عزیز جبران انصاری : ایک با کمال نعت گو شاعر ۔۔۔ غلام ابن سلطان

عزیز جبران انصاری کا شمار عالمی شہرت کے حامل مایہ ناز پاکستانی دانشوروں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے حمدیہ و نعتیہ شاعری، اردو تنقید، تحقیق، شاعری، افسانہ نگاری، صحافت، علمِ عروض، مزاحمتی ادب، طنز و مزاح اور اداریہ نویسی میں اپنی صلاحیتوں کا لو ہا منوایا ہے۔ ان کی تیس کے قریب وقیع تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔ ان کی ادارت میں کراچی سے شائع ہونے رجحان ساز ادبی مجلہ ’’ بے لاگ‘‘ قارئین میں بہت مقبول ہے۔ حق گوئی اور بے باکی کو شعار بنانے والے حریت فکر کے اس مجاہد نے ہر صنف ادب میں اپنی کامرانیوں کے جھنڈے گاڑ کر اپنے تخلیقی وجود کا اثبات کیا ہے۔ اس دور کی ظلمت میں جب ہر انسان آلام روزگار کی تمازت میں جھلس رہا ہے اور سورج واقعی سوا نیزے پر آ گیا ہے صرف سایۂ دامانِ ختم المرسلینﷺ ہی دکھی انسانیت کے لیے پناہ گاہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس اعصاب شکن ماحول میں حمدیہ و نعتیہ شاعری دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرنے اور حریمِ کبریا سے آشنا کرنے کا مؤثر ترین وسیلہ ہے۔ عالمی ادبیات میں دنیا کی تمام زبانوں میں نعت سید المرسلینﷺ نے اب ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت اختیار کر لی ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں شمع توحید و رسالت کے پروانوں نے ادب کے دامن میں حمد و نعت کے گل ہائے رنگ رنگ سجا کر اسے جو ہمہ گیر صد رنگی عطا کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ حمدیہ اور نعتیہ شاعری کا ہر نیا شائع ہونے والا مجموعہ قاری کے لیے سکونِ قلب کے بیش بہا خزانوں اور نعت کے دھنک رنگ مضامینِ نو کی صد رنگ کیفیات لیے وجدان و فکر کے نئے آفاق تک رسائی کی راہ دکھاتا ہے۔ اس سے بے یقینی کا خاتمہ ہوتا ہے اور انتہائی کٹھن حالات میں بھی اللہ مستی، خود گزینی اور قادر مطلق پر یقین کامل کی وجہ سے مثل خلیل ؑ آتش نشینی کا جذبہ نموپاتا ہے۔ عزیز جبران انصاری کی حمدیہ و نعتیہ شاعری کا تیسرامجموعہ ’’حسن عقیدت‘‘فکر پرور اور ایمان افروز خیالات کا حسین گلدستہ ہے۔ آج سے سترہ سال قبل (سال ۱۹۹۹ ) جب ان کی حمدیہ و نعتیہ شاعری کا پہلا مجموعہ ’’جہان عقیدت‘‘زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آیا تو علمی و ادبی حلقوں نے اسے بے حد سراہا۔ سال ۲۰۰۶ میں ان کی حمدیہ و نعتیہ شاعری کا دوسرامجموعہ ’’گلستانِ مدحت‘‘ شائع ہوا جسے دنیا بھر کے قارئین ادب کی جانب سے بے حد پزیرائی ملی۔ توحید و رسالت کے شیدائی اور اسلامی تعلیمات سے فیض پانے والے ایک راسخ اعقیدہ مسلمان کی حیثیت سے عزیز جبران انصاری نے حمد اور نعت کے بارے میں اپنا زاویۂ نگاہ اس عالمانہ مقدمے میں واضح کر دیا ہے جو ان کی حمدیہ و نعتیہ شاعری کے پہلے مجموعے میں شامل تھا اور اس کی افادیت و اہمیت کے پیش نظر حمدیہ و نعتیہ شاعری کے تیسرے مجموعے میں بھی اسے شامل کیا گیا ہے ۔ اس کے مطالعے سے قاری حمدیہ و نعتیہ شاعری کی تاریخی اور مذہبی اہمیت کے بارے میں حقیقی شعور و آگہی سے متمتع ہوتا ہے۔ ایک جری، فعال، مستعد اور حریتِ ضمیر سے جینے والے تخلیق کار کی حیثیت سے عزیز جبران انصاری نے لا دینیت، شرک، اوہام پرستی، ہر قسم کے ازم اور مہمل رومان پسندی کے اصنام کو تیشۂ حرف سے مکمل طور پر منہدم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ذوقِ سلیم سے متمتع ابد آشنا اسلوب کے حامل حمد اور نعت لکھنے والے اس شاعر کے ذہن و ذکاوت کی رفعت اور روحانی بالیدگی کا واضح اظہار ان کے منتخب الفاظ اور حسین پیرایۂ اظہار میں ہوتا ہے جو انھوں نے اپنی عقیدت کے اظہار کے لیے منتخب کیا۔ عزیز جبران انصاری نے نعت گوئی کے تقاضے اس طرح واضح کیے ہیں :

قرآن ہے اللہ کے محبوبﷺ کی سیرت

پورے تو کرے کوئی تلاوت کے تقاضے

قرآن میں تفصیل سے موجود ہیں پڑھ لیں

کیا کیا ہیں محمدﷺ سے عقیدت کے تقاضے

عالمی ادبیات میں حمدیہ اور نعتیہ شاعری کی تخلیق کا سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ عزیز جبران انصاری نے اپنے پُر سوز لہجے، خلوص اور دردمندی کی اساس پر استوار، جدت اور تنوع سے مزین اسلوب اور عقیدت سے لبریز ادائیگی سے ان اصناف کی ثروت میں قابل قدر اضافہ کیا ہے۔ عزیز جبران انصاری کے حمدیہ اور نعتیہ اسلوب میں تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ ایک حساس، درد مند اور فطین تخلیق کار کی حیثیت سے عزیز جبران انصاری نے تاریخی شعور کو اپنے فکر و فن کی اساس بنا کر اسلامی تہذیب و تمدن کی متاعِ بے بہا کو آنے والی نسلوں کو منتقل کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ہے۔ اپنی حمدیہ اور نعتیہ شاعری کے نصب العین کی وضاحت کرتے ہوئے عزیز جبران انصاری نے نہایت عجزو انکسار سے کہا ہے :

جاہ و منصب نہ مرتبہ مقصود

میرے رب، حُبِ مصطفیٰؐ مقصود

کچھ نہیں چاہیے مجھے یارب

ہے مدینہ ہی زیست کا مقصود

عزیز جبران انصاری کی بصیرت نے ان پر واضح کر دیا ہے کہ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے دنیا بھر کی اقوام کے جاہ و جلال، عظمت و شوکت اور کبر و نخوت کے مظہر تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلوں کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں لیکن تہذیب و تمدن پر آنچ نہیں آتی۔ آلامِ روزگار کے مسموم ماحول میں یاس و ہراس کے بادلوں میں امیدوں کے سب ستارے ماند پڑ جاتے ہیں لیکن یہ تہذیب و تمدن کے چاند کو گہنا نہیں سکتے۔ عزیز جبران انصاری کا خیال ہے کہ اسلام کی آفاقی تعلیمات اور اسلامی تہذیب و تمدن کی نسل در نسل منتقلی نوشتۂ تقدیر ہے۔ اگر کسی قوم کی تہذیب و تمدن اور ثقافت و معاشرت کو نئی نسل میں منتقل کرنے کے عمل میں مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا جائے تو یہ نہ صرف اس تہذیب و تمدن بل کہ اس قوم کی بقا کے لیے ایک بُرا شگون ہے۔ جب کسی تہذیب و تمدن پر ابلق ایام کے سموں کی گرد پڑ جائے تو سمے کے سم کے ثمر کے باعث سب حقائق خیال و خواب بن جاتے ہیں اور قوموں کے عروج کے قصے تاریخ کے طوماروں میں دب جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں قوموں کی تہذیب و تمدن کی بقا کو اولین اہمیت کا حامل سمجھا جاتا رہا ہے۔ ادبیات میں حمد اور نعت کی تخلیق نے اب اسلامی تہذیب و تمدن کی شناخت کا درجہ حا صل کر لیا ہے۔ اپنی حمدیہ اور نعتیہ شاعری میں عزیز جبران انصاری نے اپنی خداداد تخلیقی صلاحیتوں اور فکری و فنی استعداد کی اس مہارت سے تجسیم کی ہے کہ یہ کلام پڑھتے وقت قاری پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ تخلیق فن کے لمحات میں انھوں نے اپنی طبعی، ذہنی، قلبی اور روحانی استعداد کو صحیح سمت میں گامزن رکھتے ہوئے اپنی حمدیہ اور نعتیہ شاعری کو عقیدت و احترام کی مانوس اور محبوب کیفیات کا ایسا جامع مخزن بنا دیا ہے جو قلب و نظر کو مسخر کرنے پر قادر ہے۔ عزیز جبران انصاری کی حمدیہ اور نعتیہ شاعری میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہر قسم کی عصبیت کو بیخ و بن سے اکھاڑ کر ملی وحدت اور قومی سر بلندی کو یقینی بنایا جائے۔ احتسابِ ذات کا جو کڑا معیار عزیز جبران انصاری نے پیشِ نظر رکھا ہے وہ قارئین پر فکر و خیال کے نئے در وا کرتا چلا جاتا۔ حضور ختم المرسلینﷺ کی ذاتِ اقدس کے ساتھ قلبی وابستگی عزیز جبران کی شاعری کا اہم ترین وصف ہے۔ وہ اس بات پر ہر لحاظ سے مطمئن و مسرور ہیں کہ وہ جلیل القدر صحابی اور مدینہ کے ممتاز نعت گو شاعر حضرت حسان بن ثابتؓ کی صف میں شامل ہو گئے ہیں۔ انھوں نے اسلامی تہذیب و تمدن کی درخشاں کہکشاں کی تابانیوں سے اپنی حمد یہ و نعتیہ شاعری کو مزین کیا ہے۔ ان کی حمدیہ و نعتیہ شاعری میں جہاں عظمت رفتہ کا پر سوز حوالہ ظلمتوں میں اُجالا اور اسلام کا بول بالا کرنے کا وسیلہ ہے وہاں اس کے وسیلے سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام بھی ہوا ہے۔ وہ الطاف حسین حالی اور مولانا ظفر علی خان کی طرح ملت اسلامیہ کو ان کی عظمت رفتہ کا احوال سناتے ہوئے اصلاحی مقاصد کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھتے ہیں۔ ان کی حمدیہ اور نعتیہ شاعری میں جہاں عظمت رفتہ کا احوال قلب و نظر کو وجدانی کیفیت سے آشنا کرتا ہے وہاں یہ اپنے من کی غواصی کر کے احتسابِ ذات پر بھی مائل کرتا ہے۔ ان کی حمدیہ و نعتیہ شاعری میں حرمِ پاک اور گنبدِ خضریٰ سے وابستہ مقامات، واقعات، اور اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار کے حالات کو محض جامد و ساکت نشانات سمجھنا صحیح نہیں بل کہ ان کے دامن میں تاریخ اسلام کے ابد آشنا اصول، بلند معائر، ارفع افکار، اور ابد آشنا تعلیمات کے گنج گراں مایہ نہاں ہیں۔ اس حمدیہ و نعتیہ شاعری میں ہمارا واسطہ جن متعدد اہم علامات سے پڑتا ہے انھیں ایک نفسیاتی کُل کے روپ میں دیکھنا دانش مندی کا تقاضا ہے۔ ان علامات کے معجز نما اثر سے لا شعور کی حرکت و حرارت اور تاب و تواں کو حقیقی روپ میں متشکل کرنے میں بے پناہ مدد ملتی ہے۔ ان نشانات اور علامات کی اثر آفرینی قلب و نظر کو مسخر کر لیتی ہے۔ اسلام کی عظمتِ رفتہ، جاہ و جلال اور قوت و شوکت کا تعلق بھی اسی سے ہے۔ یہ نشانات عہدِ رسالت کے واقعات، ملت اسلامیہ کے اکابر، ہمارے اسلاف اور اہم تاریخی حقائق کے امین ہیں۔ عزیز جبران انصاری نے ان کا ذکر اس مقصد سے کیا ہے کہ یہ آنے والی نسلوں کے عقیدتوں کے سفر میں چراغِ راہ ثابت ہوں اور منزلوں کی جستجو میں آسانیاں پیدا ہوں۔ چند مثالیں قابل غور ہیں :

وقتِ آخر روضۂ اطہر کی چوکھٹ ہو نصیب

ذہن و دِل سے اُٹھ رہی ہے یہ صدا مقبولیت

جُز مدینہ دارِ فانی میں نہ ہو کوئی مقام

اور بعد از مرگ جنت انتہا مقبولیت

ہاں خدیجہؓ، اُمِ ایمنؓ، فاطمہؓ

دیکھ لیجے شانِ نسواں کُو بہ کُو

شہرِ طیبہ کا نہ عالم پُوچھیے

خار و خس رشکِ گُلستاں کُو بہ کُو

ہے مدینہ مرکزِ امن و اماں

پھِر رہا ہے کیوں پریشاں کُو بہ کُو

عزیز جبران انصاری کی نعتیہ شاعری کو جدید تنقید کے حوالے سے دیکھنا ضروری ہے۔ پروفیسر کلیم الدین احمد نے جب اردو تنقید کی تنگیِ داماں کی شکایات کرتے ہوئے اس کی بے بضاعتی پر گرفت کی تھی تو یہ گرفت بے جا نہ تھی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اردو میں با لعموم تاثراتی تنقید ہی پر انحصار کیا جاتا ہے۔ اس مضمون میں میری یہ کوشش ہو گی کہ عزیز جبران کی نعت گوئی پر جدید لسانیات اور اس سے متعلقہ امور کے حوالے سے بھی بات کی جا سکے۔ عزیز جبران انصاری کی نعت گوئی کا سب سے بڑا اعزازو امتیاز یہ ہے کہ یہ جدید لسانیات کے مسلمہ معائر پر ہر اعتبار سے پوری اترتی ہے۔ یورپ میں رومن جیکب سن کے اختراع کیے ہوئے جس لسانی ماڈل کے ہر سُو چرچے رہے اس کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ ماڈل اظہار و ابلاغ سے منسلک زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ اپنی مو شگافیوں سے رومن جیکب سن نے نہ صرف اپنے عہد کے لسانی نظام اور ابلاغیات کے تصورات پر گہرے اثرات مرتب کیے بل کہ آنے والے زمانے میں نئے افکار کی ترویج و اشاعت کے لیے ٹھوس لائحہ عمل بھی پیش کر دیا۔ رومن جیکب سن کے تصورات کے پسِ پردہ اُس کی ذہنی اُپج، جدت پسند طبیعت اور سماجی و معاشرتی زندگی سے وابستہ عوامل کی آہٹ صاف سنائی دیتی ہے۔ اس نے یہ واضح کیا کہ اظہار و ابلاغ کے سلسلے میں ستاروں پر کمند ڈالنے کی غرض سے درج ذیل چھے عناصر کی موجودگی ناگزیر ہے :

1۔ سیاق و سباق ( Context)،

2۔ خطاب کرنے والا(Addresser/Sender)،

3۔ خطاب سننے والا(Addressee/Receiver)،

4۔ رابطہ(Contact)

5۔ کوڈ(Code)،

6۔ پیغام (Message)

رومن جیکب سن نے تکلم کے جن سلسلوں کا ذکر کیا ہے، کسی بھی زبان میں ان کو درج ذیل سکیم کے تحت رو بہ عمل لاتے ہوئے اظہار و ابلاغ کے لامحدود امکانات تک رسائی ممکن ہے۔ اس نے قارئین کو متوجہ کیا ہے کہ خطاب کرنے والا اپنا پیغام خطاب سننے والے کی طرف ارسال کرتا ہے۔ اس پیغام کو فعال اور قابل فہم بنانا بے حد ضروری ہے، اس مقصد کے لیے سیاق و سباق کی احتیاج ہے۔ خطاب کرنے والے اور خطاب سننے والے کے درمیان پیغام کو قابل فہم بنانے میں سیاق و سباق اور خاص نوعیت کا کوڈ بہت اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ اس سارے عمل میں خفیہ کوڈ لگانا اور اس خفیہ کوڈ کو کھولنا ہی گنجینۂ معانی کا طلسم ہے۔ یہ خفیہ کوڈ قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل کا منظر دکھا سکتا ہے۔ اس خفیہ کوڈ کا خطاب کرنے والے اور خطاب سننے والے سے جو گہرا تعلق ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔

مندرجہ بالا لسانی ماڈل کے مطابق عزیز جبران انصاری کی نعتیہ شاعری میں سیاق و سباق تاریخ اسلام کا عہدِ زریں ہے۔ اس کے بعد خطاب کرنے والا ایک سچا عاشق رسولﷺ ہے جس کے ریشے ریشے میں عشق رسولﷺ سما گیا ہے۔ خطاب کرنے ولا کیا پیغام دینا چاہتا ہے یہ اس لسانی ماڈل کا اگلا مرحلہ ہے۔ پیغام بالکل واضح ہے کہ شاعر نے عشق رسولﷺ کی قوت سے ہر پست کو بالا کرنے اور گلشن ہستی کو اسمِ محمدﷺ سے بقعۂ نور کرنے کی تمنا کی ہے۔ عزیز جبران انصاری کی لکھی ہوئی ہر حمد اور نعت میں خلوص و دردمندی پر مبنی اس کا ایک واضح پیغام ہے۔ اگلے مرحلے پر یہ دیکھنا ہے کہ عزیز جبران انصاری نے کن لوگوں سے مخاطب ہو کر یہ حمدیہ اور نعتیہ کلام تخلیق کیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ افلاک کے اس خیمے کے نیچے موجود پُوری انسانیت سے مخاطب ہیں۔ جہاں تک رابطہ کا تعلق ہے تو یہ زبان و بیان ہی کے وسیلے سے ممکن ہے۔ اب اس لسانی ماڈل کا اہم ترین حصہ یعنی کوڈ ہے جس کے بغیر حقائق کی گرہ کشائی ممکن ہی نہیں۔ یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ عزیز جبران انصاری کی حمدیہ اور نعتیہ شاعری کا کوڈ جذبۂ عشق رسولﷺ ہے۔ عشق رسولﷺ کے معجز نما اثر سے اگر قاری کے قلب میں توحید پر کامل ایمان و ایقان، سیرتِ نبوی کا سوز، وجدان میں پیغام رسالت کا احساس اور رگ و پے میں روحِ بلالؓ پیدا ہو جائے تو حمد اور نعت کے گنجینۂ گوہر تک رسائی ممکن ہے اور معرفت کے سب در مر حلہ وار کھلتے چلے جاتے ہیں۔

لسانی ماڈل کے مطابق یہ تاثر قوی ہو جاتا ہے کہ عزیز جبران کی حمدیہ و نعتیہ شاعری میں قلبی جذبات اور مؤثر احساسات سے لبریز اور حسین الفاظ سے مزین دل کش پیرایۂ اظہار حبس کے ماحول میں لالۂ خونیں کفن کے دِل و جگر میں خنکی کا فرحت بخش احساس پیدا کرتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ تلاطم خیز دریاؤں کی طغیانی، سمندروں کی لہروں کی بپھرتی ہوئی روانی اور مہیب موجوں کا گرداب بھی جذبوں کی صداقت کے امین الفاظ اور حریت فکر کے مظہر پیرایۂ اظہار کی سحر آفرینی کے سیلِ رواں کو دیکھ کر اضطراب میں بدل جاتا ہے، عزیز جبران انصاری نے اپنی نعتیہ شاعری میں قارئین کو اس جانب متوجہ کیا کہ وہ یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ یہ توحید پر کامل ایقان اور عشق رسولﷺ کی ابد آشنا قوت و برکت ہے جو دلوں کو مرکز مہر و وفا کرنے پر قادر ہے۔ اس کے فیضان سے آج بھی آگ اندازِ گلستاں پیدا کر سکتی ہے۔

طلسمِ لفظ و معنی میں اُلجھتا ڈھونڈتا کیا ہے

اگر اُلفت نہیں تو مدحتِ خیرالوریٰ کیا ہے

محمد ﷺ رحمت اللعالمیں ہیں فخرِ آدم ؑ ہیں

گواہی دے گا تیرا دِل بھی مُجھ سے پُوچھتا کیا ہے

یہ کیا حکمت تھی مکہ اور طائف میں اُٹھائے غم

وگرنہ قبضۂ قدرت سے کیا باہر تھا کیا کہیے

ہمارے واسطے درسِ عمل ہے اسوۂ احمد ﷺ

ہر اِک مشکل میں اُن کو یاد رکھیے مر حبا کہیے

یہ سوال توجہ طلب ہے کہ نعت گوئی میں عزیز جبران انصاری کے منفرد شعری عمل کا بنیادی لسانی معیار کیا ہے ؟اس سلسلے میں یہ امر بالخصوص پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ کسی شعری تخلیق میں وہ کون سا نا گزیر جبلی خد و خال ہے جسے رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے سبھی استعاروں کا مخزن قرار دیا جا سکتا ہے اور جو زبان کو ہر لحظہ نیا طور، نئی برق تجلی کی دل کش کیفیات سے آشنا کرنے کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے۔ تخلیق ادب میں ہم تن مصروف ادیب لفظوں کے مکانوں میں کیسے زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس عقدہ کو وا کرنے کی خاطر ادب کے سنجیدہ قارئین کو گفتگو اور تکلم کے سلسلے کے دو بنیادی طریقوں یعنی انتخاب اور اتصال کو ذہن میں رکھنا ہو گا۔ رومن جیکب سن نے زبان کی حوالہ جاتی کیفیت کو درج ذیل ماڈل سے واضح کیا ہے۔

حوالہ جاتی(Referential)

ارادی (Conative) شاعرانہ (Poetic) جذباتی (Emotive)

مراسم والی(Phatic)

حد لسانیات(Metalingual)

عزیز جبران انصاری کی حمدیہ اور نعتیہ شاعری کو لسانی عمل کے ماڈل میں جانچنے کے لیے ضروری ہے کہ نعت گوئی کی حوالہ جاتی حیثیت پر غور کیا جائے۔ عزیز جبران انصاری نے جس خلوص اور دردمندی سے اسلامی تہذیب و تمدن کی ترویج و اشاعت کی ضرورت و اہمیت کا اجاگر کرنے کی سعی کی ہے، اس کی بنا پر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اسلامی تہذیب و تمدن ہی ان کی نعتیہ شاعری کا معتبر و مؤقر حوالہ ہے۔ اس کے بعد اس گلدستۂ نعت میں جلو گر روحانی جذبات اور قلبی احساسات کا مقام آتا ہے۔ شاعرانہ سطح پر اس حمدیہ اور نعتیہ شاعری میں قلب اور روح کیا تھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آفرینی کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ اپنے ارادی افعال کی تنظیم نو کرتے ہوئے عزیز جبران نے نعتیہ شاعری کو مقاصد کی رفعت کے لحاظ سے ہم دوش ثریا کرنے کا مصمم ارادہ کر ر کھا ہے۔ ان کی دلی تمنا ہے کہ اسلام نے معاشرتی زندگی میں انسانی، اخلاقی، تہذیبی اور ثقافتی اقدار کے تحفظ اور بقا کی خاطر جو ارفع معائر پیش کیے ہیں ان پر عمل کیا جائے تا کہ ایک اسلامی فلاحی مملکت کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکے۔ دنیا کی جو اقوام اپنے نظام اقدار کے تحفظ میں ناکام رہتی ہیں وہ اپنی زندگی کو نحوست، بے برکتی اور بے توفیقی کی بھینٹ چڑھا دیتی ہیں اور انسانیت کے مقام سے گر جاتی ہیں۔ ملت کے ساتھ پیہم رابطہ استوار رکھنا عزیز جبران انصاری کی حمدیہ و نعتیہ شاعری کا اہم وصف ہے۔ اپنی حمدیہ و نعتیہ شاعری میں عزیز جبران انصاری نے عربی، فارسی، ہندی، پنجابی، ہندکو، سرائیکی، سندھی، کشمیری اور انگریزی کی نعتیہ شاعری کی روایات کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ عزیز جبران انصاری کی حمدیہ اور نعتیہ شاعری سے چند اشعار پیش ہیں جن کے مطالعہ سے اس لسانی ماڈل کے ذریعے عقیدت سے لبریز اس شاعری کی تفہیم میں مدد مل سکتی ہے :

بے چون و چرا حکمِ محمد ﷺ پہ عمل کر

اس وقت ہی ہو گا تِرا ایمان مکمل

ہر چیز سے ہر رشتے سے بڑھ کر ہوں محمد ﷺ

تب ہو گا مسلماں تِرا ایمان مکمل

اللہ کے محبوبؐ کی رفعت کا احاطہ

ممکن ہے کہاں آپؐ کی عظمت کا احاطہ

احمدؐ بھی، محمدؐ بھی، وہی حامدؐ و محمود

ہر رنگ میں ہے اُن کی مؤدّت کا احاطہ

وہ غزوۂ خندق ہو، احد ہو کہ ہو خیبر

ہر کارگہِ رزم، صداقت کا احاطہ

توحید، رسالت، اسلامی تعلیمات، وطن، اہلِ وطن اور انسانیت سے والہانہ محبت اور قلبی وابستگی عزیز جبران انصاری کے حمدیہ و نعتیہ اسلوب کی پہچان ہے۔ اسلامی تہذیب و تمدن اور ثقافت و معاشرت سے وابستہ درخشاں اقدار و روایات کا ارتقا ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا ہے۔ ایک راسخ العقیدہ مسلمان اور محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے انھوں نے اپنی حمدیہ و نعتیہ شاعری کو اصلاحی اور افادی مقاصد کے حصول کا وسیلہ بنایا ہے۔ ان کی نعتیہ شاعری مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے وسعتِ افلاک کو چھُو لیتی ہے۔ ان کی دلی تمنا ہے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے نظام کائنات اور برق رفتار زندگی کی جولاں گاہ میں اسلامی تہذیب و تمدن عصری تقاضوں اور سائنس و ٹیکنالوجی کے نئے دور کے چیلنج کا پُوری استقامت سے جواب دیا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ لا دینیت کی ہوائے جور و ستم میں اسلامی تعلیمات اور توحید و رسالت کی شمع وفا فروزاں رکھی جائے۔ مغرب میں مادی دور کی ظلمتوں نے افراد کی روحانی، اخلاقی اور قلبی دنیا کا پورا نظام تہس نہس کر دیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دیارِ مغرب میں ہر جگہ آسیب کا سایہ ہے جہاں گونگے، بہرے، جامد و ساکت مجسمے اور چلتے پھِرتے ہوئے مُردے ہر طرف گھوم رہے ہیں۔ ہوس کے اس اذیت ناک اور مسموم ماحول میں الفاظ کی معنویت، زندگی کی حقیقت، مسلمہ معائر کی عظمت، درخشاں روایات کی سطوت، اطمینان قلب کی دولت، ایثار و خلوص کی برکت، باہمی تعاون و اشتراک عمل کی طاقت، ملی تشخص کی ثروت اور حبِ وطن کی راحت عنقا ہونے لگی ہے۔ عزیز جبران انصاری کا خیال ہے کہ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ زیرِ تیغ بھی حرفِ صداقت لکھ کر حق کی شہادت کو یقینی بنایا جائے۔ ان کی حمدیہ اور نعتیہ شاعری میں اس جانب متوجہ کیا گیا ہے کہ تخلیق کار کو اپنے وجود کا اثبات کرنے کی خاطر یاس و ہراس کے اعصاب شکن ماحول میں بھی حوصلے اور استقامت سے کام لینا چاہیے اور اس کی زبان کو سدا دل کی رفاقت کا حق ادا کرنا چاہیے۔ اس طریق کار سے انحراف کرنے والی اقوام و ملل کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اور ان خذف ریزوں کا وجود لوح جہاں سے حرفِ غلط کے مانند حذف کر دیا جاتا ہے۔ اس حقیقت کو ازبر کر لینا چاہیے کہ اپنی عاقبت نا اندیشی کے باعث تاریخ کے اس مسلسل عمل کو نظر انداز کرنے والی اقوام کی محض تاریخ ہی نہیں بل کہ ان کا جغرافیہ بھی زیر و زبر ہو جاتا ہے اور وہ عبرت کی مثال بن جاتی ہیں۔ عزیز جبران انصاری نے اپنی حمدیہ اور نعتیہ شاعری میں تاریخ کے مسلسل عمل اور تاریخی شعور کے بارے میں مثبت شعور و آگہی کو پروان چڑھانے کی جو مستحسن مساعی کی ہیں ان کی افادیت مسلمہ ہے۔

شِعبِ بو طالب ہو، طائف ہو، کہ بدر و احد یا فتحِ مبیں

آپ کے حسنِ عمل سے ریگ زاروں نے بھی ہیں دریا چُنے

اِک طرف مکہ مدینہ، اِک طرف امریکا اور یورپ تمام

راستے سارے کھُلے ہیں پُوچھ دِل سے کون سا رستہ چُنے

پندرہ سو سال پہلے کے مناظر آج پھر ہیں سامنے

عقل و دانش کا تقاضہ اسوۂ شاہِ اُممؐ دنیا چُنے

عزیز جبران انصاری کو لسانیات اور اظہار و ابلاغ پر جو عالمانہ دسترس حاصل ہے اس کا واضح اظہار ان کے اسلوب میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اپنی تخلیقی فعالیت اور فکری بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ ندرت اور تنوع کی شان لیے ہوئے اسلوب اور ہئیت کے نئے فنی تجربوں کے اعجاز سے اپنی حمدیہ و نعتیہ شاعری کو حسن و رعنائی اور مضمون آفرینی کی شانِ دل ربائی سے اس طرح مزین کرتے ہیں کہ قاری چشمِ تصور سے وہ سب موسم دیکھ لیتا ہے جو تخلیق کار کے قلب اور روح کی عقیدت سے لبریز وادیوں میں اُمڈ آئے ہیں۔ حسن حقیقت متعدد ازلی اور ابدی صداقتوں کا امین ہے جب کہ مجاز کی دنیا سراب کے جان لیوا عذاب اور فریبِ نظر کے سوا کچھ نہیں۔ عزیز جبران انصاری کی حمدیہ و نعتیہ شاعری میں جلوہ گر توحید و رسالت کی ایمان افروز اور حسین ضو فشانیاں قاری کو عقیدت اور سعادت کے ان سدا بہار گلستانوں میں پہنچا دیتی ہیں جہاں قلبی اور روحانی تنہائیوں کا مداوا کرنے کے فراواں مواقع دستیاب ہیں۔ آلامِ روزگار کے مہیب پاٹوں میں کچلی جانے والی بے بس و لاچار مظلوم انسانیت کی جگر فگار کراہیں، فلک شگاف آہیں، دعائے نیم شب اور فغانِ صبح گاہی رائے گاں نہیں جاتی۔ جہاں دستِ کرم کی کشادگی سنگ ریزوں کو جنبشِ لب عطا کر سکتی ہے وہاں بے کسوں اور بے نواؤں کی دست گیری یقینی ہے۔ رحمت اللعالمینﷺ کے وسیلے سے خالقِ کائنات کے کرم کا بے کراں سمندر سب تشنہ لبوں کو سیراب کر دیتا ہے۔ تخلیق فن کے لمحوں میں نئے فنی تجربات کی مشعل تھام کر، افکارِ تازہ کا علم بلند کر کے نئے امکانات کے جہانِ تازہ کی جانب سر گرم سفر رہنا عزیز جبران انصاری کا شیوۂ گفتار ہے۔ تقلید کی مہلک روش اپنا نے والے ادیبوں نے اپنی تخلیقات کو بیزار کُن یکسانیت، کلیشے کی نحوست اور پامال راہوں کی کثافت کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ عزیز جبران انصاری کی حمدیہ و نعتیہ شاعری گلشنِ ادب میں تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند قریۂ جان کو معطر کرنے کا وسیلہ ثابت ہوئی ہے۔ عزیز جبران انصاری کی حمدیہ و نعتیہ شاعری میں اظہار و ابلاغ اور اسلوب و ہئیت کے یہ نئے تجربات ستارۂ سحر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے نئے مرکبات اور صنائع بدائع کے بر محل استعمال سے زبان کو ایک نیا آہنگ عطا کیا ہے۔ تشبیہات، تلمیحات، استعارات، حسن تعلیل، ظرفِ مکاں اور ظرفِ زماں غرض ہر جا جہانِ دیگر کی کیفیات دیکھ کر قاری دنگ رہ جاتا ہے۔

مکہ ہو یا کہ طائف و بدر و احد، حنین

ہر مصلحت سے آپؐ کا رستہ جُدا رہا

یہ چاند یہ سورج یہ ستارے یہ شب و روز (صنعت مراعاۃ النظیر، مرکب عطفی)

جُز اُس کے سوا کس کی ہے پہچان مکمل

اول وہی آخر وہی باطن وہی ظاہر (صنعت تضاد)

ہر وصف میں کامل وہی رحمٰن مکمل

عزیز جبران انصاری کی نعتیہ شاعری کا عمیق مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ انھیں ملت اسلامیہ کے درخشاں ماضی سے ہمیشہ گہری دلچسپی رہی ہے۔ اپنی زندگی کی مسافت میں انھوں نے   یہی اثاثہ زاد راہ بنایا۔ آغاز اسلام سے لے کر موجودہ زمانے تک کے حالات، واقعات اور زندگی کے جملہ نشیب و فراز پر ان کی گہری نظر ہے۔ ان کے کلام کے مطالعہ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جدید دور کے مسائل اور مصائب کو دیکھ کر وہ بہت دل گرفتہ ہیں۔ اس حقیقت سے ان کار نہیں کیا جا سکتا معاشی اور صنعتی زبوں حالی کا مداوا تو ممکن ہے لیکن روحانی اور اخلاقی انہدام قوموں کی تباہی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوتا ہے۔ عزیز جبران انصاری نے اپنی حمدیہ اور نعتیہ شاعری میں ملی تشخص کی بیداری پر اپنی توجہ مرکوز کر دی ہے۔ ان کے جام زندگی کو دو آتشہ بنانے میں ماضی کی تاریخ، بدلتے ہوئے حالات، گردش پیہم کے اثرات، زندگی کی حرکت و حرارت اور سب سے بڑھ کر توحید و رسالت نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کی زندگی کے دکھ، سکھ اور رنج و راحت کے سوتے اسلامی تاریخ سے پھوٹتے ہیں۔ اسلامی تہذیب و تمدن کے انمٹ نقوش ان کی لوح دل پر ثبت ہیں۔ وہ ان تمام نقوش کو نہایت ادب و احترام سے نعت کے قالب میں ڈھال دیتے ہیں۔ وہ چشم تصور سے عظمت اسلام کے صد یوں پرانے زمانے کو دیکھ لیتے ہیں اور روحانی طور پر اسی ماحول میں پہنچ جاتے ہیں۔ اسلام کی عظمت رفتہ کی یادوں کو دل میں سموئے وہ اپنے قارئین کو تمام مناظر دکھاتے چلے جاتے ہیں۔ اپنی خداداد صلاحیتوں کی تجسیم کر کے وہ عہد رفتہ سے فیض یاب ہونے کے بعد زمانہ حال میں پہنچ جاتے ہیں اور حال کے قاری کو اپنے صد یوں کے فکری سفر کا احوال سنا کر آئینہ ایام میں آنے والے دور کی دھند لی سی تصویر دکھا کر حیرت زدہ کر دیتے ہیں۔ نعتیہ شاعری کا یہ گلدستہ عظمت اسلام کی عطر بیزیوں سے قلب و جاں کو معطر کر دیتا ہے۔ اس میں عقیدت، مودت، جہد مسلسل، ولولۂ تازہ اور احتساب ذات کی جو کیفیت ہے وہ فکر و  نظر کو مہمیز کرنے کا موثر وسیلہ ہے۔

عزیز جبران انصاری نے اپنی نعتیہ شاعری میں تاریخ اسلام کے قد یم ادوار کی عظمت رفتہ، وسعت اور کامرانی، حال کی تنگ دامنی اور مستقبل کے اندیشہ ہائے دور دراز کی جو لفظی مرقع نگاری کی ہے وہ ایک منفرد تجربے کی صورت میں سا منے آتا ہے، یہی انداز ان کے اسلوب کو انفرادیت عطا کرتا ہے۔ عہد رسا لت سے لے کر زمانہ حال تک کی اسلامی تاریخ کا وسیع مطالعہ ان نعتوں میں صاف دکھا ئی دیتا ہے۔ تاریخ اسلام سے دلچسپی اور اس کے نشیب و فراز کا بیان عزیز جبران انصاری کی جبلت میں شا مل ہے۔ وہ تاریخ اسلام کے بیان سے ذہنی سکون اور قلبی وجدان حا صل کرنے کی خاطر صفہ کی اس عظیم درس گاہ پر اپنی نگاہیں مر کوز کرنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں چٹائی پر بیٹھے عظیم معلمؐ اور محسن انسانیتؐ کو اہلِ نظر عرش نشیں سمجھتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ مو جو دہ دور کی سفاک فکری ظلمتوں میں جب ہر قلب پریشاں یاس و  ہراس کے ریگستانوں میں سر گرداں ہے، خوف و اضطراب سے نڈھال جاں بہ لب انسانیت اطمینان کا جام تلاش کرنے کے لیے در بہ در اور خاک بہ سر ہے اور ہوا و ہوس کے سرابوں میں بھٹک رہی ہے۔ انسانیت کو غارِ حرا سے پھوٹنے والے اس سر چشمۂ آب بقا سے فیض یاب ہونے کی اشد ضرورت ہے جو پوری دنیا کے انسانوں کے لیے پیامِ نو  بہار کی نوید لایا۔ نبضِ ہستی کی حرکت و حرارت اور افلاک پر ستاروں کی تابانی اور نظام کائنات کی روانی رحمت اللعالمینﷺ کی مر ہون منت ہے۔ عزیز جبران انصاری نے بہیمانہ استحصالی نظام سے نجات حاصل کر کے اسلام کے نظام عدل کو اپنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

عزیز جبران انصاری نے ان تمام عوامل کو پیش نظر رکھا ہے جو اس خطے میں گز شتہ سات عشروں کے دوران فکری اور ذہنی انتشار کا باعث بنے۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہوس نے نوع انساں کو اذیت، عقوبت اور فکری انتشار کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ مغرب کی بھونڈی کورانہ نقالی نے اہل وطن کو خود اپنے وطن میں اجنبی بنا دیا ہے۔ سب سے بڑھ کر المیہ یہ ہوا کہ ما دیت کی بے ہنگم یلغار نے روحانیت کو نا قابل تلا فی نقصان پہنچایا ہے۔ اس کا لرزہ خیز اور اعصاب شکن نتیجہ یہ نکلا ہے کہ افراد اپنے مسکنوں میں بھی قلبی، ذہنی اور روحانی اعتبار سے اپنے تئیں تنہا اور بے یار و  مددگار محسوس کرنے لگے۔ ان حالات میں توحید و رسالت سے والہانہ وا بستگی ہی نجات دیدہ و دل کا وسیلہ بن کر جان لیوا تنہا ئیوں کے کرب سے نجات دلا سکتی ہے۔ عزیز جبران انصاری کی حمدیہ اور نعتیہ شاعری میں اسی نفسیاتی کیفیت کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ دنیا کے پس ماندہ ممالک میں بے بصری اور کور مغزی کی مظہر مغرب کی اندھا دھند نقالی نے اب بھیڑ چال کی صورت اختیار کر لی ہے۔ اس المیے کے نتیجے میں دیارِ مغرب کے باشندوں کی شقاوت آمیز نا انصافیوں اور اہانت آمیز حقارتوں کے باعث پس ماندہ ممالک کے قسمت سے محروم باشندوں میں اخلاقیات کا معیار تحت الثریٰ تک جا پہنچا ہے۔ مغرب کی ریشہ دوانیوں نے اپنی مکروہ سکیم کے تحت جو سقیم پستی غریب اقوام بالخصوص مسلمان ممالک پر مسلط کر دی ہے وہ تاریخ کا ایک خونچکاں باب ہے۔ ابتلا، آزمائش اور وقت دعا کے اس عالم میں ہمیں حضور ختم المرسلین ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے صبر و استقامت سے کام لیتے ہوئے کٹھن حالات کا خندہ پیشانی سے سامنا کرنا چاہیے۔ ہمیں ایام کا مرکب بننے کے بجائے ایام کا راکب بننا چاہیے۔ ان صبر آزما حالات میں صرف رحمت عالمﷺ کی ہستی ہی جو ملت کی کشتی کو گرداب سے نکال سکتی ہے۔ ادب اور فنون لطیفہ کو مستحکم بنیادوں پر منظم انداز میں ارتقائی مدارج طے کرتے دیکھنا عزیز جبران انصاری کا دیرینہ خواب ہے۔ وہ زندگی جمالیاتی اور اخلاقی قدروں کے منابع تاریخ اسلام کے عہدِ زریں میں تلاش کرنے پر زور دیتے ہیں۔ مغرب نے ادب اور فنون لطیفہ کے شعبوں میں ڈاڈا ازم، رئیلزم، سر رئیلزم، کیوب ازم اور مارکسزم جیسے کئی ازم اپنا رکھے ہیں۔ عزیز جبران انصاری نے اس قسم کے سب ازم لائق استرداد قرار دیتے ہوئے اسلام اور رحمت اللعالمینﷺ سے قلبی تعلق استوار کرنے پر زور دیا ہے۔ ان کے اسلوب میں اس قسم کے ازم پر تنقید کی نشتر زنی سے وہ ذہنوں پر پڑی تشکیک کی دبیز تہہ ہٹا کر یقین کے دُر نایاب کی جستجو کے متمنی دکھائی دیتے ہیں۔

ہر اِک دستور، ہر اِک اِزم، ہر قانون باطل ہے

نظامِ مصطفیٰؐ کو راستی کا راستہ کہیے

ہر اِزم آزمایا لیکن نہ کچھ بھی پایا

دھنستے ہی جا رہے ہیں دنیا ہے ایک دلدل

ہے امن کی ضمانت ہاں آخری وہ خطبہ

دستور ہے مکمل منشور ہے مکمل

آپؐ نے خاک کو کیا اکسیر

ناز کرتے ہیں جتنے تھے دل گیر

آپؐ کی زندگی کا ہر لمحہ

ظلمتوں میں عمل کی ہے تنویر

کامیابی کی ہے یہی صورت

اسوۂ شاہؐ کو بنا جاگیر

موجودہ دور میں موقع پرستی میں حد سے گزر جانے والوں نے انسانیت کو جو چرکے لگائے ہیں عزیز جبران انصاری اس پر بہت دل گرفتہ ہیں۔ ان کا عجز حوصلہ انھیں حالات کی حقیقی انداز میں لفظی مرقع نگاری کرنے کی صلاحیت سے متمتع کرتا ہے۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ مادی دور نے انسانیت کو داخلی تضادات، مناقشات اور فکری انتشار کے ایک غیر مختتم سلسلے کا اسیر بنا دیا ہے۔ ان غیر یقینی حالات میں سکون قلب نا پید ہے۔ جس طرف نظر دوڑائیں تضادات ہی تضادات دکھائی دیتے ہیں دھوپ :چھاؤں، ہستی :نیستی، امن:جنگ،  وجود:عدم، اور زندگی:موت کے تضادات میں گھری دُکھی انسانیت کسی ایسے نا خدا کی تلاش میں ہے جو زندگی کی شبِ تاریک کو سحر کر سکے۔ نظام کائنات میں جس سرعت کے ساتھ تغیر و تبدل کا سلسلہ جاری ہے اسے دیکھ کر ہر شخص محو حیرت ہے کہ اس عالم آب و گِل میں جو سیکڑوں دورِ فلک آنے والے ہیں وہ کیا رنگ دکھائیں گے۔ سب کچھ جاننے کے بعد اہلِ جہاں اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سیر جہاں کا حاصل حیرت اور حسرت کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔ خالق کائنات کی عظمت کے جاوداں نقوش کے علاوہ باقی سب کچھ فریب سود و زیاں ہے۔ عزیز جبران انصاری نے اس حقیقت کی جانب اشارہ کیا ہے کہ ظلمت شب میں صرف چراغ مصطفویؐ ہی نشان منزل ثابت ہو سکتا ہے جو ازل سے لے کر لمحۂ موجود تک شرار بو لہبی سے ستیزہ کار رہا ہے۔ اس کی تابانیاں ابد تک جاری رہیں گی اور اسی کے فیض سے دنیا بقعۂ نور ہو جائے گی۔ عزیز جبران انصاری نے تاریخ اسلام کی ورق گردانی کرتے ہوئے لکھا ہے :

مدحت سرکار، فکر و فن سے بڑھ کر ہے عقیدت بے کراں

دیکھ قلب و ذہن پر کیسے بر ستی ہے محبت بے کراں

آپؐ ہی ہیں وجہ تخلیق دو عالم، آپ فخر انبیا

آپؐ کے دم سے ملی ہے ابن آدمؑ کو یہ عزت بے کراں

ہر ستم ہر جبر سہہ کر آپؐ نے دنیا کو یہ بتلا دیا

کیسے ہوتی ہے یہاں انساں کی عظمت اور عزت بے کراں

عزیز جبران انصاری کا خیال ہے کہ زندگی میں مقصدیت اور معنویت کی نمو کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہر شخص حریت ضمیر سے جینے کی روش اپنائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اسے مذہب کی طرف رجوع کرنا پڑے گا جہاں جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریت فکر کا علم بلند رکھنے کی راہ دکھائی گئی ہے۔ عزیز جبران انصاری کا شمار پاکستان کے ممتاز ماہرین علم بشریات میں ہوتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ معاشرتی زندگی میں افراد کا کردار ہی ان کے روّیے اور اعمال کو نئی جہت سے آشنا کرتا ہے۔ مذہب کے معجز نما روحانی اثرات سے عملی زندگی میں افراد کے اعمال ان کے جبلی کردار کے آئینہ دار بن جاتے ہیں۔ یہ کیفیت فلاحی معاشرے کے لیے بہت نیک شگون ہے۔ اس کے بر عکس اگر تر غیب و تحریص، جبر و استبداد یا کورانہ تقلید جیسے بیرونی عناصر کے زیر اثر کوئی فریب خوردہ زاغ اگر ہنس کی چال چلنے کی کوشش کرتا  ہے تو اس کی یہ قبیح روش جہاں اس کی ذہنی اسیری اور فکری افلاس کی دلیل ہے وہاں اس کی شخصیت سے مکمل انہدام کا سبب بھی ہے۔ اسی لیے عزیز جبران انصاری نے اپنی حمدیہ اور نعتیہ شاعری میں مذہب کے سائبان میں رہنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اپنی حمدیہ اور نعتیہ شاعری میں عزیز جبران انصاری نے تاریخ اسلام سے بھر پور استفادہ کیا ہے۔ ان کے حمدیہ اور نعتیہ کلام میں استعمال ہونے والی کئی تلمیحات کا تعلق سر زمین حجاز اور مقامات مقدسہ سے ہے۔ ان تلمیحات کے بر محل استعمال سے وہ قاری کو ایام گزشتہ کی کتاب کے اوراق کا مطالعہ کرنے پر مائل کرتے ہیں۔ اپنے درخشاں ماضی کے بارے میں مثبت شعور و آگہی حاصل کرنے کے بعد قاری کو ذہنی سکون ملتا ہے اور وہ پورے اعتماد کے ساتھ ماضی کے تجربات کی روشنی میں اپنے حال کو سنوارنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ کوئی قوم اپنے ماضی سے کامل آگہی حاصل کیے بغیر اپنے حال کے بارے میں کوئی ٹھوس اور مثبت لائحہ عمل مرتب کرنے کی کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح جہاں تک مستقبل کا تعلق ہے اس کو سنوارنے میں حال کے تجربات کا گہرا عمل دخل ہوتا ہے۔

اپنی حمدیہ اور نعتیہ شاعری میں عزیز جبران انصاری نے ملت اسلامیہ میں تاریخی شعور کی بیداری کی جو تمنا کی ہے وہ ان کی وسیع النظری کی دلیل ہے۔ اس وقت وطن عزیز کے اُفق پر علاقائی، لسانی، نسلی اور فرقہ وارانہ عصبیوں کا عفریت منڈلا رہا ہے۔ اس کے مسموم اثرات سے نجات حاصل کرنے کے لیے اسلامی اخوت کے جذبات کو پروان چڑھانا ضروری ہے۔ عزیز جبران انصاری نے اپنی حمدیہ اور نعتیہ شاعری میں حضور ختم المرسلینﷺ کے اسوۂ حسنہ کو زندگی کے سفر میں زادِ راہ بنانے کی ضرورت کو اُجاگر کیا ہے۔ انھوں نے رحمت عالمﷺ کے خطبۂ حجۃ الوداع کا حوالہ دیا ہے کہ خون کے پیاسوں سے بھی انتقام نہ لیا جائے اور سب کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جائے۔

جو دشمنِ جاں تھے اُنھیں سینے سے لگایا

ہر حال میں اُن پہ رہا احسان مکمل

دو عالم میں محمدؐ ہی کا گلشن ہے بہارِ بے خزاں گلشن

تر و تازہ رہے گا دائمی گلشن یہی رشکِ جناں گلشن

جز مدینہ اور مکہ ہے کوئی ایسا مقام؟

چپے چپے پر جہاں رہتا ہے رحمت کا نزول

ذکر سرکار دو عالم ہے عبادت کا نشاں

نعت گوئی، نعت خوانی ہے عقیدت کا نشاں

اسلام کی آفاقی تعلیمات سے قلبی وابستگی عزیز جبران انصاری کا ذاتی اور انفرادی اعزاز و امتیاز سمجھا جاتا ہے۔ اس صنف ادب میں انھوں نے جو بلند مقام حاصل کیا اس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں۔ اس کی واضح عکاسی ان کے حمدیہ اور نعتیہ کلام میں دیکھی جا سکتی ہے۔ عزیز جبران انصاری نے اپنی حمدیہ اور نعتیہ شاعری کے روح پرور خیالات معاشرتی زندگی کے معمولات سے کشید کیے ہیں۔ روح عصر کو اپنے دامن میں سموئے ان کی حمدیہ اور نعتیہ شاعری میں اصلاح اور مقصدیت کی وہی تڑپ موجود ہے جو علی گڑھ تحریک کا امتیازی وصف سمجھا جاتا ہے۔ توحید، رسالت کا عشق اور اسلامی تعلیمات سے والہانہ وابستگی عزیز جبران انصاری کے دل و نگاہ میں رچ بس گئی ہے۔ یہ قوی جذبہ انھیں وہ فقید المثال صلاحیت عطا کرتا ہے جو انھیں زندگی کی درخشاں روایات اور اقدار عالیہ کی نمو کے بارے میں تمام حقائق کی گرہ کشائی کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔ وہ نہایت خلوص اور دردمندی سے اہلِ وطن کو تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کی سنگینی کا احساس دلاتے ہیں۔ اِس وقت جب کہ عصبیتوں اور نفرتوں کے ناگ ہر طرف پھنکار رہے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سایۂ دامانِ مصطفیٰﷺ میں پناہ لے لیں اور کاسۂ گدائی لیے رحمت طلب کریں۔ عزیز جبران انصاری کی حمدیہ اور نعتیہ شاعری پڑھ رہا تھا کہ معاً الطاف حسین حالی کا یہ شعر ذہن میں گردش کرنے لگا:

اے خاصۂ خاصان رسل وقتِ دعا ہے

اُمت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے

اس کے بعد عزیز جبران انصاری کے نعتیہ کلام میں ملت اسلامیہ کو درپیش مسائل کے بارے میں وہی ملّی درد کی کیفیت محسوس ہوئی جو حالی کی مسدس میں محسوس کی تھی۔ شاعر نے جس خلوص اور قومی درد کے ساتھ ملت کو ابتلا اور آزمائش سے دو چار دیکھ کر اپنے دلی جذبات کو پیرایۂ اظہار عطا کیا ہے اس سے سوچ کے نئے در وا ہوتے ہیں۔ میری دلی تمنا ہے کہ ملت اسلامیہ اپنی تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتے وقت اپنے ہر عمل کا احتساب کرے تا کہ وہ اس سوال کا جواب تلاش کر سکے۔

اے محمدؐ مصطفیؐ اے رحمت اللعالمینؐ

سخت ذلت میں ہے اُمت کیجے رحمت کا نزول

کل تلک عز و شرف میں ہم تھے یکتا اور آج

سوچیے کیوں ہے مسلمانوں پہ ذلت کا نزول

معاشرتی زندگی کے ارتعاشات پر عزیز جبران انصاری کی گہری نظر ہے۔ وہ اقوام عالم کی تاریخ کے تمام اسرار و رموز کے نباض ہیں اس لیے انھوں نے کبھی مصلحت اندیشی کی جانب توجہ نہیں دی۔ وہ الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنے کے سخت خلاف ہیں۔ انھوں نے اصلاحی اور تعمیری اقدار کو ہمیشہ اپنے اسلوب کی اساس بنایا ہے۔ یورپی اقوام کی ریشہ دوانیوں کے باعث دنیا بھر میں ملت اسلامیہ کو جس ابتلا اور آزمائش کا سامنا ہے وہ اسے من و عن بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ توحید و رسالت کے ایک سچے عاشق کی حیثیت سے انھوں نے تاریخ سے متعلق واقعات کے بیان میں حقیقت نگاری اور حق گوئی و بے باکی کو اپنا شعار بنا رکھا ہے۔ ان کی حمدیہ و نعتیہ شاعری قارئین کو احتساب ذات کی طرف مائل کرتی ہے۔ انھوں نے ادب کی جن ارفع روایات کو اپنے اسلوب میں جگہ دی ہے ان میں اسلام سے قلبی وابستگی، انسانیت نوازی، ایثار و انکسار، خلوص و دردمندی، بے لوث محبت اور بے باک صداقت کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ایسے مردِ خود آگاہ کا وجود اللہ کریم کا انعام ہے جو ہمیں اپنے من کی دنیا کی غواصی پر مائل کرنے کی کوششوں میں ہمہ تن مصروف ہے۔ مجھے یقین ہے ملت اسلامیہ اس حمدیہ و نعتیہ مجموعے کے آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر خودا حتسابی کے کڑے مراحل طے کر سکے گی۔ اس ایمان افروز شاعری کے مطالعہ کے بعد پر نم آنکھوں سے احتساب ذات پر توجہ مرکوز ہو جاتی ہے اور نہاں خانۂ دِل میں قلبی وجدان اور روحانی مسرت کی دستک زنی صاف سنائی دیتی ہے :

اپنے اعمال ہیں کیا، اپنا طریقہ کیا ہے

عشقِ سرکارؐ ہے کیا، اس کا تقاضا کیا ہے

ہم مسلماں ہیں مگر اپنا وتیرہ کیا ہے

خوار ہیں آج زمانے میں تو شکوہ کیا ہے

 

عشق کا دعویٰ ہے اے دوست عمل سے مشروط

جب عمل ہی نہیں پھر عشق کا دعویٰ کیا ہے

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے