پلیتہ پر ایک ادھورا تبصرہ ۔۔۔ سبین علی

پلیتہ ناول اس لیے لکھا گیا کہ ہر دور کا کم از کم ایک مفکر ضرور ہوتا ہے ہاں کبھی کبھار ایک سے زیادہ بھی جنم لے لیتے ہیں اور ان مفکروں کو اپنے اپنے حصے کی شعور کی وہ شمع جلانی پڑتی ہے جو نہ صرف اس عہد کی سوچ و ادراک کو جلا بخشے بلکہ آنی والی نسلوں کے لیے بھی ایک فلیتے کی مانند جل کر نہ صرف روشنی بکھیرے بلکہ مستقبل کے مفکروں کے لیے شعور تفکر اور ذمہ داری کا چین ری ایکشن جاری رکھنے میں اپنے حصے کا کردار ادا کرے۔ جیسے اپنے اپنے عہد میں مولانا روم، سعدی، وارث شاہ، بلھے شاہ، خواجہ غلام فرید، میاں محمد بخش اور علامہ اقبال جیسے مفکر و دانشور ادیب و شعراء کرتے چلے آئے ہیں۔ ( یہ کچھ مثالیں مشرق سے ہیں مغرب میں بھی ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ ) یہی کام کسی اور سطح پر پیغام آفاقی صاحب کے ناول پلیتہ نے بھی سر انجام دیا ہے۔ یہ ناول نہ تو محض کسی کتاب کا آغاز ہے نہ اختتام بلکہ یہ transitional عمل سرانجام دیتا وہ انٹر لنک ہے جو برصغیر کے ماضی سے مستقبل میں جھانکے اور پالیسیاں ترتیب دینے میں دانشوروں تھنک ٹینکز اور عام افراد کے لیے بھی سوچ کا نیا در وا کر رہا ہے۔ بیٹ ہوون کی نویں سمفنی نے انقلاب فرانس کی بنیاد میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ میں سوچتی ہوں کہ ہماری مٹی نے بھی ایسے ایسے انمول فنکار دانشور شاعر پیدا کیے مگر ان کے افکار سے اس طرح استفادہ نہیں کیا گیا جیسے ان کا حق تھا ـ اگر یہ استفادہ نہیں کیا گیا تو آخر کیوں ؟

کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ عوام کے شعور کو اس سطح تک آنے ہی نہیں دیا گیا؟

مجھے پیغام آفاقی کا پلیتہ بابا بلھے شاہ کے فلیتے سے جڑ کر سلگتا محسوس ہوا۔ پلیتہ کی قرات کے دوران کئی مقامات پر مجھے بلھے شاہ کے اشعار بے ساختہ یاد آئے اور اس پوری قرات کے دوران بلھے شاہ پس منظر سے ابھر کر پیغام آفاقی کا کندھا تھپکتے ملے۔

مجھے اندازہ ہے کہ پیغام آفاقی پنجابی زبان نہیں جانتے یقیناً انہوں نے تفصیل سے بابا بلھے شاہ کو پڑھا بھی نہیں ہو گا کیونکہ ان کی شاعری کے تراجم بہت زیادہ نہیں پھر پنجابی زبان بھی بقا کے خطرے سے دوچار ہے۔

نو آبادیاتی نظام نے ہمارے فکری اثاثوں کو بقا کے خطرے سے دوچار کر دیا تھا۔ پوسٹ کالونیل اثرات میں یہ خطرہ پہلے سے بھی بڑھ چکا ہے۔

لیکن کیا ہم اس کالونیل نظام سے قبل درست تھے ؟

نہیں …۔ .

اگر ہم فکری طور پر درست ہوتے تو اس عنکبوت کو اپنا جال یہاں بچھانے کا موقع ہی کیوں ملتا۔

بلھے شاہ ۱۶۸۰ ء میں پیدا ہوئے تھے

بلھے شاہ کا بچپن قصور کے ایک گاؤں میں مویشی چراتے گزرا۔ گاؤں میں امام مسجد کی حیثیت دوسرے دستکاروں کی طرح ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ بلھے شاہ نے زندگی کو بچپن ہی سے پسے ہوئے عوام کی نظروں سے دیکھنا شروع کیا۔ سید گھرانے کے چشم و چراغ ہونے کے باوجود انہوں نے کھیتی باڑی کرنے والے ارائیں عنائیت شاہ کو اپنا مرشد بنایا تو ان پر بہت سخت تنقید کی گئی۔

"بلھے کائیاں لیکاں لائیاں تو پھڑ کے پلا ارائیاں ” بلھے شاہ ذات پات کی بنیاد پر برتری کے شدید مخالف تھے۔ خود کو سید کہلانا پسند نہیں کیا۔ یہی رنگ مجھے پیغام آفاقی کے پلیتہ میں کالے پانی کے جزائر پر بکھرے نظر آئے۔ کالا پانی کوئی علامت نہیں بلکہ ایک تلخ سیاہ مگر حقیقی استعارہ ہے کالونیل نظام اور تاجروں کے ہاتھوں میں کھیلتے حکمرانوں کا جو عام انسان کے شعور کو ذات پات مذہب فرقے کی حد بندیوں سے آزاد کرتا اس مقام پر پہنچانے کا خواہاں ہے جہاں لیڈروں کے دعوے نظریات اور ملمع کاری نہیں بلکہ اس ملمع کی تہہ تلے چھپے اصل جوہر کی کھوج ہے۔ وہ جوہر خواہ کتنا ہی بد ہیت کیوں نہ ہو مگر وہ اصلی ہے۔ کالا پانی الفاظ نہیں عمل کا متلاشی ہے اور کتاب پر لکھے آئین اور انتظامی شعبدہ بازوں کی بازی گری کے تلے کچلے لوگوں کی داستان ہے وہ اس نظام تعلیم کا مخالف ہے جو تاجروں کے لیے محض تربیت یافتہ عملہ تیار کرتا ہو ـ وہ ان لیڈروں پر سوال اٹھاتا ہے جن کی شبیہ امن کے علم برداروں کی ہے مگر ان کی چھتری تلے لاکھوں انسان گاجر مولی کی مانند ذبح کر دیے جاتے رہے۔ وہ شبیہ کی نہیں اصل کی کھوج ہے۔

بلھے شاہ نے تو کتابی ملاؤں پنڈتوں کے گھسے گھسائے علم کو بھی انسانی فلاح اور برادری کے لیے مضر قرار دیتے ہوئے کہا کہ :

علموں پے قضیئے ہور اکھیں والے انھے کور

پھڑھ لیے سادتے چھڈے چور دوہیں جہانیں ہویا خوار

علموں بس کریں اویار اکوالف تینوں درکار

انہوں نے ملاؤں کی اصلیت بیان کرتے ہوئے کہا:

ملاں تے مشالچی دوہاں اکو چت

لوکاں کر دے چاننا آپ ہنیرے وچ

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے