عرب کا بہادر بیٹا ۔۔۔ انتظار حسین

’’عرب کا بہادر بیٹا کہاں ہے؟‘‘ چلانے والے نے چلا کر پوچھا۔

عرب کا بہادر بیٹا؟ سب ٹھٹک گئے، متعجب ہوئے، ہاں عرب کا بہادر بیٹا کہاں ہے، پھر ایک آواز ہو کر چلائے، ’’عرب کا بہادر بیٹا کہاں ہے؟ عرب کے بہادر بیٹے کو باہر لاؤ۔‘‘

تب جھلسے چہرے خونم خوں وردی والا سپاہی مجمع کو چیرتا ہوا آگے آیا، گویا ہوا، ’’ایہا الناس، عرب کے بہادر بیٹے میدانوں میں سوتے ہیں، جو مارے گئے، وہ اچھے رہے بہ نسبت ان کے جو زندہ رہے اور ذلیل ہوئے اور عرب کے بہادر بیٹے بلند و بالا کھجوروں کی مانند میدانوں میں پڑے ہیں، صحرا کی ہواؤں نے ان پر بین کیے، اور گرد کی چادر میں ان کی تکفین کی۔‘‘

’’اے خون میں نہائے ہوئے غازی، ہمارے ماں باپ تجھ پر سے فدا ہوں کچھ بتا کہ عرب کے بہادروں پر کیا گزری۔‘‘

’’اے لوگو!، میں تمہیں کیا بتاؤں اور کیسے بتاؤں کے میں تو زندہ ہی نہیں ہوں۔‘‘‘

’’یہ شخص زندہ نہیں ہے؟ عجب ثم العجب۔‘‘ تعجب، سرگوشیاں۔

ایک آواز، ’’اے خون میں نہائے ہوئے عرب کے فرزند، تو کیوں زندہ نہیں ہے؟‘‘

’’ایہا الناس، میں زندہ تھا مگر زندہ نہیں رہا، میں زندہ نہیں رہا، میں زندہ تھا۔ جب میں بگولے کی مثال اٹھا اور آندھی کی طرح یروشلم کو عبور کر کے یروشلم میں گیا، میں نے عمان، دمشق اور قاہرہ کے ڈھے جانے کی خبریں سنیں اور زندہ رہا، پھر میں نے بیت المقدس کے ڈھے جانے کی منادی سنی اور ڈھینے لگا، میں نے بیت المقدس کے گلی کوچوں میں عرب جوانوں کو یوں پڑے دیکھا جیسے صبح ہو گئی ہے۔ اور ٹھنڈے پتنگے پھیلے بکھرے پڑے ہیں، میں نے عرب جوانوں کو پتنگوں کی مثال پھیلے دیکھا اور زندہ رہا، میں نے عرب کی کنواریوں کو لیر لیر لباس میں بال کھولے زمین پر جھکتے دیکھا اور میں زندہ رہا، اور میں پکارا کہ اے بیت المقدس کی بیٹی، کمر پر ٹاٹ باندھ اور بین کر تیرے فرزند خاک و خوں میں غلطاں ہوئے اور تیری کنواریاں گلی گلی رسوا ہوئیں، اس آن میں نے دیکھا کہ بیت المقدس کی بیٹی بے حرمت ہوتی ہے، تب میں نے اپنی گنہگار آنکھیں موند لیں، میں ڈھے گیا اور مر گیا۔‘‘

جھلسے ہوئے چہرے خونم خون وردی والے سپاہی نے آنکھیں موندیں، پھر وہ ڈھے گیا اور مر گیا، ایک مرد اعرابی نے روتے روتے اپنا عمامہ زمین پر پھینکا اور اپنے گیسو بکھیرتے ہوئے چلایا کہ عرب کے سب صحراؤں کی خاک میرے سر میں، عرب کی غیرت مر گئی۔ دوسرا درد سے بولا کہ اے کاش میرا سر پانی ہوتا اور میری آنکھیں آنسوؤں کا سوتا ہوتیں کہ تا عمر روتا رہتا اور آنکھ کی پتلی کو سستانے نہ دیتا۔ سفید ریش اعرابی نے آنسوؤں میں تر ہوتی داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور منادی کرنے لگا، ’’القارعۃ مالقارعہ و ما ادراکَ مالقارعہ، یوم یکونُ الناس کا الفراش المبثوث۔‘‘

اس آن ایک بر بر بگولے کی مثال اٹھا اور ٹیلے پر چڑھ کر قبضے پر ہاتھ رکھتے ہوئے نعرہ زن ہوا کہ قسم ہے سرپٹ دوڑتے گھوڑوں کی، اور قسم ہے ان کے سموں کی جو پتھروں سے ٹکراتے ہیں اور چنگاریاں اڑاتے ہیں اور قسم ہے اس دن کی جب گیا بھن اونٹنیاں بیکار ہو جائیں گی اور جب پہاڑ دھنی ہوئی روئی کے مثال اڑتے پھریں گے۔ اور جب دریاؤں اور سمندروں میں آگ لگ جائے گی کہ میری تیغ نیام سے نکل آئی ہے اور وہ نیام میں نہیں جائے گی۔

یہ کلام کر کے اس نے اونچے ٹیلے پر آگ روشن کی اور نیام کو دو ٹکڑے کر کے اس میں جھونک دیا، یہ دیکھ کر سب نے اپنی اپنی تلواریں نیاموں سے نکالیں اور نیام توڑ کر الاؤ میں جھونک دیے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے