اعتبار و عبرت ۔۔۔ فاطمہ اے۔ ایم خان

"امّی کس کا فون تھا؟” جیسے ہی زرینہ بیگم کچن میں داخل ہوئیں اُس نے سوال کیا۔

"کسی کا نہیں۔ ” وہ فریج کی طرف مڑ گئیں۔ شنایہ ماں کی پیٹھ تکنے لگی، وہ پندرہ منٹ بعد لاؤنج سے لوٹی تھیں اور کہ رہی تھیں کہ کسی کی کال نہیں تھی۔

"یہ لو، آج افطار کے لیے یہ شربت بنا لو۔ ” انہوں نے ایک پاؤچ اُس کی طرف بڑھایا، وہ حیران سی ماں کی طرف دیکھنے لگی۔

"امّی یہ تو کیچپ کا پاؤچ ہے۔ ” اُس نے پاؤچ ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔

"ارے۔ میں سمجھی کہ شربت ہے۔ ” انہوں نے ہلکے سے مسکراتے ہوئے کہا اور پاؤچ اُس کے ہاتھ سے لے لیا۔

"امّی ہمارے گھر شربت کی بوتل آتی ہے، پاؤچ نہیں۔ ”

"ارے بیٹا بھول گئی تھی۔ بوڑھی ہو گئی ہوں نا تو بہت سی باتوں کا خیال ہی نہیں رہتا۔ ”

"آپ بوڑھی نہیں ہوئیں بلکہ آپ پریشان ہیں۔ ” اُس نے ماں کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔ "بتائیں کیا بات ہے، کس کا فون تھا؟” وہ اُن کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی پوچھ رہی تھی۔

زرینہ بیگم نے اپنے ہاتھ اُس کے ہاتھوں سے چھڑا لئے۔ "میں بھلا کیوں پریشان ہوں گی، وہم ہے تمھارا۔ چلو جلدی جلدی ہاتھ چلاؤ افطار کا وقت ہو چلا ہے۔ رضوان بھی آتا ہی ہو گا۔ ” انہوں نے کیچپ فریج میں رکھتے ہوئے کہا۔

"ضرور کوئی بات ہوئی ہے جو امّی اِس قدر پریشان ہیں۔ بھائی سے کہوں گی کہ وہ امّی سے بات کریں۔ ” وہ خیالوں میں  گھری پھر کام میں مصروف ہو گئی۔

**

رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ "امّی سو گئیں ہوں گی، بھائی سے کہتی ہوں کہ وہ صبح امّی سے پوچھیں کہ آخر وہ کس بات پر پریشان ہیں۔ ” اُس نے چپل پہنے اور رضوان کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

"میں نے آپ کو منع کیا تھا کہ اتنی جلدی اُسکی منگنی نہ کریں۔ وہ ابھی صرف اکیس سال کی ہے امّی۔ مگر آپ نے میری کب سننی تھی۔ میں نے کہا بھی تھا کہ صہیب ہماری شنایہ کو پسند کرتا ہے، آپ بس دو سال انتظار کر لیں جیسے ہی اُسکی پڑھائی ختم ہو گی وہ شادی کر لے گا۔ ” وہ اپنے دوست صہیب کی بات کر رہا تھا۔ شنایہ جو رضوان کے کمرے کی طرف جا رہی تھی، زرینہ بیگم کے کمرے سے آتی رضوان کی آواز سن کر وہیں رک گئی۔

"میں تو اس لئے جلدی مچا رہی تھی کہ تمھارے ابا نہیں ہیں، میری بھی زندگی کا کیا بھروسہ۔ میں سوچ رہی تھی کہ جتنی جلدی شنایہ کی شادی ہو جائے اتنا اچھا ہے۔ اور مجھے کیا پتا تھا کہ اتنے لالچی لوگ ہوں گے یہ۔ بوا نے بھی بتایا تھا کہ اچھے، نیک، شریف اور عزت والے لوگ ہیں۔ ”

"امّی شنایہ کے ابا نہیں ہیں مگر میں تو ہوں نا اُسکا بھائی۔ اور جہاں تک بوا کی بات ہے انہیں تو ہر وہ گھرانہ شریف اور عزت دار لگتا ہے جو انہیں بھر بھر کر پیسے دیتا ہے۔ ” رضوان غصہ میں تھا۔

"تم نے بھی تو پتا کروایا تھا نا؟”

"امّی میں نے روحیل کے بارے میں پتا کروایا تھا، اس کی ماں اور اُسکے لالچی خاندان کے بارے میں نہیں۔ ” رضوان سخت طیش میں تھا۔

"پھر اب؟” زرینہ بیگم اُس سے پوچھ رہی تھیں۔

"اب کیا۔ آپ ان لوگوں کو منع کر دیں۔ کیا کریں گے منگنی توڑ دیں گے نا، کوئی بات نہیں۔ ہماری شنایہ کے لیے رشتوں کی کمی نہیں ہے اور نہ ہی اُسکی عمر بیت رہی ہے۔ ” اُس نے زرینہ بیگم کو سمجھاتے ہوئے کہا۔

"مگر رضوان۔ ۔ ۔ منگنی ٹوٹنا چھوٹی بات نہیں ہوتی۔ لوگ ہمیشہ لڑکی کو ہی برا سمجھتے ہیں، لڑکی پر ہی انگلی اٹھاتے ہیں۔ ” زرینہ بیگم کی آواز میں ایک ڈر تھا۔

"تو میں کیا کروں امّی آپ ہی بتائیں۔ کوئی چھوٹا خاندان نہیں ہے اُن کا۔ روحیل کی تین شادی شدہ، بچوں والی بہنیں، دو بھائی اور ایک عدد دادی بھی ہیں۔ اب آپ ہی بتائیں کہ اُن سب کو کپڑے جوتے خریدنے میں ہی کتنا خرچ ہو جائے گا اور روحیل کو جو عیدی دینی ہے وہ خرچا الگ۔ اور ایسا بھی بھلا کہیں ہوتا ہے جو انہوں نے ڈیمانڈ کی ہے کہ ہماری بیٹیوں کے سسرال والوں کے لیے بھی عیدی بھجوائیں۔ ۔ ۔ امّی اگر میں اپنی دو ماہ کی تنخواہ بھی ایڈوانس لے لوں نا تب بھی یہ خرچ پورا نہیں ہو سکتا، اور اُن کی یہ ڈیمانڈ پوری کرنے کے لیے میں ڈاکے ڈالنے سے تو رہا۔ ” رضوان غلط نہیں تھا۔

"مگر بیٹا۔ ۔ ۔ ”

"امّی بھائی صحیح کہہ رہا ہے۔ ” شنایہ کمرے میں داخل ہوئی۔ "آپ منگنی توڑیں اور یہ جو عذاب گلے پڑا ہے اِسے دور کریں۔ یہ لوگ عیدی میں ہی اتنے ڈیمانڈ رکھ رہے ہیں تو آپ ہی سوچیں کہ یہ شادی پر کیا کیا نہیں مانگیں گے۔ اور اگر ہم اُن کی ڈیمانڈ پوری نہیں کریں گے تو وہ کسے تکلیف پہنچائیں گے۔ ۔ ۔ ۔ مجھے نا امّی۔ ۔ ۔ ”

"شنایہ۔ ۔ ۔ ” زرینہ بیگم نے بے بسی سے اپنی بیٹی کی طرف دیکھا۔

"امّی پلیز۔ آپ پریشان نہ ہوں بلکہ شکر منائیں کہ اُن کی اصلیت ابھی پتا چل گئی ورنہ جس منگنی کے ٹوٹنے سے آپ اتنا  ڈر رہی ہیں نا اس کی جگہ اگر آپ نے میری شادی کر دی تو یا تو آپکی بیٹی کی پیشانی پر طلاق کا ٹیگ ہو گا یا پھر کسی دن آپ کو یہ کال آئے گا کہ اسٹو کے پھٹنے سے آپکی بیٹی جل کر مر گئی۔ "وہ جانتی تھی کہ جب تک وہ انہیں جذباتی طور پر بلیک میل نہیں کرے گی تب تک وہ مانیں گی نہیں۔

**

"تجھے کیا ہوا ہے ؟ بھائی دس روزے ابھی اور باقی ہیں اور تو تو ابھی سے یوں تھکا ماندہ لگ رہا ہے۔ "صہیب نے رضوان کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔

"تھکا نہیں یار، بس تھوڑا پریشان ہوں۔ ”

"کیا ہوا؟” صہیب اُس کے قریب آ کر بیٹھ گیا۔

"امّی نے روحیل کے گھر والوں کو جواب دے دیا۔ ”

"جواب دے دیا۔ ۔ ۔ کیا مطلب ہے تیرا؟”

"شنایہ کی منگنی توڑ دی ہے۔ ” رضوان نے اداسی سے جواب دیا۔

"رئیلی! اس نے بے یقینی سے پوچھا۔ اگر یہ سچ ہے تو یہ اداس ہونے کی بات تھوڑی ہے، یہ تو بہت بڑی خوشخبری ہے۔ "صہیب کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا ایکسائٹمنٹ میں کیا کہہ گیا۔

"صہیب۔ "رضوان غصہ میں اپنی جگہ سے اٹھا۔

"اوہ سوری۔ مگر تو پریشان نہ ہو، میں آج ہی ماں کو تیری طرف بھیجوں گا۔ ” اس نے رضوان کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔

"وہ مان جائیں گی؟” رضوان اندیشوں میں گھرا تھا۔

"میرے بھائی وہ تو کب سے ایک پیر پر کھڑی ہیں شنایہ کو اپنی بہو بنانے کے لیے۔ اور میری طرف سے تو تو بالکل بھی پریشان نہ ہو کیونکہ ماں جو ایک پیر پر کھڑی ہیں اس میں زیادہ ہاتھ میری خواہش کا ہے۔ ” صہیب نے اُس کے دونوں گال تھپتھپاتے ہوئے کہا۔

"بڑے ہی بد لحاظ ہو تم۔ ”

"اب جیسا بھی ہوں، تمھارا ہونے والا بہنوئی ہوں تو خبردار آئندہ مجھے بدلحاظ نہ کہنا۔ ” اس نے شہادت کی انگلی اٹھاتے ہوئے تنبیہ کی۔

رضوان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا۔ دونوں گلے لگ کر ہنس دئے۔

**

صہیب زبان کا بڑا پکا تھا۔ اسی دن اس کے والدین نے آ کر زرینی بیگم سے نہ صرف شنایہ کا ہاتھ مانگا بلکہ اسے انگوٹھی بھی پہنا گئے۔ انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ شنایہ کی منگنی کس وجہ سے ٹوٹی ہے۔ اگر کوئی بات ان کے لیے اہمیت رکھتی تھی تو وہ تھی ان کے اکلوتے بیٹے کی خواہش۔

"دیکھیں زرینہ آپا مجھے صہیب بے حد عزیز ہے اور اس کے حوالے سے شنایہ بھی ہمارے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو عید کی شام ہی دونوں کا نکاح کرا دیتے ہیں اور ساتھ ہی رخصتی بھی۔ "زرینہ بیگم نے

حیرت سے رخشندہ جلال کی طرف دیکھا۔

"مگر صہیب کی پڑھائی؟”

"صہیب کی پڑھائی کا کیا ہے، وہ تو چلتی ہی رہے گی۔ ایک بار دیر کر کے پچھتائے تھے، مگر قسمت میں صہیب اور شنایہ کا ساتھ لکھا ہے اسی لئے آج آپ کے در پر سوالی بن کر آئے ہیں۔ ہم ابھی اور دیر نہیں کرنا چاہتے۔ ” جواب جلال حیدر کی طرف سے آیا تھا۔

” آپا آپ میری بڑی بہن کی طرح ہیں، میں جانتی ہوں شنایہ آپ کی اکلوتی بیٹی ہے، آپ نے اس کی شادی کے حوالے سے بہت سے خواب دیکھیں ہوں گے۔ اسی لئے میں آپ کو مکمل طور پر منع نہیں کر رہی۔ ..۔ آپ جو کچھ بھی دینا چاہتے ہیں شنایہ کو دیں مگر پلیز یہ فرنیچر اور دیگر ساز و سامان کے لیے پریشان نہ ہوں۔ یہ سب ہم کر لیں گے، آخر کو شنایہ ہماری بھی تو اکلوتی بہو ہے۔ ہمارا بھی تو فرض ہے یہ سب کرنا۔ ” انہوں نے خوشگوار لہجے میں کہا۔

"ٹھیک ہے آپ لوگ جیسے بہتر سمجھیں۔ میری شنایہ بڑی خوش قسمت ہے کہ اسے صہیب جیسا چاہنے والا شوہر اور آپ لوگوں جیسے ساس سسر ملے ہیں۔ "وہ اس بات سے بے خبر تھیں کہ جسے وہ خوش قسمت کہہ رہی ہیں اس کی قسمت کے ساتھ تو بد ہی بد جڑا ہے۔

**

"یہ سب کیا ہے ماما؟” روحیل نے ٹیبل پر پھیلے سامان کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"تمھاری سسرال والوں نے منگنی کا سامان واپس بھجوایا ہے۔ ” مسز انصاری نے بڑے ہی آرام سے جواب دیا۔

"آپ ہوش میں تو ہیں ماما، آپ کو اندازہ ہے کہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔ ان لوگوں نے منگنی کا سامان واپس بھجوایا ہے اور  آپ اتنے اطمینان سے مجھے بتا رہی ہیں۔ ” روحیل نے غصے میں بریف کیس وہیں ٹیبل پت پٹخا۔

"تم کس کے لیے مجھ پر چلا رہے ہو، اس دو ٹکے کی لڑکی کے لیے۔ منگنی ٹوٹ گئی تو کیا ہوا، تم کوئی ایرے غیرے نہیں ہو جسے لڑکیاں نہ ملیں۔ میں تو کہتی ہوں کہ شکر مناؤ کہ ایسے بھوکے ننگے، کنگلے لوگوں سے جان چھوٹی۔ میں تو پہلے ہی اس رشتے کے حق میں نہیں تھی، پتا نہیں تمھیں ہی اس فقیرن میں کونسے سرخاب کے پر نظر آ گئے تھے جو اس کے پیچھے دیوانے ہوئے پھر رہے تھے۔ دیکھ لو توڑ دی منگنی۔ ” مسز انصاری کے الفاظ ہتک آمیز تھے۔

"آپ کیا کہہ رہی ہیں ماما، میں اس لڑکی سے محبت کرتا ہوں ماما، دیوانوں والی محبت اور آپ۔ ..۔ آپ اس کے لیے ایسے الفاظ استعمال کر رہی ہیں۔ آپ کو ہو کیا گیا ہے ماما؟۔ .. آپ ابھی انہیں فون کریں اور پوچھیں کہ آخر وجہ کیا ہے ؟” روحیل انصاری سر تھامے کھڑا تھا۔ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر بات کیا ہوئی جو شنایہ کے گھر والوں نے منگنی توڑ دی۔

"تمیز سے بات کرو روحیل۔ تم اس جھونپڑپٹی میں رہنے والی ایک ادنیٰ سی لڑکی کے لیے مجھ سے۔ ..۔ مجھ سے۔ ..۔ اپنی ماں سے بدتمیزی کر رہے ہو۔ ..۔ دیکھ رہی ہیں اماں جی یہ سب آپ کی شہ کا نتیجہ ہے۔ ” مسز انصاری نے صوفے پر بیٹھیں اپنی ساس سے شکوہ کیا۔

"تم یہ غلط فہمی دور کر لو روحیل کہ اب میں اس گھر میں کال کروں گی یا اس گھر کی چوکھٹ پر واپس جاؤں گی۔ نہیں۔ ..۔ ہر گز نہیں۔ ” ان کا لہجہ حتمی تھا۔

"دادی پلیز آپ ماما کو سمجھائیں۔  وہ میری ایک ادنیٰ سی خواہش نہیں پوری کر سکتیں۔ ” وہ اب اپنی دادی کی طرف مڑا۔

” روحیل بیٹا، وہ لڑکی تمھاری قسمت میں ہی نہیں ہے۔ بھول جاؤ اسے۔ ”

"دادی پلیز ایسے نہ کہیں۔  آپ چلیں میرے ساتھ، آپ شنایہ کی امی سے بات کریں۔ آخر پتا تو چلے کہ انہوں نے اتنا بڑا قدم کیوں اٹھایا۔ پلیز دادی پلیز۔ ..۔ ” وہ دادی کے قدموں میں بیٹھا منت سماجت کر رہا تھا۔

"اماں جی کہیں نہیں جائیں گی روحیل۔ اور وہ صحیح کہہ رہی ہیں کہ تم شنایہ کو بھول جاؤ کیونکہ اس نے دوسری منگنی کر لی ہے۔ ”

"ماما وہ لوگ ایسا کیسے کر سکتے ہیں ؟”

"وہ لوگ ایسا کر چکے ہیں۔ عید کی شام شنایہ کی شادی ہے۔ صہیب جلال کے ساتھ۔ ویسے اس لڑکی کی قسمت بڑی اچھی ہے، یا پھر یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ لڑکے بڑے اچھے دیکھ کر پھانستی ہے۔ پہلے تمھیں پھانسا روحیل انصاری۔ .. انصاری اینڈ سنس کے سب سے بڑے وارث کو اور پھر اچانک تم سے منگنی توڑ کر ملک کے سب سے بڑے بزنس مین جلال حیدر کے بیٹے صہیب جلال سے شادی کرنے چلی ہے۔ ” وہ روحیل کو شنایہ سے بدگمان کرنا چاہتی تھیں۔

وہ بے یقینی سے ماں اور دادی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ پھر غصے سے اٹھا اور کمرے میں جا کر بند ہو گیا۔ مسز انصاری جانتی تھیں کہ وہ اپنا کام کر چکی ہیں۔

**

"ہائے ہائے شنایہ۔ بیٹا یہ پنکھا تو ذرا تیز کر دو۔ ” زرینہ بیگم نے اپنی چادر اتار کر کرسی کی پشت پر رکھی۔

"روزے میں بازاروں کے چکر لگانا انتہائی مشکل کام ہے۔ مجھ سے تو نہیں ہوتا یہ سب۔ ”

میں نے آپ کو منع کیا تھا امی کہ آپ رہنے دیں مگر آپ خود نہیں مانیں۔ ” شنایہ نے سارے شاپرس سینٹرل ٹیبل پر  رکھتے ہوئے کہا۔

"صحیح کہہ رہی تھی تم۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میں اتنا تھک جاؤں گی۔ اب صرف تمھارے نکاح کا جوڑا لینا باقی ہے وہ کل تم رضوان کے ساتھ جا کر لے لینا۔ ” زرینہ بیگم پسینے میں شرابور تھیں۔

"ٹھیک ہے امی، آپ بھائی سے کہہ دیجئے گا کہ کل مجھے بوتیک لے چلیں۔ ” اسے اندازہ نہیں تھا کہ کوئی ہے جو پچھلے ایک ہفتے سے مسلسل اس کا سایہ بنا پھر رہا ہے، اس امید پر کہ کبھی نہ کبھی تو شنایہ اسے اکیلی ملے گی۔ اور یہاں شنایہ کل کی پلاننگ کر رہی تھی، اس بات سے لاعلم کہ کل اس سایہ کی امید پوری ہونے والی ہے۔

**

"روحیل۔ روحیل دروازہ کھولو۔ ” مسز انصاری پچھلے دس منٹ سے مسلسل اس کے کمرے کے دروازے پر دستک دے رہی تھیں۔

اندر روحیل وہ بوتل ہاتھ میں لئے بیٹھا تھا جسے اس نے چار دن پہلے خریدا تھا، اور جسے وہ چار دنوں سے گلے کا ہار بنائے پھر رہا تھا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ آج اس کی امید پوری ہو جائے گی، آج وہ اس بوتل سے چھٹکارا حاصل کر لے گا۔

"شنایہ میں نے تم سے بے انتہا محبت کی، پاگلوں والی محبت۔ .. محبت بھی نہیں مجھے تو تم سے عشق ہے مگر تم۔ .. تم نے یہ کیا کیا شنایہ۔ ..۔ ” اس کی آنکھیں خون کی طرح سرخ ہو رہی تھیں۔ پورے کمرے میں سگریٹ اور شراب کی بو رچی تھی۔ سامنے فرش پر شراب کی بوتل اوندھی پڑی تھی۔ دیوار پر لگے فریم کی کانچ چکنا چور ہوئی فرش پر گری تھی، قالین پر جگہ جگہ سگریٹ کے ادھ جلے ٹکرے پھیلے تھے، بیڈ پر بچھی چادر آدھی بیڈ پر اور آدھی بیڈ سے نیچے لٹک رہی تھی۔ ..۔ . اور روحیل زمین پر بیٹھا اس بوتل کو غور سے دیکھ رہا تھا۔

شنایہ روحیل کے سب سے چھوٹے بھائی روشان کی کلاس فیلو تھی۔ روشان کے کالج کی ایک تقریب میں اس نے شنایہ کو دیکھا تھا اور تب سے اس کا دیوانہ ہو گیا تھا۔ اس نے کبھی بھی شنایہ کا راستہ نہیں روکا تھا اور نہ ہی کبھی اس سے بات کرنے کی کوشش کی تھی بلکہ اس نے شریفوں کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے اپنی ماں کو شنایہ کے رشتہ لے کر بھیجا تھا۔ ظاہری طور پر ہر بات اچھی تھی اور رضوان نے جتنی معلومات نکالی تھی اس میں کوئی بھی بات قابل اعتراض نہیں تھی۔ اسی لئے زرینہ بیگم نے شنایہ کی منگنی کرا دی۔

"روحیل دروازہ کھولو۔ کچھ جواب تو دو بیٹا۔ ” ایک بار پھر دروازے پر دستک ہوئی۔

اس نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی، شراب کی بوتل کا شاپر قریب پڑا تھا اس نے وہ بوتل اس شاپر میں ڈالی اور دروازہ کھول دیا۔

مسز انصاری سخت غصہ میں تھیں۔ "” روحیل ہو کیا گیا ہے تمھیں ؟

"راستہ چھوڑیں ماما، میں باہر جا رہا ہوں۔ تھوڑی دیر میں لوٹ آؤں گا۔ ” مسز انصاری پریشان سی اپنے بیٹے کو دیکھ رہیں تھیں۔ ملگجے کپڑے، بکھرے بال اور ہاتھوں میں شاپر لئے وہ ان کے سامنے کھڑا تھا۔

"اس حلیے میں کہاں جاؤ گے روحیل؟”

"آپ راستے سے ہٹیں۔ ” روحیل نے انہیں پرے کیا اور باہر نکل گیا۔

**

وہ بوتیک سے باہر کھڑی کسی سے فون پر بات کر رہی تھی، وہ کچھ پریشان لگ رہی تھی۔ مگر سب سے اہم بات جو تھی وہ یہ کہ شنایہ اکیلی تھی۔ دوپہر کا وقت تھا مگر عید قریب تھی اسی لئے ساری دکانیں اور بوتیک کھلے تھے۔ اس کے سر پر جنون سوار تھا۔ کار کا دروازہ کھول کر وہ باہر نکلا، شاپر اس کے ہاتھوں میں تھا۔ وہ تیز تیز قدموں سے شنایہ کی طرف بڑھا۔

ٹھیک ہے بھائی میں یہیں کھڑی ہوں۔ آپ پلیز جلدی آنے کی کوشش کریں۔ ” اس نے رضوان کو ہدایت دے ” کر فون بند کر دیا کہ اچانک کوئی اس کے سامنے آ کر رکا۔

"یس۔ ” وہ اسے کوئی اجنبی سمجھ رہی تھی جو راستہ یا کسی دوکان کے بارے میں پوچھنے کے لیے اس کے سامنے آ رکا تھا۔ "شنایہ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم اتنی گھٹیا لڑکی ہو کہ پیسوں کے لیے تم نے مجھ سے منگنی توڑ لی۔ مگر میں بھی روحیل انصاری ہوں۔ آج تک میری ماں نے میری ہر خواہش پوری کی ہے اور وہ میری اس خواہش کو بھی پورا کرنا چاہتی ہے، مگر صرف تمھاری وجہ سے وہ آج مجھ سے شرمندہ ہے۔ تمھیں اندازہ نہیں ہے کہ تم نے کیا کیا ہے۔ ..۔ . تم کیا سمجھتی ہو کہ تم اتنی آسانی سے صہیب جلال سے شادی کر لو گی اور میں یہاں بیٹھ کر تمھارے لئے آنسوں بہاؤں گا۔ ..۔ نہیں شنایہ۔ ..۔ اگر تم مجھ سے منگنی توڑ رہی ہو تو کسی اور کو بھی کوئی حق نہیں کہ وہ تم سے شادی کرے۔ ..۔ مجھے زندگی بھر کی اذیت دے کر تم خوش رہنے کی پلاننگ کر رہی ہونا۔ ..۔ مگر یہ تمھاری خوش فہمی ہے۔ تمھیں پتا نہیں ہے کہ روحیل انصاری کس چیز کا نام ہے۔ ”

شنایہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ جسے وہ اجنبی سمجھ رہی تھی وہ اجنبی نہیں تھا۔ ..۔ . وہ روحیل انصاری تھا۔ اس سے پہلے کہ شنایہ کچھ کہتی اس نے کوئی چیز پورے طاقت سے اس کے چہرے پر دے ماری۔ ایک چیخ شنایہ کے منہ سے نکلی اور سارے شاپرس ہاتھ سے چھوٹ کر فٹ پاتھ پر گر گئے، اس نے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھے۔

وہ کوئی گرم ابلتا ہوا مائع تھا۔ اس کے چہرے پر گویا آگ لگ گئی۔ درد، تکلیف، جلن گوشت سے ہوتے ہوئے ہڈیوں میں اترنے لگی تھی۔ وہ اب فٹ پاتھ پر اوندھے منہ پڑی دونوں ہاتھوں سے آنکھوں کو ڈھانپے کراہ رہی تھی۔ اس کے دونوں ہاتھوں کی پشت اور ہتھیلی بھی جل گئی تھی۔ چہرے پر ہاتھ کا لمس محسوس ہونا بند ہو گیا تھا، کسی نے اسے کندھوں سے پکڑ کر سیدھا کیا۔ ..۔ کسی نے اس کے چہرے پر پانی ڈالا۔ ..۔ کتنا پانی وہ نہیں جانتی تھی مگر کوئی مسلسل اس کے چہرے پر پانی ڈال رہا تھا۔ ..۔ تکلیف اب بھی ویسی ہی تھی۔ ۔ ..۔ کوئی اس کا نام لے کر پکارنے لگا۔ ..۔ وہ رضوان تھا۔ .. شنایہ اسے دیکھنا چاہتی تھی مگر اسے یاد ہی نہیں تھا کہ آنکھیں کیسے کھولی جاتی ہیں۔ ..۔ وہ اسے آواز دینا چاہتی تھی، اسے بتانا چاہتی تھی کہ اسے کتنی تکلیف ہو رہی ہے مگر اسے پتا ہی نہیں تھا کہ زبان کہاں ہے۔ سارے احساسات ختم ہو گئے تھے۔ اگر کچھ باقی تھا تو وہ تھا درد، تکلیف، اذیت۔ ۔ ۔ ۔ دھیرے دھیرے اس کے کانوں میں آتی آوازبند ہونے لگی۔

**

روحیل جیل چلا گیا تھا۔ وہ شنایہ پر تیزاب پھینک کر بھاگا نہیں تھا بلکہ خاموش کھڑا تماشہ دیکھ رہا تھا۔ لوگوں نے اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔ مگر وہ مسز انصاری کا بیٹا تھا، دو ہی دن میں وہ جیل سے باہر آ گیا تھا۔

اس حادثے کو ایک سال بیت گیا تھا۔ اس ایک سال میں بہت سی نئی باتیں ہوئیں۔ زرینہ بیگم کا انتقال ہو گیا۔ رضوان کو پیسوں کی ضرورت تھی۔ وہ شنایہ کا علاج کروانا چاہتا تھا۔ اسی لئے پیسوں کی خاطر اپنے سے عمر میں تیرہ سال بڑی اپنے باس کی طلاق یافتہ بیٹی سے اس نے شادی کر لی۔ زرینہ بیگم کے بعد اس گھر میں کوئی عورت نہیں تھی جو شنایہ کا خیال رکھتی، زرین سے شادی کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ رضوان اب شنایہ کے لیے ایک مستقل نرس رکھ سکتا تھا۔

صہیب ان سب باتوں سے دلبرداشتہ ہو کر باہر چلا گیا۔ بہانہ ہائیر اسٹڈیز کا تھا۔ اس کے دل میں آج بھی شنایہ کے لیے محبت روز اول کی طرح ہی تھی مگر وہ چاہ کر بھی اس سے شادی نہیں کر سکتا تھا۔

اور شنایہ۔ ..۔ . رضوان اور زرین نے یہاں سے لے کر امریکہ اور جرمنی تک کے ہر ڈاکٹر سے مشورہ لے لیا مگر سب کا ایک ہی جواب تھا۔ ..۔ . "شنایہ اب کبھی نہیں دیکھ سکتی۔ ”

**

"میرا بڑا دل کرتا ہے کہ میں اپنا چہرہ دیکھوں۔ ” رینی حیرت سے اس کی طرف مڑی، وہ بہت کم بات کیا کرتی تھی۔ اس کی بات بھی جلدی سمجھ نہیں آیا کرتی تھی کہ تیزاب سے جلنے کی وجہ سے نہ صرف اس کے چہرے کی ہیئت بدلی تھی بلکہ اس کے بولنے میں بھی فرق پیدا ہو گیا تھا۔

"تو آپ روز اسی لئے آئینے کے سامنے گھنٹوں بیٹھی رہتیں ہیں ؟” رینی اس کی کرسی کی پشت تھامے کھڑی تھی۔

"کتنی عجیب بات ہے نا کہ میں جانتی ہوں کہ میں کبھی نہیں دیکھ سکتی پھر بھی آئینے کے سامنے بیٹھی رہتی ہوں۔ بے وقوفوں کی طرح۔ ” اس کا لہجہ مضحکہ خیز تھا۔

"تیزاب سے جلنے والوں کے چہرے تو کافی ڈراؤنے ہوتے ہیں۔ میرا بھی چہرہ ڈراؤنا ہو گیا ہو گا۔ کیا تمھیں 24گھنٹے میرا چہرہ دیکھ دیکھ کر ڈر نہیں لگتا؟” اس نے رینی سے سوال کیا۔

ایک بات کہوں شنایہ میڈم۔ ..۔ . اس حادثہ نے سب کی زندگی بدل دی مگر سب سے زیادہ نقصان اگر کسی کا ہوا ہے تو

آپ کا ہوا ہے۔ ” اسے شنایہ سے ہمدردی تھی اسی لیے اس نے شنایہ کے سوال کا جوب بھی نہیں دیا۔

"نہیں رینی۔ .. مجھے یہ حادثہ اب بھی ادھورا لگتا ہے۔ نقصان تو صرف میرے اپنوں کا ہوا ہے۔ روحیل انصاری اور اس کا خاندان گناہ کر کے اب بھی چین و سکون سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مگر میرا دل کہتا ہے کہ میرا اللہ میرے ساتھ نا انصافی نہیں کرے گا۔ میں نے کبھی خدا سے بھی شکوہ نہیں کیا، تو وہ مجھے میرے صبر کا اجر ضرور دے گا۔ ”

"کیا ہوا آپ اتنی خاموش کیوں ہیں ؟” رینی نے اسے خیالوں میں گم دیکھ کر سوال کیا۔

"کچھ نہیں۔ مجھے بیڈ تک لے چلو مجھے سونا ہے۔ ” اس نے اگر خدا سے شکوہ نہیں کیا تھا تو وہ رینی کے سامنے بھی یہ باتیں نہیں کرنا چاہتی تھی۔

**

"بہو مجھ سے روحیل کی حالت دیکھی نہیں جاتی اور ایک تم ہو کہ یوں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی ہو۔”

"پریشان تو میں بھی ہوں اماں جی۔ آپ ہی بتائیں کہ میں آخر کروں کیا۔ وہ صبح آفس جاتا ہے تو رات گئے لوٹتا ہے۔ نہ کسی سے ملتا ہے نہ ہی ہنستا بولتا ہے۔ میرے بیٹے کو تو گویا چپ لگ گئی ہے۔ آپ ہی کوئی مشورہ دیں۔ ” مسز انصاری اپنی ساس کے کمرے میں بیٹھی شام کی چائے پی رہی تھیں۔

"میں تو تمھیں ایک ہی مشورہ دوں گی کہ تم روحیل کی شادی کرا دو۔ "روحیل کو ایک میٹنگ میں جانا تھا، وہ چینج کرنے گھر آیا تھا۔ اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے دادی کی آواز کانوں میں پڑی تو وہ ٹھٹک گیا۔ وہ روحیل کی شادی کا ذکر کر رہی تھیں۔

"مگر اماں جی وہ مانے تب نا۔ مجھے تو اس سے بات کرنے میں بھی ڈر لگتا ہے۔ آپ خود روحیل سے بات کر لیں، باقی کام

میں کر لوں گی۔ ہمارے روحیل کے لیے لڑکیوں کی کمی تھوڑی ہے۔ ” مسز انصاری کے لہجے میں ڈر اور غرور بیک وقت شامل تھا۔

"لڑکیوں کی کمی تو نہیں ہے، مگر جس لڑکی پر تمھارے بیٹے کا دل آیا تھا اسے تم نے آٹے سے بال کی طرح نکال پھینکا۔ کیا ہو جاتا اگر وہ اس گھر کی بہو بن جاتی، کم از کم ہمارا روحیل تو خوش رہتا۔ تمھیں جانتے بوجھتے ان لوگوں سے وہ ڈیمانڈ نہیں کرنی چاہئے تھی کہ وہ روحیل کے ساتھ ساتھ پورے گھر والوں حتیٰ کہ بیٹیوں کے سسرال والوں کے لیے بھی عیدی بھیجیں۔ ” دادی کی بات پر روحیل کے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔

"ہاں میں نے جانتے بوجھتے کیا تھا وہ سب کچھ، مگر آپ ہی بتائیں کہ میں اور کیا کرتی۔ ایک یتیم، غریب لڑکی کو اپنی بہو بنا لیتی۔ ایک ایسی لڑکی جو کہ میرے بیٹے کی ملازمہ بننے کے قابل نہیں ہے اسے میں اپنے بیٹے کی ملکہ بنا دیتی۔ وہ لوگ اس قابل نہیں تھے کہ میری اتنی چھوٹی سی ڈیمانڈ پوری کر سکیں تو آپ ہی سوچیں کہ وہ ہمارے شایان شان جہیز کہاں سے لاتے۔ آپ کو اندازہ بھی ہے کہ اس لڑکی سے روحیل کی شادی کروا کر ہمیں سوسائٹی میں کتنی شرمندگی اٹھانی پڑتی۔ لوگ ہم پر کتنا ہنستے کہ دیکھو میرا انصاری نے کس کنگلے خاندان سے اپنی بہو لائی ہے۔ آپ کے لیے یہاں بیٹھ کر نصیحتیں کرنا آسان ہے اماں جی مگر سوسائٹی میں میرا اٹھنا بیٹھنا ہے۔ یہ ساری باتیں مجھے سننی پڑتی۔ ” مسز انصاری اپنی ساس کو دنیا اور دنیاداری سمجھا رہی تھیں۔ اور روحیل کمرے سے باہر سانس تھامے، موبائل فون ہاتھوں میں لئے مجسمہ بنے کھڑا تھا۔

” میں یہ سب نہیں جانتی بہو۔ مجھے روحیل کی خوشی عزیز ہے۔ اور اس حوالے سے مجھے وہ لڑکی بھی پسند تھی۔ مگر تم نے بڑی چالاکی سے پہلے منگنی تڑوائی اور پھر روحیل کی نظروں میں اسے اتنا گرا دیا کہ وہ اس سے نفرت کرنے لگا۔ اور اسی نفرت کے ہاتھوں اس نے وہ انتہائی قدم بھی اٹھایا تھا۔ تمھیں وہ سب نہیں کرنا چاہئے تھا۔ رشتے اور بزنس دو الگ الگ چیزیں ہیں مگر تم رشتوں کو بھی بزنس کے اصولوں سے چلانا چاہتی ہو۔ رشتوں میں ہمیشہ منافع نہیں دیکھا جاتا۔ اکثر اپنوں کی خوشی کی خاطر بڑے بڑے نقصانات اٹھانا بھی عقلمندی کہلاتی ہے۔ ”

دادی اور بھی بہت کچھ کہہ رہی تھیں، مگر اس کا دماغ آندھیوں کے زد میں تھا، اطراف میں ایک جہنم بھڑک رہا تھا۔ وہاں کھڑے رہنا دوبھر ہو گیا تو وہ اپنے کمرے میں چلا آیا۔

**

مسز انصاری اور دادی کی باتیں سننے کے بعد کسی طرح کے شک کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اس نے میٹنگ کینسل کروا دی۔ .. اگر وہ ساری باتیں اپنے کانوں سے نہ سنتا تو اسے کبھی بھی اس بات پر یقین نہیں آتا کہ اس کی ماں نے جہیز جیسی لعنت کے لیے اپنے بیٹے کی محبت تک کی پرواہ نہیں کی۔

وہ جب بھی شدید غصے میں ہوتا تو کمرے کا حشر کر دیتا، شراب پیتا، سگریٹ پر سگریٹ پھونکتا مگر اس بار اس نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔ ۔ ..۔ مگر اس بار جو اس نے کیا تھا وہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔

روحیل انصاری نے خودکشی کر لی۔ ..۔ اس نے کمرے میں بند ہو کر خود اپنے ہاتھوں اپنی ریوالور کی گولی اپنی کنپٹی میں اتار دی۔ ..۔ مگر وہ روحیل انصاری تھا، میرا انصاری کا بیٹا۔ .. انہیں کی طرح گھاگ اور چالاک۔ خودکشی کر کے اس نے بے شک بزدلوں والا کام کیا تھا مگر وہ اتنا بے وقوف نہیں تھا کہ صرف خود کو سزا دیتا۔ ..۔ اس نے خود کشی سے پہلے ہی میرا انصاری کی بربادی کا سامان تیار کر لیا تھا۔

**

رینی معمول کے مطابق اسے ناشتہ کے وقت ڈائننگ روم میں لے آئی۔

"رینی پلیز نیوز چلا دو، آج اخبار بھی نہیں آیا۔ ” زرین ایک بزنس وومن تھی۔ اس کا لائف اسٹائل بھی ویسا ہی تھا۔ وہ عام بزنس مین کی طرح ناشتہ کے ساتھ ہی اخبار پڑھنا پسند کرتی تھی۔ رینی نے آگے بڑھ کر ٹی وی چلا دیا۔

"مشہور بزنس مین روحیل انصاری کی خودکشی کی وجہ سے موت۔ ” شنایہ جو رضوان کی کسی بات پر ہنس رہی تھی اچانک خاموش ہو گئی۔ یہ کوئی چھوٹی خبر نہیں تھی۔

آواز بڑھاؤ رینی۔ ” زرین کا لہجہ سپاٹ تھا۔

روحیل انصاری نے خود کو شوٹ کرنے سے پہلے اپنی ماں اور دادی کی بات چیت کی آڈیو ریکارڈنگ اور ساتھ ہی ایک ویڈیو بھی ملک کے تین بڑے نیوز چینلوں کو بھیجا تھا جس میں اس نے واضح الفاظ میں اپنی موت کی ذمہ دار انصاری اینڈ سنس کی مالکن، اپنی ماں میرا انصاری کو بتایا تھا۔ اس نے یہ تک کہا تھا کہ اگر وہ سوسائڈ نوٹ لکھتا تو اس کی ماں غائب کروا دیتی اسی لئے اس نے یہ ویڈیو میسج چھوڑا ہے۔

مسز انصاری گرفتار ہو چکی تھیں۔ اور ثبوت اتنا پختہ تھا کہ وہ چاہ کر بھی اپنی سزا کم نہیں کرو اسکتی تھیں۔

**

ایک مہینہ بیت گیا۔ مگر یہ مہینہ وہ تھا جس میں شنایہ یا صہیب جلال کے خاندان میں کوئی نہ اچھی اور نہ ہی بری تبدیلی رونما ہوئی۔ اگر اس ایک ماہ میں کچھ اہم ہوا تھا تو وہ تھا انصاری اینڈ سنس کی ساکھ کو پہنچنے والا نقصان، شئیر مارکیٹ میں ہونے والا کروڑوں کا خسارہ۔

ایک مہینہ۔ ..۔ صرف ایک مہینے میں مسز انصاری کی برسوں کی محنت کو ان کے اپنے لاڈلے بیٹے روحیل انصاری نے ملیامیٹ کر دیا۔ جان سے عزیز بیٹے کی حرام موت کا غم، بزنس کی بربادی کا غم اور خود اپنے جیل کی قید و بند کا غم۔ ..۔ یہ سارے غم اتنے بڑے تھے کہ مسز انصاری بہت دنوں تک انہیں برداشت نہیں کر پائیں۔ ایک ماہ اندر ہی وہ اپنا دماغی توازن کھو بیٹھیں اور اب ایک پاگل خانے میں زیر علاج تھیں۔

عیدی، جہیز، دنیا دکھاوا، سماج کے سامنے جوابدہ ہونا، سوسائٹی میں اپنا مقام اور عزت بنانے کے لیے لڑکی والوں سے بے ہودہ ڈیمانڈز کرنا، یہ سب وہ چیزیں تھیں جو انصاری خاندان پر عذاب بن کر نازل ہوئی تھیں۔ ان چیزوں کی وجہ سے کئی زندگیاں برباد ہو گئی، مستقبل میں نارمل زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہیں۔

**

"رینی اس دن تم نے کہا تھا کہ سب سے زیادہ نقصان میرا ہوا ہے۔ دیکھو مجھ سے زیادہ خسارے تو مسز انصاری اور ان کے خاندان کے حصہ میں آئے۔ "رینی شام کے وقت اسے لان میں لے آئی تھی جب اس نے یہ بات کہی۔

"جانتی ہو میں نے ہمیشہ سنا تھا کہ اللہ کسی کا ادھار نہیں رکھتا۔ آج دیکھ بھی لیا۔ اللہ کی صفتوں میں سے ایک صفت ‘عدل’ بھی ہے۔ وہ ہر کسی کے ساتھ انصاف کرتا ہے، میرے ساتھ بھی کیا۔ ” اس کے لہجے میں تکبر نہیں تھا، نہ ہی کوئی کمینی سی خوشی، نہ ہی اطمینان اور نہ ہی مایوسی۔ اگر کچھ خاص تھا اس کے لہجے میں تو وہ تھا ‘افسوس ‘۔ افسوس ان ماؤں کے لیے جو مسز انصاری کی طرح خود اپنے ہاتھوں نہ صرف دوسروں کی بیٹیوں کی زندگی برباد کرتی ہیں، بلکہ خود اپنے بیٹوں اور اپنے خاندان کو بھی زندگی بھر کے لیے اذیت، شرمندگی اور ذلت کے دلدل میں پہنچا دیتی ہیں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے