ایکو فیمینزم اور عصری تانیثی اردو افسانہ ۔۔۔ نسترن احسن فتیحی / محمد علم اللہ

نام کتاب :ایکو فیمینزم اور عصری تانیثی اردو افسانہ    مصنفہ : نسترن احسن فتیحی

مطبع : عفیف پبلی کیشنز دہلی۔ ( ایجوکیشن پبلشنگ ہاؤس )    قیمت :360

 

اردو میں عموماً نئے موضوعات پر کتابیں کم لکھی جاتی ہیں۔ خاص طور سے بدلتے حالات کی کوکھ سے پیدا ہونے والے مسائل کا کسی بھی زاویۂ نظر سے احاطہ کرنے والی کتابیں کم ہی شائع ہوتی ہیں۔ موضوعاتی لحاظ سے تنوع کا احساس دلانے والی کتابیں اگر ملتی بھی ہیں تو ان میں زیادہ تر ترجمہ شدہ ہوتی ہیں یا پھر کسی غیر ملکی زبان میں لکھی گئی کتابوں کے چربہ کی شکل میں سامنے آ جاتی ہیں جس کا اردو متن یا ترجمہ اس قدر گنجلک اور ناقص ہوتا ہے کہ قاری اس سے استفادہ کرنے یا معلومات کشید کرنے کے بجائے متن کے پیچ و خم میں ہی الجھ کر رہ جاتا ہے۔ نتیجتاً قاری ایسی کتابیں کم از کم اردو میں پڑھنے سے یا تو توبہ کر لیتا ہے یا اس کی طبیعت اس قدر مکدر ہو جاتی ہے کہ وہ آئندہ ایسی کتابوں سے دور رہنے میں ہی عافیت محسوس کرتا ہے۔ یہ عمومی رویہ اپنی جگہ، البتہ اچھوتے اور نئے موضوع پر بعض اہل قلم کے ذریعہ لکھی گئی کچھ کتابیں ایسی ضرور منظر عام پر آ رہی ہیں جن کا مطالعہ قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہے۔

ابھی حال ہی میں عفیف پبلیکیشنز دہلی سے شائع ہونے والی کتاب ایکو فیمینیزم اور عصری تانیثی اردو افسانہ بھی ایسی ہی ایک دل آویز اور قابل مطالعہ کتاب ہے ، جو معروف افسانہ نگار اور ادیبہ نسترن احسن فتیحی کے ذریعہ لکھی گئی ہے۔ تقریباً تین سو چار صفحات پر مشتمل اس کتاب میں ہمارے عہد کی ماحولیاتی مادریت اور تانیثیت جیسے سنگین مسئلہ کو عصری تانیثی اردو افسانہ کے حوالہ سے پرکھنے اور تحقیق کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کتاب میں مصنفہ نے کہیں بھی یہ دعوی نہیں کیا ہے کہ اس موضوع پر ان کی یہ پہلی کتاب ہے ، لیکن حقیقت یہی ہے کہ اردو میں اب تک اس مسئلہ پر ادب کے حوالہ سے کسی نے جھانکنے کی کوشش نہیں کی۔ اس وجہ سے مصنفہ ہم سب کی جانب سے مبارکباد کی مستحق ہیں کہ ایک حساس اور وقت کے سلگتے موضوع پر خامہ فرسائی کر کے انہوں نے اردو کے قارئین کو ایک خوبصورت تحفہ عطا کیا ہے۔

کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے حصہ میں ایکو فیمینزم یعنی ماحولیاتی تانیثیت کے حوالہ سے گفتگو کی گئی ہے اور تاریخی جھروکوں سے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ خواتین نے بھی مردوں کے شانہ بشانہ ہر زمانے میں سماج کی ترقی اور بہتری میں اپنی حصہ داری نبھائی ہے۔ اس باب میں انقلاب انگلستان اور خواتین۔ انقلاب فرانس اور خواتین۔ برطانیہ میں مزدور تحریک اور خواتین۔ انقلاب روس اور خواتین۔ تیسری دنیا کا پدر سری معاشرہ۔ ایکو فیمینزم یا ماحولیاتی مادریت، ماحولیاتی تنقید۔ ایکو فیمینزم بحیثیت ادبی تنقید فیمینزم پہلی تانیثی لہر۔ دوسری تانیثی لہر۔ تانیثی تحریک کی تیسری لہر۔ ماحولیات، فضائی آلودگی پانی کی آلودگی۔ صوتی آلودگی۔ ماحولیات سے خواتین کی وابستگی۔ ماحولیاتی آلودگی اور عوامی تحریکیں۔ چپکو تحریک۔ گرین بیلٹ تحریک۔ کینگ شی آن گرین پروجیکٹ تحریک۔ نودانیہ تحریک۔ گری گین ازم۔ لوک ادب اور ماحولیات۔ اردو ادب میں ماحولیات جیسے موضوعات پر فاضلانہ انداز میں بحث کی کی گئی ہے۔

کتاب کا دوسرا باب عصری تانیثی اردو افسانہ اور ایکوفیمنزم کا تصور ہے۔ جس میں مصنفہ نے اپنے تجربات۔ احساسات۔ اور مشاہدات کو ذاتی بلکہ نجی حوالے کے ساتھ پرکھنے کے بعد اس کے جزئیات کو احاطۂ تحریر میں لانے کی کوشش کی ہے۔ آج جو خواتین افسانے لکھ رہی ہیں، ان کے افسانوں میں گوناگوں موضوعات کی رنگا رنگی اور زندگی کو بہت قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کے شعور کو مصنفہ نے اس باب میں کامیابی سے منعکس کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس حوالہ سے انھوں نے متعدد خواتین قلم کاروں کا حوالہ دیتے ہوئے فکشن۔ ڈکشن۔ ڈسکورس۔ اسلوب اور رویہ پر خوبصورتی سے گفتگو کی ہے۔

تیسرا باب اسی حوالہ سے افسانوں کے انتخاب پر مبنی ہے۔ جس میں سلمیٰ جیلانی۔ سبین علی۔ ترنم ریاض۔ عینی علی۔ غزال ضیغم، ڈاکٹر کوثر جمال۔ نسیم سید۔ عذرا نقوی۔ نگار عظیم۔ انجم قدوائی۔ ڈاکٹر نکہت نسیم۔ شاہین کاظمی۔ سیمیں درانی۔ نسترین فتیحی۔ ڈاکٹر ناہید اختر۔ نور العین ساحرہ۔ شہناز یوسف۔ روما رضوی۔ صادقہ نواب سحر وغیرہم کے کل سترہ افسانے شامل ہیں۔ ہر افسانہ اپنی جگہ ایک کائنات ہے۔ یہ افسانے گویا دنیا بھر میں بسنے والی خواتین افسانہ نگاروں کی شاہکار کہانیاں ہیں۔ ان افسانوں کا انتخاب ایک خاص پس منظر سے کیا گیا ہے۔ اس حوالہ سے افسانوں کا مطالعہ اور بھی دلچسپ ہو جاتا ہے۔ یہ افسانے عالم کاری کے دباؤ اور ٹوٹ پھوٹ کو کچھ اس انداز میں پیش کر رہے ہیں کہ یہ ماحولیات کے تئیں گہری درد مندی اور سماجی رویوں کے خلاف پر زور احتجاج کی شکل میں ابھر کر سامنے آتے ہیں، جن میں دکھ، درد، کرب، خواب، امید، حوصلہ، عزم سبھی کچھ شامل ہے۔ اس ذیل میں مصنفہ کے نگاہ انتخاب کا بھی کمال ہے کہ جانے کہاں کہاں سے انھوں نے ان جواہر پاروں کو اکٹھا کیا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ جس دور کو اردو کا بانجھ دور کہا جاتا ہے ، اس دور میں ایسی بھی خوبصورت خاتون قلم کاروں کی صف موجود ہے ، جو دنیا کے گوشے گوشے میں اردو کی جوت جگانے میں مصروف ہیں۔

چوتھا اور آخری باب۔ .ماحولیاتی تانیثیت اور عصری تانیثی افسانے ایک تجزیاتی مطالع کے نام سے ہے۔جس میں مذکورہ بالا افسانہ نگاروں کے افسانوں سے بحث کی گئی ہے اور موضوعاتی احساس کو کریدنے کی کوشش کی گئی ہے جوان کہانیوں میں پنہاں ہے۔ اس میں ان مصنفین کے علا وہ دیگر اردو کی معتبر خاتون قلم کاروں کی تخلیق کے نمونے بھی پیش کئے گئے ہیں اور ان میں چھپے عکس اور خیال کو ابھارنے کی سعی کی گئی ہے۔ گو کہ سارے افسانے اپنی کہانی خود آپ بیان کرنے میں پوری طرح کامیاب ہیں لیکن ان کہانیوں کا تجزیہ اور مصنفہ کی تفہیم و تشریح کتاب کی وقعت میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔ آخری باب کے تجزیے میں افشاں ملک نکہت فاروق، ڈاکٹر عشرت ناہید اور مہر افروز جیسے خواتین افسانہ نگاروں کے تراشے شامل کئے گئے ہیں جو کافی دلچسپ ادبی پیکر تراشی و منظر نگاری اور اسلوب نگارش کی خوبصورت مثالیں ہیں۔

زیر تبصرہ کتاب میں کچھ خامیاں بھی ہیں۔ مذکورہ کتاب میں مصنفہ نے جگہ جگہ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے دانشوروں ادیبوں اور بڑے بڑے قلم کاروں کے اقتباسات پیش کئے ہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس میں چند ایک کو چھوڑ کر باقی مقامات پر انھوں نے ماخذ کی نشاندہی نہیں کی ہے۔ اگر مصنفہ اپنی اس کتاب میں ان حوالوں کا اہتمام کرتیں تو کتاب کی معتبریت دو چند ہو جاتی۔

کتاب کا پیش لفظ معروف دانشور اور انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد پاکستان سے وابستہ فرخ ندیم کا تحریر کردہ ہے۔جس میں انھوں نے انتہائی باریکی بینی کے ساتھ اپنے مخصوص انداز میں ایکو فیمنزم بیسویں صدی کے پہلے پچاس سال اور بعد کے انسانی مسائل کو دیکھنے کے رویہ پر گفتگو کی ہے۔ . جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ مجموعی لحاظ سے یہ کتاب اردو ادب کے جمود کو توڑنے کا ضامن کہلا سکتا ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے