پیرس کی فضاؤں میں گھُلی شفق کی سُرخی ۔۔۔ طارق محمود مرزا

سات بجے شام ہماری کوچ ہمیں لے کر پیرس کی خوبصورت گلیوں میں کہیں سست خرامی اور کہیں سُبک رفتاری سے سوئے منزل روانہ ہو گئی۔  سنہری کرنوں والی رُوپہلی دھُوپ پیرس کی خوبصورت عمارتوں، جاذب نظر دریچوں اور دروازوں کے باہر سجے رنگ برنگے پھُولوں پر پھیلی تھی۔  پیرس کی شام! یہ تین رُومانٹک لفظ میں نے بے شمار دفعہ سُنے اور پڑھے تھے۔ پیرس کی شام کا ایک رنگین تصور ذہن کے پردے پر ہمیشہ سے موجود تھا۔  اس شام پیرس کے دل رُبا اور فسوں خیز نظارے جب اپنی آنکھوں سے دیکھے تو تصوّر کی رنگین چادر مزید رنگین ہوتی چلی گئی۔ پیرس میرے تصوّر سے کہیں بڑھ کر حسین تھا۔  اس کا حسن میرے دل و دماغ پر چھاتا چلا گیا۔  کسی قلم کار کے الفاظ اور مقرّر کی زباں ان نظاروں کو بیان نہیں کر سکتی جو اُس کی آنکھ دیکھتی ہے۔  قدرت کی بنائی ہوئی خوبصورت کائنات اور اس کے دلکش نظارے انسان کی قدرتِ بیان میں آ بھی کیسے سکتے ہیں۔

پیرس کے حُسن میں قدرت کی فیاضی اور انسان کی بھرپور محنت دونوں شامل ہیں۔  قدرت نے اگر اس علاقے کو زرخیز زمین، سرسبز و شاداب کھیت، دلکش نظارے، بل کھاتے دریا اور خوبصورت پہاڑوں سے نوازا ہے تو حضرتِ انسان نے ان دلکشیوں اور خوبصورتیوں کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ اس میں مصنوعی حُسن کے اضافے سے چار چاند لگا دیے۔ پیرس کی صاف ستھری اور چمکتی ہوئی سڑکوں کے کنارے درختوں اور پودوں کی رنگا رنگ اقسام اور ان کی تزئین و ترتیب انتہائی فنکارانہ اور جاذب نظر ہے۔  ایسے لگتا ہے کسی ماہر جرنیل نے ترتیب سے مقررہ فاصلوں پر فوجی کھڑے کر رکھے ہوں۔  پودوں کی تراش خراش اور پھولوں کی اقسام دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔  اسی طرح پیرس کی عمارتیں، ان کا طرزِ تعمیر اور ان کی تزئین و آرائش بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں۔  فرنچ طرزِ تعمیر اپنی انفرادیت اور خوبصورتی کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔  خصوصاً فرنچ دروازوں اور کھڑکیوں کا ایک مخصوص ڈیزائن ہے۔  یہ عام سی کھڑکیاں اور دروازے نہیں ہیں بلکہ کسی فن کار کے فن کا نمونہ نظر آتے ہیں۔  گرمیوں کے اس موسم میں کھڑکیوں کے چھجے رنگ برنگے پھولوں سے لدے نظر آ رہے تھے۔

ہماری کوچ پیرس کی سڑکوں اور گلیوں میں جتنا آگے بڑھ رہی تھی اتنا ہی اس کے حُسن کا جادو ہمارے دل و دماغ پر چھاتا جا رہا تھا۔  لبِ سڑک واقع ریستورانوں اور کافی شاپوں کے سامنے تزئین و ترتیب سے میز اور کرسیاں سجے تھے۔  فرنچ مرد اور عورتیں بہترین لباسوں میں ملبوس ان کرسیوں پر براجمان کافی، کولڈ ڈرنک اور کھانوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔  میں نے نوٹ کیا کہ ان کرسیوں پر بیٹھے فرانسیسیوں کی اکثریت تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھی۔  اس کے برعکس آسٹریلیا میں سُوٹ صرف کاروباری اوقات میں پہنا جاتا ہے۔  اگر شام کے اوقات میں باہر جانا ہو تو لوگ عام لباس جو زیادہ تر پتلون اور ٹی شرٹ پر مشتمل ہوتا ہے پہن کر جاتے ہیں۔  اکثر جوان لڑکے اور لڑکیاں پیر سے جمعرات تک سوٹ پہن کر دفتر جاتے ہیں۔  لیکن جمعے والے دن عام لباس میں ہوتے ہیں۔  کیونکہ ویک اینڈ نائٹ پر انہیں ریستورانوں اور کلبوں وغیرہ میں جانا ہوتا ہے۔  مرد دفتری اوقات کے بعد ڈھیلی ڈھالی پتلون یا جینز اور ٹی شرٹ جیسے آرام دہ لباس میں رہنا پسند کرتے ہیں۔  البتہ لڑکیاں اور عورتیں عموماً ایسے لباس کا انتخاب کرتی ہیں جن سے بدن کے پیچ و خم نمایاں نظر آئیں۔  اگر عورت اکیلی ہو تو پھر تو وہ کیل کانٹے سے لیس ہو کر باہر نکلتی ہے۔  تاکہ کسی نہ کسی کو اپنی زلفِ گرہ گیر کا اسیر کر کے گھر لوٹ سکے۔  اگر ایک وِیک اینڈ پر اُسے اپنے مقصد میں ناکامی ہو تو اگلے ہفتے وہ اس سے بھی زیادہ خطرناک ’ہتھیاروں‘ سے لیس ہو کر نکلتی ہے۔  یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کوئی نہ کوئی اس کے بدن کے پیچ و خم اور زُلف گرہ گیر کا اسیر نہیں ہو جاتا۔ میں نے مولی سے دریافت کیا ’’یہ ریستورانوں اور کافی شاپس میں جو لوگ براجمان ہیں۔  اُن میں سے کوئی بھی بغیر سوٹ کے نہیں ہے۔  اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘

مولی نے بتایا ’’یہ فرانسیسیوں کا رواج ہے۔  گرمی ہو یا سردی، چاہے تھوڑے وقت اور تھوڑے فاصلے پر موجود کافی شاپ میں بھی جائیں، یہ سوٹ کے بغیر نہیں نکلتے۔  یہاں کسی ریستوران اور کافی شاپ میں کوئی شخص سوٹ کے بغیر نظر آئے تو عجیب لگتا ہے۔  فرنچ اپنے رسم و رواج، لباس، زبان اور خوراک کے معاملے میں بے لچک بلکہ سنکی واقع ہوئے ہیں۔  یہ ہم سیاحوں سے بھی توقع رکھتے ہیں کہ اُن کے رسم و رواج پر چلیں، ان کی زبان بولیں اور ان کی طرح خشک اور لمبی فرنچ ڈبل روٹی کھائیں، چاہے بعد میں قبض ہو جائے‘‘

مولی کی بات پر سب سیاح مُسکرا دیے۔  بعد میں مولی نے فرانسسیسیوں کے کئی لطیفے سنائے جو زیادہ تر انگریزوں نے فرانسیسیوں کا مضحکہ اُڑانے کے لیے تراشے ہیں۔

اس دن جمعہ یعنی ویک اینڈ نائٹ تھی۔  اس لیے سڑکوں پر بے تحاشا رش تھا۔  فٹ پاتھ پر بھی کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔  ویسے بھی آسڑیلیا سے باہر نکلیں تو دُنیا کے ہر شہر میں آبادی زیادہ محسوس ہوتی ہے۔  جوان جوڑے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چلے جا رہے تھے۔  کئی ہاتھ ایک دوسرے کی کمر سے لپٹے تھے۔  بدن سے بدن چپکے تھے۔  کچھ عمر رسیدہ جوڑے کافی شاپوں کے سامنے سجی کرسیوں پر بیٹھے عمرِ رفتہ کو یاد کر رہے تھے۔  آٹھ بجے کے بعد بھی سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ ہم پیرس کی خوبصورت عمارتوں، چمکتی سڑکوں، کارنسوں پر سجے رنگ برنگے پھولوں والے پودوں، ریستورانوں اور ہشاش بشاش فرانسیسیوں کو دیکھتے ہوئے دریائے سین کے کنارے جا پہنچے۔  یہ سانپ کی طرح بل کھاتا دریا پیرس کی حسین گردن پر سجا دلکش ہار نظر آتا ہے اور اس کے حُسن کو مزید جلا بخشتا ہے۔  دریا کے دونوں کناروں پر خوبصورتی اور ترتیب سے بنی ہوئی عمارتیں، دریا میں تیرتی رنگ برنگی کشتیاں اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بنے شاندار پُل پیرس کی شان بڑھاتے نظر آتے ہیں۔  ہم ان نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے الگزینڈر برج کراس کر کے پیرس کے ماتھے پر سجے شاندار، با وقار مشہور زمانہ ایفل ٹاور کے پاس جا رُکے۔  ایفل ٹاور اتنا بلند ہے کہ پیرس کے ہر علاقے سے نظر آتا ہے۔  قریب جا کر تو اُس کی بلندی، اُس کی ساخت اور اس کا سائز عقلِ انسانی کو دنگ کر دیتا ہے۔

اس بلند و بالا مینار اور دریائے سین کے درمیان ایک کھلا میدان ہے۔  جہاں ہر جانب سیاحوں کا جمگھٹا نظر آتا ہے۔  دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح مرد اور عورتیں اس عظیم الشان اور محیرالعقول عمارت کی ہر زاویے سے فوٹو گرافی کرتے نظر آتے ہیں۔  مقامی فرنچ اور الجزائری کالے ایفل ٹاور اور دوسرے قابلِ دید مقامات کی تصاویر پر مشتمل کارڈز فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔  وہ تقریباً ہر سیاح کو یہ کارڈز خریدنے کی ترغیب دیتے ہیں۔  ہماری گائیڈ نے بتایا کہ ان سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔  یہ لوگ ٹورسٹوں کو لوٹنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔  ایسے ہی ایک کھچڑی بالوں اور سیاہ رنگت والے الجزائری نے مجھے اپنے کارڈز دکھانے کی کوشش کی۔  میں نے ایک کارڈ دیکھنے کے بعد اس کا نرخ دریافت کیا۔ ا س نے جو دام بتائے وہ خاصے زیادہ تھے۔  میں نے شکریہ ادا کر کے کارڈ واپس کیا تو اس کا چہرہ غصے سے مزید سیاہ ہو گیا ’’تم انڈین لوگ کچھ خرید تو سکتے نہیں۔  ایسے ہی وقت ضائع کرتے ہو‘‘

میں نے کہا ’’تم شاید بھول گئے ہو کہ میں نہیں بلکہ تم میرے پاس کارڈز بیچنے آئے تھے۔ میرا وقت تم سے زیادہ قیمتی ہے۔  جاؤ اور کوئی اور شکار تلاش کرو‘‘

وہ بڑبڑاتا ہوا چلا گیا۔

سیاحوں کی ایک طویل قطار ٹکٹ خریدنے کھڑی تھی۔  خوش قسمتی سے ہمیں یہ زحمت نہیں اُٹھانا پڑی۔  کیونکہ ہمارے ٹور پیکج میں یہ ٹکٹ بھی شامل تھا۔  ہماری گائیڈ مولی نے یہ ٹکٹ پہلے سے خرید رکھے تھے۔  تا ہم لفٹ میں سوار ہونے کے لیے پھر بھی قطار بنانی پڑی۔  ایفل ٹاور کے کئی فلور ہیں۔  آپ ان میں سے کسی پر بھی جا کر دور تک کا نظارہ کر سکتے ہیں۔  یہ ایک عمودی نظر آنے والا مینار ہی نہیں بلکہ مکمل عمارت ہے۔  جس کے مختلف فلورز پر کمرے، کینٹین، ٹوائلٹ، بالکونیاں اور لاؤںجز موجود ہیں۔  لفٹ جب اوپر کی جانب چلی تو چلتی ہی چلی گئی۔  زمین دُور اور آسمان نزدیک نظر آنے لگا۔  ایسا لگتا تھا کہ ہم آسمان کو چھونے جا رہے ہیں۔  میں سب سے اُوپر والے فلور پر اُتر کر بالکونی میں پہنچا تو پورا پیرس حدِ نظر تک میرے سامنے تھا۔  دُور دُور تک عمارتیں، سڑکیں، دریا اور گھر میرے دائرۂ نظر میں تھے۔ ایک نظارے میں اتنے منظر دیکھنے کا یہ میرا پہلا موقع تھا۔  اس پر مستزاد بالکونی میں دوربینیں بھی ایستادہ تھیں۔  جن میں چند فرینک ڈال کر نظروں کی پہنچ کو کئی گنا بڑھایا جا سکتا تھا۔

میں نے بھی تھوڑی دیر پہلے تبدیل کرائی کرنسی میں سے چند سکے ایک دُوربین میں ڈالے تو یہ مشین میلوں دُور کے مناظر کھینچ کر میرے اتنے قریب لے آئی کہ ایسے لگا کہ میں ہاتھ بڑھا کر اُنہیں چھو سکتا ہوں۔  اس بلند و بالا عمارت سے پیرس کے قُرب و جوار کا نظارہ اور اس کی سحر انگیزی نظروں میں جذب ہونے لگی۔  پیرس کی لمبی، سیدھی اور چمکدار سڑکیں، سُرخ چھتوں والے گھر، پارک، باغات اور بل کھاتا دریائے سین سب کچھ نظروں کے دائرے میں تھا۔  جدھر دُوربین کا رُخ کرو۔ وہیں نظارے نظروں کو کھینچ لیتے تھے۔  آنکھ جھپکنے کو دل نہیں چاہتا تھا۔  حتیٰ کہ دوربین میں ڈالا گیا سکہ وقت ختم ہونے پر بازاری عورت کی طرح دغا دے گیا۔  دُوربین نے اندھا ہو کر آنکھوں کو دُور کے نظاروں سے محروم کر دیا۔

میں نے دُوربین میں نیا سکہ ڈال کر اس کا رُخ دریائے سین کی طرف کیا تو کافی دُور موجود ایک کشتی مجھے بالکل قریب نظر آنے لگی۔  بوٹ میں موجود جوڑا تجدیدِ محبت کی مشق کر رہا تھا۔  اُس ہوش ربا نظارے نے اس ٹھنڈے موسم میں بھی میرا ماتھا عرق آلود کر دیا۔  وہ جوڑا میرے اتنے قریب تھا کہ ان کے چہروں پر جذبات کی تپش بھی محسوس کی جا سکتی تھی۔  مجھے اس بے شرم جوڑے پر غصہ آیا جو میرے سامنے ایسی حرکتیں کر رہا تھا۔  دفعتاً دُوربین میں ڈالے گئے سکے کا وقت ختم ہو گیا اور وہ جوڑا بہت دُور کھڑی بوٹ کے دھبے میں تبدیل ہو گیا۔  تب مجھے احساس ہوا کہ بے شرم وہ جوڑا نہیں بلکہ میں ہوں جو اُن کی پرائیویسی میں مخل ہو رہا تھا۔  میں نے دُوربین میں دوبارہ سکہ ڈالا اور دوسری طرف کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے لگا۔

وہیں کھڑے کھڑے ساڑھے دس بج گئے۔  دیکھتے دیکھتے سورج سرخ تھال کی شکل میں مغرب کی جانب چھ گھنٹوں کے لیے رو پوش ہو گیا۔  وہ اپنے پیچھے پیرس کی فضاؤں میں دُلہن کے ہاتھوں پر سجی مہندی کے رنگ کی شفق بکھیر گیا۔  غروبِ آفتاب کا ایفل ٹاور کی انتہائی بلندی سے دیکھا گیا وہ منظر اب تک میرے دل و دماغ پر نقش ہے۔  پیرس کی فضاؤں پر پھیلی شفق کی سُرخی سے رنگی وہ رنگین شام کسی خشک مزاج شخص کو دل گداز نرمی بخش کر شاعر بنانے کے لئے کافی تھی۔ وہ الگ بات ہے کہ ہر انسان اپنے دل میں مچلنے والے سندر جذبوں کو الفاظ کی مالا پہنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ یہ وصف قدرت نے صرف شاعروں کو دیا ہے۔  جو نہ صرف اپنے بلکہ دوسروں کے جذبات کو بھی الفاظ کا جامہ پہنا کر شعروں کی شراب اور غزل کے جام میں ڈھال دیتے ہیں۔

ایفل ٹاور کی بلندی سے غروبِ آفتاب کا منظر تو انتہائی حسین تھا ہی، غروبِ آفتاب کے بعد اس میں مزید چار چاند لگ گئے۔  کیونکہ ہر چہار جانب پیرس کی رنگا رنگ روشنیاں جل اُٹھی تھیں۔  بلندی سے یہ روشنیاں اتنی دلکش لگ رہی تھیں کہ ان سے نظریں ہٹانے کو دل نہیں چاہتا تھا۔  سڑکوں کے کنارے لیمپوں میں ایک دلکش ترتیب تھی۔  سرِ شام جلنے والی یہ رنگ برنگی روشنیاں اب ایک دوسرے ہی پیرس کا نظارہ پیش کر رہی تھیں۔  میں ٹاور پر موجود کیفے سے خریدی کافی کی چسکیاں لے کر بالکونی میں کھڑا ان نظاروں سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ اچانک جولی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چونکا دیا۔  جولی کے حسین چہرے پر شفق کی سرخی کا پرتو نظر آ رہا تھا۔  اس نے بتایا کہ ہماری بس جانے کے لیے تیار ہے۔

گیارہ بجے ہم بس میں سوار ہوئے تو دن کی روشنی غروب آفتاب کے ایک گھنٹے بعد بھی باقی تھی۔  ایفل ٹاور کے اردگرد سیاحوں کا ہجوم ویسے کا ویسا تھا۔  تصویری کارڈز اور سووینئرز بیچنے والے ویسے ہی مصروف تھے۔  علاوہ ازیں ٹریفالگر سکوائر لندن کی طرح درجنوں تصویر یا سکیچ بنانے والے فنکار ایزل اور اسٹینڈ، رنگ اور برش لے کر سیاحوں کی پورٹریٹ بنا رہے تھے۔ چند ایک کے پاس رُک کر میں نے دیکھا۔  وہ بہت اچھی تصاویر بنا رہے تھے۔  تاہم بعض فنکاروں کی قسمت میں سڑکوں اور فٹ پاتھوں کی خاک چھاننا لکھا ہوتا ہے۔  حالانکہ ان میں سے کئی کے فن پارے مشہور و معروف مصوّروں سے کم نہیں تھے۔

ہم دریائے سین کے کنارے کھڑی اپنی کوچ میں جا بیٹھے۔  دریائے سین میں کھڑی کشتیوں پر رنگا رنگ روشنیاں جل اٹھی تھیں۔  جب کشتیاں ہوا کے ساتھ ہچکولے کھاتیں تو روشنیاں دریا پر تیرتی نظر آتیں۔  واپسی کے سفر میں ہم نپولین بونا پارٹ کے مقبرے کے سامنے سے گزرے۔ پھر ہم نے روشنیوں اور رنگوں میں ڈوبا پیرس کا اوپیرا ہاؤس دیکھا۔ نیشنل اسمبلی آف فرانس کے سامنے سے گزرے۔  کنکورڈ کے چوراہے پر پہنچے تو رولر اسکیٹنگ شوز پہنے ہزاروں کی تعداد میں لڑکے اور لڑکیاں ہماری بس کے سامنے آ گئے۔  جس جگہ ہماری بس کھڑی تھی وہاں سے مجھے یہ نظر نہیں آ رہا تھا کہ یہ مخلوق کہاں سے برآمد ہو رہی ہے۔  لیکن وہ بیک وقت سیکڑوں کے حساب سے پوری سڑک پر پھیلے ہوئے تھے۔  وہ تیزی سے پھسلتے ہوئے ایک جانب جا رہے تھے۔  ٹریفک چاروں جانب سے رُکی ہوئی تھی۔  ہماری بس اور دیگر سیکڑوں گاڑیوں کے ڈرائیور بے چینی سے ان کے ختم ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔  لیکن وہ ساون کے مہینے میں زمین سے برآمد ہونے والے پتنگوں کی طرح امڈے ہی چلے آ رہے تھے۔  ایسے لگتا تھا کہ پورے پیرس بلکہ پورے فرانس کے لوگ اسکیٹنگ شوز پہن کر سڑک پر آ گئے ہیں۔

ہم سب اور ہم سے زیادہ ہمارا ڈرائیور تھکا ہوا تھا۔  وہ بار بار بس آگے کھسکاتا اور ریس دیتا کہ شاید یہ مخلوق رُک کر اُسے راستہ دے دے۔ لیکن اُس رات پیرس کے اس حصے میں اسکیٹنگ کرنے والے نوجوانوں کا راج تھا۔  خدا خدا کر کے آدھے گھنٹے میں یہ قافلہ ختم ہوا تو بس آگے بڑی۔  دن بھر کی مسافت اور آدھی رات گزر جانے کے باوجود پیرس کا حُسن اور خصوصاً فرائیڈے نائٹ کی چہل پہل تھکن کا احساس بھلائے ہوئے تھی۔  ہر طرف دن کا سا سماں تھا۔  واپسی کے سفر میں، میں سڑکوں کے کنارے سٹریٹ لائٹوں کے منفرد فرنچ سٹائل دیکھ کر متاثر ہوا۔  سٹریٹ لیمپ صدیوں پرانی لالٹین کی شکل کے تھے۔  ایسے لگتا تھا کہ بہت سی لالٹینیں جلا کر کھمبوں کے ساتھ لٹکا دی گئی ہوں۔  ان لالٹینوں نے ایک عجیب سماں پیدا کر دیا تھا۔ ریستورانوں، کلبوں، کافی شاپس اور دکانوں پر رش جوں کا توں تھا۔  لگتا نہیں تھا کہ رات کے بارہ بج گئے ہیں۔  جوان جوڑے بانہوں میں بانہیں ڈالے ہنستے مسکراتے اور محبتوں کی خوشیاں سمیٹتے چلے جا رہے تھے۔  ہمارے گروپ میں شامل بوڑھے سیاح تھکے تھکے لیکن خوش نظر آ رہے تھے کیونکہ بلا شبہ یہ ایک حسین ترین شام تھی۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے