‘جن آنکھوں میں چہرہ دیکھتا تھا، وہ مٹی میں دبا دی گئی ہیں ‘۔ ۔ ۔ کلدیپ سردار

کرشن سے بچھڑنے کے بعد رادھا سکھیوں سے اپنا دکھ بانٹ رہی ہیں۔ برسوں پہلے اس منظر کو سورداس نے اس طرح لکھا:

مدھبن تم کیوں رہت ہرے ؟

برہ بیوگ سیام سندر کے ٹھاڑھے کیوں نہ جرے ؟’

بہت سالوں بعد جب ایک مندر کا پجاری اسے گا رہا تھا، ایک مسلم نوجوان وہاں سے گذرا۔ کرشن رادھا کی جدائی کا یہ پد سن کر وہ اتنا جذباتی ہو گیا کہ اس نے شاعر بننے کی قسم کھا لی۔

ندا کا مطلب ہے آواز۔ فاضلہ کشمیر کا وہ علاقہ، جہاں سے ندا کے پرکھے آ کر دہلی بس گئے تھے۔ اسلئے تخلص رکھا ’ندا فاضلی‘

ندا فاضلی ممبئی آئے اور پھر بڑے شاعر ہو گئے۔ فلموں میں بھی لکھا۔ پھر اس پیڑھی کو ایک مقبول اور آسان شعر دیا،

گھر سے مسجد ہے بڑی دور، چلو یوں کر لیں

کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے

لیکن جب وہ مشاعرہ پڑھنے پاکستان گئے تو کچھ ملاؤں نے انہیں گھیر لیا اور پوچھا کہ جناب آپ کسی بچے کو اللہ سے بڑا مانتے ہیں ؟ اپنی ٹھہری ہوئی بھاری آواز میں وہ بولے کہ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ مسجد انسان کے ہاتھ بناتے ہیں جبکہ بچے کو اللہ اپنے ہاتھوں سے بناتا ہے۔

ایسے ندا فاضلی نہیں رہے۔ بیمار تھے۔ ہارٹ اٹیک آیا۔ چلے گئے۔ شاعر منور رانا نے ان کے ساتھ کئی مشاعرے پڑھے ہیں۔ ندا کو ان کی شاعری سے تو آپ نے سمجھا ہی ہے۔ منور رانا کی نظروں سے بھی سمجھیئے۔ ہم نے ان سے بات کی۔

 

منور رانا سے بات چیت

 

آپ نے ماں پر لکھا تو ندا فاضلی نے باپ پر لکھا۔ خبر پہنچی ہو گی۔

ندا بھائی ہمارے کنٹیمپریری نہیں تھے۔ ہمارے آئکن تھے۔ ہمارے آئڈیل تھے۔ ہم پڑھتے تھے جب ان کا یہ شعر سامنے آیا تھا:

 

سورج کو چونچ میں لئے مرغا کھڑا رہا

کھڑکی کے پردے کھینچ دیئے رات ہو گئی

 

وہ مشہور شعر اسی غزل کا تو ہے،

 

نقشہ اٹھا کے کوئی نیا شہر ڈھونڈھئے

اس شہر میں تو سب سے ملاقات ہو گئی

 

مشاعروں میں ان کی موجودگی کیسی تھی؟

ضدی آدمی تھے۔ فرقہ واریت کے خلاف تھے تو تھے۔ ہر طرح کے مشاعروں میں نہیں جاتے تھے۔ اب تو گالیاں بکنے کا نام مشاعرہ ہو گیا ہے۔ لوگ شاعری ایسی سناتے ہیں کہ مشاعرے کے بعد 15 دنوں تک تکلیف رہتی ہے۔ ندا بھائی اپنی زندگی جیتے تھے۔ دونوں بھاشاؤں کے بیچ ان کی شخصیت ایسی تھی کہ انہیں سنتے ہوئے اردو والے ہندی کی طرف اور ہندی والے اردو کی طرف کھنچنے لگتے تھے۔ ان کے بعد اب ایسا دوسرا شخص نظر نہیں آتا ہے۔

کم لوگ جانتے ہیں کہ ان کی نثر  بہت مضبوط تھی۔ اگر آپ نے ندا بھائی کا پروز نہیں پڑھا تو اس کا مطلب آپ نے انہیں نقاب اوڑھے دیکھا ہے۔

ان کے اس شعر پر بہت کنٹروورسی ہوئی، کہ

اٹھ اٹھ کے مسجدوں سے نمازی چلے گئے

دہشت گروں کے ہاتھ میں اسلام رہ گیا

آپ جانتے ہیں۔ غزل جو ہے، یہ بد کردار ویشیا کی طرح ہے۔ بڑے بڑے استادوں سے کبھی کبھی ایسی غلطی کراتی ہے کہ وہ منھ دکھانے لائق نہیں رہ جاتے۔ انگریزی میں لفظ ہے، ‘ٹریٹمینٹ’۔ شاعری میں الفاظ کا ٹریٹمینٹ۔ ذرا گڑبڑ ہوا کہ بس…

ایک دور میں کلکتے میں بم بنانے والے بہت تھے۔ نکسل موومینٹ کے دور میں۔ تب ہر دوسرے محلے میں ایسے لوگ مل جاتے تھے کہ جن کا ایک آدھ ہاتھ نہیں ہوتا تھا۔

تو انہوں نے جو یہ شعر کہا کہ

اٹھ اٹھ کے مسجدوں سے نمازی چلے گئے

دہشت گروں کے ہاتھ میں اسلام رہ گیا

جامع مسجد میں اس کے ایک دن پہلے بم بلاسٹ ہوا تھا۔ دوسرے دن مشاعرے میں یہ شعر پڑھا انہوں نے۔ پھر ہنگامہ ہو گیا۔ شاعری مشکل چیز ہے۔ یہ کوئی چیون پراش نہیں ہے بابا رام دیو کا۔ یہ کیپسول ہے جس میں زندگی بھر کا نچوڑ اور باریکیاں صحیح تناسب میں ہوتی ہیں۔ ندا بھائی ناستک بھی نہیں تھے۔ ان کا یہ مقصد بھی نہیں تھا کہ مسجدوں میں دہشت گرد ہوتے ہیں۔

اس لئے ایک لفظ ہے عبادت گاہ۔ لفظوں میں چوک کسی سے بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن شاعری میں آپ کو یہ لبرٹی دینی ہو گی۔ ’گھر سے مسجد ہے بہت دور‘ والے شعر کے لوگ دوسرے مطلب نکال لیتے ہیں۔ لیکن کٹر قسم کے لوگوں کے لئے شاعری نہیں کی جاتی۔ لبرل لوگوں کے لئے شاعری کی جاتی ہے۔ وہ جو پھول میں بھی خدا کا نور دیکھ لیتے ہیں۔

کنٹروورسیز کے ساتھ وہ زندہ رہے۔ ان کی آنکھوں کی چمک ہزار پریشانیوں کے بعد بھی کم نہیں ہوئی۔ پورا خاندان مائگریٹ کر کے پاکستان چلا گیا تھا۔ وہ خالص ہندستانی تھے۔ ملک سے بڑی محبت کرتے تھے۔ اب تو بڑے بڑے دعویدار گھومتے ہیں الگ الگ رنگ کے جھنڈے لے کر۔

ان کے ہونٹوں کی مسکراہٹ، ان پر پان کی جو ہلکی ہلکی لالی تھی، وہ کبھی نہیں گئی۔ انہوں نے شاعری نہیں کی، انسانوں کو جوڑ نے کا کام کیا۔ انہوں نے زنجیر بنائی۔ لوہے کی نہیں، پیتل کی نہیں۔ لفظوں کی، شاعری کی۔

 

ان کی کوئی صلاح، کوئی بات جو اب تک یاد رہ گئی ہو؟

اس زمانے میں جب ہم نے بندوق خریدی تھی تو ہم سے بولے کہ چڑیوں کو مت مارنا۔ ہم نے پوچھا، کاہے ؟ تو بولے، چڑیا مارنے کے لئے نہیں ہوتیں۔ انہیں اسلئے پیدا کیا گیا ہے کہ آپ کو رنگوں کو پہچاننے کی تمیز آ جائے۔ رنگوں کی عزت کرنے کا سلیقہ آ جائے۔ وہ بیٹیوں کی طرح ہوتی ہیں۔ یہ سوچ بڑے آدمی کی تھی۔

 

وہ شاعر تھے تو بظاہر حاضر جواب بھی تھے۔ کوئی واقعہ یاد آتا ہو سنائیں۔

ان کے گھر کے سامنے ہی بار ہے۔ ایک بار میں نے کہا کہ آپ کو تو بڑی آسانی ہوتی ہو گی۔ تو بولے نہیں، وہ (بار والا) تو گھر ہی دے جاتا ہے۔ پر یہاں تمہاری بھابھی بیٹھی رہتی ہیں۔

اندور میں ایک تنظیم ہے۔ ا س کی کمیٹی میں ہیں ہم بھی ہیں۔ تو انہوں نے ندا صاحب کو اوارڈ کے لئے چنا۔ اوارڈ کے ساتھ 2 لاکھ کی انعامی رقم تھی۔ ا س کی خبر دینے کے لئے میں نے انہیں فون کیا۔ تو کہنے لگے کہ اوارڈ ان کو دے دو، جنہیں ضرورت ہے۔ بہت لوگ مارے مارے پھرتے ہیں۔ پر پیسے ہم کو دے دو۔ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔

آپ ہنس رہے ہیں اس بات پر لیکن اس دیش کے لئے یہ سب سے بڑی گالی ہے۔ اس دیش کے اربابِ اختیار کو معلوم ہی نہیں ہے کہ دیش میں کتنے مصنف ہیں، کتنے شاعر ہیں۔ کون بنا دوا کے مر رہا ہے۔ کس کے پاس بیوی کے آپریشن کا پیسہ نہیں ہے۔

 

ان کا لکھا سب سے پسندیدہ آپ کو کیا لگتا ہے ؟

ان کا شاعری کو جو کنٹریبیوشن مانا جائے گا، وہ شاعر ہوتے ہوئے بھی دوہے کا مانا جائے گا۔ جیسے غزل کا چالو فیشن آیا، ویسے دوہے کا بھی آیا، لیکن ہمارے لئے فخر کی بات ہے کہ 20ویں صدی میں ندا بھائی نے ایسے دوہے لکھے کہ ان کی دوہوں کی کتاب کبیر کی کتاب کے ساتھ رکھی جانے لگی۔

ان کا یہ دوہا مجھے بہت پسند ہے

 

میں رویا پردیس میں بھیگا ماں کا پیار

دکھ نے دکھ سے بات کی، بن چٹھی بن تار

 

چھوٹا کر کے دیکھیے، جیون کا وستار

آنکھوں بھر آکاش ہے، بانہوں بھر سنسار

 

سب کی پوجا ایک سی، الگ الگ ہر ریت

مسجد جائے مولوی، کوئل گائے گیت

 

شاعر منور رانا شاعر ندا فاضلی کو کس طرح یاد کریں گے ؟

میں تو یہی کہوں گا کہ میرے گھرانے کا ایک بڑا آدمی چلا گیا۔ میرا گھرانہ سیاست دانوں کا گھرانہ نہیں۔ یہاں کوئی پارٹی نہیں ہے۔ میرے گھرانے میں تلسی بھی ہے، کبیر بھی۔ نانک بھی ہے، اقبال بھی۔ ندا بھی اسی میں تھے۔

کسی بڑے آدمی کی آنکھوں میں میں اپنا چہرہ دیکھنا چاہوں تو اب نہیں دیکھ سکتا۔ وہ آنکھیں اب مٹی میں دبا دی گئی ہیں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے