دو گز زمین ۔۔۔ عذرا قیصر نقوی

نیم غنودگی کی حالت میں ان کے کانوں میں اماں کے مناقب پڑھنے کی آواز آ رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ساماں شتاب کر دے مرے دل کے چین کا

پروردگار واسطہ پیارے حسین علیہ السلام کا

فجر کی نماز کے بعد آنگن کے کونے میں ‌ بنے لال پتھر کے چبوترے پر بیٹھی اماں روز پُر سوز آواز میں مناقب پڑھتی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ تنویر زہرا گھبرا کر اٹھ بیٹھیں ارے ! فجر کی نماز قضا ہو جائے گی۔ ۔ اماں۔ ۔ کہاں ہیں۔ ۔ ۔ ۔ یہ کون سی جگہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ سامنے کی کھڑکی سے برابر والے مکان کی چھت پر جمی برف کی تہہ نظر آئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیچے لِونگ روم سے صبح کی خبروں کی آواز آ رہی تھی۔ ۔ ۔ کچن میں بہو اور بچوں کے چلنے پھرنے کی آوازیں تھیں۔ ۔ ۔ وہ حسب عادت خود سے بولیں۔ ۔ ۔ ۔

"لے تنویر زہرا ہو گئی ایک اور صبح” سرہانے رکھی ڈیجیٹل گھڑی پر نظر ڈالی صبح کے ساڑھے چھ بجے تھے۔ ۔ ۔ انہوں نے سوچا۔ ۔ ۔ ۔ "یہ گھڑی اور رات بھر بھوت بن کر ہو لاتی رہتی ہے۔ ۔ ۔ ایک تو نیند ویسے ہی غائب ہے، سو گئیں تنویر زہرا؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کل رات بھی شاید تین بجے رات کے بعد نیند آئی ہو گی۔ ۔ ۔ وہ بھی نیند کی دوسری گولی کھانے کے بعد، کتنی بار مرتضیٰ سے کہا یہ گھڑی ہٹا لے یہاں سے۔ ۔ ۔ ۔ مگر اس کے خیال سے تو یہ گھڑی اچھی ہے کہ اماں کو اندھیرے میں بھی وقت کا پتہ چل جائے۔ ۔ ۔ ۔ ارے مجھے وقت کا پتہ چلنے نہ چلنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ”

تنویر زہرا بمشکل گھٹنے پر ہاتھ رکھ کر اٹھیں۔ ۔ ۔ باتھ روم جانا بھی ان کے لئے ایک مشکل کام تھا۔۔۔ کھڑے ہو کر واش بیسن میں ‌ وضو کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ۔ ۔ وضو کر کے نماز پڑھنے کے بعد وہ نیچے آئیں تو مرتضی باہر سے گھر کے سامنے کے راستے سے برف ہٹا کر آ رہا تھا۔ ۔ ٹوپی اور دستانے برف سے اٹے ہوئے تھے۔ ۔ ۔ کان اور ناک سرخ ہو گئے تھے۔ ۔ اس نے جب دستانے اتارے تو انہوں ‌ دیکھا کہ انگلیاں بھی لال ہو گئی تھیں۔ ۔ ۔ ان کا دل بیٹے کے لئے تڑپ گیا۔ ۔ ۔ بولیں۔ ۔ ۔ ۔

"ارے کیوں مصیبت میں پڑتا ہے روز صبح۔ ۔ پڑی رہنے دے برف۔ ۔ ۔ خود پگھل جائے گی۔ ۔ ۔ ۔”

مرتضی نے جھلاہٹ پر قابو پاتے ہوئے بڑے رسان سے اماں کو سمجھانے کی کوشش کی۔ ۔ ۔ ۔

"ارے اماں ! اگر روز برف نہ ہٹاؤں تو برف کا ایک پہاڑ کھڑا ہو جائے گا دروازے کے سامنے۔ ۔ ۔ اور پھر گیراج سے گاڑی نکالنے کے لئے بھی تو راستہ صاف کرنا تھا نا!۔ ۔ ۔ کل رات بھر برف پڑی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ”

تنویر زہرا نے کچن کی کھڑکی سے جھانک کر دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ پچھواڑے کے مکان میں مسٹر سوائے اپنی گاڑی سے برف ہٹا رہے تھے۔ ۔ ۔ وہ بولیں۔ ۔ ۔ ۔

"ارے ! سردیوں میں ‌ گاڑی چلانے کی کیا ضرورت ہے۔ ۔ بس سے چلا جایا کر۔ ۔ ۔ ۔ برف کے زمانے میں تو گاڑی لے کر جاتا ہے تو دن بھر مرا جی ہولتا رہتا ہے۔ ۔ ۔ ”

مرتضی کو اماں پر غصہ بھی آیا اور پیار بھی۔ ۔ ۔ بولے۔ ۔ ۔

"اماں آپ کو کسی طرح چین نہیں۔ ۔ ۔ ۔ کراچی میں جب بس میں بیٹھ کر ناظم آباد سے کلفٹن جاتی تھیں تو دعا مانگا کرتی تھیں کہ مولا! ایک دن ایسا بھی کرنا کہ میرے مرتضی اور ارتضی کے پاس بھی گاڑی ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ کو کلفٹن والے خالو ابا کی گاڑی دیکھ کر کیسا رشک آتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ”

کچن میں ان کی بہو رضیہ جلدی جلدی بچوں کا لنچ پیک کر کے دے رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مرتضی کو بھی کاغذ کے براؤن لفافے میں سینڈوچ، جوس اور ایک سیب رکھ کر لنچ کے لئے دے دیا۔ ۔ ۔ ۔ اور جلدی جلدی کوٹ، بوٹ، دستانے اور ٹوپی پہن کر اپنے لنچ کا براؤن لفافہ لے کر کام پر جانے کے لئے تیار ہو گئی۔ ۔ ۔ ۔ بچے بھی اسکول کی بس لینے کے لیئے قریبی بس اسٹاپ پر چلے گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دھڑ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دھڑ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دروازے بند ہونے کی آوازیں۔ ۔ ۔ گیراج کا شٹر بند ہونے کی آواز۔ ۔ ۔  "سب چلے گئے۔ ۔ ۔ ” تنویر زہرا خود سے بولیں۔ ۔ ۔ ۔ اب گھر میں مکمل سناٹا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سوائے نیچے چلتے ہوئے ہیٹنگ کرنے والی فرنس کی آواز کے جو متواتر آ رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ آ کر چڑیوں کے پنجرے کے پاس کھڑی ہو گئیں۔ ۔ ۔ ۔ یہ چھوٹی چھوٹی رنگین چڑیاں پچھلے مہینے مرتضی کے بیٹے علی نے انہیں تحفے میں ‌دی تھیں۔ ۔ ۔ ۔ کہ یہ آپ کا برتھ ڈے گفٹ ہے۔ ۔ ۔ وہ ہنس پڑی تھیں۔ ۔ ۔ ” اوئی اس بڑھاپے میں اب میری سالگرہ ہو گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ساری عمر تو منائی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ "۔ یہ چڑیاں اب ان کی دن بھر کی ساتھی بن گئی تھیں۔ ۔ ۔ ۔ تنویر زہرا چڑیوں سے باتیں کرتی تھیں مگر ان کا خیال تھا کہ چڑیاں اردو سمجھ تو جاتی ہیں مگر بولتی انگریزی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔

تنویر زہرا نے کچن پر نظر ڈالی۔ ۔ ۔ چمکتا ہوا، صاف ستھرا، ہر چیز جگہ پر رکھی ہوئی تھی۔ ۔ ۔ ۔ وہ پھر چڑیوں سے مخاطب تھیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

"ایک تو میں رضیہ کے سگھڑاپے سے بھی پریشان ہوں، کام کر کر کے مری جائے ہے، کتنا کہا کہ رہنے دے روز کوئی سالن پکا دیا کروں گی مگر نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب خود ہی کرے گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اتوار کے روز دن بھر کھڑے ہو کر ہفتے بھر کے لئے کھانے پکا پکا کر فریزر میں ‌رکھ دے گی، اے ہے۔ ۔ ۔ ۔ ! یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ ۔ ۔ کہ روز روز کھانا پکانے سے گھر میں پیاز اور مسالوں کی بو بس جاتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ دوپہر میں ‌ علی آئے گا اسکول سے، خود ہی فرج سے اپنی وہ اسپگیتی یا پیزا نکالے گا، مائیکرو ویو میں خود گرم کرے گا اور کھا لے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتنا کہا کہ لاؤ۔ ۔ ۔ تمہارے لیئے تازہ روٹی ڈال دوں۔ ۔ ۔ ۔ پراٹھا پکا دوں مگر نہیں۔ ۔ ۔ ۔ اسے تو یہ ہی امریکن کھانے پسند ہیں۔ ۔ ۔ ”

تنویر زہرا لِونگ روم کی کھڑکی میں آ کھڑی ہو گئیں۔ ۔ ۔ ۔ سامنے صاف ستھرے مکانوں کی قطار تھی۔ ۔ ۔ چمنیوں سے دھواں نکل رہا تھا۔ ۔ برف سے مکانوں کی چھتیں اور راستے ڈھکے ہوئے تھے۔ ۔ ۔ ۔ وہ برف صاف کرنے والی مشین کے انتظار میں کھڑی ہو گئیں۔ ۔ ۔ ۔ ابھی وہ دیو جیسی مشین آتی ہو گی۔ ۔ اور سڑک کی ساری برف سرکا کر کنارے کر دے گی۔ ۔ ۔ ۔ اور سڑک کے دونوں طرف برف کی چھوٹی سی دیوار اور اونچی ہو جائے گی۔ ۔ ۔ ۔ اب صبح کے 9 بج چکے تھے آفس اور دوسری ملازمتوں پر جانے والے جا چکے تھے۔ ۔ ۔ اس لئے سڑک پر کوئی اِکّا دُکّا گاڑی گذر جاتی تھی۔ ۔ ۔ دس بجے کے قریب سامنے والے مکان سے دو بچے، لال پیلے اسنو سوٹ پہنے ہوئے نکلیں اور برف پر لوٹیں لگائیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

"شاباش ہے ان کی ماں کو بھی۔ ۔ ۔ ۔ اس سردی میں بھی بچوں کو باہر نکال دیتی ہے۔ ۔ ” تنویر زہرا سوچتی تھیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔

10 بجے اک بڑی بی سر سے پاؤں تک گرم کپڑوں میں ملفوف۔ ۔ ۔ اپنے کتے کو ٹہلانے نکلیں گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

"غضب کی ہمت ہے بڑھیا کی کہ اس سردی اور برف باری میں ‌بھی گھومنے سے باز نہیں آتی۔ ۔ ۔ ۔ ” وہ حیران تھیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔

گھڑی پر نظر ڈالی۔ ۔ ۔ ۔ ابھی تو صرف ساڑھے نو بجے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "اب کیا کروں۔ ۔ ۔ ناشتہ کرنے کو بھی دل نہیں چاہتا۔ ۔ ۔ فرج میں جوس، پھل، ڈبل روٹی، انڈے۔ ۔ ۔ سب بھرے پڑے ہیں مگر کھانے کو دل ہی نہیں ‌ چاہتا۔ ۔ ۔ اکیلے کیا خاک اچھا لگتا ہے کھانا پینا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”

"اب مجھے یہاں کناڈا آئے تقریباً ڈیڑھ سال ہو گیا۔ ۔ ۔ انہوں ‌نے سوچا مگر لگتا ہے کہ جیسے برسوں ہو گئے ہیں۔ ۔ ۔ ارتضی کے پاس سعودی عرب میں ‌بھی رہ کر آئی چند مہینے۔ ۔ ۔ وہاں بھی میں ‌اور ارتضی کی بیوی دن بھر گھر میں ‌ بند۔ ۔ ۔ شام کو ارتضی آتے۔ ۔ ۔ اگر تھکے ہوئے نہیں ‌ہوتے تو گاڑی میں ‌ بیٹھا کر گھما پھرا لاتے۔ ۔ ۔ خیر سے وہاں حج تو ہو گیا۔ ۔ ۔ ۔ مگر وہاں ‌ بھی کیا جی لگتا میرا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مرتضی نے یہاں کناڈا بلانے کی ضد پکڑ لی۔ ۔ ۔ ۔ اماں اور بابا کیا کریں گے اکیلے کراچی میں۔ ۔ ۔ ۔ رضیہ باجی بھی شادی ہو کے دبئی چلی گئی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ مرتضی کے ابا کے کسی صورت کناڈا آنے پر راضی نہیں تھے۔ ۔ ۔ ۔ اور نہ ہی آئے۔ ۔ جب تک۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کناڈا کا امیگریشن کا ویزا آئے اللہ ہی نے ان کا ویزا بھیج دیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابا کے مرنے کے بعد دونوں ‌ بھائی آئے۔ ۔ ۔ ۔ باپ کا بنوایا ہوا گھر بیچ باچ کر۔ ۔ ۔ ۔ لے آئے مجھے اپنے ساتھ یہاں۔ ۔ ۔ ۔ کیا نام ہے اس شہر کا۔ ۔ ۔ ۔ ؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ونڈسور۔ ۔ ۔ ۔ جب یہاں آئی تھی تو مرتضی اک پندرہ منزلہ اونچی بلڈنگ کے ایک فلیٹ میں رہتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ اندرونِ شہر تھی وہ بلڈنگ۔ ۔ ۔ ۔ کھڑکی میں ‌ کھڑی ہو جاتی تھی۔ ۔ ۔ ۔ اور سڑک کی چہل پہل دیکھ لیتی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب دس مہنے ہوئے ماشاء اللہ یہ مکان خرید لیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رضیہ کتنے فخر سے دکھاتی ہے اپنے ملنے والوں ‌کو۔ ۔ ۔ ۔ فور بیڈروم کا مکان ہے۔ ۔ ۔ ۔ بچوں کے کھیلنے کے لئے بیسمنٹ بھی ہے۔ ۔ ۔ ۔ گیراج میں ‌کہتے ہیں دو گاڑیاں کھڑی ہو سکتی ہیں۔ ۔ ۔ مکان جب سے خریدا ہے۔ ۔ ۔ مرتضی نے تو بس میاں بیوری مورگیج کی ہی باتیں کرتے ہیں۔ ۔ ۔ اک دن میں نے پوچھا تھا کہ یہ مورگیج کیا بلا ہے۔ ۔ ۔ تو رضیہ نے کچھ سمجھایا تھا کہ اماں۔ ۔ ۔ ! اتنا پیسہ ہر مہینے بینک تو دینا ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ورنہ مکان بینک لے لے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میری سمجھ میں ‌تو کچھ نہیں آیا۔ ۔ ۔ ۔ ایک وہ انڈیا میں کسٹووڈین کا قصہ تھا۔ ۔ ۔ ۔ پاکستان بننے کے بعد جب چچا ابا کراچی آئے تھے تو کسٹووڈین نے قبضہ کر لیا تھا۔ ۔ ۔ ان کے مکان پر۔ ۔ ۔ اب پتا نہیں یہ مورگیج کیا قصہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ اور جب ہم پاکستان آئے تو ہر وقت قصہ رہتا تھا کلیم کا۔ ۔ ۔ الاٹمنٹ کا۔ ۔ ۔ ۔ مگر ہمیں کیا ہاتھ آیا۔ ۔ ۔ خاک۔ ۔ ۔ ۔ مرتضی کے ابا سرکاری ملازم تھے۔ ۔ ۔ انڈیا میں۔ ۔ ۔ سو وہ پاکستان آ گئے تھے۔ ۔ ۔ وہاں بھی کیا تھا۔ ۔ ۔ اک پرانا آبائی مکاں امروہے میں۔ ۔ ۔ اور کراچی میں وہ بھی نصیب نہ ہوا۔ ۔ ۔ ۔ سنا ہے لوگوں ‌ نے بڑے بڑے الاٹمنٹ کرائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”

انہوں نے غیر ارادی طور پر گھڑی کی طرف دیکھا تو دن کے دس بج چکے تھے۔ ۔ ۔ سوچا کہ چلو پودوں میں ‌ پانی ڈال دوں۔ ۔ ۔ رضیہ نے گملوں میں طرح طرح کے پودے لگائے تھے۔ ۔ ۔ گھر کے اندر اچھی خاصی پھلواری بن گئی تھی۔ ۔ ۔ پودوں کی دیکھ بھال کا کام تنویر زہرا نے اپنے ذمہ لے لیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کراچی کے چھوٹے سے مکان کے آنگن میں بھی تنویر زہرا نے کچھ حصہ کچا رہنے دیا تھا۔ ۔ ۔ اور وہاں بیلے کے پھول لگائے تھے۔ ۔ ۔ ۔

"نہ جانے وہ بیلا زندہ ہو گا یا مر گیا ہو گا۔ ۔ ۔ ۔ ” وہ آزردہ ہو گئیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ان کے دماغ میں ‌تو ابھی میرٹھ والے گھر کے آنگن کے امرود اور موگرے کی خوشبو بسی ہوئی تھی۔ ۔ وہ بہت لگن سے ہر گملے میں ‌پانی ڈالتی رہیں۔ ۔ ربر پلانٹ کے پتے گیلے کپڑے سے صاف کئے۔ ۔ ۔ ۔ پودوں پر اسپرے کیا۔ ۔ ۔ وہ روز ہر گملے کو دیکھتیں کی کتنے نئے پتے نکلے۔ ۔ ۔ ۔

کبھی کبھی اُنہیں پودوں ‌ پر ترس آتا کہ بے چارے کبھی باہر کی تازہ ہوا بھی نہیں پاتے۔ ۔ ۔ انہوں نے کھڑکی سے باہر نظر ڈالی۔ ۔ ۔ ۔ سامنے یارڈ میں میپل کا درخت ٹنڈ منڈ کھڑا تھا۔ ۔ ۔ ۔ انہوں ‌ نے حساب لگایا۔ ۔ ۔ ۔ جنوری، فروری، مارچ، اپریل۔ ۔ ۔ تب کہیں ‌ اپریل کے آخر میں سوکھی شاخوں سے پتے سر نکالیں گے۔ ۔ ۔ ۔ جون جولائی میں درخت خوب ہرا بھرا ہو جائے گا۔ ۔ ۔ ۔ پھر اکتوبر میں پتے سرخ ہو جائیں گے تو پیڑ پر آگ سی لگتی معلوم ہو گی۔ ۔ ۔ ۔ جب بہت خوبصورت لگتے ہیں یہ میپل کے درخت۔ ۔ ۔ اور ابھی اکتوبر ختم بھی نہیں ‌ ہو گا۔ ۔ ۔ کہ سوکھے پتوں سے پھر یارڈ بھر جائے گا۔ ۔ ۔ ۔ پھر وہی ٹنڈ منڈ درخت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر وہی گرمیوں کا انتظار۔ ۔ ۔ نہ جانے اگلی گرمی دیکھوں گی یا نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” انہوں نے سوچا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اب انہیں دن کے ایک بجے کا انتظار تھا جب مرتضی کا بیٹا علی اسکول سے آئے گا تو ذرا رونق ہو گی۔ ۔ ۔ بڑی بیٹی سارہ تین بجے اسکول سے آئے گی۔ ۔ ۔ مرتضی اور رضیہ شام کو چھ بجے آئیں گے۔ ۔ ۔ ۔ سردیوں میں تو چھ بجے اندھیرا ہو جاتا ہے۔ ۔ ۔ مرتضی واپسی میں رضیہ کو کام پر لیتا ہوا آتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ انہیں ‌رضیہ پر ترس آتا تھا۔ ۔ ۔ وہ کام سے واپس آ کر کھانا گرم کرتی۔ ۔ ۔ کھلاتی۔ ۔ ۔ کچن صاف کرتی۔ ۔ برتن دھوتی۔ ۔ اور مرتضی بیٹھ کر ٹی وی دیکھتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رضیہ خواہ مخواہ گھر سے باہر کام کرتی ہے۔ ۔ ۔ کیا فائدہ جان کھپانے سے۔ ۔ ایک بار انہوں ‌نے مرتضی سے کہا تھا۔ "کیوں بیوی سے نوکری کراتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ”

اس نے جواب دیا تھا۔ ۔ ۔ ۔

"اماں ! رضیہ ہی کو زیادہ شوق تھا مکان خریدنے کا، صرف میری تنخواہ سے تو مورگیج ادا ہو نہیں سکتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ اس لئے رضیہ نے بھی کام شروع کر دیا۔ ۔ ۔ فیکٹری میں ‌پرزے جوڑنے کا کام ہے رضیہ کا۔ ۔ ۔ ۔ ”

فون کی گھنٹی بجی۔ ۔ ۔ ۔ تنویر زہرا فون کی گھنٹی سے ہمیشہ گھبرا جاتی تھیں۔ ۔ ۔ انہوں نے سوچا۔ ۔ ۔ ۔ ” ہو سکتا ہے مرتضی کا فون ہو۔ ۔ ۔ ۔ میری خیر خبر لے لیتا ہے۔ ۔ دن میں وہ اک آدھ بار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا پتہ کسی اور کا فون ہو۔ ۔ کوئی انگریزی نہ بولتا ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی بات نہیں۔ ۔ ۔ کہہ دوں گی۔ ۔ مسٹر مرتضی ناٹ ہوم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور رکھ دوں گی فون۔ ۔ ۔ ۔ ” گھنٹی بجے جا رہی تھی۔ ۔ ۔ انہوں نے فون اٹھایا۔ ۔ ۔ فون پر رضیہ کی دوست ثمینہ چودھری تھی۔ ۔ ۔ وہ بھی دن میں کبھی کبھار فون کر لیتی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اِدھر اُدھر کی دو چار باتیں کر کے تنویر زہرا کا دل بہل جاتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ حالانکہ ثمینہ پنجابی تھی۔ ۔ مگر تنویر زہرا کو یہاں وہ ہی غنیمت معلوم ہوتی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ثمینہ فون پر نہ جانے کیا کیا کہہ رہی تھی۔ ۔ ۔ لیکن تنویر زہرا کے دماغ میں ‌ بس ایک جملہ اٹک کر رہ گیا۔ ۔ آٹھ ہزار ڈالر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

رات کو کھانے کے بعد جب مرتضی اور رضیہ بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ ۔ تو زہرا کے اس سوال نے دونوں ‌کو چونکا دیا۔ ۔ ۔ ۔

"بیٹا! مرتضی۔ ۔ ۔ کیا آٹھ ہزار ڈالر کی رقم بہت ہوتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ”

مرتضی حیران ہوا کہ اماں آج روپئے پیسے کے چکر میں کیسے پڑ گئیں۔ ۔ ۔ ۔ وہ تو یہ بھی بڑی مشکل سے سمجھ پاتی تھیں کہ ایک ڈالر میں کتنے پاکستانی روپئے آتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔

مرتضی نے پوچھا ” کیوں اماں ‌کیا ہو گا آٹھ ہزار ڈالر کا” تنویر زہرا ٹال گئیں۔ ۔ ۔

"کچھ نہیں یوں ہی پوچھ رہی تھی۔ ۔ ۔ ”

وہ جلدی ہی اٹھ کر سونے کے لئے اپنے کمرے میں ‌ چلی گئیں۔ ۔ ۔ ۔ نیند کی گولی کھائی۔ ۔ ۔ رات کی دعائیں پڑھیں۔ ۔ ۔ دستک دی اور لیٹ رہیں۔ ۔ وہی سوال دماغ میں گھومے جا رہا تھا۔ ۔ آٹھ ہزار ڈالر۔ ۔ ۔ ۔ اچھا اگر مرتضی کے پاس نہ ہوئے تو ارتضی کو خط لکھوں گی وہ دے دے گا۔ ۔ انہیں تھوڑا سکون ہوا۔ ۔ ۔ ۔ آنکھیں مندنے لگیں۔ ۔ ۔ لگتا ہے آج کمرے کی ہیٹنگ زیادہ تیز ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیند جلدی آ گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ کیسا مجمع ہے۔ ۔ کس کا جنازہ ہے۔ ۔ ۔ چالیسواں ہے اماں کا؟۔ ۔ ۔ ۔ نہیں مرتضی کے ابا کا سوئم ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کس کی قبر ہے۔ ۔ بیری کے پیڑ کے نیچے۔ ۔ ۔ فاطمہ زہرا لکھا ہے کتبے پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اچھا ! میرٹھ میں اماں کی قبر شاید بھائی شان حیدر نے مرمت کرائی ہے۔ ۔ ۔ ابا کی قبر پر گھاس اگ آئی ہے۔ ۔ ۔ ۔ یہ کس کی تازہ قبر ہے۔ ۔ ۔ ۔ مرتضی کے ابا سوئے ہوئے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ یہ برف سی کیسی گری ہے اس قبر پر۔ ۔ ۔ یہ کون سی جگہ ہے۔ ۔ ۔ یہ کس کا جنازہ چوبی تابوت میں رکھا ہے۔ ۔ ۔ ہوائی جہاز کی گھڑ گھڑاہٹ۔ ۔ ۔ ہڑ بڑا کر وہ اٹھ گئیں۔ ۔ ۔ ۔ یہ کیسا عجیب خواب تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

تنویر زہرا بہت دیر تک دعائیں پڑھتی رہیں۔ ۔ ۔

"مرتضی کے ابا ہم آپ کو کراچی میں اکیلا چھوڑ آئے "۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بد بدائیں۔ ۔ ۔ ۔

صبح جب وہ نیچے گئیں تو خلاف معمول سب موجود تھے۔ ۔ ۔ انہیں یاد آیا کہ آج تو سنیچر ہے، چھٹی کا دن۔ ۔ ۔ مرتضی نے ان کی شکل دیکھ کر کہا۔ ۔ ۔

"کیا ہوا اماں !۔ ۔ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے۔ ۔ ۔ رات کو کیا نیند نہیں آئی آپ کو۔ ۔ ۔ ”

تنویر زہرا نے اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا مگر کھوئے کھوئے لہجے میں ‌بولیں۔ ۔ ۔ ۔

"کل رضیہ کی دوست ثمینہ کا فون آیا تھا۔ ۔ وہ بتا رہی تھی کہ صداقت مرزا کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ۔ ! ان کو دفن کہاں کیا جائے گا۔ ۔ ۔ ۔ ؟”

مرتضی مسکرا کر بولے۔ ۔ ۔ ” اماں آپ کیا اسی وجہ سے اتنی پریشان ہیں دفن ہو جائیں گے وہ قبرستان میں۔ ۔ ۔ مسجد والوں نے یہودیوں کے قبرستان میں کچھ جگہ خرید لی ہے وہیں دفن ہو جاتے ہیں۔ ۔ ۔ ”

تنویر زہرا بولیں۔ ۔ ۔ ” ہاں ثمینہ بھی یہی کہہ رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تسبیح گھماتے ہوئے بولیں۔ ۔ ۔ پھر ذرا جھک کر سرگوشی کے انداز میں بولیں۔ ۔ ۔

"مرتضی بتا بیٹا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تیرے پاس آٹھ ہزار ڈالر جمع ہوں گے۔ ۔ ۔ ؟ ورنہ ارتضی کو سعودی عرب فون کر کے پوچھنا کہ وہ پیسوں کا انتظام کر سکتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ؟”

مرتضی اور رضیہ نے چونک کر تنویر زہرا کی طرف دیکھا۔ ۔ ۔ دونوں تقریباً ساتھ ہی بولے۔ ۔

"کیوں اماں ؟”

تنویر زہرا باہر کھڑکی میں گرتی ہوئی برف دیکھتے ہوئے بولیں۔ ۔ ۔ ۔

ثمینہ بتا رہی تھی کہ یہاں سے لاش پاکستان بھیجنے میں آٹھ ہزار ڈالر کا خرچ آتا ہے۔ ۔ ۔ اچھا ! یہ بتا کہ انڈیا لے جانا کیا کچھ سستا ہے۔ ۔ ۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے