گرگٹ ۔۔۔ انتون چیخوف/ عبد الرزاق واحدی

پولیس انسپکٹر اوچومیلوف نیلا اوور کوٹ پہنے، ہاتھ میں ایک بنڈل تھامے بازار کے چوک سے گزر رہا ہے۔ سرخ بالوں والا کانسٹیبل ضبط کیے ہوئے کروندوں سے بالکل اوپر تک بھری ٹوکری اٹھائے اس کے پیچھے پیچھے چل رہا ہے۔ چاروں طرف سناٹا چھایا ہوا ہے۔ ..۔ چوک میں ایک متنفس بھی نہیں نظر آتا۔ ..۔ چھوٹی چھوٹی دوکانوں اور شراب خانوں کے کھلے ہوئے دروازے بہت سے بھوکے جبڑوں کی طرح خدا کی دنیا کو اداسی کے ساتھ تکے جا رہے ہیں۔ ان کے قریب کہیں کوئی بھکاری تک نہیں کھڑا ہے۔

"اچھا تو تُو کاٹے گا، آوارہ کتے !” اچانک اوچو میلوف کے کانوں میں آواز پڑتی ہے۔ "ارے لڑکو! جانے نہ دینا اِسے ! کاٹنے کی آج کل اجازت نہیں ہے۔ پکڑ لو کمبخت کو! او!۔ ..۔ ”

پھر کسی کتے کے رونے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ اوچو میلوف اس جانب نظریں اٹھاتا اور یہ سب دیکھتا ہے۔ تاجر پیچو گین کے عمارتی لکڑی کے گودام سے ایک کتا تین ٹانگوں پر دوڑتا ہوا باہر نکلتا ہے۔ ایک شخص اس کا تعاقب کر رہا ہے جس کی چھینٹ کی قمیض کلف دار ہے، واسکٹ کے بٹن کھلے ہوئے ہیں اور سارا جسم آگے کی طرف جھکا ہوا ہے۔ آدمی ٹھوکر کھاتا اور کتے کی پچھلی ٹانگوں کو پکڑنے میں کامیاب ہو جاتا ہے ایک بار پھر کتے کے رونے کی آواز اور یہ چیخ سنائی دیتی ہے۔ "جانے نہ دینا اسے !” دوکانوں کے اندر سے اونگھتے ہوئے چہرے باہر جھانکتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے گودام کے قریب بھیڑ سی لگ جاتی ہے جو لگتا ہے کہ اچانک دھرتی کے اندر سے نکل آئی ہے۔

"معلوم ہوتا ہے کہ فساد ہو گیا، حضور والا!۔ ..۔ ” کانسٹیبل کہتا ہے۔

اوچو میلوف مڑ کے تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا بھیڑ کے پاس پہنچتا ہے۔ اسے احاطے کے گیٹ کے عین سامنے کھلے بٹنوں کی واسکٹ والا متذکرہ بالا شخص کھڑا نظر آتا ہے جو اپنے دائیں ہاتھ کو اٹھائے اس کی ایک انگلی جس سے خون بہہ رہا ہے، لوگوں کو دکھا رہا ہے۔ اس کے سر شار چہرے پر "میں تیرا کچومر نکال دوں گا، کمینے !” لکھا ہوا معلوم ہو رہا ہے اور خود انگلی فتح کے پرچم جیسی نظر آ رہی ہے۔ اوچو میلوف پہچان لیتا ہے کہ وہ شخص سنار خریو کین ہے۔ بھیڑ کے بالکل وسط میں مجرم۔ نوکیلی ناک اور پیٹھ پر ایک زرد دھبے والا سفید چھوٹا سا "بورزوئی” کتا۔ اپنی اگلی ٹانگوں کو ایک دوسرے سے الگ الگ رکھے زمین پر بیٹھا ہوا بُری طرح کانپ رہا ہے۔ اس کی ڈبڈبائی ہوئی آنکھیں پریشانی اور خوف کی آئینہ دار ہیں۔

"یہاں کیا ہو رہا ہے ” اوچو میلوف لوگوں کو کندھے سے دھکا دیتا ہوا آگے بڑھ کر پوچھتا ہے۔ "اور تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ اپنی انگلی اوپر کیوں اٹھا رکھی ہے ؟۔ ..۔ چلایا کون تھا؟”

"ارے حضور، میں تو مسکین شخص کی طرح چپ چاپ چلا جا رہا تھا” خیریوکین اپنی مٹھی میں کھانس کر کہنا شروع کرتا ہے۔ "مجھے یہاں کچھ لکڑی کے متعلق میتری میترچ سے بات کرنی تھی۔ اچانک اس وبال جان نے جس کا میں نے کچھ بھی نہیں بگاڑا تھا، میری انگلی میں کاٹ کھایا۔ ..۔ معاف کیجئے گا، میں محنت کش ہوں۔ ..۔ میرا پیشہ بڑا پیچیدہ اور دشوار ہے۔ آپ مجھے مالک سے معاوضہ دلانے کی زحمت کریں کیونکہ شاید ہفتے بھر تک میں اس انگلی کو جنبش نہ دے سکوں گا۔ ..۔ قانون بھلا یہ کب کہتا ہے، حضور والا کہ ہمیں خونخوار جانوروں سے بھی نباہ کرنا پڑے گا۔ ..۔ ہر ایک کاٹنا شروع کر دے تو پھر جینا مرنا ایک سا ہو جائے گا۔ ..۔ ”

"ہوں۔ ..۔ اچھا، اچھا” اوچو میلوف کھانستے اور بھوؤں کو پھڑکاتے ہوئے سخت لہجے میں کہتا ہے۔ "اچھا، اچھا۔ ..۔ کتے کا مالک کون ہے ؟ میں اس معاملے کو چھوڑنے والا نہیں۔ ..۔ میں لوگوں کو کتوں کو آوارہ چھوڑ دینے کا مزہ چکھا دوں گا! ان صاحبان کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کا وقت آ گیا ہے جو قوانین کو کھیل تماشا سمجھ بیٹھے ہیں ! میں اس بدمعاش پر ایسا جرمانہ کروں گا کہ دماغ درست ہو جائے گا، سمجھ جائے گا کہ ایسے ویسے کتوں اور مویشیوں کو اِدھر اُدھر منڈلانے کے لئے چھوڑ دینے کا انجام کیا ہوتا ہے ! میں اس کا دماغ درست کر دوں گا!۔ ..۔ ایلدیرین” وہ کانسٹیبل کی  طرف مڑتے ہوئے بات جاری رکھتا ہے، "معلوم کرو کہ کتا کس کا ہے اور ایک بیان مرتب کرو۔ رہا کتا تو اسے فوراً ہی ہلاک کر دیا جانا چاہئے۔ شاید پاگل ہے۔ ..۔ لیکن آخر یہ ہے کس کا؟”

"شاید یہ جنرل ژیگالوف کا ہے ” بھیڑ سے ایک آواز سنائی دیتی ہے۔

"جنرل ژیگالوف! ہوں۔ ایلدیرین، ذرا کوٹ اتارنے میں میری مدد تو کرو۔ ..۔ توبہ، کس قیامت کی گرمی ہے ! شاید بارش ہونے والی ہے۔ ..۔ ” وہ خریو کین کی طرف مڑتا ہے۔ "ایک بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔ آخر اس نے تمہیں کاٹ کیسے لیا؟ بھلا یہ تمہاری انگلی تک کیسے پہنچ گیا؟ اتنا ننھا سا کتا اور تم اتنے لمبے تڑنگے آدمی! ضرور تم نے کسی کیل سے انگلی میں خراش ڈالی ہو گی اور پھر تمہیں اس کے لئے معاوضہ ہتھیانے کی سوجھی ہو گی۔ ..۔ میں تم جیسوں کی رگ رگ سے واقف ہوں ! بدمعاشوں کی ٹولی!”

"در اصل حضور والا، انہوں نے تفریحاً جلتی سگریٹ سے کتے کی ناک کی نوک جلا دی تھی اور کتے نے انہیں کاٹ لیا، احمق تھوڑی ہے !۔ ..۔ خریو کین کو تو ہمیشہ ہی کوئی نہ کوئی شرارت سوجھتی رہتی ہے، حضور والا!”

"ارے بھیں گے، آسمان زمین کے قلابے نہ ملاؤ! تم نے مجھے ایسا کرتے دیکھا تو تھا نہیں پھر آخر یہ جھوٹ کیوں ؟ حضور خود ہی اڑتی چڑیا کو پہچانتے ہیں، جانتے ہیں کہ کون جھوٹ بول رہا ہے، کون سچ۔ ..۔ میں جھوٹ بول رہا ہوں تو مجسٹریٹ مجھ پر مقدمہ چلائے ! قانون میں کہا گیا۔ ..۔ اب سب کو برابر حقوق حاصل ہیں۔ ..۔ میرا ایک بھائی خود بھی پولیس میں ہے۔ ..۔ اگر جاننا چاہتے ہو تو۔ ..۔ ”

"بحث مت کرو!”

"جی نہیں، یہ جنرل صاحب کا کتا نہیں ہے۔ ..۔ "کانسٹیبل بڑی سنجیدگی سے کہتا ہے۔ "ان کے ہاں ایسا کوئی کتا نہیں۔ ان کے تو سبھی کتے شکاری ہیں۔ ..۔ ”

"تم یہ بات یقینی طور پر جانتے ہو؟”

"بالکل یقینی طور پر، سرکار۔ ..۔ ”

"یہ میں خود جانتا ہوں ! جنرل صاحب کے کتے قیمتی اور عمدہ نسل کے ہیں اور یہ۔ ..۔ اور اس پر ایک نظر تو ڈالو! بدصورت، دوغلا کتا!۔ ..۔ آخر کوئی اس طرح کا کتا کیوں پالے ؟ پاگل ہو گئے ہو کیا؟ اس قسم کا کوئی کتا پیڑس برگ یا ماس کو میں دکھائی دے تو جانتے ہو اس کا کیا حشر ہو گا؟ قانون کے متعلق کوئی سوچے گا بھی نہیں اور پل بھر میں اس کا کام تمام کر دیا جائے گا۔ خریوکین، تمہیں اذیت پہنچی ہے اور اس معاملے کو اتنے ہی پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ..۔ مالک کو سزا ملنی چاہئے ! وقت آ گیا ہے کہ۔ ..۔ ”

"شاید یہ جنرل صاحب ہی کا ہے۔ ..۔ ” کانسٹیبل خیال ظاہر کرتا ہے۔ "اسے صرف دیکھ کر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ ..۔ میں نے ابھی کل ہی جنرل صاحب کے احاطے میں اسی قسم کا ایک کتا دیکھا تھا۔ ”

"یقیناً جنرل ہی کا ہے !” بھیڑ سے ایک آواز سنائی دیتی ہے۔ "ارے ایلدیرین، اوور کوٹ پہننے میں میری مدد تو کرو۔ ..۔ مجھے ہوا کے جھونکے کا احساس ہوا۔ ..۔ میں کپکپا رہا ہوں۔ ..۔ اسے جنرل صاحب کے ہاں لے جاؤ اور وہاں اس کے متعلق دریافت کرو۔ کہنا کہ یہ مجھے ملا ہے اور میں نے اسے بھجوایا ہے۔ ..۔ اور کہنا کہ اسے سڑک پر یوں نہ چھوڑ دیا کریں۔ ..۔ شاید یہ قیمتی کتا ہے اور اگر ہر ظالم سمجھتا ہے کہ وہ اس کی ناک میں سگریٹیں ٹھونس سکتا ہے تو یہ جلد ہی چوپٹ ہو کر رہ جائے گا۔ کتا بڑا نازک جانور ہوتا ہے۔ ..۔ اور تم کوڑھ مغز، اپنا ہاتھ نیچے کر لو! اپنی اس واہیات انگلی کی نمائش بند بھی کرو! غلطی تو خود تمہاری ہی ہے !۔ ..۔ ”

"دیکھئے وہ جنرل صاحب کا رکاب دار آ رہا ہے اسی سے پوچھے لیتے ہیں۔ ..۔ ”

"ارے او پروخوو ! ذرا یہاں تو آؤ۔ اس کتے کو دیکھو۔ ..۔ کیا یہ تمہارے جنرل صاحب کا ہے ؟”

"حد ہو گئی! ایسا کتا ہماری ہاں کبھی بھی نہیں پالا گیا!”

"اب اور زیادہ چھان بین کرنے کی ضرورت نہیں۔ ” اوچومیلوف کہتا ہے۔ "یہ کوئی آوارہ کتا ہے ! یہاں کھڑے کھڑے بحث جاری رکھنے کی کوئی تک نہیں۔ ..۔ تم سے کہہ دیا گیا کہ آوارہ ہے تو یہ آوارہ ہی ہے۔ ..۔ مار ڈالو کمبخت کو اور معاملے کو ختم کرو۔ ”

"یہ ہمارا نہیں ہے۔ ” پروخوو اپنی بات جاری رکھتا ہے۔

"یہ جنرل صاحب کے بھائی کا ہے جو کچھ ہی روز قبل آئے ہیں ؟”

"ہمارے جنرل صاحب ایسے کتوں میں ذرا بھی دلچسپی نہیں لیتے۔ ان کے بھائی جو ہیں نا، تو وہ پسند کرتے ہیں۔ ..۔ ”

"کیا کہا، جنرل صاحب کے بھائی آئے ہوئے ہیں ؟ ولادیمیر ایوانچ؟” اوچومیلوف کہہ اٹھتا ہے اور اس کے چہرے پر انتہائی مسرت کی مسکراہٹ رقص کرنے لگتی ہے۔

"ذرا دیکھو تو! اور مجھے خبر ہی نہیں تھی! مہمان آئے ہیں ؟”

"جی ہاں۔ ..۔ ”

"ذرا دیکھو تو! ان کا اپنے بھائی سے ملاقات کرنے کو جی چاہتا تھا!۔ ..۔ اور مجھے خبر ہی نہ ہو سکی! تو ان کا ہے یہ کتا؟۔ ..۔ اس کی انگلی میں کاٹ لیا؟ ہا۔ ہا۔ ہا! چلو اٹھو، تھرت ھر نہ کانپو! غر۔ غر۔ ..۔ ننھا شریر غصے میں ہے۔ ..۔ کیا شاندار کتا ہے !”

پروخوو کتے کو پکارتا اور اسے ساتھ لے کے عمارتی لکڑی کے گودام سے باہر نکل جاتا ہے۔ ..۔ مجمع خریوکین پر ہنس پڑتا ہے۔

"تم اب بھی مجھ سے بچ نہ سکو گے !” اوچومیلوف اسے دھمکی دیتا ہے اور اپنے اوورکوٹ کو جسم پر خوب لپیٹ کر بازار کے چوک سے گزرنے لگتا ہے۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے