اردو میں رپورتاژ نگاری کا فن، آغاز اور ارتقاء ۔۔۔ ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل

اردو نثری ادب کا آغاز انیسویں صدی میں کافی میں عروج پر رہا۔ اُس وقت ایسٹ انڈیا کمپنی کی جانب سے انگریزی افسروں کو اردو سکھانے کے مقصد سے فورٹ ولیم کالج، فورٹ سینٹ جارج اور مشرقی علوم کے لیے دہلی کالج کا قیام عمل میں لایا گیا تو دوسری جانب اردو کے ادبی سرمایہ میں اضافہ کے لیے افسانوی اور غیر افسانوی ادب تخلیق کیا جانے لگا۔ اس سلسلہ میں اُس وقت کے نامور مصنفین کو ملازمتیں فراہم کی گئیں تکہ وہ آسان اور عام فہم زبان میں ادب تخلیق کریں تاکہ انگریزی افسر اردو بول چال سے واقف ہوں اور آسانی سے اردو زبان سیکھ لیں۔ یہی وجہہ تھی کہ انیسویں صدی میں اردو نثر کو فروغ حاصل ہو ا۔ اردو نثر کے آغاز و ارتقاء میں فورٹ ولیم کالج کی خدمات ناقابل فراموش  ہیں، اس کے علاوہ سرسید کی علی گڑھ تحریک نے سونے پر سہاگہ کا کام انجام دیا۔ سرسیدخود بھی ایک اچھے نثر نگار تھے انہوں نے اردو نثر فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کیا، سرسید نے سیکڑوں مضامین لکھے ، علاوہ اس کے اپنے ساتھیوں سے بھی لکھوایا اس طرح اردو نثر کی جدید بنیاد ڈالی گئی اردو ادب کو نثری ادب میں وسعت دی گئی۔ اردو میں نثری ادب کی مضبوط بنیاد فراہم کی گئی۔ اور اردو اردو نثر ترقی کے زینہ طئے کرتی گئی، سرسید محسنِ اردو تھے ان کا اردو نثری کارنامہ رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ ان حالات میں غیر افسانوی ادب کو استحکام نصیب ہوا۔ فروغ اردو میں کئی اصناف کا اضافہ ہوا۔ ان کی انتھک کوششوں کی بدولت اردو نثر ارتقائی مراحل طے کرنے لگی۔ اس کا سہرا سرسید اور علی گڑھ تحریک کے سر جاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آج اردو زبان میں نثری اصناف کا بول بالا ہے۔

­­­­­­­__________________________________________________

رپورتاژ معنی و مفہوم اور تعریفات

­­­­­­­__________________________________________________

 

اردو ادب میں اکثر نثری اصناف انگریزی ادب کے زیر اثر شامل ہوئی ہیں۔ مضمون نگاری کی ہی طرز پر نثری صنف رپورتاژ بھی انگریزی ادب سے اردو ادب میں شامل ہوئی ہیں۔ ترقی پسند تحریک سے متعلق کہا گیا کہ ترقی پسندوں نے اردو کو تین تحفے دئے افسانہ، آزاد نظم، اور رپورتاژ۔ وہیں ناول کے فن کو بھی عروج کی منزلیں عطا کی۔ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر رپورتاژ نگاری کے فن کا آغاز ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ فن مقبول ہونے لگا۔ رپورتاژ ظاہری طور پر صحافت سے تعلق رکھتی ہے اس صنف کو نثری ادب کی صنف کا درجہ حاصل ہے۔ رپورتاژلفظ (Reportage)لاطینی اور فرانسیسی زبانوں سے اخذ کیا گیا ہے جو انگریزی میں (Report)رپورٹ کے ہم معنی ہے۔ رپورٹ سے مراد عموماً کسی پروگرام کی روداد بیان کرنے کو کہتے ہیں۔ اگرکسی پروگرام یا محفل کی رپورٹ میں ادبی اسلوب، تخیل کی آمیزش اور معروضی حقائق کے ساتھ ساتھ باطنی لمس بھی عطا کیا جائے تو یہ ادبی صنف کہلائی جاتی ہے۔

اس کے متعلق ارشاد احمد خاں رقمطراز ہیں ’’رپورتاژ کی پہچان اس کی اپنی ہیئت سے زیادہ اس کے اظہار میں پوشیدہ ہے۔ اس صنف میں کوئی بھی گزرا ہوا واقعہ اظہار کی تہوں تک پہنچتا اور تخلیق کار کے اندر چھپے ہوئے رومانوی احساس کو جگاتا ہے اور پھر مصورانہ چابکدستی کے ساتھ ایسی تخلیق کو اجاگر کرتا ہے جو واقعات کی لپیٹ میں مرقع کاری کا درجہ رکھتی ہے۔ رپورتاژ کو ایک غیر افسانوی صنف کا درجہ حاصل ہے جس میں افسانویت اور کہانی پن کا وجود نہیں ہوتا۔ بلکہ گذرے ہوئے واقعات کی دلچسپ انداز میں تصویر کشی ہوتی ہے ‘‘(اردو میں رپورتاژ نگاری کا فنی جائز، ماہنامہ فکر و تحقیق، دہلی جولائی 2015)

رپورتاژ سے مراد کسی واقع کو دلچسپ انداز میں پیش کرنا ہے ، چونکہ یہ فن اردو ادب میں جد ید اختراع ہے لہذا اس کے معنی و مفہوم اور ہئیت ابھی بھی غور طلب ہے۔

پروفیسر گیان چند جین نے رپورتاژ کی تعریف اسطرح بیان کی ہے کہ ’’کسی تقریب کی کاروائی کا قرار واقعی غیر ادبی، غیر جذباتی، بیان روئداد کہلاتا ہے۔ ایک انشائیہ نگار اسے بیان کرے تو ایک افسانوی، شخصی، ادبی رنگ سے بیان کرے گا۔ یہ رپورتاژ ہے جو تخلیقی ادب پارہ ہوتا ہے۔ یہ کسی تقریب، تقریب سے متعلق سفر، کسی واقعے کے بیان پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس میں دو چار آٹھ دس دن سے زیادہ کا بیان نہیں ہوتا۔ ‘‘(ادبی اصناف۔ ص140)

­­­­­­­__________________________________________________

رپورتاژ نگاری بحیثیت فن

­­­­­­­__________________________________________________

 

رپورتاژ میں رپورتاژ نگار اپنے فن سے عصر حاضر کی تصویر بیان کرتا ہے۔ رپورتاژ میں ادبی چاشنی کے ساتھ ساتھ زندگی کے اسرار سے پردے اٹھائے جاتے ہیں۔ رپورتاژ میں واقعہ نگاری،  منظر نگاری،  کردار نگاری،  جذبات نگاری اور جزئیات نگاری کے اچھے نمونے پیش کئے جا سکتے ہیں۔ رپورتاژ اپنے عہد کی دستاویز کہلا تا ہے۔ رپورتاژ کے فن اور ہئیت سے متعلق پروفیسر مجید بیدار رقمطراز ہیں۔

’’رپورتاژ کے اجزاء لازم پانچ ہیں جن کے تحت کسی محفل کا  ا۔ آنکھوں دیکھا حال، ۲۔ سرگرمیوں کا احاطہ، ۳۔ منظری رویہ، ۴ہلکے پھلکے طنزیہ پیکر کا سہارا لیا جاتا ہے ، ۵۔ جس میں جزئیات نگاری کی شمولیت ضروری ہے ۔ کسی بھی رپورتاژ میں ۱۔ پیشکش کا حسن، ۲۔ واقعاتی عمل، ۳۔ تفصیل و تعبیر، ۴۔ زبان و بیان کی تخلیقی فضا، ۵۔ صحافتی عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس میں خبر یہ حصہ کا دخل اور روداد کی صلاحیت کار فرما ہو تو اسے ’’رپورتاژ‘‘ کے فن کی خوبی قرار دیا جائے گا۔ (اردو کی شعری و نثری اصناف، ص241,242)

افسانہ اور ناول کی طرح رپورتاژ نگاری کے اجزاء ترکیبی کو باضابطہ تدوین نہیں کیا گیا۔ اردو نثر کی کتابوں میں بالخصوص رپورتاژ نگاری کے اصول، ہئیت اور اجزاء پر بہت کم ہی پیش کیا گیا ہے۔ رپورتاژ کی ہئیت اور اجزاء کیا ہو سکتے ہیں اس پر روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد احمد خاں لکھتے ہیں۔

’’رپورتاژ کی رپورٹ، روزنامچہ اور دیگر نثری اصناف سے ممتاز اور مہمیز کرنے کے لیے کس بھی متن میں حسب ذیل اصولوں کی جانچ ضروری ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ رپورتاژ نگاری کا فن اور اس کا اظہار حسب ذیل عنوانات کے ساتھ ممکن ہے۔ ۱)اسلوب، ۲)ہیئت، ۳)صحافت، ۴)رومانیت، ۵)افسانویت، ۶)واقعیت، ۷)قوت تحریر، ۸)اقتباسی عمل، ۹)جبریہ انداز‘‘  اردو میں رپورتاژ نگاری کا فنی جائز، ماہنامہ فکر و تحقیق، دہلی جولائی 2015)

پریم چند نے اپنے رپورتاژ ’’پودے ‘‘ میں ترقی پسندوں کے اجلاس کی تفصیلات اور ملک راج آنند، سجاد ظہیر کی گفتگو کی منظر نگاری بہت ہی خوب اسلوب بیان میں پیش کی ہے ، مثلاً۔

’’ادیبوں کے کاہن ملک راج آنند اور سید سجاد ظہیر آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ دونوں براق کھدر میں ملبوس تھے۔ سجاد ظہیر کی کھدر کا رنگ سفید تھا۔ تو ملک راج آنند کا رنگ جو گیا تھا لیکن لباس دونوں کا وہی تھا۔ وہی ٹوپی وہی جواہر جیکٹ وہی پائجامہ ملک راج آنند کے منہ میں پائپ تھا تو سید سجاد ظہیر کے لبوں پر تبسم۔۔۔۔ آنند اور سجاد ظہیر دونوں ادبی کانفرنس کے پروگرام طئے کر رہے تھے۔ مدن گوپال جنہوں نے منشی پریم چند کے آرٹ پر ایک کتاب انگریزی میں لکھی ہے۔ اُن کے قریب بیٹھے ہوئے۔ ان دونوں ادیبوں کی گفتگو اس انہماک سے سن رہے تھے گویا کسی الہامی تفسیر سے روشناس ہو رہے ہوں۔ (پودے ، ص44)

اسلوب رپورتاژ کی جان ہیں جس طرح افسانہ ا اور ناول میں اسلوب کا کردار ہوتا ہے اسی طرح رپورتاژ میں بھی اسلوب کو برتا جائے ورنہ رپورتاژ اخبار کی خبر کی طرح اطلاع کا کام کرے گی اور اس کی ادبی اہمیت ختم ہو جائے گی۔ رپورتاژ میں فن کار اپنے فنکاری سے روداد کو دلکش دلچسپ بنائے اور رپورتاژ جامع ہونی چاہئے۔

­­­­­­­__________________________________________________

رپورتاژ نگاری کا آغاز و ارتقاء

­­­­­­­__________________________________________________

 

اردو ادب میں نثری صنف رپورتاژ کا سہرا ترقی پسند ادیبوں کے سر ہے۔ ترقی پسندوں نے ترقی پسند تحریک کے کانفرنسوں اور اجلاسوں کی روداد رقم کی اور اس کو ادبی چاشنی کے ساتھ شائع کرنا شروع کیا تب سے اردو ادب میں رپورتاژ کی روایت قائم ہوئی۔ ہفتہ وار اخبار ’’نظام‘‘ جس کی ادارت قدوس صہبائی کرتے تھے اس میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے جلسوں کی روداد کو حمید اختر لکھا کرتے تھے اس رپورٹ کو ہی اردو ادب میں رپورتاژ نگاری کا آغاز سمجھا گیا اس متعلق سجاد ظہیر نے اپنی کتاب ’’روشنائی‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ حمید اختر ایک نئی ادبی صنف کے موجد سمجھے جا سکتے ہیں۔ ان کی یہ ہفتہ واری سرگزشت در اصل ایک دلچسپ رپورتاژ تھی‘‘۔ سجآد ظہیر کو اردو ادب میں اس صنف کا بانی کہا جاتا ہے اس لیئے کے 1940ء میں ’’یادیں ‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی سجاد ظہیر کی تحریر کو اردو کا پہلا باقاعدہ رپورتاژ قرار دیا گیا۔ سجاد ظہیر کی ’’یادیں ‘‘ کے بعد اردو میں باقاعدہ رپورتاژ کرشن چندر کے رپورتاژ ’’پودے ‘‘ کو مانا جا تا ہے۔ یہ رپورتاژ ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس جو اکتوبر 1945ء میں حیدر آباد میں منعقد ہوئی، اس کی روداد ہے جسے کرشن چندر نے اپنے مشاہدات کی روشنی میں قلمبند کیا تھا۔ کرشن چند نے ’’صبح ہوتی ہے ‘‘کے موضوع پر بھی ایک رپورتاژ لکھا تھا۔ لیکن پودے کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ پرکاش پنڈت نے کلکتہ میں منعقد ہونے والی کانفرنس کی رپورتاژ ’کہت کبیر سنو بھئی سادھو‘‘ کے عنوان سے لکھی۔ بھوپال میں منعقدہ ترقی پسندوں کی کانفرنس کی دو رپورتاژ لکھی گئی عصمت چغتائی نے ’’بمبئی سے بھوپال تک‘‘ اور صفیہ اختر نے ’’ ایک ہنگامہ‘‘ کے عنوان سے لکھا۔ 1949ء احمد آباد کے کانفرنس کی رپورتاژ عادل رشید نے ’’خزاں کے پھول ‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا تھا۔ اس کے بعد فکر تونسوی نے ’’چھٹا دریا‘‘ لکھا۔ جس میں تقسیم ہند کے حالات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ شفیق الرحمٰن کا’ دجلا سے فرات تک‘ تاجور سامری کا ’’جب بندھن ٹوٹے ‘‘ جمنا داس اختر کا’ اور خدا دیکھتا رہا‘۔ ابراہیم جلیس کا ’’دو ملک ایک کہانی‘‘ خدیجہ مستور کا ’’پوپھٹے ‘‘، عبداللہ ملک کا ’’مستقبل ہمارا ہے ‘‘ اجمل اجملی کا ’’ایک رات گذری ہے ایک صدی گذری ہے ‘‘۔ اردو کے اہم رپورتاژتسلیم کئے جاتے ہیں۔

اردو کے اور مزید رپورتاژ میں دل کی بپتا، ماں۔ شاہد احمد دہلوی، لندن لیٹر۔ قر ۃ العین حیدر، کیوں ترا راہ گذر یاد آیا، خورشید انور جیلانی، اُجالے کی طرف۔ عنایت اللہ، سفید اور سرخ ستارے کے درمیان، ابراہیم جلیس، سرخ زمین اور پانچ ستارے خواجہ احمد عباس، یادوں کے چمن کلیم اللہ، جہلم کے اُس پار ظ انصاری، کتابوں کی تلاش ڈاکٹر گیان چند، پشکن کے دیس میں جگن ناتھ آزاد، دہلی سمپوزیم شارب ردولوی، سفر ہے شرط قاضی عبدالستار، ڈوب ڈوب کے اُبھری ناؤ۔ سلمیٰ عنایت اللہ، اے بنی اسرائیل۔ قدرت اللہ شہاب، عابد روڈ سے کمرشل اسٹریٹ۔ عاتق شاہ، بمبئی سے اودے پور تک۔ ندا فاضلی، ایک پلیٹ تخلص بھوپالی۔ مجتبیٰ حسین، اس کا آشوب۔ الطاف فاطمہ، نقاب اور چہرے۔ سلمیٰ صدیقی، احساس کی یاترا۔ رام لعل، چہرے۔ مسعود مفتی، وہ شخص کیا ہوا جو تری داستاں کا ہے۔ آزر بارہ بنکوی، ذکی انور کی زندگی کے آخری پانچ دن۔ منظر کاظمی۔ ڈاکٹر علی احمد فاطمی کی سفر ہے شرط، جڑیں اور کونپلیں، یاترا وغیرہ شامل ہیں۔

­­­­­­­__________________________________________________

عصر حاضر میں رپورتاژ کی اہمیت

­­­­­­­__________________________________________________

 

رپورتاژ نگاری کو جو مقبولیت اس کے ابتدائی دور میں نصیب ہوئی وہ بعد کے دور میں حاصل نہ ہو سکی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس صنف نے ابتداء ہی مرحلہ میں دم توڑ دیا ہو بلکہ آج بھی یہ صنف کم مقبول مگر اردو میں رائج ہے ، آج کل مختلف اخبارات اور رسائل میں اردو کی محفلوں، اجلاس، سمینار و تہذیبی پروگرامس کی رپورتاژ شائع ہوتی رہتی ہے۔ اکیسویں صدی میں تو میری نظر میں رپورتاژ کی اہمیت میں اضافہ ہو چکا ہے اس کی وجہہ یہ ہے کہ یہ دور سائنس و ٹکنالوجی کا ہے سائنس و ٹکنالوجی کی وجہہ دنیا کو گلوبل ویلج کہا جا رہا ہے ایسے میں رپورتاژ وہ وسیلہ ہے جو ٹکنالوجی کی مدد سے اردو ادب کی سرگرمیوں کو دنیا بھر میں عام کرنے کے لیے کار گر ثابت ہو گا اس لئے کے اکثر احباب کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ دور دراز میں ہونے والے سمینار اور مشاعروں میں شریک ہوں لیکن وقت اور مصروفیت رکاوٹ بن جاتی ہے ایسے افراد پروگراموں کی روداد سے واقف ہونا چاہتے ہیں جن کے لیے رپورتاژ اہمیت رکھتی ہے۔ سوشیل میڈیا کے اس دور میں فیس بک، واٹس اپ کے ذریعے ہم آئے دن مختلف پروگرامس کے رپورتاژ کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں جس سے دنیا بھر میں ہونے والی اردو ادب کی سرگرمیوں سے خوب واقفیت ملتی ہے۔ یہ دور تنظیم اور نظریات کا دور ہے ایسے میں ہر فرد کسی نہ کسی تنظیم سے وابستہ ضرور ہے ایسے میں ان تنظیموں کی سرگرمیوں کی تشہیر کے لیے رپورتاژ ایک بہترین وسیلہ ثابت ہو گا۔

علی سردار جعفری نے کیا خوب انداز میں رپورتاژ کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے وہ لکھتے ہیں۔

’’یہ صنف ادب رپورتاژ بالکل نئی ہے۔ لیکن بے انتہا اہم ہے۔ یہ صحافت اور افسانہ کی درمیانی کڑی ہے۔ اور اس سے ہمارے ادب کو بے انتہا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ ترقی پسند تحریک کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ رپورتاژ ہمارے مقاصد کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس کے ذریعہ سے ہم بڑے بڑے کام لے سکتے ہیں ‘‘۔ (علی سردار جعفری۔ پیش لفظ۔ خزاں کے پھول۔ از عادل رشید۔ص ۱۱)

بہر حال اردو نثر میں رپورتاژ نگاری کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ عصری ٹکنالوجی کے اس دور میں اس صنف کو استعمال میں لاتے ہوئے اس کے ذریعے فروغ اردو کا بہترین کام انجام دیا جا سکتا ہے۔ یہاں اس بات کا اظہار ضروری ہے کہ نئی نسل میں اردو سے دلچسپی کے لیے اردو کے دانشور حضرات آگے آئیں۔ تاکہ اردو کا سرمایہ ایک پیڑی سے دوسری پیڑی میں منتقل ہو۔

٭٭٭

 

 

 

One thought on “اردو میں رپورتاژ نگاری کا فن، آغاز اور ارتقاء ۔۔۔ ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے