محمد اسد اللہ کی انشائیہ نگاری ۔۔۔ ڈاکٹر صبیحہ خورشید

 

ادبی اظہار کے دو مشہور اسالیب ہیں، المیہ اور طربیہ۔ یہ دونوں ادب کی مختلف اصناف پر محیط ہیں۔ طنز و مزاح ادب کے تخلیقی اظہار کا ایک رنگ ہے مگر یہ کوئی صنف نہیں ہے۔ اس کے بر عکس انشائیہ ایک غیر افسانوی صنف ادب ہے۔ ناقدین اور ادب کے قارئین کا ایک طبقہ انشائیے کو بھی ایک اسلوب قرار دیتا ہے۔ اس خیال کی بازگشت عبد الماجد دریابادی کی اس تعریف میں سنائی دیتی ہے جو انھوں نے انشائیے کے سلسلے میں بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں:

انشائیہ کی امتیازی خصوصیت حسن انشا ہے یہ اس کے نام ہی سے ظاہر ہے۔ انشائیہ وہ ہے جس میں مغز و معنی کی اصل توجہ حسن عبارت پر ہو‘۔ ۱

وزیر آغا انشائیہ کو ایک منفرد صنف قرار دیتے ہیں انھوں نے اس کی درج ذیل تعریف پیش کی ہے۔

انشائیہ اس نثری صنف کا نام ہے جس میں انشائیہ نگار اسلوب کی تازہ کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اشیاء و مظاہر کے مخفی مفاہیم کو کچھ اس طور پر گرفت میں لیتا ہے کہ انسانی شعور اپنے مدار سے ایک قدم باہر آ کر ایک نئے مدار کو وجود میں لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ۲

اردو میں انشائیے سے مراد وہ نگارشات ہیں جو مغربی صنف ’ایسّے Essay‘ سے مستعار ہیں۔ فرانسیسی ادیب مانتین نے ایسّے کی بنیاد رکھی تھی جس میں اس نے اپنے خیالات اور احساسات ادبی پیرائے میں مضمون کی شکل میں بیان کئے تھے۔ مغربی ادب کا یہ پودا ہمارے ہاں اردو میں عہدِ سر سید میں بار آور ہوا۔ سر سید احمد خان جو اپنے اصلاحی اور قومی ترقی کے کاموں کے لئے کوشاں تھے انھوں نے اسٹیل اور ایڈیسن کے ایسّیز کو اس مقصد کے تحت اظہار خیال کے لیے مناسب خیال کیا اور اس طرح ایسّے کو اردو ادب میں فروغ حاصل ہوا۔ ان مضامین کا مقصد اصلاحِ احوال بھی تھا، ان میں ادبی شان کے علاوہ تفکر و تدبر بھی تھا اور تخلیقی جوہر بھی۔ اسی اسلوب اور انداز کو سر سید کے بعض ہم عصروں نے آ گے بڑھایا۔

اردو ادب میں ایک تنقید نگار اور شاعر کے نام سے معروف ڈاکٹر وزیر آغا کے پیشِ نظر اس صنف کے وہ نمونے تھے جنھیں انگریزی میں پرسنل ایسّے کہا گیا ہے۔ انھوں نے بیسویں صدی کے نصف میں ان خطوط پر طبع آزمائی کی اور اسی طرز پر مضامین لکھنے کی مہم چلائی۔ اس قسم کے مضامین کے لئے ’انشائیہ‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ سر سید کی تحریریں ایسّے کے نام ہی سے جانی جاتی تھیں۔ وزیر آغا نے اس صنف کو انشائیے کا نام دینے کی پر زور اور کامیاب کوشش کی۔ انھوں نے اپنے انشائیوں کے مجموعے ’خیال پارے (۱۹۶۱) میں پہلی مرتبہ انشائیے کے تخلیقی نمونے پیش کئے جو منفرد انداز لیے ہوئے تھے۔ انھوں نے تنقیدی سطح پر انشائیے کے متعلق کئی مضامین قلم بند کئے جو بعد میں انشائیہ کے خد و خال (۱۹۹۰) کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ ان کے رسالے ماہنامہ اوراق، لاہور نے اس قبیل کی تحریروں اور اس صنف سے متعلق مباحث کو خاص طور پر شائع کیا۔ اس دور میں انشائیہ کو نئے اور پرانے متعدد تخلیق کاروں نے اپنے ادبی اظہار کا ذریعہ بنایا۔ انشائیے کی مخالفت بھی ہوئی اور اس کے نتیجے میں اس نوخیز صنف کی مخالفت اور تائید میں بے شمار صفحات سیاہ کئے گئے۔ اس طرح انشائیہ کی تحریک وجود میں آ ئی اس صنف میں تقریباً سوا سو سے زیادہ قلم کاروں نے طبع آزمائی کی۔ اس تحریک سے وابستہ ایک سو سے زیادہ انشائیہ نگاروں کے نام محمد اسد اللہ نے اپنی کتاب ’یہ ہے انشائیہ‘ (۲۰۱۷) میں جمع کر دئے ہیں۔ ان میں سے چند انشائیہ نگار درج ذیل ہیں۔

ڈاکٹر وزیر آغا، انور سدید، مشتاق قمر، غلام جیلانی اصغر، جمیل آ ذر، سلیم آغا قزلباش، کامل القادری، داؤد رہبر، اکبر حمیدی، محمد منشا یاد، حیدر قریشی، مشکور حسین یاد، نظیر صدیقی، احمد جمال پاشا، رام لعل نابھوی۔ محمد اسد اللہ، شہزاد احمد، رعنا تقی، انجم انصار، سعشہ خان، فرحہ سعید رضوی، پروین طارق، عذرا اصغر، ساجدہ نواز، سریتا خان وغیرہ۔

ان میں سے بیشتر قلم کاروں کا تعلق پاکستان سے ہے۔ بھارت میں انشائیہ کے صنفی خد و خال سے آ گاہی کے فقدان کے نتیجے میں ہر قسم کی تحریروں کو انشائیے کا نام دیا گیا اور تا حال طنزیہ و مزاحیہ مضامین کو انشائیہ کے زمرے میں شامل کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کی اس انشائیہ نگاری کو بھارت میں سمجھنے اور اس کے فنی لوازمات سے واقفیت حاصل کرنے کی حد تک پسند کیا گیا مگر بہت کم لوگوں نے اس طرز کو اپنانے کی کوشش کی اس سلسلے میں وزیر آغا لکھتے ہیں۔

’پاکستان میں انشائیہ نگاری ایک تحریک کی صورت اختیار کر چکی ہے جب کہ بھارت میں تا حال صرف تین انشائیہ نگاروں نے اس میدان میں قدم رکھا ہے۔ ان میں دو تو منجھے ہوئے ادیب ہیں یعنی احمد جمال پاشا اور رام لعل نابھوی لیکن تیسرا ایک نوجوان انشائیہ نگار محمد اسد اللہ ہے جس نے اپنے جوان جسم پر ایک بوڑھا سر لگا رکھا ہے۔‘ ۳

زیرِ نظر تحریر محمد اسد اللہ کی انشائیہ نگاری سے متعلق معلومات پیش کرنے کی ایک کوشش ہے۔ موصوف اردو میں انشائیہ نگار، طنز و مزاح نگار، ادبِ اطفال کے معمار اور مراٹھی ادب کے ایک مترجم کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ محمد اسد اللہ کی خصوصی پہچان ان کی انشائیہ نگاری ہے جسے انھوں نے نہ صرف تخلیقی سطح پر اپنایا بلکہ اس صنف کے فروغ کو اپنے ادبی سفر کا ایک مشن قرار دیا ہے۔ انھوں نے ’اردو انشائیوں کا تاریخی و تنقیدی جائزہ‘ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر امراؤتی یونی ورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور مراٹھی زبان کے چند انشائیوں کو اردو میں ترجمہ بھی کیا ہے۔ ان کی انیس مطبوعات میں انشائیہ سے متعلق درج ذیل کتابیں ہیں۔

بوڑھے کے رول میں (۱۹۹۱)، ڈبل رول (۲۰۱۵)، (انشائیے)، انشائیہ کی روایت مشرق و مغرب کے تناظر میں (۲۰۱۵)، انشائیہ ایک خوابِ پریشاں (۲۰۲۱) (تحقیق)، یہ ہے انشائیہ (۲۰۱۷)، انشائیہ شناسی (۲۰۱۹)، (مرتبہ مضامین)

انشائیے سے متعلق محمد اسد اللہ کی مطبوعات اور انشائیے، ناگپور، امراؤتی، ناسک یونی ورسٹیوں کے علاوہ مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ اور بال بھارتی پونے کے نصاب میں شامل ہیں۔

محمد اسد اللہ (پ۔ ۱۹۵۸) کا تعلق مہاراشٹر کے ایک قصبے وروڈ (ضلع امراؤتی) سے ہے۔ ۱۹۹۱ میں وہ ملازمت کے سلسلے میں شہر ناگپور میں منتقل ہوئے اور وہیں جونیئر کالج کے ایک مدرس کی حیثیت سے سبک دوش ہونے کے بعد سکونت پذیر ہیں۔ ان کے متعلق اظہارِ خیال کر تے ہوئے معروف محقق ڈاکٹر شرف الدین ساحل لکھتے ہیں:

’ودربھ کی ادبی تاریخ کو عصرِ حاضر کے جن ادیبوں پر ناز ہے ان میں ڈاکٹر محمد اسد اللہ کا بھی شمار ہوتا ہے۔ وہ انتہائی سنجیدہ، مخلص اور درس و تدریس کے فرائض کو انجام دینے میں دیانت دار ہیں۔ ان کا تخلیقی عمل بھی ان ہی اوصاف کا محافظ ہے۔ وہ ایک بہترین اور منفرد طنز و مزاح نگار، اور انشائیہ نگار ہیں۔ ان اصناف میں ان کی قوتِ متخیلہ نے جن ادب پاروں کو خلق کیا ہے ان میں جامعیت، معنویت، تازگی، روانی اور دلکشی ہے۔‘ ۴

محمد اسد اللہ کے انشائیوں کا پہلا مجموعہ ’بوڑھے کے رول میں‘ ان کے نمائندہ انشائیوں پر مشتمل ہیں اس کے بیشتر انشائیے ماہنامہ اوراق میں شائع ہو کر داد تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ اس کا پیش لفظ وزیر آغا نے تحریر کیا اور اس کے آ خر میں احمد جمال پاشا نے ان کے انشائیوں کا تفصیلی جائزہ لیا۔ وہ لکھتے ہیں:

’محمد اسد اللہ نے بہت جلد فنی ہفت خواں طے کر کے اردو انشائیے میں ایک بلند اور منفرد مقام حاصل کر لیا ہے۔ ان کے یہاں انشائیہ من کی موج ہے جس میں فکر، بصیرت اور مسرت کے ذہنی دریچے وا ہوتے ہیں جن کی بنیاد خیال انگیزی اور سوچ کے انوکھے پہلو ہوا کرتے ہیں۔‘ (ص۔ ۱۰۳)

احمد جمال پاشا کے اس بیان کی تصدیق محمد اسد اللہ کے انشائیوں سے ہوتی ہے، چند اقتباسات ملاحظہ فر مائیں۔

’’کبھی مجھے خیال آ تا ہے ایک دن ایسا بھی آئے گا جب آسمان کا یہ طویل و عریض چھلکا ٹوٹے گا اور کروڑ ہا انسانی چوزے میدانِ حشر میں کلبلاتے پھریں گے۔ ابھی تو وقت کا پرند اس کائنات کے انڈے کو اپنے پروں میں دبائے بیٹھا ہے۔‘ (انڈا)

’’بخار ہماری ہڈیوں اور خون کی تہہ نشین موجوں میں بے کسی کی زندگی گذارتا ہے۔ اندر ہی اندر لاوے کی طرح پکتا رہتا ہے۔ ہماری شخصیت کے وہ عناصر جن کو اپنی کسم پرسی، عدم توجہی اور زمانے کی ناقدری کا احساس آ تش زیر پا رکھتا ہے جسم کے اندر ایک جگہ جمع ہونے لگتے ہیں۔ تب جسم کے پنڈال میں خون جلسے منعقد ہوتے ہیں تقریریں کی جاتی ہیں، اپنے پیالہ و ساغر نہ ہونے کی شکایت کی جاتی ہے۔ گردشِ مدام کو کوسا جاتا ہے اور ایسی جگہ بھاگ چلنے کا مشورہ ہوتا ہے جہاں چارہ گر کوئی نہ ہو اور نوحہ خواں کوئی نہ ہو۔‘‘    (بخار)

انشائیہ بوڑھے کے رول میں اپنے اسلوب اور زبان کے لحاظ سے ایک اہم انشائیہ ہے جس میں زندگی کے حقائق کو دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

’’نہ صرف بڑھاپا بلکہ زندگی ہی زبردستی کا سودا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو بچہ دنیا میں قدم رکھتے ہی اپنی احتجاجی چیخوں سے فضا کا سینہ چھلنی کیوں کرتا۔ ہم اس نومولود کے احتجاج کو طربیہ نغمہ تصور کر کے خوشیاں مناتے ہیں، بچہ ہماری اس ناعقلی پر مزید چراغ پا ہو کر چیختا ہے کہ کن احمقوں میں آ پھنسا!‘‘   (بوڑھے کے رول میں)

’بوڑھے کے رول میں‘ مجموعے میں پندرہ انشائیے ہیں۔ ان کے دوسرے مجموعے ’ڈبل رول میں‘ محمد اسد اللہ نے اپنے انشائیے اور طنزیہ و مزاحیہ مضامین الگ الگ شایع کر کے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انشائیہ طنزیہ و مزاحیہ مضمون سے مختلف قسم کی تحریر ہے۔ اس کتاب میں ان کے گیارہ انشائیے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں:

’’انشائیہ اور طنزیہ مضامین کی پہچان میں ہم اکثر اسی طرح دھوکہ کھاتے ہیں جیسے جڑواں بچوں کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ ان دونوں کی صورتیں جڑواں بھائیوں کی طرح ملتی جلتی کیوں نہ ہوں ان کے مزاج میں بڑا فرق ہے۔‘‘ ۵

محمد اسد اللہ نے اپنے ادبی سفر کی ابتدا میں جو طنزیہ و مزاحیہ مضامین لکھے ان میں بھی انشائیہ کی خصوصیات بدرجہ اتم موجود ہیں اور بھارت میں انشائیہ کا جو تصور پایا جاتا ہے اس پر وہ پورے اترتے ہیں۔ اس قسم کی ان کی تحریریں ان کی کتاب ’پر پرزے‘ اور ’ہوائیاں‘ میں موجود ہیں۔ ان کے متعلق ڈاکٹر صفدر لکھتے ہیں:

’’اسد اللہ خالص انشائیہ نگار ہیں۔ اپنے انشائیہ میں ان کو کہیں جانا نہیں ہوتا مگر وہ دنیا بھر کی سیر کر لیتے ہیں۔ ان کے کچھ انشائیوں کے عنوانات یہ ہیں نوٹ، آنسو، طوطے، پنگھٹ، چہرے، پاکٹ، بظاہر یہ عنوانات نقطہ جیسے ہیں جن میں لمبائی چوڑائی کچھ نہیں ہوتی۔ مگر اسد کی نگاہ کا لمس پا کر یہ نقطے ہاتھ پاؤں نکالنے لگتے ہیں بلکہ ان کے اعضائے رئیسہ اور خبیثہ سب دریافت ہو جاتے ہیں۔‘‘ ۶

پاکستانی انشائیہ نگاروں کی تحریروں سے محمد اسد اللہ کے انشائیے اس لحاظ سے قدرے مختلف ہیں کہ ان میں گہری اور معنی خیز باتوں کو بھی شگفتہ انداز میں اور ایک مخصوص اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ ان میں تازی کاری کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ محمد اسد اللہ بھارت کے طنز و مزاح نگاروں میں اس لحاظ سے ممتاز ہیں کہ انھوں نے ظریفانہ مضامین بھی لکھے ہیں اور وہ فنِ انشائیہ نگاری کے اسرار و رموز سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ انھیں تخلیقی سطح پر برتنے پر قادر بھی ہیں جس کے شواہد ان کے انشائیوں میں قدم قدم پر موجود ہیں۔

٭٭

 

حوالہ جات

 

۱۔ عبد الماجد دریابادی، بحوالہ انشائیہ ایک ہمہ جہت صنفِ نثر، سلیم آغا قزلباش، اوراق، لاہور ۱۹۸۵، ص ۱۳۹

۲۔ ڈاکٹر وزیر آغا، دوسرا کنارہ، سر گودھا، ۱۹۸۲، ص ۸

۳۔ وزیر آغا۔ پیش لفظ بوڑھے مصنفہ محمد اسد اللہ، مطبوعہ ۱۹۹۱؁ء، ناگپور، ص ۵

۴۔ ڈاکٹر شرف الدین ساحل، انشائیہ کی روایت مشرق و مغرب کے تناظر میں (۲۰۱۵)

۵۔ محمد اسد اللہ، پسِ پردہ، ڈبل رول، ناگپور، ۲۰۱۵، ص۸۱

۶۔ ڈاکٹر صفدر، پر پرزے ۱۹۹۲، فلیپ پر رائے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے