غزل ۔۔۔ جلیل حیدر لاشاری

مجھے تو پُتلی تماشا تمام دیکھنا تھا

مرے بدن نے مگر جلد گھر بھی لَوٹنا تھا

 

مَیں تھک کے رُک سا گیا تھا جہاں، وہاں پر بھی

مجھے ٹھہرنے کی خاطر بھی کتنا بھا گنا تھا !

 

تمام عمر مَیں اوروں سے پوچھتا ہی رہا

وہ اک سوال جسے مجھ کو خود سے پوچھنا تھا

 

ہمیں بھی کرنا پڑی بے رُخی ذرا تم سے

وگرنہ تم نے کہاں یوں پلٹ کے دیکھنا تھا؟

 

مرے نصیب میں سیل بلا کہاں حیدرؔ

مجھے تو مرنے کی خاطر سراب ڈھونڈنا تھا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے