آہِ بے صدا ۔۔۔ وسیم عقیل شاہ

پلیٹ فارم نمبر 3 پر واقع لکڑی کے خستہ تختوں سے بنی اپنی چھوٹی سی دکان ’واسو بک اسٹال‘ میں بیٹھی 21 سالہ آشا آج بھی کسی گہری فکر میں ڈوبی ہوئی تھی۔ فکر کے یہ گہرے سائے آج اُس کے پر کشش سانولے چہرے پر خوف بن کر چھائے ہوئے تھے۔ اُس کے دائیں بائیں اور پشت کی طرف کتابوں کا انبار لگا ہوا تھا۔ اِس انبار میں کچھ کتابیں ترتیب سے تو اکثر بے ترتیب پڑی اُسی کی طرح غمگین نظر آ رہی تھیں۔ اوپری خانوں میں ساری چھوٹی بڑی کتابیں دھول مٹی میں اِس قدر اٹ چکی تھیں کہ اب اُن کے عنوان تک گرد کی تہوں میں دفن ہو چکے تھے۔ البتہ نیچے کے خانوں میں رکھی ہوئی اور نائلون کی رسی سے معلق کتابیں گرد و غبار سے پاک تھیں ـ سامنے رکھے تختے پر مختلف رسائل، کتابچے اور ٹیبل فین کی ہوا سے پھڑپھڑاتے ہوئے مختلف زبانوں کے اخبار بھی صاف ستھرے تھے۔ اپنے اس محدود مڑے تڑے، پڑے، لٹکے، شکستہ سے اثاثے کے درمیان اُس کا نظر آتا متفکر چہرہ پلیٹ فارم سے منعکس ہوتی ڈھلتے سورج کی ترچھی شعاعوں سے گویا کندن ہو رہا تھا۔

تبھی ایک نوجوان لڑکا کانوں میں ہیڈ فون ٹھونسے اور نگاہ موبائل فون پر جمائے، تقریباً لہراتے ہوئے واسو بک اسٹال پر رکا۔

’’میڈم پلیز، کیا آپ بتا سکتی ہیں یہ پُشپک ایکسپریس کتنا گھنٹہ لیٹ چل رہی ہے؟‘‘

نوجوان نے بڑی شائستگی سے سوال کیا، مگر آشا جیسے وہاں تھی ہی نہیں۔

جواب نہ مل پانے کی صورت میں نوجوان نے ملتجیانہ نظر سے اُس کی طرف دیکھا اور گویا ٹٹولنے کے انداز میں بولا:

’’میڈم، ایکچولی میرا نیٹ ٹھیک سے چل نہیں رہا، پلیز۔۔۔‘‘

آشا پہلے تو ایک ذرا چونکی اور لحظہ بھر اُس کے سوال پر غور کرنے کے بعد سپاٹ لہجے میں دو لفظ کہے:

’’ڈیڑھ گھنٹہ۔‘‘

نوجوان کی پیشانی پر ہلکی سی شکنیں نمو دار ہوئیں۔ اُس نے شکریہ ادا کیا اور چلتے چلتے معمہ حل کرنے کا ایک مخصوص پرچہ خرید کر آگے بڑھ گیا۔

نوجوان کے جاتے ہی یہاں ایک نہ رکنے والی ٹرین دھڑدھڑاتی ہوئی پلیٹ فارم نمبر 3 سے گزری۔ چند لمحوں کی بے دریغ ہنگامہ خیزی کے بعد پھر وہی ریلوے اسٹیشن کا ڈوبتا ابھرتا شور انگیز ماحول، جس میں آشا اب بھی تنہا اپنے وجود کے بے کراں سناٹوں میں بھٹک رہی تھی۔

کرسی پر بیٹھے ہی بیٹھے اُس نے دائیں طرف کے خانے سے ہندی کا ایک رسالہ نکالا اور ورَق گردانی کرنے لگی۔ اگرچہ جانتی تھی کہ اب دھیان دوسری طرف پھیرنے سے اِس مصیبت کا حل ممکن ہے نہ کچھ دیر راحت ہی نصیب ہو گی، کہ جس سے وہ پچھلے تین چار ماہ سے مسلسل جوجھ رہی تھی۔

آج صبح جیسے ہی اُس نے اپنے بک اسٹال کا تختہ سرکایا تو اسٹال ایجنٹ کا خاص بندہ اُسے حَتمی حُکم نامہ دے گیا تھا۔ جس میں واضح طور پر تحریر تھا کہ 30 تاریخ تک یعنی اگلے تین دنوں کے اندر اگر پچھلے پانچ ماہ کے کمیشن کا روپیہ ادا نہیں کیا گیا تو اسٹال نمبر 99 ننیانوے کسی بھی صورت میں خالی کروا لیا جائے گا۔ اسے پڑھتے ہی آشا کے چہرے کی تازگی ایک دم سے ختم ہو گئی تھی۔ حالاں کہ اِس طرح کے نوٹس اسے پچھلے چار پانچ مہینوں سے متواتر موصول ہو رہے تھے، تاہم اِس بار کے نوٹس پر اُس کا یقین پختہ ہو گیا تھا کہ یہ نوٹس آخری ہی ہو گا۔ تب بھی وہ رسالے کے اوراق پلٹتی رہی اور اپنی ساون ضبط کی ہوئی آنکھوں سے ان صفحات کو دیکھتی رہی اور دیکھتے دیکھتے 12 برس پہلے کے اس ورق پر پہنچ گئی جس پر اس کی ننھی انگلی رک رک کر چل رہی تھی۔

’’ودیا ایک سمدر (سمندر) ہے اور اس کا دوار پستک (کتاب) ہے۔ جی ہاں، وہی میں ہوں۔ جس کے پنّوں (اوراق) میں سے گجر (گزر) کر آپ سمدر (سمندر) میں پڑے موتی نکال لا سکتے ہیں۔ میں پستک (کتاب) ہوں اور واستوکتا (حقیقت) یہی ہے کہ میں ہی آپ کی سچی متر (دوست) ہوں، جو پل پل آپ کو دِشا (راہ) سجھاتی ہوں۔۔۔۔‘‘

آشا کتاب کے زرد صفحات پر اپنی ننھی انگلی پھیرتے ہوئے پورے دھیان سے پڑھ رہی تھی کہ اُس کے کانوں میں بابا کے اسکوٹر کی آواز پڑی۔ اُس نے کتاب چھوڑ کسی ہرنی کی طرح قلانچ بھری اور دالان پار کر لیا۔ بابا نے اسکوٹر پارک کی اور اُسے بڑے لاڈ سے پُچکارتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔

یہ روز کا معمول تھا، شام سات بجے تک وہ اپنے ہم جولیوں کے ساتھ کھیل کود کر گھر لوٹ آتی اور ہاتھ منہ دھو کر گھر کام کرنے بیٹھ جایا کرتی تھی۔ پھر آنگن سے بابا کے اسکوٹر کی آواز سنائی دیتی اور کچھ دیر بعد وہ بابا کا ہاتھ تھامے گھر میں داخل ہو رہی ہوتی۔ بابا روزانہ ٹافیاں اور بعض دفعہ اُس کی من پسند کامیکس کتابوں کے نئے ایڈیشن بھی ساتھ لاتے۔ کبھی کبھی مہینہ دو مہینے کے بھیتر اُسے سرپرائز کے طور پر پہیوں والا کاٹھ کا گھوڑا بھی لا کر دیتے جسے پا کر وہ گویا اڑنے لگتی۔ مگر چند ہی دنوں میں اس کے پہیے توڑ کر اسے بے کار بھی کر دیتی۔ بابا پھر خرید لاتے مگر ہر بار تلقین کرتے کہ گھوڑے کی اہمیت انھی پہیوں سے ہے جسے تم اکثر توڑ دیتی ہو۔

بابا کے آتے ہی آشا کی ماں کچن میں لپکتی، تب تک وہ نہا کر تر و تازہ ہو جاتے، پھر کھانا کھاتے اور دیر تک ٹیپ ریکارڈر پر فلمی نغمے سنتے، پھر کوئی کتاب یا رسالہ پڑھتے پڑھتے سو جاتے۔ صبح اسٹیشن جانے کے لیے تیار ہوتے، ساتھ ہی اسکول کی تیاری میں آشا کی مدد بھی کرتے۔ سفاری سوٹ میں ملبوس، ہاتھوں میں چمڑے کا بیگ لیے جب اپنی چمچماتی اسکوٹر سے نکلتے تو ریل شعبے کے بڑے افسر معلوم ہوتے۔ روزانہ پہلے آشا کو اسکول پہنچاتے، بعد ازاں خود ریلوے اسٹیشن کا رخ کرتے۔ آشا اسکول پہنچتی تو لڑکیاں جلنے لگتیں کہ اس کے ڈیڈی اسے اسکوٹر سے اسکول ڈراپ کرتے ہیں۔

ان کی دکان ‘واسو بک اسٹال ‘تین اسٹالوں پر محیط تھی۔ دو لڑکے ماہانہ تنخواہ پر کام کرتے تھے۔ آتی جاتی ٹرینوں سے اتر اتر کر مسافر بڑی تعداد میں دکان پر ہنگامہ مچائے رہتے۔ بھیڑ کا عالم یہ ہوتا کہ بسا اوقات اُنھیں کھانا کھانے کی بھی فرصت نہیں مل پاتی۔ دکان میں ہندی، مراٹھی، انگریزی اور اردو زبان کے ساتھ ہی دیگر کئی زبانوں کی مختلف کتابیں موجود ہوتی تھیں۔ علاوہ ازیں دنیا بھر کے اخبارات اور رسائل سے بھی دکان خوب سجی رہتی۔ بابا کو کئی سو کتابوں کے عنوان مع مصنف یاد تھے۔ حساب کتاب میں بھی ماہر اور کافی سلجھے ہوئے تھے۔ مہینے کی پہلی تاریخ کو بلا تاخیر دونوں لڑکوں کو ان کی تنخواہ اور اسٹال ایجنٹ کو تینوں اسٹالوں کا ماہانہ کمیشن ادا کر دیتے تھے۔

زندگی کے آٹھ برس ورق بن کر اِسی طرح خوشیاں بکھیرتے ہوئے گزر گئے، مگر بعد میں وہ صفحات کھلے کہ جن پر وقت سے پہلے ہی کلائمکس کھلنے لگا تھا۔ آشا بارہویں جماعت کے سالانہ امتحان دے چکی تھی۔ اسی برس اس نے دیکھا دکان کی رعنائیاں آہستہ آہستہ ماند پڑ رہی ہیں۔ کتابوں کی خرید و فروخت میں آئے دن کمی آنی شروع ہو گئی۔ اسٹیشن کی گہما گہمی میں ان کے اسٹال پر اکثر سناٹا چھایا رہتا۔ اب کم ہی ہوتا کہ مسافر ٹرینوں سے اتر اتر کر آتے اور ہنگامہ مچاتے۔ آمدنی کی ایک روٹین جو تواتر سے جاری تھی دھیرے دھیرے تعطل کا شکار ہو گئی۔ بابا کو ہر ماہ نقصان اٹھانا پڑ رہا تھا۔ لہذا مسلسل ہو رہے خسارے کے سبب انھیں جلد ہی دو اسٹالوں سے دستبردار ہونا پڑا۔ اسی طرح دکان میں کام کرنے والے لڑکوں کو بھی ہمیشہ کے لیے رخصت دے دی گئی۔ اب بس دکان کے نام پر ایک ہی اسٹال رہ گیا تھا جس میں وہ تنہا اپنے چند ہی برس قبل گزرے تابناک ماضی پر آنسو بہانے کے لیے بیٹھے رہتے۔

دکان کے اجڑنے سے جہاں آشا کے بابا بیمار رہنے لگے وہیں گھر کے اخراجات کا مسئلہ بھی سر اٹھانے لگا تھا۔ بابا نے اُس کی شادی کے لیے جو روپیے پس انداز کر رکھے تھے وہ بھی دھیرے دھیرے ختم ہو رہے تھے۔ اُس وقت تک وہ ایم کام کے دوسرے سال میں داخل ہو چکی تھی اور بابا کے کاروبار کی ٹھیک ٹھاک شد بد بھی رکھنے لگی تھی۔ لہذا کالج سے روزانہ دکان چلی جاتی اور کوشش کرتی کہ بابا زیادہ سے زیادہ گھر میں رہ کر آرام کر سکیں۔ لیکن جلد ہی اس کے بابا نے بستر پکڑ لیا۔ اب دکان کی ساری ذمہ داری اسی پر آن پڑی۔ کالج میں وہ برائے نام داخل تھی، مہینہ پندرہ دن میں ایک آدھ بار کلاس اٹینڈ کرتی، اُس کا سارا دھیان بابا کی دکان ہی میں رہتا۔

آشا نے پورے دو برس اپنی بساط بھر کوشش کی کہ واسو بک اسٹال کی پہلی سی رونق لوٹ آئے مگر اس کی ساری کوششیں پتنگ کی ڈور سے آسمان ناپنے کے مصداق ثابت ہوئیں۔ البتہ اس لٹے لٹائے کاروبار سے جو کچھ بھی بن پاتا اس سے کسی طرح کاٹ کسر کر کے گھر کے اخراجات پورے کرنے کی کوشش کرتی۔ لیکن اب حالات اس حد تک ابتر ہو چکے تھے کہ وہ پچھلے پانچ مہینوں سے اسٹال کا کمیشن نہیں دے پائی تھی۔ اسٹال ایجنٹ نے شروع میں رعایت دی مگر اب اُس کے بھی صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔

آج صبح جب اُسے یہ آخری نوٹس ملا تو اُسے یقین ہو گیا تھا کہ واقعی اس کی دکان بے وقعت سرمائے سے لدی ہوئی ہے اور اُس کے اُس نے کار کاٹھ کے گھوڑے کی مانند ہو گئی ہے جس کے پہیے وہ ہمیشہ توڑ دیا کرتی تھی۔

وہ ہندی کے رسالے کے اوراق اب اِس بے چینی سے الٹ رہی تھی جیسے ان میں کوئی مہین سی شئے چھپا کر بھول گئی ہو۔ اِسی اثنا ایک ٹرین اسٹیشن پر آ کر رکی تو اُسے اپنے ہونے کا احساس ہوا۔ اس نے نگاہ اٹھائی، معلوم ہوا سورج ڈوب چکا ہے۔ اُس کا چہرہ جو سورج کی سنہری کرنوں سے پر رونق تھا، اب برقی قمقموں کی تیز روشنی سے عجیب بھدا سا نظر آ رہا تھا۔ اسٹیشن کی گہما گہمی پھر عروج پر تھی۔ خاتون اناؤنسر کے مدھر سُر، پھیری والوں اور مسافروں کی چیختی چلاتی آوازوں سے مل کر کانوں پر جبر ڈھا رہے تھے۔ پانی کے فلٹر کولر پر لوگوں کی ہماہمی، جا بجا فقیروں کی مترنم فریادیں اور ایک سمت کو جاتا ہوا انسانوں کا ریلا۔ یہ سب کچھ آشا کے لیے معمول کے مظاہر تھے جہاں وہ کبھی دھیان سے دیکھتی تک تھی نہ ان سے اپنا کوئی سروکار جتاتی تھی۔ البتہ آج جب اس کی نظر قصداً چاروں سمت گئی تو رک رک کر ہر منظر کا جائزہ لیتی رہی۔ عجیب تھا کہ چند پلوں کے لیے اسے یہ سب کچھ اجنبی معلوم ہوا۔

اُس نے ہندی کا رسالہ بند کیا اور اپنی جگہ سے اٹھ کر با دِل ناخواستہ تختے پر رکھی کتابوں کو ایک کپڑے سے جھاڑنے لگی۔ اُسی وقت جنس، ٹی شرٹ میں ملبوس ایک خوبصورت نوجوان لڑکی دکان پر وارد ہوئی اور پوچھنے لگی:

”ایکس کیوز می، یہاں موبائل فون کا ریچارج واؤچر ملے گا؟”

آشا نے اداس نگاہ سے اُس کی طرف دیکھا اور قدرے رسان سے بولی:

’’یہ بک اسٹال ہے۔‘‘

لڑکی کندھے اچکائے سوری بول کر پلٹ گئی۔ لڑکی کے جاتے ہی اُس کی آنکھیں جو اپنے اندر ساون ضبط کیے ہوئے تھیں، یک بیک برس پڑیں، اور صبر کا وہ باندھ جو صبح سے ایک سیلاب کو روکے ہوئے تھا ایکدم سے ٹوٹ پڑا۔ یہاں تک کہ اُس کی ہچکیاں بندھ گئیں اور چند ہی لمحوں میں اُس کے بکھرے وجود سے ہلکی ہلکی آہیں بلند ہونے لگیں۔ لیکن یہ مجبور آہیں بھی اسٹیشن کی ہنگامہ خیزی میں بے صدا ہو کر معدوم ہو گئیں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے