مجھ سے ہی علاقہ ہے۔‘‘

مرد نے متانت کے ساتھ جواب دیا۔

ککیا اینٹ کی اس سادہ عمارت میں کچھ سفید پوش سائے نظر آئے جن کے چہروں کے خطوط ملگجے اندھیرے کی وجہ سے صاف نظر نہیں آ رہے تھے۔

’’وہ۔۔۔ وہ کون لوگ ہیں؟‘‘ ڈاکٹر نے بے صبری سے پوچھا۔

مرد نے ادب سے ان سایوں کو دیکھا اور تھوڑی دیر بعد بولا۔

’’وہ عمارت اور سفید پوش ہو حق کی صدائیں بلند کرنے والے سب اسی بستی کا حصہ ہیں۔ بازار کے تمام افراد بھی اسی بستی کا ایک حصہ ہیں۔ اس عمارت کے سارے مکین بھی اسی بستی کا ایک حصہ ہیں اور یہ سب کے سب اس مریضہ کی بیماری سے آدھے ادھورے رہ گئے ہیں۔‘‘

’’مطلب؟‘‘ ڈاکٹر کی آنکھیں پھیل گئیں۔

’’سب اسی خاتون کے حوالے سے اپنی زندگی گزارتے تھے۔ شعوری طور سے کسی کو احساس بھی نہیں ہوتا تھا کہ مریضہ ان کے لئے کتنی کار آمد ہے لیکن جب سے وہ بیمار ہوئی ہے، کمزور ہوئی ہے سب خود میں کچھ نہ کچھ کمی پا رہے ہیں۔‘‘

’’یہ باتیں تو پہیلیوں جیسی ہیں۔‘‘ ڈاکٹر دھیمے سے بولا۔ اب اسے ڈر لگنے لگا تھا۔ لیکن اب اس کی سمجھ میں کچھ کچھ آنے لگا تھا۔ جب سورج کی آخری شعاع ماند ہو کر اندھیرے میں کھو گئی تو اس پھیلی ہوئی آبادی میں استادہ اس عظیم الشان عمارت کی وسیع و عریض چھت کے حصار کے پاس کھڑے ہو کر اس نے خود کو مرعوب پایا۔ لیکن اب اس سے رہا نہیں گیا۔

’’روگی کون ہے آپ نے اب تک نہیں بتایا؟ آپ نے اب تک روگی سے اپنے رشتے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔‘‘ چھت کی کھلی فضا میں ڈاکٹر نے ہمت پا کر سوال کیا۔

مرد حصار کے نیچے جھانکتا رہا۔ پھر یکایک بولا۔

’’آپ خود کچھ نہیں سمجھ سکے؟‘‘ مرد کی آنکھوں میں ایک دکھ بھرا سوال تھا۔

تب ڈاکٹر کو اچانک ایسا لگا جیسے پردہ سا ہٹ گیا ہو۔ اسے یاد آیا جب اس نے مریضہ کے دل کی دھڑکنیں سنی تھیں تو اسے کچھ آوازیں بھی سنائی دی تھیں جنہیں وہ اس سے پہلے بھی بارہا سن کر خوش ہو چکا تھا۔

اب اس نے بغور اس وجیہہ مرد کو دیکھا اور دیر تک دیکھتا رہا اور سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔

’’شام ڈھل گئی ہے۔ آئیے نیچے چلیں۔ روگی کو دیکھ لیں۔‘‘

وہ دونوں تیزی سے نیچے اترے۔ دروازے میں داخل ہوتے ہی انہیں محسوس ہوا کہ برابر والے کمرے سے ہوا کے تازہ جھونکے آ رہے ہیں۔ مریضہ بستر پر گاؤ تکیے کے سہارے وقار کے ساتھ بیٹھی تھی اور اس کے چہرے پر سرخی چھلک آئی تھی۔ ڈاکٹر کو آتے دیکھ کر اس نے کوئی تکلف نہیں کیا لیکن مرد کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں شکر گزاری کے جذبے لہرائے۔

’’کیسی ہو؟‘‘ مرد نے کمال محبت کے ساتھ قریب جا کر دھیرے سے پوچھا۔

وہ بدقت مسکرائی۔ بڑی بڑی آنکھوں سے مرد کا جائزہ لیا اور ادب سے بولی۔

’’اس وقت تو اچھی ہو جاتی ہوں۔‘‘

’’ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ تمہارے اعضائے رئیسہ مکمل طور پر تندرست ہیں۔ بس سانس لینے بھر کو تازہ ہوا کی کمی ہے۔‘‘

مریضہ خاموشی کے ساتھ سر جھکائے بیٹھی رہی۔

’’آپ اتنا پریشان کیوں ہوتے ہیں۔‘‘ وہ دیر کے بعد بولی۔

’’تم جانتی ہو کہ اس بستی کا کاروبار ہستی میری وجہ سے قائم ہے۔ تم نصیب دشمناں ختم ہو گئیں تو دھیرے دھیرے سب کچھ خس و خاشاک ہو جائے گا۔‘‘

’’کیا‘‘ ڈاکٹر نے انہیں روک کر پوچھا، ’’کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ برابر والے کمرے کی کھڑکی ہمیشہ کھلی رہے اور تازہ ہوا آتی رہے۔‘‘

’’برابر والے کمروں میں جہاں اور مکین ہیں وہیں کچھ نوجوان بھی ہیں۔ چاروں طرف بنے ان کمروں میں صرف ایک کمرہ ایسا ہے جس کے مکین نے باہر کی کھڑکی کھول رکھی ہے۔ شام کو جب وہ واپس آتا ہے تو دروازہ کھول دیتا ہے۔ تبھی تازہ ہوا کے جھونکے اندر آ پاتے ہیں۔ دن بھر روزی روٹی کے چکر میں مارا مارا پھرتا ہے۔ شام ڈھلے واپس آ پاتا ہے۔‘‘

باقی لوگ بھی اپنی رہائش گاہوں کی کھڑکیاں کھول کر ادھر والے دروازے نہیں کھول سکتے؟‘‘ ڈاکٹر نے پوچھا۔

’’غالباً انہیں اب اس خاتون سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔‘‘

’’اس نوجوان کو دلچسپی کیوں ہے؟‘‘

’’کیوں کہ وہ اس خاتون کو زندہ دیکھنا چاہتا ہے۔‘‘

’’وہ کیوں؟‘‘

’’کیوں کہ اسے اپنے اجداد سے محبت ہے۔‘‘

’’یہ باتیں میری سمجھ میں نہیں آ رہی ہیں۔‘‘ ڈاکٹر نے بہت مایوسی کے عالم میں کہا۔

’’میں نے پہلے ہی عرض کیا تھا کہ اگر میں کچھ بتانا بھی چاہوں تب بھی ضروری نہیں کہ ہر بات آپ کی سمجھ میں آ سکے۔‘‘ مرد نے رنجیدہ لہجے میں جواب دیا۔

’’کیا میں کچھ کر سکتا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر نے جیسے ہتھیار ڈال دیئے ہوں۔

’’آپ ڈاکٹر ہیں۔ آپ ہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ آپ کیا کر سکتے ہیں؟‘‘

تب ڈاکٹر نے بہت مضبوط لہجے میں لیکن ادب کے ساتھ کہا۔ ’’میں صرف پھیپھڑوں کو مضبوط کرنے والی دوا دے سکتا ہوں لیکن پھیپھڑوں کی مضبوطی کی اصل دوا در اصل تازہ ہوا ہوتی ہے۔‘‘ اس ماحول میں اتنی دیر تک رہنے کے بعد وہ اب صاف و شفاف زبان میں بات کر سکتا تھا۔ وہ پھر گویا ہوا۔

’’اس عمارت کے تمام نوجوان مکینوں سے کہیئے کہ وہ باہر کھلنے والی تمام کھڑکیاں کھول کر اس کمرے میں کھلنے والے دروازے کھول دیں۔‘‘

’’اگر وہ ایسا نہ کریں۔۔۔ تب۔۔۔ تب کیا ہو گا؟‘‘ مریضہ نے بہت بے صبری کے ساتھ پوچھا۔

’’تب‘‘ ڈاکٹر نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ’’تب یہ ختم ہو جائیں گے‘‘ اس نے دراز قد وجیہہ مرد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا حسین و جمیل مغموم مریضہ اور دراز قد وجیہہ مرد نے ایک دوسرے کو کن نگاہوں سے دیکھا، یہ کوئی نہیں دیکھ سکا کیوں کہ ڈاکٹر دھیرے سے بیگ اٹھا کر خاموشی سے باہر نکل آیا تھا۔

٭٭٭

 

 

آراء اور تبصرے

وسیم عقیل شاہ

 

اردو ادب میں جن چند شاعروں ادیبوں نے ستاروں کی سی شہرت پائی ان میں اردو فکشن کے قد آور تخلیق کار سید محمد اشرف کا شمار ناگزیر ہے۔ سید محمد اشرف اپنی منفرد فکر، خیال افروزی، شگفتہ زبان اور زبان کے قادرانہ انداز و لہجے کے ساتھ پچھلے پچاس برسوں سے فکشن کی زمین کو چمن زار کرتے آئے ہیں۔ آپ کا تعلق صوفی گھرانے سے ہے۔ تصوف کے اس ماحول سے ان کے افسانوں اور ناولوں میں اسرار، رمز، علامت اور دبازت پیدا ہو گئی ہے۔ موضوعات کے برتنے میں بھی وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ انھوں نے کئی اہم موضوعات کو نئے حوالوں اور نئے تناظرات میں کامیابی سے برتا ہے۔ بزمِ افسانہ کی توسط پیش کردہ افسانہ ’باد صبا کا انتظار‘ اردو زبان کی بقا کے لیے لکھا گیا اپنی نوعیت کا یہ ایک شاہکار افسانہ ہے یہ افسانہ عالمی ادب کے ان افسانوں میں شمار کیا جاتا ہے جن میں مادری زبان کی اہمیت و افادیت، اس کی تاریخ و تہذیب اور اس کی اشاعت و ترویج کو مرکزی خیال بنایا گیا ہے۔ (یہ ایک علامتی انداز کا افسانہ ہے، اس میں استعارے بھی ہیں چھوٹی چھوٹی علامات بھی لہٰذا اس کی اور بھی کئی تعبیریں ہو سکتی ہیں)

افسانے کی تلخیص معنی و اشارات کے ساتھ یہ ہو سکتی ہے کہ ایک لڑکی جو مریضہ ہے، لیکن اس کے بارے میں ڈاکٹر کو معائنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسے کسی قسم کا مرض نہیں ہے، بس عمل تنفس میں کچھ خرابی آئی ہے۔ اس کا دم گھٹتا ہے، اور دم اس لیے گھٹتا ہے کہ وہ ایسی جگہ رہتی ہے جو چاروں طرف سے بند ہے۔ درویش صفت نظر آنے والے بزرگ اس کے نگران دکھائی دیتے ہیں، وہ خود کو اس مریضہ کے مجازی رب کہتے ہیں، لیکن وہ مریضہ کے لیے صرف پریشان ہونے، تدبیریں کرنے، ماضی میں جھانکنے کے سوا کچھ کر نہیں پاتے۔ آخر ڈاکٹر مریضہ کو دوا کے طور پر تازہ ہوا تجویز کرتا ہے۔

یہاں مریضہ اردو زبان کی موجودہ علامت ہے جس کی بد حالی سے ہم سب واقف ہیں۔ درویش صفت بزرگ امیر خسرو، ڈاکٹر شاید ہندی زبان اور اس محل نما گھر اور اس کے آس پاس کا پورا حصہ اردو زبان کی ارتقائی مراحل کے استعارے ہیں جن میں اس زبان کی تاریخ و تہذیب واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد کہانی کے جتنے ضمنی کردار ہیں ان سب کا جائزہ لیں تو یہ سب اپنے اپنے اندر ایک علامتی وجود لیے ہوئے ہیں اور اپنے افعال سے مریضہ کی طبیعت کے مد و جزر کا سبب بنتے ہیں۔

سید محمد اشرف صاحب قابل مبارک باد ہیں کہ انھوں نے اس موضوع کو اپنے افسانے میں پیش کیا۔ یہ ان کی زبان سے محبت کا ثبوت بھی ہے اور زبان کی تئیں ان کی فکر مندی بھی۔ یہ افسانہ ان کے افسانوی مجموعے ’بادِ صبا کا انتظار‘ کا ٹائٹل افسانہ ہے اور اس کتاب کا انتساب انھوں نے اپنے بچوں کے نام اس دعا کے ساتھ کیا ہے کہ ’’وہ بڑے ہو کر ان کہانیوں کو اسی زبان میں پڑھ سکیں کہ بادِ صبا کے انتظار کی مدت کچھ تو کم ہو‘‘

دوسری بات اس موضوع کو فکشن میں جس انداز سے برتا ہے، وہ واقعی بڑا فن ہے۔ ہم اس افسانے کے کینوس پر غور کریں تو سید محمد اشرف نے اردو زبان کی ابتدا تا حال پوری کہانی چند صفحات میں پیش کر دی۔ اس پورے منظر نامے کو کس اسلوب اور کس عمدہ کرافٹ سے بیانیہ میں ڈھالا کہ قاری عش عش کر اٹھے۔ اردو زبان کی کہانی لکھ کر سید محمد اشرف نے بیانیہ میں زبان کی سچی حلاوت کا بھی احساس دلایا ہے۔

٭

 

نصرت شمسی

 

دلچسپ طویل اور انوکھے انداز کا افسانہ پڑھا پڑھتے پڑھتے لگا کہ طویل۔ کچھ زیادہ ہی ہو گیا۔ لیکن پھر بھی پڑھا کہ ایک تجسس تھا جو قاری کو ساتھ لے کر چلتا جا رہا تھا۔ وسیم عقیل صاحب کا تبصرہ پڑھ کر مریضہ کا نام بھی پتہ چلا اور احساس ہوا کہ جو علامت سمجھ میں آ رہی تھی وہی نکلی۔

وسیم صاحب کے بہترین تبصرہ اور بہترین افسانہ کے لیے بہت مبارک باد

نصرت شمسی

٭

 

شمع افروز زیدی

 

شاہکار افسانہ۔ اس پر ماشاء اللہ وسیم عقیل شاہ کا بہترین تبصرہ۔ جی خوش ہو گیا بہت دعائیں اور مبارکباد۔

٭

 

ساحل تماپوری

 

افسانہ: باد صبا کا انتظار

افسانہ نگار۔ : سید محمد اشرف

اظہار خیال: ساحل تماپوری

بزم افسانہ سترہواں ایونٹ میں اب تک پیش کئے گئے افسانوں میں یہ افسانہ رنگ و آہنگ کے اعتبار سے مختلف لگا۔ افسانہ پڑھنا شروع کیا تو افسانہ نویس کے قلم و خیال نے جو احوال بتائے و مشاق انٹیریر ڈیکوریٹر کی سوچ کی غماز لگے۔ جیسے جیسے افسانہ آگے بڑھتا گیا۔ یہ راز کھلا افسانہ نگار مصوری کی بھی زبردست نگاہ رکھتے ہیں۔ جب مریضہ سے ملاقات ہوتی ہے تو ڈاکٹر اور کمپاؤنڈر کے شیڈ ایک دوسرے میں چھپ گئے۔ مریضہ کی کیفیت اور ” انسان ” سے کئے گئے مکالمے افسانہ کی بنیاد ہونے کے بعد بھی تاثر نہ چھوڑ سکے۔ ہندی اردو کے لفظوں میں ہوئی گفتگو کردار کی اسراریت کو نہ پگھلا سکی۔ ڈاکٹر ہر طرح کی جانچ کے بعد جس مرض کو پایا اس کے علاج کے درکار فضا میسر نہ ہونے پر اپنی اتنی سی صلاح دے کر رخصت ہونا قاری کو ہنوز باد صبا کے انتظار کی کوفت میں مبتلا کر دیا۔ بہر حال نئے موضوع نیا انداز اور بزم میں شمولیت۔ افسانہ نگار کے لئے بدھائی۔ اور نیک تمنائیں۔

نوٹ: انسان اور مرد؟

ساحل تماپوری۔ سعودی عرب

٭

 

محمد سراج عظیم

 

وسیم بہت بہت مبارک باد۔ جس طرح سے آپ نے ایک ایک گرہ کھولی ہے۔ اب تو شطرنج کے سارے مہرے، تاش کے سارے پتے بکھر گئے۔ شاہ کو مات دے بیٹھے کنگ منہ دیکھتا رہ گیا ا کہ رانی کو لے گیا۔ شہ مات اور کوٹ پیس کے کھیل میں اصل مات دینے والا مہرہ، آپ کی ترپ سب سے بعد میں لگنی چاہئے تھی۔ کھیل تو فنش ہو گیا، کچھ کھیلنے کے لئے نہیں بچا۔ مبارک۔

٭

 

ناہید طاہر

 

بادِ صبا کا انتظار

قلم کار: سید محمد اشرف

تبصرہ: ناہید طاہر

 

ابتدائی تمہید اور منظر کشی بہت طویل ہو گئی۔ اس بات کا خیال رکھا جاتا تو شاید قاری بوریت سے محفوظ رہتا۔ خیر کہانی آگے بڑھی۔۔ ایک جملہ جس پر قاری تذبذب کے عالم میں دوبارہ جملہ پڑھا اور سمجھنے کی کوشش کیا کہ

’مسہری پر قیمتی اور مرعوب کرنے والا بستر لگا ہوا تھا اور اس بستر پر وہ بدن رکھا ہوا تھا۔۔‘

بدن رکھا ہوا تھا تو کیا وہ ایک لاش تھی۔؟ کیونکہ جب جسم سے روح پرواز ہوتی ہے تب جسم کو حسبِ منشا تخت یا برف کے کیبن وغیرہ میں رکھا جاتا ہے۔ زندگی کی رمق باقی ہو تو وہ جسم رکھا جانے کے بجائے لیٹا ہوا۔ یا بستر پر دراز ہوتا ہے۔ میں یہ بات سمجھ نہیں پائی۔ خیر۔

آگے بڑھنے پر کہانی نے قاری کو بھول بھلیوں میں پھنسا دیا۔  ہندی، اردو زبانوں کا تال میل جس سے علامتیں سمجھنے کی ہزار کوشش کے بعد بھی کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔  افسانے کی طوالت الگ سے پریشان کر رہی تھی۔۔ بھلا ہو وسیم عقیل صاحب کا جن کے فہم و فراست سے لبریز خوب صورت تبصرہ و تجزیہ سے افسانے کا خلاصہ حاصل ہوا۔

تحریر کی گہرائی۔ لفظیات کی خوب صورتی۔ تخیل کی انوکھی اور عمدہ پرواز جس کے لیے معروف قلم کار داد و تحسین کے مستحق ہیں۔

نیک خواہشات

٭

 

فرخندہ ضمیر

 

فرخندہ ضمیر، اجمیر

اشرف صاحب کے کئی افسانے پڑھ چکی ہوں۔ ان کے افسانوں میں فنّی لوازم بھی ہیں اور افسانوی اندازِ بیان بھی۔

ان کے افسانوں کے موضوع ان کے تجربات و مشاہدات پر مبنی منفرد انداز سے سجے ہوتے ہیں۔

بادِ صبا کے انتظار میں افسانے میں بلا کا تجسّس ہے۔

فضا بندی قابل تعریف ہے۔ صوفی گھرانے سے تعلق رکھنے والے ہی ایسی منظر نگاری کر سکتے ہیں۔

اردو زبان کی حالتِ زار کا بیان کس خوش اسلوبی سے پیش کیا ہے کہ قاری بھی اس ماحول سے ہم آہنگ ہو جائے۔

افسانہ ختم ہونے تک تجسس قائم رہا۔ دماغ پر بہت زور دیا جب یہ عقدہ کھلا کہ یہ علامتی افسانہ اردو کی حالتِ زار بیان کر رہا ہے۔

پھر وسیم عقیل شاہ نے اس افسانے کو پرت در پرت کھول دیا۔

اس بزم کے ذریعہ ہی ہمیں معیاری افسانے پڑھنے کے لئے ملے۔

اس ایونٹ کے اس نایاب افسانے کے لئے سیّد محمد اشرف کو مبارکباد

٭

 

عظیم اللہ ہاشمی

 

مبصر: عظیم اللہ ہاشمی (بنگال)

نئی نسل کے سامنے سید محمد اشرف کا قد معاصر افسانہ نگاروں کی صف میں قابل احترام ہے۔ ان کی تحریر کو یہ نسل غور سے ڈوب کر پڑھتی ہے۔ اس صف میں خاکسار بھی شامل ہے۔ زیر نظر افسانے کو پڑھ کر مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے اس افسانے میں مریضہ در اصل زندگی کی علامت ہے جو آج کے گھٹن زدہ ماحول کے حصار میں ہے۔ اس سے بچاؤ کی ایک صورت ہے کہ ذہن و فکر کی تمام کھڑکیاں کھول دی جائے تاکہ تازہ ہوا کے جھونکے اندر آئیں اور ذہن و فکر کی تمام بند کھڑکیاں کھلیں اور فلیٹ زدہ زندگی گھٹن کے ماحول سے باہر نکلے۔ اس افسانے میں تخلیقیت کی خوشبو ہے۔ اس کے درون متن عہد حاضر کی گھٹن ہے جس سے افسانہ نگار نجات چاہتا ہے۔ نیک خواہشات

٭

 

انور مِرزا

 

اس شاہکار افسانے کیلئے

عصرِ حاضر

اور اردو فکشن کے

*لیونگ لیجنڈ*

*سید محمد اشرف*

صاحب کیلئے

پر خلوص مبارکباد

*انور مِرزا*

٭

 

اسرار گاندھی

 

ایک بے حد اچھی کہانی کے لیے اشرف صاحب کو میری طرف سے مبارک باد۔

میں یہ کہانی پہلے بھی پڑھ چکا ہوں اور اس وقت بھی پسند آئی تھی۔

٭

 

نعیمہ جعفری

 

افسانہ نگار۔ سید محمد اشرف۔

اظہار خیال۔ نعیمہ جعفری۔

کبھی کبھی ایک شعر حاصل غزل ہوتا ہے اور کبھی ایک غزل حاصل مشاعرہ ہوتی ہے۔ سید محمد اشرف کا یہ دلکش اور شاندار افسانہ حاصل بزم ثابت ہونے کے درجے پر فائز رہے گا۔

اشرف میاں کو بہت مبارکباد۔

میں نے شاہکار اس لئے نہیں کہا کہ ابھی وہ اور شاہکار تخلیق کریں گے ان شاء اللہ۔

٭

 

صادق اسد

 

*افسانہ: بادِ صبا کا انتظار*

*افسانہ نگار: سید محمد اشرف*

*تاثرات!:صادق اسد*

افسانہ ایک احساس ہے، جیسے صرف محسوس کیا جاتا ہے۔

افسانہ پڑھ کر سینے میں قید پرندہ پھڑ پھڑایا ایسے جیسے، اسے بھی تازہ ہوا کی ضرورت ہو۔

ابتداء سے اختتام تک نگاہ سطر در سطر جمی رہی۔

افسانہ ختم ہونے کے کچھ دیر بعد خود سے کہنا پڑا، افسانہ ختم ہو گیا۔

اور…… اپنا اثر چھوڑ گیا-

برسوں یاد رہے گا،

٭

 

انجم قدوائی

 

باد صبا کا انتظار

افسانہ نگار سید محمد اشرف۔

اس افسانے نے الفاظ سے حبس کی سی کیفیت طاری کر دی ہے۔ یہ افسانہ پہلے بھی پڑھ چکی ہوں ہر جملہ پرتاثیر ہے ان کے افسانوں کی تعریف کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے ان کا قلم یوں ہی چلتا رہے اور افسانے تخلیق ہوتے رہیں۔

انجم قدوائی

٭

 

ذکیہ مشہدی

 

باد صبا کا انتظار: سید محمد اشرف

مبصر: ذکیہ مشہدی

سید اشرف کا افسانہ باد صبا کا انتظار سر تا پا علامت ہے۔ اس کے انفرادی جملے نہ صرف گہرے معنی کے حامل ہیں بلکہ دماغ کے ساتھ دل پر بھی گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ مثال کے طور ہر جہاں اسکرٹ بلاوز میں ملبوس ایک بچی آ کر انگریزی الفاظ کو اردو کے ساتھ ملا کر بیمار خاتون کی خیریت دریافت کرتی ہے، وہاں مریضہ کے جسم کا ایک لمحے کو تڑپنا اور سانسوں کا بے ترتیب ہو جانا دل پر بہت اثر ڈالتا ہے۔ یہ ہماری آج کی وہ نسل ہے جو نام نہاد اردو دان طبقے کے گھروں میں پرورش پا رہی ہے، جس کے والدین بڑے فخر سے مہمانوں کے سامنے انگریزی نظمیں سنواتے ہیں یا فر فر انگریزی بولنے کا تذکرہ کرتے ہیں۔

ابتدا میں مختلف رنگوں اور نسلوں کے نمائندوں کی موجودگی، طرح طرح کی نرم سخت شیریں و کرخت آوازیں اور خاص طور پر بیمار خاتون کے سرخ بال جو ترکی نسل کی آمیزش محسوس کراتے ہیں قابل غور جملے ہیں۔ اردو نے جس طرح بہت سی زبانوں کو ہی نہیں ان کے بولنے والوں کی تہذیب کا ایک مرقع تشکیل دیا وہ یہاں جس طرح بیان ہوا وہ ایک فطری داد کا مستحق ہے جو دل کے اندر سے بر آمد ہوتی ہے۔

ڈاکٹر کا جنیو قابل غور ہے اور پھر اس میں اس بے پناہ حسین کمرے کو دیکھ کر سہم جانے والی کیفیت موجودہ صورت حال کی طرف بڑا گہرا اشارہ ہے۔

ہمارے معاشرے میں بہت سے فعال اور خفتہ تشدد (جی ہاں تشدد غیر فعال بھی ہوتا ہے) کی وجہ خوف، احساس کمتری اور نفرت کے جذبات ہوتے ہیں۔ یہ واحد وجہ نہیں ہوتے، دھیان رہے۔

دال بھات مانگنے کی آواز اور سیتا و ہنومان کے قصے۔۔ یہ الگ کچھ کہہ رہے ہیں۔ ایک نوجوان کی خاتون کو زندہ دیکھنے کی خواہش کہ اسے اپنے اجداد سے محبت ہے۔۔ واہ واہ۔

میں اب اور نہیں لکھ سکوں گی۔ سید اشرف نے دماغ پر بڑے تیکھے حملے کئے ہیں۔ افسانے کے بہت سے۔۔۔ بہت سے جملے خصوصی توجہ کے متقاضی ہیں۔

یہ افسانہ سوچ و فکر کا افسانہ ہے جذبات اس میں داخل ہوتے ہیں لیکن چور دروازے سے۔

ایک نشست میں ہبڑ ہبڑ پڑھ کر کچھ لکھ ڈالنے والا افسانہ نہیں ہے۔

آدمی، نجات، دعا دل پر حملہ آور ہوتے اور بے چین کر دیتے ہیں یہ افسانہ بہت دن تک کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔

کیا ہم محبان اردو میں کوئی ہے جو آکسیجن سلنڈر لے کر آئے؟

٭

 

نرگس سلطانہ

 

 

باد صبا کا انتظار

وسیم عقیل شاہ نے بہت اچھا تجزیہ کر دیا۔ بہت عمدہ کہانی ہے۔ آج جو اردو کی حالتِ زار ہے دوسری زبانوں کے مقابلے۔ ہماری نئی پیڑھی اس زبان سے ناواقف، دوسری زبانوں کی تقلید ابھی۔ ذکیہ مشہدی صاحبہ نے جو کچھ لکھا۔ سب یہی حالات کو بہت اچھے سے علامتی انداز میں بیان کیا۔ ایسی کہانی اپنی طوالت کے چلتے بری نہیں نہیں لگتی ایڈمن کا شکریہ

٭

محمد شمشاد

 

افسانہ نگار: سید محمد اشرف

تاثرات: محمد شمشاد

اردو ادب میں سید محمد اشرف کا محتاج تعارف نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی منفرد فکر و خیالات اور زبان و بیان بنا پر افسانوی ادب میں اپنا سکہ قائم کر دیا ہے۔ وہ اپنی مثال آپ ہیں۔

بزم افسانہ میں پیش کردہ افسانہ باد صبا کا انتظار ایک علامتی افسانہ ہے۔ جسے اردو ادب کی زبوں حالی کا سامنے رکھ کر لکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس میں مادری زبان کی اہمیت و افادیت اور ثقافت اس کی تاریخ، ترویج و اشاعت کو مرکزی خیال کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جس میں کردار بھی ہے اور کردار نگاری بھی، تسلسل، روانی منظر، نگاری مقصدیت بھی ہے۔ یعنی افسانہ نگاری کے ہر ایک پہلو اور نکتہ کو اس افسانہ میں ٹچ کیا گیا ہے۔ یعنی افسانہ ایک مکمل افسانہ ہے۔

اس کے لئے سید محمد اشرف کو بہت بہت مبارک باد اور نیک خواہشات

٭

 

رفیع حیدر انجم

 

بادِ صبا کا انتظار

افسانہ نگار: سید محمد اشرف

تاثرات: رفیع حیدر انجم

جناب وسیم عقیل شاہ اور محترمہ ذکیہ مشہدی صاحبہ نے جس خوبصورت اور مدلل انداز میں افسانے کی گرہ کشائی کی ہے، اس کے بعد کچھ کہنا انہی الفاظ کو دہرانے کے مترادف ہو گا۔ سید محمد اشرف ہمارے عہد کے منفرد افسانہ نگار ہیں اور افسانے میں اپنے انفرادی اسلوب اور بیانیہ میں علامتی و استعاراتی نظام کو بحسن و خوبی برتنے کے لئے جانے جاتے ہیں۔ ان کے افسانوں کو پڑھنا اور بات کرنا بھی اپنے آپ میں ایک خوشگوار احساس ہے۔ ایسے ہی افسانے ہمیں مسرت و بصیرت سے ہمکنار کرتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ کے اس افسانہ ایونٹ کے ذریعے مستند و معتبر افسانہ نگاروں کے افسانوں کو نہ صرف یہ کہ پڑھنے کا موقع مل رہا ہے بلکہ یہ افسانہ پسند قارئین کی تہذیبی و تربیتی مقاصد میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

٭

 

نسترن احسن فتیحی

 

 

افسانہ: بادِ صبا کا انتظار

افسانہ نگار: سید محمد اشرف

تاثرات: نسترن احسن فتیحی

سید محمد اشرف کا نام فکشن کی دنیا میں بہت معتبر ہے۔ اس حد تک کہ ان کی تخلیقات کلاسیک کے درجے پر فائز ہو چکی ہیں۔ آج ادب کا ہر قاری ان کے لکھے ہر ہر لفظ سے اچھی طرح واقف ہے۔ ادب کی دنیا سے وابستہ ہر ذی نفس ان ناموں سے نابلد نہیں رہ سکتا جو اپنے اپنے وقت کے مقبول ترین نام ہیں۔ سید محمد اشرف کا نام آتے ہی صرف باد صبا کا انتظار ہی نہیں بلکہ نمبر دار کا نیلا، آخری سواریاں، نصف صدی کا قصہ یہ سارے نام ذہن میں تازہ ہو جاتے ہیں کیونکہ ان ساری تخلیقات میں وہ قوت ہے جو آپ کی سوچ کے در وا کرتی ہے۔ آپ کو پڑھنے اور لکھنے کا قرینہ سکھاتی ہے۔ باد صبا کے انتظار پر اب تک کئی لوگوں نے سیر حاصل تبصرہ کیا ہے اور خاص کر ذکیہ آپا نے تو تقریباً ہر اس پہلو پر بات کی جو اس کی علامت اور اس کے اسلوب کی خوبیوں کو سمجھنے میں مدد کرے۔ سید محمد اشرف کے افسانوں میں انسانی نفسیات کی گہری سمجھ، تہذیبی اور اخلاقی پاسداری کے ساتھ ساتھ طبقاتی فرق اور ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ انسانی ہمدردی کی بہترین تصویر کشی ملتی ہے۔ انسانی زندگی میں موجود مختلف تضاد کو انہوں نے خوب اجاگر کیا ہے۔ اس افسانے میں جو المیہ موجود ہے اس کے لئے اتنا ہیک ہوں گی کہ یہاں موجود ہر فرد اردو سے محبت کرنے والا ہے تو اس مریضہ کی سانسیں بحال کرنے کے لئے اردو کی سچی خدمت کریں۔ کاغذ سیاہ کرنے سے پہلے بہترین ادب پڑھنا ضروری یے۔ اردو رسالے کو زندہ رکھنے کے لئے انہیں خریدنا ضروری یے۔ اپنے بچوں کو انگریزی کے ساتھ اردو پڑھانا ضروری یے۔ میں شاید بھٹک گئ۔

سید محمد اشرف کی تخلیقات اسلوبی سطح پر بھی بہت متاثر کرتی ہیں وہ سادہ بیانیہ ہو یا علامتی۔ زبان اور تہزیب کا زوال ہو یا طبقاتی کشمکش ہمارے ذہن و دل پر اپنا اثر چھوڑتی ہیں، کیونکہ وہ گہری فکر کی حامل ہیں۔ وہ تہذیب جو اب ماضی بن چکا ہے اور وہ زبان جو مر رہی ہے اس کا نوحہ ان کی تخلیقات میں نظر آتا ہے۔ بہر حال آخر میں صرف اتنا کہنا چاہوں گی کہ یہاں موجود ادب کی دنیا کے بڑے نام اور اساتذہ کے درجے پر فائز لوگوں کی نئی چیزیں بھی ہمیں پڑھنے کو ملنی چاہئے۔ اس لئے کبھی ایک ایونٹ اساتذہ کی تازہ تخلیقات پر بھی رکھیں۔

٭

 

ناصر ضمیر

 

افسانہ: بادِ صبا کا انتظار

افسانہ نگار: سید محمد اشرف

مختصر خیال:

ناصر ضمیر، سوپور کشمیر

ایک اچھا افسانہ ہے۔

اس کا کینوس کافی وسیع ہے مگر وسیم عقیل صاحب نے جس طرح کے تاثرات کا اظہار ابتدا میں کیا، اس سے تھوڑی سی گڑ بڑ ہو گئی۔

معذرت۔

چونکہ اس گروپ کا فارمیٹ ہے کہ تبصرے پر تبصرہ نہیں کرنا ہے اس لیے میں وسیم بھائی کے تبصرے کو یہیں چھوڑ دیتا ہوں اور اپنا مختصر تاثر۔۔۔۔۔۔۔

ہم کیوں اس بات پر بہ ضد ہیں کہ کہ فکشن پڑھنے کے بعد چاہیے افسانہ ہو ناول۔۔۔۔۔۔ اس کا کوئی مخصوص مقصد یا نظریۂ حیات ہونا چاہیے یا پھر اس سے کوئی ایسی چیز (برآمد) ہو جو ہمیں کسی مفہوم تک رسائی میں مدد کرے۔۔۔۔۔۔ مجھے لگتا ہے اس طرح کرنے سے فن پارے کی validity اور اس میں برتا گیا vision قید ہو جاتا ہے

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان ہر چیز کو جاننے اور پہچاننے کی اس دھن میں ادب کا نقصان تو نہیں کر رہا ہے۔

ادب اور آرٹ آزاد ہے۔

کسی خاص فکر یا نظرئیے کا محتاج نہیں۔

بالکل یہی بات اس افسانے پر بھی۔۔۔۔۔۔۔

عمومی اور سطحی طرح اس کو نہیں دیکھا جا سکتا ہے

بادِ صبا کا انتظار بھرپور افسانوی مزاج کا حامل۔۔۔۔۔۔

جناب۔ سید محمد اشرف صاحب کو مبارک باد۔

ایڈمن حضرات سے گزارش ہے کہ گروپ میں شامل استاد فن جناب غضنفر صاحب و دیگر اساتذہ سے افسانے پر بات کرنے کے ساتھ ساتھ فکشن کے رموز و تکنیک کی باریکیوں پر کھل کر گفتگو کرنے کی استدعا کریں۔ تاکہ مجھ جیسے طالب علم فیضیاب ہو سکیں۔

شکریہ

٭

 

شہناز فاطمہ

 

افسانہ نمبر: 06

افسانہ: باد صبا کا انتظار

افسانہ نگار: سید محمد اشرف

تاثرات: شہناز فاطمہ

واؤ۔ کیا طرز نگارش ہے کیا شاعرانہ انداز ہے کیا الفاظ کی تراش خراش ہے کیا بندش الفاظ کی چابکدستی ہے۔

بھئی واہ، مان گئی آپ کی فنکاری کا لوہا۔

طلسم ہوش ربا کے جیسے لفظوں کے بھنور اردو، ہندی کا جواب امتزاج

ایک سحر زدہ ماحول۔

اس میں ایسی زبردست علامتیں پیوست، وہ تو کہیے محترم وسیم عقیل صاحب کے تبصرے کی مہربانی سے افسانے کے اوراق کھل کر سامنے آ گئے ورنہ میں تو شاعرانہ انداز بیاں اور مسحور کن ماحول میں علامت کی ان پرتوں کو کھول ہی نہیں سکتی تھی۔ صحیح طرح سے ایسے ریشمی اور باریک لفظوں کی تہ میں ملفوف کر کے مقصد افسانہ رکھا تھا۔

بہرحال ایک لاجواب بے مثال شاہکار افسانہ پڑھنے کو ملا۔ ذہن فریش ہو گیا جبکہ میں علامتی افسانے بالکل نہیں پڑھتی بہت مشکل سے سمجھ میں آتے ہیں۔

مگر کیا زبردست غضب کا یہ افسانہ ہے، کیا روداد اردو ہے، کیا اس کی زبوں حالی ہے اور کس خوبصورتی سے آپ نے لفظوں میں موتیوں کی سجا کر حالت زار بیان کی ہے۔

ظاہر ہے الفاظ نہیں جو تعریف کی جا سکے کچھ کہنا آفتاب کو چراغ دکھانے کے مانند ہو گا لحاظ محترم جناب سید محمد اشرف صاحب کے لئے صرف نیک خواہشات اور پر خلوص دلی مبارک باد پیش کرتی ہوں گر قبول افتد زہے عز و شرف

اور ہاں! عنوان: باد صبا کا انتظار تو بہت ہی زبردست ریا ماشاء اللہ ماشاء اللہ، اللہ کرے زور قلم اور زیادہ آمین

٭

 

نگار عظیم

 

 

افسانہ: باد صبا کا انتظار

افسانہ نگار: سید محمد اشرف

اظہارِ خیال: نگار عظیم

یہ افسانہ سید محمد اشرف کے معروف افسانوں میں سے ایک ہے اس کی معروضیت اس کے بطن میں علامتوں کے طور پوشیدہ ہے میں نے ایسی علامتیں جو واضح بھی ہوں پوشیدہ بھی اور با مقصد بھی اتنی خوبصورت ادائیگی میں نہیں دیکھیں۔ افسانہ پڑھتے وقت جو کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ وہ کیفیت افسانہ ختم ہونے پر جو گھٹن دیتی ہے شاید اس گھٹن کو ہی باد صبا کا انتظار ہے۔ جو ہر اردو سے محبت کرنے والے کے لئے آکسیجن ہے۔ اس بنت کا افسانہ سید محمد اشرف ہی لکھ سکتے ہیں۔ دلی دعائیں، محبتیں، نیک خواہشات، خدا صحت کے ساتھ سلامت رکھے آمین

محترم سلام بھائی اور ایڈمن کا بہت شکریہ کہ اس افسانے کو پوسٹ کیا۔ میرا پڑھا ہوا افسانہ ہے لیکن ہر مرتبہ غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اور ایک نامعلوم سی خلش بے چارگی اور تلاش کی کیفیت چھوڑ جاتا ہے۔ شکریہ

نگار عظیم

٭

 

سلیم سرفراز

 

سید محمد اشرف میرے پسندیدہ قلم کار ہیں میں ان مرصع و مسجع اور رواں دواں تحریر کا گرویدہ ہوں۔ زیر نظر افسانہ "باد صبا کا انتظار” ایک علامتی افسانہ ہے جو شاید اس دور میں لکھا گیا جب علامتی افسانوں کا بول بالا تھا اور شاید اسی لیے اس افسانے کو بے حد پذیرائی حاصل ہوئی۔ بہ نظر غائر مطالعہ کرنے کے بعد مجھے اس میں تخلیق کم کرافٹ مین شپ زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ ہر کردار اور ہر جملے میں ایک تصنع کی جھلک ہے۔ افسانہ اپنے فطری بہاؤ میں نہیں بہتا بلکہ جگہ جگہ پر ایسے رخنے ہیں جو قاری کے تسلسل کو قائم نہیں رہنے دیتا۔ مجموعی طور پر یہ افسانہ کم روداد زیادہ معلوم دیتا ہے۔ اس کی طوالت بھی اس کے بوجھل پن کو بڑھاتے ہیں پوری قرأت کے بعد بھی قاری کی معلومات میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ تحریر اس کے جذبوں کے لطیف تار کو چھیڑنے میں کامیاب ہوتا ہے ذہین قاری کو بس یہ اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ اس نے افسانے میں برتی گئی بیشتر علامتوں کو ڈی کوڈ کر لیا ہے لیکن یہ کوئی بڑی کامیابی نہیں معذرت۔۔۔

سلیم سرفراز

٭

 

اقبال حسن آزاد

 

تاثرات: اقبال حسن آزاد

سید محمد اشرف کا نام محتاج تعارف نہیں۔ عصر حاضر کے فکشن رائٹرز میں انہیں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ مجھے ان کے کئی افسانے پسند ہیں۔ خاص طور پر ان کے ناول /ناولٹ "نمبر دار کا نیلا” نے تو مجھے عرصہ تک اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔

"باد صبا کا انتظار” ان کا مشہور افسانہ ہے۔ اس کا شہرہ تو میں نے خوب سن رکھا تھا لیکن پڑھنے کا اتفاق پہلی بار ہوا اور اس افسانے کو پڑھنے کے بعد آتش کا یہ شعر ذہن میں گونج اٹھا:

بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا

اس افسانے کی مبالغہ آمیز تعریف کرنے والوں کو اکیس توپوں کی سلامی

معذرت کے ساتھ

٭

 

پرویز عالم

 

افسانہ۔۔۔ باد صبا کا انتظار

افسانہ نگار۔۔۔ سید محمد اشرف

اپنی بات۔۔۔ پرویز عالم

بزم افسانہ کے افسانہ نمبر 6 کا عنوان سر سری طور پر دیکھا تو سوچا کہ اطمینان سے پڑھوں گا لیکن جیسے ہی نظر افسانہ نگار کے نام پر پڑی تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ مجھے لگا کہ باد صبا کا انتظار نے میرے اس انتظار کو ختم کر دیا جو میں سالوں سے بڑے بھائی سید محمد اشرف کا افسانہ پڑھنے کے لئے کر رہا تھا۔ افسانہ میں نے دو بار پڑھا۔ پہلی بار پڑھنے کے بعد جناب وسیم عقیل شاہ اور محترمہ ذکیہ مشہدی صاحبہ کے تبصرے کے بعد پھر سے پڑھا۔

درجنوں نامور فکشن نگاروں کے افسانوں کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کے باوجود میرے اندر وہ صلاحیت پیدا نہیں ہوئی ہے کہ میں اشرف بھائی کے افسانہ پر چند سطریں بھی لکھ سکوں۔

لیکن مجھے اس بات پر فخر ہے کہ طالب علمی کے زمانے میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں مجھے اُن کے بہت قریب رہنے کا موقع ملا۔ وہ میرے سینئر تھے۔ مجھے ہمیشہ اُن کی محبتیں ملتی رہیں۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اس وقت بھی اشرف بھائی ڈار سے بچھڑے کی وجہ کر بہت مقبول ہو چکے تھے۔ اُسکے بعد سے اُن کے بہت کم افسانے پڑھنے کا موقع ملا۔ باد صبا کا انتظار نے میری خواہش پوری کر دی۔ مجھے اُمید ہے کہ اُن کے کچھ اور بہترین افسانے پڑھنے کو ملیں گے۔

اشرف بھائی کو بہت بہت مبارکباد اور ان کا شکریہ بھی۔ شکریہ بزم افسانہ کے منتظمین کا بھی۔

٭

 

ڈاکٹر صفیہ بانو

 

افسانہ: باد صبا کا انتظار

افسانہ نگار: سید محمد اشرف صاحب

مبصر: ڈاکٹر صفیہ بانو احمد آباد سے

یہ افسانہ کم بلکہ اردو زبان کے حوالے سے حال دل کا غبار معلوم ہوتا ہے۔ مریضہ کو اردو زبان کی خستہ حالت کو بتایا گیا بالکل اسی طرح کم پانی میں مچھلی کو تڑپتے ہوئے دیکھنا وہ زندگی اور موت کے درمیان خود کو بچانے کی کوشش میں غوطے کھا رہی ہو۔

اردو زبان ایک میٹھی اور کانوں میں رس گھولنے والی زبان کو مریضہ بنتے دیکھ کلیجہ منہ کو آ گیا مگر یہ ایک حقیقت ہے ایسا نہیں کہ یہ حال خالص اردو زبان کا ہے بلکہ فی الوقت ہر زبان کا یہی حال ہے میں گجرات سے ہوں حالانکہ گجراتی زبان کا بھی یہی حال ہے اس لے بولنے، پڑھنے، لکھنے والے بہت کم ہوتے جا رہے ہیں۔

افسانہ خاص موضوع کا ہو لیکن کوئی کسک اسے اچھا کہنے سے روکتی ہے بس افسانہ حال دل تک بن کر رہ گیا قاری کو اتنا متاثر نہ کر سکا

بیانیہ انداز اچھا تھا۔

افسانہ نگار کو میری طرف سے مبارکباد اور نیک خواہشات

٭

 

رخسانہ نازنین

 

افسانہ "باد صبا کا انتظار”

افسانہ نگار "سید محمد اشرف”

تاثرات "رخسانہ نازنین”

 

بزم افسانہ کے توسط سے عصر حاضر کے جن جیّد افسانہ نگاروں کے افسانے پڑھنے کا موقع ملا اور جن سے میں بے پناہ متاثر ہوئی ان میں محترم سید محمد اشرف صاحب سر فہرست ہیں۔ "نجات” نے پہلی بار دل پر جو چھاپ چھوڑی تھی وہ آج بھی برقرار ہے۔ آج "باد صبا کا انتظار” پڑھ کر بھی ذہن و دل کی وہی کیفیت ہے۔ اللہ کرے اردو زبان ہمیشہ باد صبا کے جھونکوں سے معطر رہے اور ہماری آنے والی نسلیں بھی اس کی خوشبو سے مہکتی رہیں۔ سید محمد اشرف صاحب کی خدمت میں عقیدت بھری مبارکباد پیش ہے۔

٭

 

مجاہد ہادی

 

افسانہ: باد صبا کا انتظار

افسانہ نگار: سید محمد اشرف

اظہار خیال: مجاہد ہادی

سید محمد اشرف صاحب نے قدرے طویل لیکن بہت ہی بہترین افسانہ پیش کیا ہے،

یہ ایک ایسا افسانہ ہے جس کی باریکیوں کو سمجھنا مجھ ایسے طالب علم کے لئے دشوار گزار تھا لیکن عالی جناب وسیم عقیل شاہ نے اپنے تبصرے میں مختصر الفاظ میں اس پر روشنی ڈالی جس سے افسانے کو سمجھنا آسان ہو گیا

افسانہ نگار کو یہ ہیچ مدان مبارک باد پیش کرتا ہے

٭

 

 

ریاض توحیدی

 

افسانہ” باد صبا کا انتظار ”

(ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری)

سید محمد اشرف صاحب اپنی فکشن نگاری کا جہان بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ یہ کوئی معمولی سی بات نہیں ہے۔ کیونکہ عصر حاضر کے چند اہم سینئر فکشن نگاروں میں یہ بھی شامل ہیں بلکہ اگر یہ کہیں کہ چند گنے چنے اہم افسانہ نگاروں میں۔

پیش نظر افسانے "باد صبا کا انتظار” کی بات کریں تو اس کا عنوان اور انجام معنوی اور پیامی ربط و ترسیل کی ماہرانہ عکاسی کرتا ہے کیونکہ پوری داستان الم سنا کر مریضہ کے لئے نوجوانوں کو کمربستہ ہونے کو باد صبا کی نوید کے مترادف قرار دیا گیا ہے یعنی اب نئی نسل کمزور و لاغر مریضہ کو نئی سانسیں عطا کر سکتی ہے اور وہ مریضہ ایک علامتی کردار ہے جو اردو زبان کی خستہ حالی کا دکھ پیش کر رہا ہے۔

جب اردو کو ایک مخلوط زبان کہیں گے (Combination of different languages) تو ظاہر سی بات ہے افسانے میں علیل علامتی کردار کے دل و زبان سے نکلنے والی مختلف آوازوں کا اشارہ اردو کے مخلوط زبان ہونے کی طرف ہی جاتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کا اپنا ایک وجود ہے تاہم اپنوں کی بیگانگی نے اسے بیمار کر دیا ہے۔ اس کے نام پر شہرت و دولت بٹورنے والے اس کی سانسوں کو قائم رکھنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں نہ کہ اس کے وجود کی بقا کے لئے کیونکہ اس کی سانسوں سے ہی ان کا پندار قائم ہے۔ اس طرح افسانہ داستانوی فضا بندی میں وہ قصہ علامتی و تجریدی اسلوب میں سنا رہا ہے جو ہر اردو دوست انسان کی توجہ چاہتا ہے۔ چونکہ میں خود علامتی افسانے تخلیق کرتا ہوں اور علامتی افسانوں کا جائزہ لینے میں لطف بھی آتا ہے تو اس تناظر میں مجھے یہ افسانہ پسند آیا کیونکہ علامتی افسانوں کو سمجھنے کے لئے ذہن پر زور ڈالنا پڑتا ہے اور غیر علامتی افسانے نظر کو طراوت بخشتے ہیں۔

اب تکنیکی اور اسلوبیاتی طور پر دیکھیں تو علامت نگاری سے متعلق کہا جاتا ہے کہ:

Symbolism exists to adorn and enrich, not to create an artificial sense of profundity.

یعنی علامت نگاری توسیع پذیری کا عمل ہے نہ کہ مصنوعی پن سے پیچیدگی کا احساس پیدا کرنا ہے۔

تو اسلوب اور ترسیل کی سطح پر یہ افسانہ علامتی ہونے کے باوجود معنوی تجریدی پن میں اتنا پیچیدہ ہے کہ دوران مطالعہ بنیادی موضوع کو ظاہر کرنے کے بجائے پوشیدہ رکھنے کا اشارہ کرتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کرداری سطح پر اردو زبان کو ذی روح (Animate) بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ لیکن کہیں نہ کہیں یہ تو ظاہر کر دینا چاہئے تھا کہ یہ اردو زبان کی داستان الم ہے۔ یا تو خود افسانہ نگار کو کہنے پڑے گا کہ یہ اردو زبان کی کہانی یا بہت کم قارئین کہانی سے یہ مطلب نکال سکتے ہیں۔ فرض کریں عزیزہ کو اردو زبان کے بجائے وطن کی مٹی قرار دیا جائے تو مجھے نہیں لگتا ہے کہ اسے کوئی فرق پڑے ہیں۔۔ آوازیں مختلف فرقوں یا مذہبوں کی آوازیں۔۔ عمارت وطن اور دیگر کردار سیاست دان وغیرہ۔۔۔

اس لئے میری رائے میں اس دلچسپ افسانے کا کمزور ترین پہلو تجریدی پن ہے جس نے اس کی خوبصورت علامتی فضا کو دھندلا کر رکھ دیا ہے اور کردار نگاری میں بھی یہی تجریدی پن بوجھل معلوم ہوتا ہے۔۔۔۔

بہرحال سید محمد اشرف صاحب کے لئے مسکراہٹ

٭

 

مشتاق احمد نوری

 

سید محمد اشرف کا افسانہ ”بادِ صبا کا انتظار‘‘ ایک ماسٹر پیس افسانہ ہے۔ لیکن یہ مکمل طور پر اپنے بین السطور میں پوشیدہ ہے۔ جو اس افسانے کے باطن میں اترا وہ سراغ پا گیا باقی الفاظ کے زیر و بم میں الجھ کر رہ گئے۔

افسانے کے مرکزی کردار میں بیمار عورت، سرہانے کھڑا قد آور بزرگ، شدھ ہندی بولنے والا ڈاکٹر اور پردے کے پیچھے سے بلند ہونے والی قابل فہم اور مخلوط زبان کی سرگوشیاں۔

میری گفتگو انہیں چاروں کرداروں کے گرد مرکوز رہے گی۔

پہلے بیمار کے کردار کو لیں اشرف نے یوں تعارف کرایا:

”مسہری پر قیمتی اور مرعوب کرنے والا بستر لگا ہوا تھا۔ اور اس بستر پر وہ بدن رکھا ہوا تھا۔ وہ ایک دراز قد نہایت حسین و جمیل خاتون تھیں اس کے بال ترکی نژاد عورتوں کی طرح سنہرے تھے جن کی عمر کی شہادت نہیں ملتی تھی۔ اس کی پیشانی شفاف اور ناک ستواں اور بلند تھی۔ آنکھیں نیم وا اور سرمگیں تھیں۔ ہونٹ اور رخسار بیماری کے باوجود گلابی تھے۔ ہونٹ نیم وا تھے اور سفید موتی سے دانت ستاروں کی طرح سانس کے زیر و بم کے ساتھ ساتھ رہ رہ کر دمک رہے تھے۔ شفاف گردن پر نیلگوں مہین رگیں نظر آ رہی تھی اور گردن کے نیچے عورت کا حصہ اٹھا ہوا اور مخروطی تھا ساعد سیمیں کولھوں کے ابھار سے لگے رکھے تھے‘‘

اب دوسرا کردار۔

”مسہری سے ٹکا ہوا دراز شخص استادہ تھا جس کے سر کے بالوں کو ایک گوشے دار کلاہ نے ڈھانپ رکھا تھا۔ سرخ و سفید معمر چہرے پر خوبصورت اور بے ترتیب داڑھی تھی۔ اس شخص کی آنکھوں میں جلال و جمال کی پر چھائیاں رہ رہ کر چمکتی تھی۔ اپنی شخصیت اور لباس سے وہ کبھی باد شاہ لگتا کبھی درویش۔‘‘

اب ڈاکٹر صاحب کی انٹری

ڈاکٹر صاحب کٹر ہندو اور جنئوں دھاری تھے اور شدھ ہندی بولتے تھے۔ مکالمہ صرف دراز قد معمر شخص اور ڈاکٹر میں ہوتا ہے۔

”یہ آپ کی کون ہیں؟“

”عزیزہ ہیں‘‘

”آپ سے اس کا کیا سمبندھ ہے‘‘

”میں اس کا رب مجازی ہوں‘‘

ڈاکٹر اپنے آلے سے اس کی دھڑکن کئی بار سنتا ہے اور اعلان کرتا ہے

”روگی کا دل بہت اچھی حالت میں ہے۔ کسی روگ کا کوئی نشان نظر نہیں آتا۔‘‘ پھر وہ حیرت زدہ ہو کر کہتا ہے

”روگی کے دل سے سنگیت کی لہریں نکل رہی ہیں جنہیں میں نے کئی بار سنا۔‘‘

دراز قد انسان دھیمے سے وقار کے ساتھ مسکرایا اور آہستہ سے اثبات میں سر ہلایا۔

”ہردے کی چال سے جو دھن پھوٹ رہی ہے اس میں ندی کے بہنے کی کل کل تھی ہوا کی مدھر سرسراہٹ تھی پنچھیوں کی چہکار تھی۔۔۔۔‘‘

ڈاکٹر کو روکتے ہوئے دراز قد نے کہا۔

”اس آواز میں میدان جنگ میں طبل پر پڑنے والی پہلی ضرب کا ارتعاش بھی ہو گا۔ دو محبت کرنے والے بدن جب پہلی بار ملتے ہیں ایک دوسرے کو ہونٹوں سے محسوس کرتے ہیں وہ لذت بھری آواز ہو گی۔ ملا گیری رنگ کی عبا پہنے صوفی کے نعرۂ مستانہ کی گونج بھی ہو گی۔ دربار میں خوں بہا کا فیصلہ کرنے والے بادشاہ کے آواز کی گرج بھی شامل ہو گی اور بنجر زمین پر پڑنے والے موسم برشگال کے پہلے قطرے کی کھنک بھی ہو گی۔ بربط ستار اور طبلے کی۔۔۔۔۔۔۔‘‘

”ہاں کچھ اس پرکار کی آوازیں بھی ہیں پر انہیں شبدوں میں بتانا کٹھن ہے‘‘

اتنے میں حویلی سے ایک کم سن لڑکا آتا ہے

”ڈاکٹر نے لیڈی کو کیا روگ بتایا ہے اندر سے انکوائری ہے‘‘

یہ آواز سنتے ہی مریضہ کے چہرے کا رنگ اڑ جاتا ہے اور سانسیں بے ترتیب ہونے لگتی ہیں۔ دراز قد بچے کو بھگا دیتا ہے۔

ڈاکٹر مکمل تفتیش کے بعد بتاتا ہے ”اس روگی کے سارے شریر میں جیون ہے کیول سانس کی پرابلم ہے بڑی وچتر بات ہے کہ پھیپھڑے بالکل ٹھیک ہیں پر پوری طرح سانس نہیں لے پا رہے ہیں‘‘

اتنے میں ایک نو عمر فراک اسکرٹ پہنے آتے ہی سوال کرتی ہے ”ماما نے پوچھا ہے کہ لیڈی کا فیور ڈاؤن ہوا کہ نہیں‘‘

مریضہ کا بدن ایک لمحے کو تڑپا اور سانس پھر بے ترتیب ہو گئی۔ معمر شخص نے بچی کو ڈانٹ کر بھگا دیا۔

ڈاکٹری جانچ سے یہ بات طے پا گئی کہ مریضہ سانس کی بے ترتیبی کا شکار ہے اور جب باہر سے تازہ ہوا کا جھونکا آتا ہے تو وہ چنگی ہو جاتی ہے اور یہ واقعہ شام میں ہی میسر آتا ہے جب دن بھر باہر رہنے کے بعد گھر کے لوگ شام میں واپس آتے ہیں۔

اب آئیے کرداروں کا تعارف کراتا چلوں۔ وہ بے حد حسین مریضہ کوئی اور نہیں اردو ہے۔ اس کا رب مجازی وہ معمر شخص امیر خسرو ہیں۔ شدھ ہندی بولنے والا ڈاکٹر ہندی زبان ہے جو اردو کی سہیلی ہے اس لئے وہ اپنی سہیلی اردو کے دل کی دھڑکن میں بہت کچھ محسوس کر جاتی ہے اور خسرو اردو کے دل کی دھڑکنوں کی تشریح کرتے ہیں۔ جنگ کے میدان آپسی محبت کی زبان اور محلوں کی زبان بتا کر اردو کا تعارف کراتے ہیں۔ مریضہ کے اردگرد پردے کے پیچھے خلط ملط زبان انگریزی اور ہندی ملی جلی جب بھی بولی جاتی ہے مریضہ کی سانس اکھڑنے لگتی ہے جس پر خسرو بچوں کو ڈانٹتے ہیں۔

شام میں فریش ہوا کا جھونکا تب آتا ہے جب وہاں رہنے والے دیگر افراد کام سے واپس آتے ہیں اور اپنی اردو زبان میں گفتگو کرتے ہیں۔ اسی لئے مریضہ کے لئے باد صبا کے انتظار کو علاج بتایا جاتا ہے۔

سید محمد اشرف کا درد یہ ہے اردو زبان بولنے والوں کے درمیان سے جو نسل نکل رہی ہے وہ اردو سے نابلد ہے اور وہ شعوری طور پر اردو کو اگنور کر کے انگریزی کو ترجیح دے رہی ہے۔ اسی لئے ایسی زبان سن کر اردو کی سانس بے ترتیب ہو جاتی ہے۔ یہی وہ اہم مسئلہ ہے جس کی جانب اشرف نے اس افسانے میں اشارے کئے ہیں

سید محمد اشرف کا یہ افسانہ میں نے پہلی بار پڑھا اور جس طرح اشرف نے لکھا اسی طرح میں نے تشریح کی کوشش کی۔ اس افسانے کے لئے جتنی داد دی جائے کم ہے۔

مشتاق احمد نوری

٭

 

ڈاکٹر فریدہ تبسم

 

ڈاکٹر فریدہ تبسم گلبرگہ کرناٹک انڈیا

افسانہ نگار۔۔۔ سید محمد اشرف صاحب

افسانہ۔۔۔ باد صبا کا انتظار

 

اس افسانہ کے مطالعہ کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ اردو زبان کا خاکہ، اس کی داستان الم بیان کیا گیا ہے۔ جو بیمار عورت کی شکل میں عیاں ہے۔ اس کے پیچھے سرگوشیاں ایک زبان سے نہیں مختلف زبانوں کا ملاپ ہے۔ اس کا "رب مجازی” اہل زبان اسے زندہ دیکھنا چاہتے ہیں۔

اس کی غذا اسے میسر نہیں۔ یعنی اس کی اصل سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔

"تنفس کی بے ترتیبی تردد کا سب سے بڑا سبب ہے”

اس کے بیانیہ میں تصوراتی، تخیلاتی، امکانی، نیم علامتی و تجریدی اشارے ملتے ہیں۔

مگر درون متن اردو زبان کی تہذیب، تاریخ، جنگ، تصوفانہ ادوار، روایت، اور ارتقائی منازل طے کرنے کے بعد بھی یہ زندہ ہے، یہ کمال ہے۔

"اس روگی کے سارے شریر میں جیون ہے کیول سانس کی پرابلم ہے اور یہی سب سے بڑی پرابلم ہے پھیپھڑے کی خرابی کا کوئی علاج نہیں ہے”

بس آنے والی نسلیں اسے تازہ ہوا یعنی آکسیجن دیں گی تو یہ زندہ رہے گی۔

"کیا روگی کا کمرہ بدلا نہیں جا سکتا”؟

یعنی اس کا رسم الخط

متعلقین۔۔۔ اس سے تعلق رکھنے والے بھی اس کے در بند کئے ہوئے ہیں۔۔ یعنی مادری زبان میں تعلیم یا اسے بچانے کی کوشش نہیں کر رہے۔

"۔۔ سہولت اور آرام کے پیش نظر دوسروں سے ملنے کے لئے اندر ہی اندر دیواروں میں راستے بنا لیے ہیں”

دوسری زبانوں میں تعلیم اور اسی کو اپنائے ہوئے ہیں

شام کے وقت۔۔۔ باد صبا۔۔۔؟؟؟

شاید۔۔۔۔ اہل زبان شام کی فرصت میں مطالعہ، ادبی محفلیں، مشاعرے وغیرہ،

"بہت دنوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر گھڑی وقت غروب چھایا ہوا رہتا ہے”

یعنی اس زبان کے زوال کا خوف۔ اور آگے۔۔۔

"۔۔۔۔ رونق کا لطف روشنی سے نہیں آبادی سے ہوتا ہے”

اس افسانہ میں قاری کا مطالعہ وسیع ہو اور علامت اور تجرید کی گہرائی میں ڈوب کر موتی نکال لائے تبھی اس تک رسائی۔۔۔۔۔ در اصل تجریدی و علامتی ابہام کی پیش کش الجھاؤ کی کیفیت پیدا کر رہی ہے یہ افسانہ بغور مطالعہ کا متقاضی ہے۔ وگرنہ یہ محسوس ہو گا کہ باد صبا کا فرحت بخش احساس کہیں گم ہے۔ قاری اس کی تلاش میں بھٹک رہا ہے۔

فن پارے کی معنوی جہات میں کہانی تدبیر کاری سے بنی گئی ہے جمالیاتی تصویر کاری نیم علامتی ابہام میں کھو گئی ہے۔ اس سے زیادہ اہم گویا پیغام پہچانا مقصود ہے۔

اس افسانہ میں اردو زبان و ادب اس کی تخلیق اس کی تحریر اس کا رسم الخط اس میں دوسری زبانوں کے غیر مناسب الفاظ اس کی شیرینی کو ختم کر اس کو حبس زدہ کر دیا ہے اس کی تازگی کے لئے اطراف و اکناف کے روشن دان سے گزر کر تازہ ہوا۔۔۔ نئی باد صبا اسے زندہ رکھ سکتی اسی لئے تنفس کی بیماری میں مبتلا ہے۔

بین المتن فکری احساس۔۔۔۔ ماضی کی کلاسیکیت، موسیقیت، معنویت کی واپسی اور حال کی بے قدری اور مستقبل کی امید کے لئے پریشان ہے اس کو زندہ تابندہ رکھنے کی کوشش اس باد صبا کے انتظار میں ہے۔

اس معنی خیز پیغام پہچانے میں کامیاب افسانہ پر ہم افسانہ نگار کو بہت مبارک پیش کرتے ہیں خلوص کے ساتھ۔۔ تبسم۔۔

٭

 

فریدہ نثار احمد انصاری

 

باد صبا کا انتظار۔

مبصر: فریدہ نثار احمد انصاری۔

علامتی افسانوں کی کشش قاری کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب خون دل سے قلم کار نا گزیدہ حالات کو ضبط قلم کرتا تھا تاکہ قاری کو اپنے صبر و تحمل میں شامل کر حالات سے باخبر کرے۔

زمانہ بدلا پھر بھی معاشرے کی گھٹن کو قلم کار قاری کے آگے لانے کی جرات کر بیٹھتا ہے۔ مذکورہ افسانے میں زبان اردو کی زبوں حالی کی پرتیں کھولی گئیں جس طرح یکے بعد دیگرے پیاز کو کھولا جاتا ہے۔

قلم کار کے لئے یہ ایک اعزاز ہوتا ہے کہ وہ اس طرح کی تحریریں لکھے۔ وسیم عقیل بھائی کے پہلے تبصرے میں ہی افسانے کی کچھ وضاحت مل گئی۔

آغاز میں مختلف نسلوں اور رنگوں کے نمائندوں سے مراد زبان اردو کو ملک کے ہر طبقے نے اپنایا۔ گٹھیلے بدن کے مرد، مشکیزوں سے پانی کے چھڑکاؤ نے نوابوں کے دور کی یاد تازہ کراو دی اور دکھی سکھی آوازوں و نورانی عمارت نے دور بادشاہت کی غلام گردشوں کا احاطہ کیا۔ ڈاکٹر جینیو پہنے ہندی کے شبد کا اپیوگ کرتے ہوئے مریضہ کو بس کہنے کے لئے طبی آلات لے کر آیا۔ جس کا بدن خوبصورت مسہری پر رکھا تھا۔ اردو زبان جو کبھی شہزادی تھی جسے شعراء کرام جس طرح غزل میں بیان کرتے تھے اسی طرح مریضہ کے خد و خال کو یہاں تراشا گیا۔ اس زبان کے سر پر جہاں بادشاہوں کا دست شفقت رہا وہیں مزدوروں نے بھی اسے سر پر بٹھایا۔

گوشے دار کلاہ والے معمر شخص چاہے امیر خسرو ہوں، سر سید احمد خان بھی ہو سکتے ہیں یا دور حاضر کے سنئیر ادب نواز شخصیات۔ کیوں کہ یہ اب رب مجازی ہوئے۔

اردو۔۔۔۔ مریضہ نے کبھی اپنی نقاہت کا اظہار نہیں کیا لیکن بخار کا آ جانا اور عمل تنفس کا برابر نہ چلنا اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ اس کے بدن کے ہر عضو کو برابر رکت نہ ملنے کے کارن اس شیرین زبان کی ہر اصناف کو تازہ ہوا نہیں پہنچ رہی اور اس پر کام نہیں کیا جا رہا۔ اگر یوں ہی رہا تو یہ نیلی پڑ سکتی ہے۔ انگریزوں نے بھی اسے تباہ کرنے میں کچھ کم کام نہ کیا۔ دیکھنے کو فورٹ ولیم کالج کا سنگ بنیاد رکھا لیکن تقسیم ہند نے اس کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ اس کی بہنوں نے سرحد پار کر دئیے جلائے اور پڑوسی ملک کی زبان بنی، وہیں اس کے چاہنے والوں نے خلیجی ممالک، ترکی وغیرہ میں اردو کی شمع فروزاں کی۔

ان کے علاوہ اردو کو دیوناگری اسکرپٹ یا رومن انگریزی میں لکھ کر اس کی بہن بننے کا اعتراف کیا۔ اب تو کوی سمیلنوں میں بھی دیوناگری اسکرپٹ اختیار کر اس سے رشتہ داری نبھائی جا رہی ہے۔ شام کے وقت مریضہ کی طبعیت بخیر ہو جاتی ہے کیوں کہ مشاعرے سج جاتے ہیں، مختلف محفلوں، بزموں میں اردو نواز طبقہ اپنی کارکردگی میں مصروف ہو جاتا ہے اور یہ دیکھ کر ہندی ڈاکٹر اپنی راہ لے لیتا ہے کہ اس سخت جان کو جتنا دباؤ یہ اتنی ابھر کر سامنے آتی ہے۔

اس طرح کی تجریدی علامتی افسانے گو کہ ادب میں ایک منفرد مقام حاصل کرتے ہیں لیکن قلم کار جب لکھتا ہے تب کئی گتھیاں قاری نہیں سمجھ پاتا اس لئے بہت زیادہ ابہام قاری پر گراں گزرتا ہے۔

میں محترم قلم کار کو دلی مبارک باد پیش کرتی ہوں کہ ایک شاہکار افسانہ ادب کی زینت بنا۔ نیک خواہشات کے ساتھ اختتام کرتی ہوں۔ سلامت رہیں۔۔ اس طرح کے افسانے تحریر کرتے رہیں۔

٭

 

سیدہ ایمن عبد الستار

 

افسانہ۔ باد صبا کا انتظار

افسانہ نگار۔ سید محمد اشرف صاحب

اظہارِ خیال۔ سیدہ ایمن عبد الستار لاتور مہاراشٹر

سید محمد اشرف صاحب کی تحریر پڑھنے کا یہ پہلا تجربہ رہا۔ افسانہ اپنے منفرد رنگ میں ڈھلا ہندی اردو گنگا جمنی تہذیب کا آئینہ دار بنا ہوا ہے۔ ایک طرف شستہ اردو دوسری طرف عمدہ ہندی دو الگ شخصیات الگ زبان میں۔ مکالمے اعلی ترین رہے۔ قلم کار جب اپنی تخلیق تیار کرتا ہے تب کئی راز قاری سمجھ نہیں پاتا لیکن وسیم عقیل صاحب نے کمال فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیں افسانہ سمجھنے میں مدد فراہم کی۔

اردو کی دلسوز داستان ایک خاتون کی شکل میں بیان کی گئی۔ بڑا شاندار تجریدی افسانہ رہا۔

ایک شاہکار افسانہ کے لئے دلی مبارکباد پیش کرتی ہوں۔

نیک خواہشات

٭

 

معین الدین جینابڑے

 

افسانہ :بادِ صبا کا انتظار

افسانہ نگار: سید محمد اشرف

تبصرہ نگار: معین الدین جینابڑے

 

بادِ صبا کا انتظار تمثیلی افسانہ ہے

تمثیل میں بیانیہ کی دو سطحیں ہوتی ہیں۔۔ظاہری اور باطنی۔

ظاہری سطح کی تفہیم میں قاری کو کوئی خاص زحمت اٹھانی نہیں پڑتی۔

افسانے کی روداد علت و معلول کے تسلسل سے عبارت ہوتی ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ افسانے کی یہ سطح اچھی خاصی حقیقت نگاری کا رنگ لئیے ہوئے ہوتی ہے۔ باطنی سطح تک قاری کی رسائی نہ بھی ہو تو افسانہ اس کے لئے دلچسپ ہوتا ہے۔ تمثیلی افسانے کا اپنا ایک علامتی نظام ہوتا ہے۔ اس نظام میں تجرید abstract کو concrete روپ میں ڈھالا جاتا ہے۔ اس افسانے میں باطن کے abstract کو ظاہر کے concrete میں بیان کیا گیا ہے۔ باطنی روداد کی تفہیم اس علامتی نظام کو decode کرنے سے مشروط ہوتی ہے۔ بیانیہ کی دونوں سطحوں میں کامیاب تطابق پر فن پارے کی کامیابی ٹکی ہوتی ہے۔ اوسط درجے کے فن کار کے یہاں یہ نظام چیستاں بن کر رہ جاتا ہے۔

اردو میں کامیاب تمثیلی افسانے کم لکھے گئیے ہیں۔ بادِ صبا کا انتظار کامیاب افسانہ ہے۔ افسانہ، افسانہ نگار کی غیر معمولی فنی دست رس کی اچھی مثال ہے۔

خوشی اس بات کی ہے کہ احباب نے اس علامتی نظام کی تفہیم کا حق پوری طرح ادا کیا ہے۔

اچھا فن کار اچھے قاری پیدا کرتا ہے۔

میم جیم

٭

 

قیوم اثر

 

افسانہ: بادِ صبا کا انتظار

افسانہ نگار: سید محمد اشرف

جی ہاں، ایسے ہی افسانے اردو افسانوں کا معتبر ”اثاثہ“ کہلائیں گے۔

مجھے امید ہے افسانے کے تعلق سے دوبارہ کچھ کہنے پر پابندی نہیں ہو گی۔

رات میں دوبارہ اس پر غور کر رہی تھی گرچہ متن سامنے نہیں تھا صرف ذہن میں تھا۔

اس طرح کے افسانے اکثر کثیر الجہت بھی ہوتے ہیں۔ یہ بیمار خاتون ہماری مشترکہ تہذیب کی علامت کے طور پر بھی لی جا سکتی ہے۔ ایوان کی دیواریں اونچی نہ ہونا جہاں زبان کی وسعت کی گنجائش برقرار رکھنا ہے وہیں یہ تہذیبی عناصر میں بھی نئے پہلوؤں کے جذب کئے جانے کا اشارہ ہو سکتا ہے۔

یوں غور کیجئے تو یہ شراب دو آتشہ ہے۔ دوبارہ قرات کیجئے۔

٭

 

غضنفر

 

باد صبا کا انتظار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افسانہ نگار: سید محمد اشرف

تاثرات: غضنفر

باد صبا کا انتظار اس لیے ہے کہ مریضہ کو تازہ ہوا مل سکے، وہ اچھی طرح سانس لے سکے۔ اس کے تنفس کے راستے کی رکاوٹیں دور ہو سکیں اور وہ گھٹن اور اس گھٹن کے مضر اثرات سے نجات پا سکے۔

جب یہ کہانی پہلی بار چھپی تو کسی نے کہہ دیا کہ اس کہانی کی مریضہ اردو زبان ہے اور اسی کے زوال کی کہانی اس افسانے میں کہی گئی ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ مشہور افسانہ نگار پروفیسر حسین الحق نے مدیر رسالہ کو یہ لکھ دیا کہ "اردو پر اتنی اچھی کہانی شاید ابھی تک نہیں لکھی گئی”۔ تب سے اس کہانی میں موجود مریضہ کو اہلِ ادب اردو کی علامت سمجھتے آ رہے ہیں۔

کیا ہمیں بھی آنکھ بند کر کے مان لینا چاہیے کہ نہایت قیمتی اور مرعوب کرنے والے بستر پر پڑی دراز قد حسین و جمیل خاتون، جس کی پیشانی شفاف، ناک ستواں اور بلند تھی، آنکھیں نیم وا اور سرمگیں تھیں۔ ہونٹ اور رخسار بیماری کے باوجود گلابی تھے، وہ اردو زبان ہے؟ یا افسانہ نگار کے ان جملوں پر بھی غور کرنا چاہیے:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’وہ عمارت اور سفید پوش، ہو حق کی صدائیں بلند کرنے والے سب اسی بستی کا حصہ ہیں۔ بازار کے تمام افراد بھی اسی بستی کا ایک حصہ ہیں۔ اس عمارت کے سارے مکین بھی اسی بستی کا ایک حصہ ہیں اور یہ سب کے سب اس مریضہ کی بیماری سے آدھے ادھورے رہ گئے ہیں۔‘‘

’’مطلب؟‘‘ ڈاکٹر کی آنکھیں پھیل گئیں۔

’’سب اسی خاتون کے حوالے سے اپنی زندگی گزارتے تھے۔ شعوری طور سے کسی کو احساس بھی نہیں ہوتا تھا کہ مریضہ ان کے لیے کتنی کار آمد ہے لیکن جب سے وہ بیمار ہوئی ہے، کمزور ہوئی ہے سب خود میں کچھ نہ کچھ کمی پا رہے ہیں۔‘‘

ان جملوں سے یہ بات صاف ظاہر یے کہ بستی کی تمام عمارتوں، تمام مکینوں، بازار اور افراد سب کا رشتہ اس مریضہ سے ہے۔ اسی کے حوالے سے سبھی اپنی زندگی گزارتے تھے۔ اور وہ خاتون جب سے بیمار پڑی ہے، کمزور ہوئی ہے، سب خود میں کچھ نہ کچھ کمی پا رہے ہیں۔

آگر ہم بستی کو اپنا ملک مان کر سوال کریں کہ کیا اپنے ملک کے تمام خطے اردو سے جڑے رہے ہیں اور وہ اسی زبان کے حوالے سے اپنی زندگی گزارتے رہے ہیں اور اس کے بیمار ہونے سے سبھی کمزور اور آدھے ادھورے ہو گئے ہیں؟ تو جواب یقیناً نفی میں ملے گا۔ اس لیے کہ

اردو سے سبھی خطوں کا رشتہ استوار کبھی نہیں رہا۔ اردو کے کمزور ہونے سے سبھی کا نقصان ہوا یا اس کی بیماری سے سب کے سب خود میں کمی پا رہے ہیں، ایسا نہ کبھی پہلے تھا اور نہ اب ہے۔ اور بازار کے تمام افراد اسی کے حوالے سے اپنی زندگی گزارتے تھے، یہ بات بھی درست نہیں۔ لہذا مذکورہ حقائق سے صاف پتا چلتا ہے کہ بیمار خاتون اردو نہیں ہو سکتیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ مریضہ اردو کی علامت نہیں تو پھر کس کی علامت ہے؟

اس سوال کا جواب کہانی کے ان جملوں میں تلاش کیا جا سکتا ہے:

’’اب جو بات آپ کو بتاؤں گا اسے سن کر آپ اچھل پڑیں گے۔ روگی کے دل سے سنگیت کی لہریں نکل رہی ہیں۔ جنھیں میں نے کئی بار سنا۔‘‘

’’۔۔۔۔۔ ہردیہ کی چال سے جو دھن پھوٹ رہی تھی اس میں ندی کے بہنے کی کل کل تھی، ہوا کی مد بھری سرسراہٹ تھی۔ پنچھیوں کی چہکار تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دراز قد انسان گویا ہوا:

اس آواز میں میدان جنگ میں طبل پر پڑنے والی پہلی ضرب کی آواز کا ارتعاش بھی ہو گا۔ دو محبت کرنے والے بدن جب پہلی بار ملتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنے ہونٹوں سے محسوس کرتے ہیں وہ لذت بھری آواز بھی ہو گی۔ ملا گیری رنگ کی عبا پہنے صوفی کے نعرۂ مستانہ کی گونج بھی ہو گی۔ دربار میں خون بہا کا فیصلہ کرنے والے بادشاہ کی آواز کی گرج بھی شامل ہو گی۔ صحراؤں میں بہار کی آمد سے متشکل ہونے والی زنجیر کی جھنک بھی ہو گی اور بنجر زمین پر پڑنے والے موسم برشگال کے پہلے قطرے کی کھنک بھی ہو گی۔‘‘

ڈاکٹر اور دراز قد انسان کے یہ بیانات بتاتے ہیں کہ جس مریضہ کے سینے میں یہ ساری آوازیں بند ہیں وہ کوئی زبان نہیں بلکہ وہ مشترکہ تہذیب ہے، جو کمزور ہوتی جا رہی ہے اور جس کے مٹ جانے کا اندیشہ ہے۔ اور جس کے تنفس میں خرابی اس لیے پیدا ہو گئی ہے کہ اسے تازہ ہوا نہیں مل پا رہی ہے اور تازہ ہوا اس لیے نہیں مل پا رہی ہے کہ جن کھڑکیوں اور دروازوں سے ہوائیں اتی تھیں وہ بند کر دیے گئے ہیں مگر۔ وہ تہذیب اب تک مری اس لیے نہیں کہ بقول افسانہ نگار:

’’۔۔۔ چاروں طرف بنے ان کمروں میں صرف ایک کمرہ ایسا ہے جس کے مکین نے باہر کی کھڑکی کھول رکھی ہے۔ شام کو جب واپس آتا ہے تو دروازہ کھول دیتا یے۔ تبھی تازہ ہوا کے جھونکے اندر آ پاتے ہیں۔‘‘

’’اس نوجوان کو دلچسپی کیوں ہے؟‘‘

’’کیوں کہ وہ اس خاتون کو زندہ دیکھنا چاہتا ہے۔‘‘

’’وہ کیوں؟‘‘

’’کیوں کہ اسے اپنے اجداد سے محبت ہے۔‘‘

افسانہ نگار چاہتا ہے کہ وہ مریضہ جو مشترکہ تہذیب کی علامت ہے، مرے نہیں۔ اور وہ زندہ اسی صورت میں رہ سکتی ہے جب سبھی اپنے ذہن و دل کے دروازے کھولے رکھیں۔ اسی لیے وہ ڈاکٹر سے کہلواتا ہے:

’’اس عمارت کے تمام نوجوان مکینوں سے کہیے کہ وہ باہر کھلنے والی تمام کھڑکیاں کھول کر کمرے میں کھلنے والے دروازے کھول دیں۔‘‘

یہاں کوئی یہ سوال کر سکتا ہے کہ وہ شخص کون ہے جو ہر وقت مریضہ کے ساتھ رہتا ہے اور مریضہ کے تئیں فکر مند دکھائی دیتا ہے اور جو ڈاکٹر سے ہم کلام ہے؟

دراز قد انسان میرے خیال میں ملک یا ماحول کا وہ کردار ہے جو تہذیبی اقدار کا محافظ ہوتا ہے۔ اس انسان کو دراز قد اس لیے کہا گیا یے کہ وہ ہندستان کی مشترکہ تہذیب کو مدتوں سے حفاظت کرتا چلا آ رہا ہے۔ اور جو اس تہذیب کے ایک ایک رگ و ریشے سے اچھی طرح واقف یے۔ اسی لیے جب ڈاکٹر مریضہ کے سینے کی دھڑکنیں سن کر اس کے اندر کی آوازوں کو بیان کرنا شروع کرتا یے تو وہ دراز قد انسان باقی خوبیاں خود گنوانے لگتا ہے۔

اس تہذیب کی علالت کی فکر صرف اس دراز قد انسان کو ہی نہیں ہے بلکہ آس پاس کے کمروں میں رہنے والے مکینوں کو بھی ہے۔ اسی لیے کبھی برابر کے کمرے سے نکل کر کوئی نو عمر لڑکا پوچھتا ہے:

’’ڈاکٹر نے لیڈی کو کیا روگ بتایا اندر سے انکوائری کی ہے۔‘‘

اور کبھی کسی کمرے سے فراک اسکرٹ والی نو عمر لڑکی

آ کر پوچھتی ہے:

’’ماما نے پوچھا کہ لیڈی کا فیور ڈاؤن ہوا کہ نہیں؟‘‘

در اصل دراز قدر انسان، نئی نسل کے کچھ نوجوان اور کچھ کمروں کے مکیں جو اپنی وضع قطع اور زبان سے مختلف نظر آتے ہیں وہ اس بیمار تہذیب کو لے کر فکر مند ہیں کہ اگر اس مشترکہ تہذیب کو بچایا نہیں گیا تو سبھی کا جینا دشوار ہو جائے گا۔ ان کا تنفس بھی گھٹن سے بھر جائے گا۔۔

اس بات کی تائید افسانے کے ان آخری جملوں سے بھی ہو جاتی ہے:

’’اگر وہ ایسا نہ کریں۔۔۔ تب۔۔۔ تب کیا ہو گا؟‘‘ مریضہ نے بہت بے صبری سے پوچھا۔

’’تب‘‘ ڈاکٹر نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا

’’تب یہ ختم ہو جائیں گے‘‘ اس نے دراز قد وجیہہ مرد کی

طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔‘‘

یعنی وہ کردار جو اس مشترکہ تہذیب کے تحفظ کے لیے

فکر مند رہتا ہے اور اس کی صحت کے لیے رات دن کوشاں

رہتا ہے، وہ بھی ختم ہو جائے گا۔

٭٭

 

امتیاز خان

 

افسانہ: باد صبا کا انتظار

افسانہ نگار: سید محمد اشرف

اظہار خیال: امتیاز خان، پونے

بہت دلکش اندازِ بیاں، بڑی خوبصورت تشبیہات و استعارات، حسیں منظر کشی اور عمدہ جزئیات نگاری سے گندھے ہوئے اس علامتی افسانے پر افسانہ نگار جناب سیّد محمّد اشرف صاحب یقیناً مبارکباد کے حقدار ہیں۔

میرے اپنے خیال کے مطابق اس طرح کی تخلیقات چاہے وہ افسانہ ہو یا نظم، بغیر کسی وضاحت طلب کے قارئین کے سامنے پیش کر دی جائے تاکہ ہر قاری اپنی اپنی فہم و فراست سے اس کے معنی نکال سکے۔ اور جو قاری پڑھتے وقت اُس کو مہمل سمجھنے کی غلطی کرے، وہ بعد میں کسی وقت حقیقت سے آشنائی کے بعد ایک الگ طرح سے لطف اندوز ہو سکے۔ میرے خیال میں بیش تر قارئین نے وضاحت کے بغیر ہی منٹو کی ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘، کرشن چندر کی ’غالیچہ‘ یا قرۃ العین حیدر کی ’ستاروں کے آگے‘ کو پڑھا اور سمجھا ہے۔

بہرحال ایک عمدہ افسانے سے روشناس کرانے کے لئے بزمِ افسانہ بھی مبارک باد کا مستحق ہے

٭٭

 

سراج عظیم

 

 

غضنفر صاحب آپ کی خدمت میں فرشی سلام۔ عقیل کا تبصرہ پڑھ کر میں بھی یہی سمجھا تھا۔ اور میں سمجھا اتنے کامپلیکس بیانیہ کو انھوں زبردست طریقے سے ڈی کوڈ کیا۔ مگر مجھے دو سین تذبذب میں ڈالے ہوئے تھے۔ ایک تو پہلی شروعات منظر جب عمارت بازار اور ایک ہی گھر سے سب مربوط تھے۔ اگر اس نظریہ سے دیکھیں تو اردو زبان مغلیہ دور ایوانوں خانقاہوں بازاروں کی زبان اور تہزیب تھی۔ یہاں تک میں نے بغیر رکاوٹ سفر کر لیا۔ اب کمرے میں محبوس وہ خوبصورت مریضہ اگر اردو زبان ہے تو کھڑکیاں کھول کر اس کو تازہ ہوا دینے کا کیا مطلب یا تو یہ کہ زبان اپنے اندر باہر کی دنیا کو سموئے۔ اور اگر وہ ہوا تو وجود ختم۔ اگر یہ نہیں ہوتا تو شام کو جو در کھولتا ہے۔ وہ ایک جانب اردو کا ناتواں قاری نظر آیا تو دوسری جانب مجھے منافق بھی نظر آیا کہ یہ اردو کو باہر کی ہوا دینا چاہتا ہے۔ دوسرا اس خیال سے ایک سین بالکل میل نہیں کھاتا تھا وہ تھا مریضہ کے دل سے نکلنے والی موسیقی کی ترنگیں۔ اسی کو میں مربوط نہیں کر پا رہا تھا۔ یہ بھی سچ ہے میں مستقل اردو زبان کے سحر سے سب کچھ جوڑ رہا تھا اسی وجہ سے پرسوں سے سید عقیل شاہ کی تشریح پڑھنے کے بعد سے تذبذب کا شکار اور بار بار یہ دو سین مجھے کچھ لکھنے سے روک دیتے تھے۔ لیکن آپ کی اس تشریح سے مطلع صاف ہو گیا۔ اصل بات یہی ہے یہ زبان کا نہیں بلکہ یہ مشترکہ تہزیب وہ مریضہ ہے جس کے چیتھڑے اڑ چکے ہیں۔ بہرحال۔ بہت بہت مبارک۔ بہت شکریہ اس واضح تشریح کا۔

سید محمد اشرف صاحب نے واقعہ یہ ہے اس افسانے کی کرافٹنگ میں کئی مہینے صرف کئے ہوں گے۔ کیوں کہ اس میں الفاظ کی در و بست، موزوں الفاظ کا ماحول کے حساب سے تصنع (بقول شخصے، حالانکہ اس طرح کے افسانوں میں تصنع سے پر زبان ہی کرافٹنگ کی ضرورت ہوتی ہے) نما سین بنانا یہ سب ایک ماہر اور پایہ کے قلمکار کا حسن ہے۔ دوسری بات اگر یہ افسانہ تاثر چھوڑنے میں کامیاب نہ ہوتا تو اس پر متضاد تبصرے نہ آتے۔ مجھے سید اشرف صاحب اس لئے نہیں پسند ہیں کہ وہ بہت بڑی شخصیت ہیں کہ میں ان کی چاپلوسی میں قلابے ملا دوں۔ بلکہ یہ ہے کہ اصلیت میں ان کی زبان۔ جو میری پسند ہے۔ جیسے کسی نے ذکر کیا ہے کہ اس خوبصورت مریضہ کا سراپا جن الفاظ میں اشرف صاحب نے بیان کیا۔ یہ اشرف جیسے خانقاہی تہزیب کا شخص ہی کر سکتا ہے۔ واقعی یہ زبان ایسے الفاظ ایسی تراکیب یہ ہی اردو زبان کا حسن ہے جو سید اشرف صاحب کے مزاج میں ہے ایک علی گڑھ یونیورسٹی کی تہزیب، خانقاہی تہذیب ایک ان کی اردو دانی کی تہذیب۔ یہ سب بلا شرکت غیرے سید اشرف کو منفرد کرتے ہیں۔ کسی کو کچھ بھی لگے لیکن میرے نزدیک اشرف صاحب کا یہ افسانہ بلا شبہ شاہکار ہے۔ اس کی کرافٹنگ واقعی کمال کی ہے۔ سید صاحب دل کی گہرائیوں سے مبارکباد۔

میں آپ دونوں معزز حضرات پروفیسر غضنفر صاحب

اور

اعلی مقام سید محمد اشرف صاحب

کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں

پروفیسر صاحب۔۔ آپ کی توضیح خوب ہے۔۔۔ لیکن آپ کے تبصرے سے قبل میں نے آنکھیں بند کر کے نہیں بلکہ کھول کر لکھ دیا کہ کیا یہ صرف اردو کی داستان الم ہو سکتی ہے یا وطن کی مٹی یا کچھ اور بھی۔۔۔۔ یہی سوال میں نے اپنے کمنٹ میں اجاگر کیا ہے۔۔۔ باقی اعتراف کرنے کا حوصلہ بڑا کٹھن ہوتا ہے۔

٭٭

 

رفیعہ نوشین

 

افسانہ: باد صبا کا انتظار

افسانہ نگار: سید محمد اشرف

اظہار خیال: رفیعہ نوشین

پہلی مرتبہ سید محمد اشرف صاحب کا لکھا علامتی افسانہ پڑھنے کا موقع ملا –

اس افسانے میں افسانہ نگار نے تقریباً ہر چیز میں علامتوں کا استعمال کر کے اپنے خیال کو وسیع تر مفہوم میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلکہ ہر علامت کو موضوع میں سما کر پیش کیا ہے۔ اسی وجہ سے ان علامتوں کو سمجھنا فہم کی سطح پر آسان نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے معنویت سے متعلق قارئین میں ایک عمومی تاثر اردو زبان ان کے حوالے سے پایا گیا ہے۔ علامتوں کی یہی تو خوبی ہوتی ہے کہ یہ معنی کی مختلف جہتیں اپنے سیاق و سباق کے ساتھ ظاہر کرتی ہے۔ اب یہ قاری پر منحصر کرتا ہے کہ وہ اس کی تفہیم کس طرح کرتا ہے۔

فاضل افسانہ نگار نے موجودہ سماج، زبان، اور تہذیب کی حقیقت کو بڑی ہنر مندی کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔ اس افسانے کو بار بار پڑھ کر مختلف زاویوں سے سمجھنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے مواد، اسلوب اور تکنیک کے اعتبار سے یہ ایک کامیاب افسانہ بلکہ فن پارہ ہے –

جس کے لئے میں اشرف صاحب کی خدمت میں صمیم قلب سے مبارکباد پیش کرتی ہوں!

٭٭

 

رمیشہ قمر

 

غضنفر سر کا تبصرہ پڑھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ افسانہ پڑھتے وقت موضوع کے متعلق جو خیال میرے ذہن میں آیا تھا اس کی تصدیق ہو گئی۔ واقعی غضنفر سر نے اپنے تبصرے میں افسانے کی ایسی توجیہ بیان کی ہے کہ کہانی آئینے کی طرح صاف ہو گئی ہے۔ انھوں نے ایک ایک نکتے کو کھول کر رکھ دیا ہے۔ افسانے کی بالکل نئی تفہیم سامنے آ گئی ہے۔ تخلیق اور تنقید ساتھ ساتھ چلتی ہے مگر تخلیق کی قدر و قیمت تنقید نگار ہی متعین کرتا ہے اگر وہ واقعی تخلیق کی روح تک پہنچے۔ غضنفر سر کا یہ تجزیہ افسانے کی روح تک پہنچ چکا ہے۔ اس عمدہ اور معیاری تجزیے کے لیے بہت بہت مبارک باد۔

٭٭

 

شہانہ اقبال

 

بزم افسانہ کی پیش کش نمبر 6

سترہواں ایونٹ۔ رنگ و آہنگ

افسانہ باد صبا کا انتظار

افسانہ گار: سید محمد اشرف

تاثرات: شہانہ اقبال

میں نے اس افسانے کو بار بار پڑھا، کئی بار پڑھا لیکن معذرت کے ساتھ عرض ہے کے اس طفل مکتب کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ یوں لگا جیسے ابتدائی درجہ کی طالبہ کے سامنے کسی اسکالر نے اپنا مقالہ پڑھ کر سنایا ہو۔

معززین مبصرین کے تبصرے پڑھنے کے بعد اتنا سمجھ پائی کہ یہ ایک علامتی افسانہ ہے جسے سید محمد اشرف نے برسوں اردو ادب کی خدمت اور ریاضت کے بعد لکھا ہے، جس کے مطالعہ اور فہم کے لئے قاری کو بھی جنوں کی حد تک مطالعہ کا شوق ہونا ضروری ہے۔

ماضی میں، میں نے اپنی ہی طرح کے ایک نو مشق قلمکار سے پوچھا تھا یہ علامتی افسانہ کیا ہوتا ہے تو جواب ملا ’ سمجھ لو کسی نے کہا، دولہن تو چاند کا ٹکڑا ہے۔ اب اس بات پر حیران مت ہو جانا کہ عورت چاند کیسے ہو سکتی ہے۔ یہاں دولہن کی خوب صورتی کو چاند سے تشبیہ دی گئی۔ یہی علامتی افسانے کی تعریف ہے۔‘

سید محمد اشرف صاحب کا افسانہ "باد صبا کا انتظار ” اور اس پر لکھے گئے مبصرین کے قیمتی تاثرات پیش کرنے کے لئے سرپرست اور منتظمین ” بزم افسانہ” کی بے حد شکرگزار ہوں کہ انھوں نے نئے قلمکاروں کی غور و فکر کے لئے اتنا خوبصورت پلیٹ فارم مہیا کیا۔

٭٭

 

بشارت خان

 

باد صبا کا انتظار پڑھ کر لطف آیا۔ لیکن بنیادی موضوع کو سمجھنے میں دقت پیش آئی۔ پھر تبصروں میں جب ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری صاحب کا ماہرانہ جائزہ دیکھا تو کہانی کے پردے کھل گئے۔ انہوں نے ناقدانہ گفتگو کی ہے اور دکھایا ہے کہ اس کا موضوع اردو زبان اور وطن کی حالت زار دونوں کی عکاسی کر سکتا ہے۔۔۔۔

ڈاکٹر بشارت خان

٭٭

ڈاکٹر نور الامین

 

افسانہ *بادِ صبا کا انتظار*

افسانہ نگار: محمد اشرف

– – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –

بے حد افسوس سے کہنا پڑھ رہا ہے کہ بزمِ افسانہ بجائے افسانہ کے بزم میں توقیر و بزمِ احترام ہو گئی ہے۔۔۔ اس کے یہ معنیٰ نہیں کہ احترام نہیں ہونا چاہیے ہم سب پر ان کا احترام لازم ہے۔۔۔ یہ جو مال غنیمت ہے ہماری تہذیب، ہمارے ادب اور اس دور کا آئینہ ہے۔۔۔۔۔

افسانہ *بادِ صبا کا انتظار* شاید بہت پہلے لکھا گیا افسانہ ہے۔۔۔

پروفیسر غضنفر صاحب کے بیان سے بھی واضح ہے۔۔۔

اس کی شمولیت کا جواز تو منتظمین ہی دیں گے۔۔۔ میری دلچسپی تو اس بات میں تھی کہ محمد اشرف جیسا مشاق، پختہ ذہن، بابینہ اور اسلوب کا جادوگر 2014 کے بعد کی دنیا کو کیسے دیکھتا ہے وہ چہروں کے پیچھے کے در کو کیسے محسوس کرتا ہے۔۔

تجریدی، تمثلی اور علامتی افسانہ کی رد و قبول کی بحث ابھی تمام نہیں ہوئی ہے شاید کسی حلقہ میں نتیجہ پر ہو میری رائے تو نے شمس الرحمن فاروقی کے افسانہ کے وقت اس بزم میں ظاہر کر دی تھی۔۔۔ Abstract form میں کوئی بھی فن پارہ اس لیے بھی بہت اہم نہیں رہتا کہ اس کو کسی ایک صورت میں ہم recapitulate نہیں کر سکتے ہیں افسوس کی بات یہ ہے کہ کہ اس کا adaptation بھی درست طریقے سے نہیں ہوتا ہے جو communication کی ناکامی ہو سکتا ہے علامتوں کو علامتوں کے ذریعہ دبا دیا یا چھپا دیا جائے یہ قاری کی شریعت میں اچت نہیں۔۔۔ یہ بھی جائز نہیں کہ لفظیات کی ترنگ میں اس کے علم اور اس کی سمجھ کا امتحان لیا جائے۔۔۔ آج کے افسانہ نگار کو سب سے بڑا چیلنج، جو در پیش ہے وہ ہے genuine قاری نہ ہونا اس چیلنج کو کس طرح سے over come کیا جا سکتا ہے اس پر غور کیا جانا چاہیے۔۔۔۔

افسانہ *بادِ صبا کا انتظار* بہت کچھ ہے لیکن میری چھوٹی سی بدھی میں اس گہن کثافتوں میں تیرہ لاکھ مربع میل کی شان و شوکت عظمت ہے جو چودہ سو سال پہلے تھی اب اسے کسی ایسے مداوا کی ضرورت ہے جو اسے بستر مرگ سے اٹھا کر عین اسی منشاء پر کر دے۔۔۔ زمانہ نے ہر طرح سے منتہیٰ تحریم کر دیا باوجود ہدایاتِ نشانات کہ۔۔۔ اب اسی کو اسی صدی میں ان ہی Resources کے ساتھ وہاں تک لے جانا ہے جہاں اس کی صورت یا اس کا مستقر ہے۔۔۔ اگر یہ تہذیب، ثقافت، علم، سماج، فرد، یا اردو اور اردو ادب بھی ہو تو اس طرح علامتوں سے ابھار کر علامتوں میں پوشیدہ کر کر دینا عام قاری کے ساتھ قدرے زیادتی والا معاملہ ہے یہ افلاطون، ارسطو ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری اور پروفیسر غضنفر س، ف، ا، ن کے ساتھ تو مکالمہ ہو سکتا ہے لیکن فکشن کی سطح پر عصر حاضر میں workable نہیں ہے۔۔۔۔ آج کا /یہ ہمارا قاری ہمارا دوست ہے یہ کس قدر انصاف کے تقاضے کو پورا کر رہا ہے یہ بھی غور کرنے سے تعلق رکھتا ہے۔۔۔۔

 

دعا طلب

ڈاکٹر نور الامین

٭٭

 

ریحان کوثر

 

کیا یہ خلافتِ عثمانیہ کی کہانی ہے؟

*اس کے بال ترکی نژاد عورتوں کی طرح سنہرے تھے۔ *

بہر حال!

گروپ بزمِ افسانہ میں افسانہ *بادِ صبا کا انتظار* کی شمولیت کے لیے بہت بہت مبارک باد

*ریحان کوثر*

٭٭٭

 

بیان ۔۔۔ سید محمد اشرف

 

آپ سب کی خدمت میں سلام کا نذرانہ –

باد صبا کا انتظار پر بہت عمدہ ادیبوں اور تبصرہ نگاروں کے تبصرے پڑھے اور دل کو شاد کیا۔ تقریباً سب نے

اپنے اپنے ذوق، فہم، مطالعے اور فکر کے مطابق رد عمل کا اظہار کیا اور افسانے کی پرتیں کھولیں –

افسانہ لکھنے کے بعد افسانہ نگار اس بوجھ کو اتار پھینکتا ہے جو افسانہ لکھتے وقت اس کے ذہن پر ہوتا ہے۔ اتنا مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس تمثیل سازی کے وقت میرے ذہن میں اردو کی شکل تھی۔ چند فاضل مبصرین نے اسے مشترکہ تہذیب کی صورت میں دیکھا تو مجھے بالکل حیرت نہیں ہوئی کہ اردو اور مشترکہ تہذیب اس طرح ایک دوسرے کے قریب ہیں جیسے درمیانی انگلی اور انگشت شہادت۔ وہ تمام استعارے جو اردو کے لئے استعمال ہو سکتے ہیں بہ آسانی مشترکہ تہذیب کے لئے بھی استعمال ہو سکتے ہیں – مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ بعض مبصرین نے سامنے کی چیز یعنی زبان اردو کے بجائے اس افسانے کے مرکزی کردار کو مشترکہ تہذیب کے طور پر قبول کیا۔ ایک علامتی افسانے سے اخذ و قبول کے سفر میں اس طرح کے مرحلے ضرور آتے ہیں۔

اس کہانی میں تجرید کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ میں نہیں جانتا کہ ایک مبصر کو یہ تسامح کیوں ہوا۔

اپنے افسانے پر بہت زیادہ لکھنا اچھا نہیں لگتا۔ اتنا بھی اس لیے لکھا کہ منتظمین کا اصرار تھا۔

منتظمین بزم کا دلی شکریہ اور اپنے تمام دوستوں کے لئے اظہار امتنان کہ انھوں نے اس افسانے پر اپنا قیمتی وقت صرف کیا۔

ع- غنیمت ہے کہ ہم صحبت یہاں دو چار بیٹھے ہیں۔

آپ سب کے لئے نیک خواہشات اور دعائیں۔

سید محمد اشرف

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے