ڈاکٹر اَنور معظم مرحوم۔ ایک قابل ادیب و شاعر ۔۔۔ اسلم عمادی

پیدائش:  ۲۳ نومبر۱۹۲۸

وفات:  ۲۵ نومبر ۲۰۲۳

 

اہم تصانیف: 1۔  جمال الدین افغانی (۱۹۵۶)

2۔ عندلیب گلشن نا آفریدہ۔  غالب کی فکری وابستگیاں (۲۰۱۹)

  1. Annotated Urdu Bibliography (Social Sciences)- 4 Volumes 4. Islam and Plurity of Religion, 1984

 

ڈاکٹر اَنور معظم کا نام جامعہ عثمانیہ کے اکابر اَصحابِ علم و اَدب میں نمایاں ہے۔  ان کے انتقال سے اردو دنیا ایک بے حد اہم ادیب و شاعر، trendsetter، صاحب طرز، ماہر استاذ سے محروم ہو گئی، جو دقتِ نظر اور عمیق فکر کے حامل تھے۔

انور معظم عثمانیہ یونیورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر، صدر شعبہ اور ہمدرد یونیورسٹی میں اعزازی پروفیسر بھی رہے۔ ساری زندگی علمی مشاغل، ریسرچ اور مذہبیات کے مطالعے میں مصروف رہے۔ ان کے تعارف کے لئے ’عندلیب گلشن نا آفریدہ۔  غالب کی فکری وابستگیاں‘ کے مقدمہ میں پروفیسر معین الدین عقیل کے لکھے ہوئے مقدمہ کا درج ذیل جملے قابل غور ہیں: ’ڈاکٹر انور معظم اپنی علمی دل چسپیوں اور تدریسی و تصنیفی خدمات کے ذیل میں بیسویں صدی کی فکر اسلامی کی تاریخ کے پس منظر اور نمایاں افکار و خیالات کے مطالعے کے حوالے سے، جس میں جنوبی ایشیا کی مذہبی فکر کا ارتقا اور عصری رجحانات و میلانات بھی شامل ہیں، وہ اپنا ایک مقام رکھتے ہیں‘۔

ڈاکٹر صاحب کے نام سے میں طالب علمی کے زمانے میں واقف ہو گیا تھا، میرے چچا عبد القادر عمادی مرحوم ان دنوں (۱۹۶۰ کی بات ہے) مجلہ عثمانیہ کا ایک پرچہ لے کر آئے تھے جس کی ادارت انور معظم صاحب نے کی تھی۔  بہت عمدہ اور معیاری پرچہ تھا، جس میں شاذ تمکنت کی ایک نمایاں نظم ’زخمی دریچے‘ شائع ہوئی تھی۔

جب میں ایک مضمون بعنوان ’’ حیدرآباد میں اردو شاعری (۱۹۶۰ء۔ ۱۹۷۰ء)‘‘ لکھ رہا تھا، تو اُن کا نام میرے ذہن میں روشن تھا۔ یہ مضمون ماہنامہ پیکر اور اُس کے بعد میری کتاب ’’اَدبی گفتگو‘‘ میں شائع ہوا۔  اُن کی آزاد (یا جدید) شاعری اس زمانہ میں پیش منظر میں آئی، جب ہندوستان (خصوصاً حیدر آباد) کے ادبی ماحول میں اس صنف کا رواج عام نہ ہوا تھا۔ آج بھی وہی منظر ہے۔

ڈاکٹر انور معظم کی کتاب ’عندلیب گلشن نا آفریدہ‘ کے مطالعے سے ان کی علمیت اور گہری نظر کا اندازہ ہوا، مذہب، عقیدہ اور تصوف پر ان کے مباحث اور بیانات پڑھ کر ہر طالب علم متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ان اہم موضوعات میں مذاہب، ادیان اور اکابر و اصفیا کا ذکر خاص طور کیا ہے۔  وہ ہیں:  شیعہ اور اِمامیہ عقیدہ، نبوت و اِمامت پر ایقان، صوفی اِزم، خودی، وجودیت، موحدیت (لا موجود الا اللہ)، ہم عصر خانقاہی نظام، بدعت و ترک بدعات، حرام و حلال، معجزات، فنا فی اللہ و فنا فی العشق الرسول، عرفان، بھگتی، کفر و ایماں، شاہ ولی اللہ کی تعلیمات، قدیم ہندوستانی عقائد وغیرہ۔

اَنور معظم صاحب کی نثر مثالی ہے اور اُنھوں اپنے منتخب کیے ہوئے عنوان کو اوّل سے آخر تک پیش نظر رکھا ہے، جو اُن کے تجربہ اور عمیق نظر کی دلیل ہے۔ ان کی زبان بے حد شستہ ہے، ان کے لہجہ میں غضب کا اعتماد ہے اور طرز تحریر کامیاب ترسیل کا کامیاب نمونہ ہے۔  غالب کے مراسلوں پر بات کرتے ہوئے دیکھیے کس عمدگی سے تبصرہ کرتے ہیں:  ’یہی گفتگو ہے جسے غالب مراسلے کے مکالمے میں تبدیلی کے عمل سے تعبیر کرتا ہے۔ غالب سے پہلے مکاتیب میں صرف مکتوب نگار کی موجودگی محسوس ہوتی ہے۔ انیسویں صدی کے اوائل ہی سے مکتوب میں مکتوب الیہ کی موجودگی بڑھنے لگی۔  اس کی وجہ انگریزی سامراج میں کے زیر اثر شمالی ہند کے اردو معاشرے میں ہونے والی زبردست جذباتی اور فکری تبدیلیاں ہیں‘۔

ان کی نثر کی ایک اور مثال پیش ہے:

’محسوس ہوتا ہے کہ غم کے بارے میں جذبہ غالب جہاں عقل کے دخل کو گوارا نہیں کرتا وہیں غم کو زندگی پر مکمل طور پر غالب تسلیم کرنے کے لئے بھی تیار نہیں۔ وہ عقل اور غم کو باہم دگر حریفوں کی طرح نہیں بلکہ حلیفوں کی طرح دیکھنا اور محسوس کرنا چاہتا ہے۔  کبھی وہ اس میں کامیاب ہوتا ہے کبھی ناکام۔  غالب فلسفی نہیں اور نہ مفکر۔ شاعر ہے۔‘

انور معظم حیدرآباد کے خاموش ترین شاعروں میں سے ایک تھے۔  اسی وجہ سے بہت سے لوگ ان کو شاعر کی حیثیت سے نہیں جانتے۔  انور کی شاعری بہت ہی سادہ اور دل آویز ہوتی۔  وہ اکثر فطرت اور قدرتی مناظر سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان کی جدید طرز کی نظمیں لکھیں جو کم ہونے کے باوجود نئی شاعری کی اچھی مثال ہیں۔  یہ اقتباسات قابلِ غور ہیں:

نگارِ سحر بن سنور کر نکھر کر

دھندلکوں سے باہر اجالوں میں آئی

کہ مشتاق دیدار بے تاب ہوں گے

مگر آج سب اس سے یوں بے خبر تھے

کہ جیسے وہ ان کے لیے اجنبی ہو

 

…… (پہلا دن)

 

بھنور نے گرجتے ہوئے قہقہوں میں

یہ مجبور تنکے سے پوچھا

۔۔ ۔۔

مجبور تنکے نے گردش کی۔۔ ۔

۔۔ ۔  بڑھتی ہوئی بے بسی میں یہ مانا

’’یہ سچ ہے کہ رفتار کا تو ہی خالق ہے

میں صیدِ رفتار ہوں‘‘

اور دریا

وہ اک تیسرا شخص

خاموش

یہ گفتگو سن رہا تھا۔۔ ۔

(تیسرا شخص)

 

انور معظم نے طویل منظوم ڈرامے اور غنائیے بھی لکھے ہیں اور اس میں بھی کامیاب ہیں۔

ان کی بیش تر نظمیں موجودہ خود فکری اور بے نیازی سے متاثر ہیں بیانیہ ہوتے ہوئے بھی ان کی زبان میں خیالات کی زیادتی دل چسپی فراہم کرتی ہے۔  ان کے فلسفیانہ نظریات میں انفرادیت ہے۔

انور معظم کی غزلیہ شاعری کو کلیتہً جدید قرار دیا جا سکتا ہے۔  مزاجی طور پر ان کی شاعری جدید ہے کہ اس میں داخلی عناصر ذات کے احساسات پر مبنی ہیں جو کہ خاص اظہار کی طرف مائل ہیں۔

ان کی غزلیں انسانیت کے دکھ درد، بے حسی سے اختلاف، مشینوں اور زندگی کے شور شرابے سے نجات، عقائد کی شکست و ریخت سے متاثر احساسات کی شاعری ہے۔  وہ الفاظ اور مصطلحات پر قادر تھے اور اسی لیے غزل میں ان کا علمی رنگ روشن تر ہو جاتا ہے۔ ان کی غزلوں میں جہاں فرد ایک واحد عملی کردار ہے جس پر تجربات و احساسات کے سایے مختلف رنگوں میں اپنی جولانی دکھلاتے ہیں۔  راحت کی آرزو، خواب کا واہمہ ہونا، ضبطِ اظہارِ کرب، آگہی کے سائے، ظاہر و باطن میں تفاوت، مصلحتوں کے بدلتے رخ یہ سارے موضوعات ان کی شاعری میں ملتے ہیں۔

ان کے غزلیہ کلام کی مثالیں پیش ہیں:

 

ان میں سب اپنا نشاں اپنا پتہ ڈھونڈتے ہیں

جتنے افسانے ترے نام سے منسوب ہوئے

 

جن کو ایمان تھا نظروں کی مسیحائی پر

دل کی بستی سے جو گذرے بڑے محجوب ہوئے

 

کس نے بہلایا خزاں کو گل تر سے پوچھو

کل پہ کیا گذری بہاروں کے جگر سے پوچھو

 

کون رویا پس دیوار چمن آخر شب

کیوں صبا لوٹ گئی راہ گذر سے پوچھو

 

زخم نظارہ خون نظر دیکھتے رہو

جو کچھ دکھائے دیدہِ تر دیکھتے رہو

 

چشم صدف کے درد سے صرفِ نظر کرو

کس طرح ٹوٹتے ہیں گہر دیکھتے رہو

 

شاید کسی کا نقش کف پا چمک اٹھے

اے رہنماؤ راہ گذر دیکھتے رہو

 

انور معظم مرحوم نے ایک بے حد فعال، مفید، عالمانہ اور ادبی زندگی گذاری۔  اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے اور ان پر اپنی رحمتوں کی بارش فرمائے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے