بڑے ناولوں کو پڑھنا۔۔۔ پیغام آفاقی

بڑے ناولوں کو پڑھنا اپنے آپ میں ایک بڑا کام ہوتا ہے :

ہمارے ایک نوجوان ہونہار ناول نگار رحمان عباس نے ایک بڑی اچھی کتاب بعنوان ” اکیسویں صدی میں اردو ناول” شائع کی ہے جس میں چند معرکے کے مضامین ہیں اور ان کا پورا انداز بیان ان کی اس سچائی اور بے باکی کا مظہر ہے جو ایک تخلیقی فنکار کی شان ہوتی ہے۔ ان سے میں اس طرح کی مزید تحریروں کی توقع کرتا ہوں لیکن ساتھ ہی ان کو کچھ باتوں پر مزید غور کرنے کا مشورہ دینا بھی ضروری ہے۔

میرے ناول کے حوالے سے انہوں نے دو باتیں کہی ہیں جن پر میں ہرگز کوئی تبصرہ نہیں کرتا اگر یہ باتیں صرف میرے ناول سے متعلق ہوتیں لیکن یہ باتیں چونکہ خود ناول کے فن سے متعلق ہیں اس لئے ان پر روشنی ڈالنا ہی بہتر ہے۔

میرے ناول "پلیتہ” کے انداز بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” پیغام آفاقی کا بیانیہ اس ناول کی طاقت ہے جو انتہائی باریک بینی سے انگریز سامراج کی فلسفیانہ بنیادوں میں دبی ہوئی غیر انسانی اخلاقیات کا پردہ فاش کرتا ہے۔۔۔۔۔ یہ سفاک حقیقت نگاری کے لئے درکار سفاک بیانیہ ہے۔ حالانکہ اس بیانیہ اسلوب کے ساتھ ایک مصیبت یہ ہوتی ہے کہ عام طور پر یہ قرأت کے سفر کو صحرا کا سفر بنا دیتے۔ ”

آگے ایک جگہ لکھتے ہیں ” واقعات نگاری اور خشک بیانی اس ناول کے پڑھنے والے کو امتحان میں ڈالتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کوئی یہ امتحان کیوں دے ؟ ”

اب آئیے اس بات کا جواب تلاش کریں کہ یہ امتحان دینا کیوں ضروری ہے۔ ناول نگار دوران تحریر اپنے ناول میں مناسب ترین زاویئے سے زندگی کے اسرار کو کھول رہا ہوتا ہے۔ لکھتے وقت اس کی نظر میں ترسیل کا مقصد ضرور حاوی رہتا ہے لیکن حقیقت کی تصویر کی کتر بیونت کے ذریعہ ترسیل کو آسان بنانے کی کوشش کرنا خود اس حقیقت کو مسخ کرنے جیسا عمل ہوتا ہے جبکہ تصویر کو کامیابی سے پیش کرنا ہی ناول کا فن ہے۔ یہ تصویر ہی وہ شئے ہے جو قاری کے اندر زندگی کی بصیرت پیدا کرتی ہے۔ اس کے کساؤ، اس کی پیچیدگی، اس کی خشکی اور اس کے کڑوا پن وغیرہ کو کامیابی سے پیش کر کے قاری کو اس کی حقیقت اور فطرت کا مزہ چکھا دینا ہی ناول کے تجربے کی ترسیل ہے۔ جن لوگوں کو ایسے تجربات میں دلچسپی ہی نہ ہو ان کے لئے یہ ناول ہوتے ہی نہیں۔ چاول کو دکھانے کے لئے اس کو پلاؤ بنانا اور اسے ڈش کی طرح طشتری میں پیش کرنا تفریحی ناول کا فن ہے۔ حقیقی ناول اس طرح کا ڈش تب پیش کرے گا جب اسے پلاؤ کو ڈش کے طور پر دکھانا ہو۔ لیکن جہاں کھیتوں سے دھان حاصل کرنے سے لے کر چاول نکالنے اور ان کے درمیان سے کنکریوں کو چن کر نکالنے اور پھر اس سے پلاؤ بنا کر کھلانے کی پوری مشقت کی تصویر پیش کرنا مقصود ہو اور قاری کو یہ بتانا مقصود ہوک پلاؤ کی خوشبو کے پیچھے کتنی عرق ریزی درکار ہوتی ہے وہاں معاملہ کچھ اور ہو جاتا ہے۔ ناول کا فن یہ ہے کہ اگر وہ کسی جنگ کے واقعہ کو پیش کر رہا ہو تو ناول میں پیش کی گئی جنگ کی تصویر قاری کو جنگ کی اپنی اصل شکل یعنی مکمل اور ننگی حالت میں جنگ کا ایسا تجربہ کرا دے جو اس جنگ میں شامل کسی سپای کو ہوتا ہے۔ یہ ناول اس قاری کے لئے ہو گا جو جنگ کی حقیقت کو جاننا چاہتا ہو لیکن اسے کسی جنگ میں شریک ہو کر اس کو محسوس کرنے کا موقع نہیں ملا ہو۔ جنگ کو تفریح بنا کر پیش کرنا فلموں اور نو ٹنکی کا کام ہے۔ ناول سے ایسی توقع کرنا ناول کے فن کی عظمت کا مذاق بنانے جیسا ہے۔

اسی طرح دنیا کی اس حقیقت کو جاننے کے لئے جس میں صحرا کی کیفیت ہوتی ہے ناول کے شروع ہوتے ہی صحرا کی وسعتوں اور سنگلاخیوں کی کیفیت کا آغاز ہو جانا چاہئے۔ اپنے بستر پر لیٹے ہوئے ناول کو پڑھنا اور بات ہے لیکن اپنے ذہن کے اندر بھی سب کچھ بستر پر ہی پانے کی تمنا کرنا ایک ایسی سہل پسندی ہے جو ناول کے قاری کو خود قاری کے منصب سے نیچے اتار دیتی ہے۔ قاری کو اگر زندگی کے صحرا کو دیکھنا ہے تو اسے اس سفر کے لئے ذاتی طور پر آمادہ ہونا پڑے گا۔ اردو کے ناولوں نے سہل پسندی کی اس روایت کو مضبوط کر کے ناول کے لئے یہ لازمی شرط بٹھا رکھی ہے کہ اسے آسان ہونا چاہئے۔ یہ روایت تو ان داستان گویوں کی قائم کی ہوئی ہے جو کسی زمانے میں فلموں کی طرح تفریح طبع کا سامان مہیا کرنے کا پیشہ کرتے تھے۔ آج کا فکشن تو زندگی کو سمجھنے کے معاملے میں سائنس کا ہم پلہ ہے۔ اس لئے اس خیال کی ترویج کرنا کہ اچھا ناول وہ ہے جو آسان ہو در اصل ناول کے لئے ایک غلط معیار کو بڑھاوا دینے کے مترادف ہے۔ بے شک آپ ناول نگاروں کے قبیلے سے تفریحی یا آسان ناولوں کی توقع کر سکتے ہیں جیسے فلم انڈسٹری سے تفریحی فلموں کی توقع کرتے ہیں لیکن کسی ناول کے سہل ہونے اور اس کے چٹپٹا ہونے کو ان ناولوں سے بہتر قرار دئے جانے کی دلیل سمجھنا جو ناول زندگی کے مشکل پہلوؤں سے الجھتے ہیں، تفریح کو بصیرت پر فوقیت دینے جیسا ہو گا جو صریحاً ناسمجھی ہے اور کسی فنکار یا ناقد کے قلم سے ایسی بات کے لکھے جانے کی توقع ہم قطعی نہیں کرتے۔ ناولوں کی دنیا میں سو دو سو یا ہزار دو ہزار ناولوں میں دو چار ناول ایسے بھی آئیں گے جو انتہائی مشکل ہوں گے اور جن کو محض زندگی کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے لئے لکھے جانا اور پڑھے جانا چاہئے۔ ایک انگریز مفکر نے کہا ہے کہ کچھ کتابیں تفریح کے لئے پڑھی جاتی ہیں، کچھ محض معلومات کے لئے اور کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں چبانا اور اچھی طرح ہضم کرنا ہماری ذہنی صحت اور توانائی کے لئے لازمی ہے۔ اسی لئے کچھ ناولوں کو زندگی کے مشکل نصاب کا ایک باب سمجھ کر پڑھنا ہی پڑے گا۔ یہ امتحان دینا یا نہ دینا اور اس میں کامیاب ہونے کی سند حاصل کرنا یا نہ کرنا قاری کی مرضی ہے لیکن کسی کے پڑھنے نہ پڑھنے سے اس سبق کی اہمیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا جو سبق ایسے مشکل ناولوں میں موجود رہتا ہے۔

کچھ مغربی فنکاروں کا یہ خیال ہے کہ آرٹ زندگی کے غیر دلچسپ عناصر کو کاٹ کر صرف دلچسپ پہلوؤں کو پیش کرنے کا نام ہے۔ یہ ایک کاروباری قسم کی بات ہے۔ یہ بات نہ صرف یہ کہ مطمئن نہیں کرتی بلکہ ناول کے فن کے معاملے میں زہر ہلاہل ہے۔ ناول کا کام زندگی کی بامعنی تصویر پیش کرنا ہے چاہے و دلچسپ ہو یا غیر دلچسپ اور ناول کو دلچسپ رکھنے کے لئے اس کی معنویت کی روشنی کا سہارا لینے کے بجائے چیزوں کی محض دلچسپ سطحی چیزوں کے انتخاب کو فنی مہارت کا معیار بنانا حقیقت کی تصویر کے ساتھ ایک بھونڈا کھلواڑ کرنے جیسا ہے۔

ناول نگار کا کمال زندگی کے مختلف پہلوؤں کی معنی خیزی کو دریافت کرنے میں ہے نہ کہ اپنی بصیرت کی کمی کی بنا پر کسی چیز کو غیر دلچسپ سمجھ کر نظر انداز کرنے میں۔ اگر کوئی شئے حقیقت کا حصہ ہے اور واقعتا ً غیر دلچسپ اور اکتا دینے والی ہے تو اس کی یہ منفی حیثیت اپنے آپ میں زندگی کی تصویر کا قابل غور پہلو ہے۔

بڑے یا مشکل ناولوں کو پڑھنے کے لئے انہیں ہاتھ میں لینے اور کھولنے سے پہلے اپنے ذہن کو اسی طرح سنجیدہ کر لینا ضروری ہوتا ہے جیسے معاشیات، سائنس یا ریاضی کی کسی کتاب کو پڑھنے کے لئے ذہن کو تیار کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی بڑا ناول نگار قارئین سے اپنے ناول کو پڑھے جانے پر اصرار نہیں کرتا۔ وہ جانتا ہے کہ جس حقیقت کو وہ پیش کر رہا ہے اس میں ہر ایک قاری کو اتنی دلچسپی نہیں ہو سکتی کہ وہ اسے پڑھے۔ زیادہ سے زیادہ قارئین کو مد نظر رکھتے ہوئے ناول کے فنی اقدار کو قربان کر کے پڑھوانے کی کوشش کمرشیل رائٹر کرتے ہیں۔ اگر آپ کسی سنجیدہ ناول کو اس سنجیدگی سے پڑھنے یا زندگی کو اس سنجیدگی سے سمجھنے پر آمادہ نہیں ہیں جس طرح اس ناول میں وہ پیش کی گئی ہے تو ایسے ناول کو نہ پڑھیں لیکن ایسے ناولوں کی ثقالت پر سوال اٹھانے سے بہتر ہے کہ خود اپنی ذہانت اور ادبی سروکار پر سوال قائم کریں۔

بڑے ناولوں کو پڑھنا اور سمجھنا اپنے آپ میں ایک بڑا کام ہوتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 کیا پروپگنڈہ ہی در اصل قبائے افسانہ ہے ؟؟؟۔۔۔ پیغام آفاقی

 

پروپگنڈہ در اصل فکشن کی روح رواں اور اس کی پہچان ہے۔ کوئی بھی حقیقت چاہے وہ جزوی حقیقت ہو یا کلی حقیقت ہو اس وقت تک محض ایک علم یا خبر کی حیثیت رکھتی ہے جب تک وہ پروپگنڈہ کی حیثیت نہیں اختیار کرتی۔ایسی افسانوی تحریر جو پروپگنڈہ ہونے کے وصف سے خالی ہوتی ہے ایک بے جان سچ دکھائی دیتی ہے۔ افسانوی تحریر میں پروپگنڈا افسانہ نگار کی نیت اور پیش کش کے مقصد سی پیدا ہوتی ہے۔ جب افسانہ نگار محسوس کرتا ہے کہ جس صداقت کا اس کو عرفان ہوا ہے اس کو لوگوں تک پہنچنا چاہئے تو وہ اس مقصد کے لئے قلم اٹھاتا ہے اور اس صداقت کو ان تمام لوازمات سے لیس کر کے پیش کرتا ہے جو اس صداقت کو کامیابی کے ساتھ قارئین کے ذہن میں ان کی اپنی دریافت کے طور پر ثبت کر دے۔ فکشن کی ساری لوازمات جیسے ایک پرکشش آغاز، منظر نگاری، کردار نگاری، ماجرا، جذبات کی عکاسی، تجسس، قوت بیان، زبان، ، فلسفہ اور وحدت تاثر صداقت کی ترسیل کے اسی مقصد کو پورا کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں گویا وہ ایک روکٹ لانچر اور راکٹ ہوتے ہیں جو اپنے اندر رکھے ہوئے صداقت کو نشانے تک پہچانے کا کام انجام دیں گے۔ اس صداقت سے افسانہ نگار کی یہ امید وابستہ ہوتی ہے کہ اپنی متعینہ جگہ پر پہنچنے کے بعد یہ صداقت اپنے اطراف کو متاثر کرے گی۔ گویا افسانہ افسانہ نگار کا ایک عمل ہوتا ہے اور اس عمل کا مقصد کسی مطلوبہ نتیجے کا حصول ہے۔

جو افسانہ پروپگنڈہ کے اس خاصے سے خالی ہوتا ہے وہ ایک بے راہ رو اور خلا میں بھٹکتی ہوئی ایک ایسی شئے کی مانند دکھائی دیتا ہے جس کے اڑنے کا کوئی مقصد دکھائی نہیں دیتا۔ آپ کو جو افسانے بہت پسند آتے ہیں اور جن افسانوں کو درسی کتاب کے کسی سبق کی طرح پڑھنا پڑتا ہے ان کے درمیان یہ فرق صاف طور پر دکھائی دیتا ہے۔ کوئی افسانہ کیوں لکھتا ہے یا کوئی افسانہ کیوں پڑھے اس کی وجہ افسانے کی اس خصوصیت میں مضمر ہے۔

افسانہ نگاری کی شکل میں پروپگنڈہ افسانہ نگار کا وہ عمل ہے جس سے وہ دنیا کے ذہنوں کو بیدار کرتا ہے۔ پروپگنڈہ کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے ذہنوں کو جھنجوڑ دے ، دلوں کو ہلا دے ، روحوں کو لرزا دے ، فکری عمل کو بیقرار کر دے ، خیالات کو تبدیل کر دے ، توجہ کو مرکوز کر دے ، عمل کی خواہش کو مہمیز کرے اور سوتے ہوئے لوگوں کو میدان جنگ میں اتار دے۔ پروپگنڈہ ایک انتہائی طاقتور اور اس لحاظ سے مفید یا خطرناک ہتھیار ہے۔ اور صداقت کی توانائی سے دنیا کو تبدیل کرتا ہے۔

افسانہ نعرہ نہیں ہے لیکن ہر افسانہ کے اندر ایک نعرہ موجود ہوتا ہے۔ افسانہ نگار کے افسانوی پروپگنڈہ کی انفرادیت یہ ہوتی ہے کہ اس کی صداقت سیاسی، تاجرانہ، مذہبی اور نظریاتی پروپگنڈہ کی طرح صداقت مستعار لی ہوئی نہیں ہوتی اور یہ صرف اور صرف افسانہ نگار کی دریافت شدہ صداقت کو ہی پیش کرتا ہے۔یہ پروپگنڈہ اس کی اپنے دریافت اور اس کی اپنی باتوں کا اظہار ہوتا ہے۔ لیکن افسانہ نگار کسی اور ماخذ سے بھی کسی منجمد صداقت کو اٹھا کر اسے فعال بنا سکتا ہے۔ اس کا انحصار افسانہ نگار کی معاشرہ کا احتساب کرتی ہوئی اس نگاہ پر ہے کہ کسی ابھرتی ہوئی ضرورت کے مد نظر کسی منجمد صداقت کو کے استعمال کی ضرورت محسوس کرے۔

اگر افسانہ نگار محض ایک خبر رساں یا عالم کی طرح لوگوں کے ذہنوں میں خبریں اپلوڈ کرتا ہے تو اس کے افسانے میں وہی خشکی محسوس ہو گی جو کورس کی یا علمی کتابوں میں محسوس ہوتی ہے اور ایسے افسانے صرف ایسے چند ذہنوں کی دلچسپی کا سامان بن کر رہ جائیں گے علم کو برائے علم بٹورتے ہیں۔ ایسے افسانے بھی بیجوں کی طرح مناسب موسم اور زمین ملنے پر پودوں کی شکل میں اگ آتے ہیں لیکن افسانہ نگار کو مناسب موسم کا انتظار کرنا ہو گا۔البتہ موسم آنے پر ان افسانوں کی صداقت بھی پروپگنڈہ کی مشین سے ہی اڑان بھرے گی۔

٭٭٭

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے