پرچھائیں ۔۔۔ نسترن احسن فتیحی

 

صبا نے راستے پر چلتے چلتے اپنی پرچھائیں کو دیکھا، کتنا بھی تیز قدم بڑھا لے وہ اس کے آگے ہی رہے گی۔ ۔ ۔  حقیر، بونی، بیہودہ پرچھائیں، اسے اس کی کم مائیگی کا احساس کرانے کے لئے وہ اس کے سامنے رہ کر منھ چڑھاتی رہتی ہے – لیکن کبھی جب پیچھے جاتی ہے نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے تو اپنا قد اتنا بڑا کر لیتی ہے کہ وہ نظروں میں نہ رہ کر بھی جیسے اسے دبوچ لیتی ہے اور وہ بے بس و کمزور پڑ کر اس کی موجودگی کے احساس سے نکل نہیں پاتی۔ یہ پرچھائیاں اتنی شکلیں کیوں بدلتی ہیں، کیوں نہیں تھوڑی دیر اسے اکیلا چھوڑ دیتی ہیں۔ اسے تو لگتا ہے کہ وہ وقت کا کوئی بھی پہر ہو، اجالا یا اندھیرا ہو وہ ان پرچھائیوں میں جیتے جیتے تھک گئی ہے۔ اپنی گنجلک سوچوں کے ساتھ وہ گھر پہنچ چکی تھی۔

صبا نے سبزی کا تھیلا ڈائننگ ٹیبل پر رکھا اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اسے تھکن زیادہ ہے یا پیاس۔ گھر پہنچ کر تھیلے اور پرس سے چھٹکارا پانے کے بعد دو قدم بڑھا کر اب اس سے فرج تک بھی نہ جایا جا سکا، لیکن پیاس سے ہونٹ سوکھ رہے تھے، اکتوبر کے اوائل میں گرمی اتنی شدید نہیں ہوتی لیکن چڑھتے سورج کی دھلی دھلائی سفید دھوپ کی تپش نے جیسے جسم سے پانی ہی نہیں خون بھی نچوڑ لیا ہو۔

اس نے سامنے بڈ روم میں بستر پرا پنے دونوں پیر پھیلائے گود میں لیپ ٹاپ رکھے اپنی بڑی بیٹی پنکی کو دیکھا، وہ اپنے فیس بک کے دوستوں کی دنیا میں گم تھی، تبھی دوسرے کمرے سے راجو آیا پارے کی طرح تھرکتا ہوا۔ ..

"آپ آ گئیں ممی ! بہت بھوک لگی ہے۔ "اس نے فرج پر رکھی ٹوکری سے ایک سیب اٹھایا۔

"ہاں لفٹ خراب ہے، چار منزل چڑھتے چڑھتے حالت خراب ہو گئی۔ .. ذرا پانی تو پلاؤ۔ ”

"یے۔ . یے۔ . یے۔ .” پاس کے کمرے سے شور کی آواز آئی – کوئی وکٹ گرا تھا، راجو اپنی آواز بھی اس شور میں شامل کرتا ہوا ادھر دوڑ گیا اور صبا کے الفاظ اس شور میں گم ہو گئے –

"منی۔ ..۔ ” صبا نے پکارا۔ .. چھوٹی بیٹی کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی –”منی۔ ..” صبا نے پھر پکارا۔

"اف فوہ ممی فون پر ہوں –” منی نے بالکنی سے سر اندر کر کے اسے ایک جھڑکی دی۔

صبا کی سانسیں برابر ہو چکی تھیں، اس نے اٹھ کر فرج سے بوتل نکالی اور ٹیبل کے پاس آ کر گلاس سیدھا کر کے پانی اس میں ڈالنے لگی –

"ممی۔ .. ایک گلاس مجھے بھی۔ ..”سامنے سے بڑی بیٹی پنکی نے آواز لگائی۔ وہ گلاس اٹھا کر پنکی کو دے آئی، اس میں اس وقت قوت مدافعت نہ تھی – پھر خود پانی پی کر بوتل بھر کر واپس فرج میں رکھا اور ٹی وی روم میں گئی، وہاں راجو اپنے پاپا کے ساتھ ٹوینٹی ٹوینٹی میچ دیکھنے میں محو تھا، ان دونوں کی محویت میں کوئی فرق نہ آیا، اور صبا دو منٹ وہاں پر کھڑی ہو کر لوٹنے لگی پر شوہر اور بیوی ایک دوسرے کی طرف دیکھیں یا نہ دیکھیں ان دونوں کے بیچ ایک ٹیلی پیتھی ہوتی ہے، شاید اسی ٹیلی پیتھی سے اس کے شوہر بلال نے اس کی موجودگی اور واپسی کو اچانک محسوس کیا اور اس کی دلجوئی کرنے کے لئے جاتی ہوئی صبا سے کہا۔

۔ ..” صبا دیکھو آج میچ میں بہت مزہ آ رہا ہے –”

"ہوں۔ .” صبا کے قدم نہیں رکتے۔ ..کیونکہ وہ بہت بے مزہ ہو چکی ہے۔ ..اپنے چہار طرف ہلتی ڈولتی پرچھائیوں سے۔  وہ یہ بھی جانتی ہے کہ وہ اگر رک بھی گئی تو یہ پرچھائیاں اس کے اپنے قد کو ہی بونا اور بد ہیئت کر کے دکھا دیں گی۔ وہ وہاں سے آ کر الماری سے اپنے لیے ایک سوتی ساڑی نکالتی ہے۔  "ممی جلدی کھانا بنا دو مجھے اور پاپا کو بہت بھوک لگی ہے۔ "صبا کی سماعت سے یہ آواز ٹکرائی۔ ..اور وہ اپنی سلک کی ساڑی اتار کر سوتی ساڑی باندھ کر باورچی خانے میں چلی گئی۔  آج دو اکتوبر کی چھٹی ہے اور آج ہی اتوار بھی ہے۔ ایک چھٹی نہیں ملنے کا سب کو افسوس ہے اور آج اسی چھٹی کی وجہ سے سب گھر پر ہیں ورنہ اس وقت کون گھر میں رہتا ہے۔ ..کس نے کہاں کب کتنا کھایا کسی کو معلوم نہیں رہتا اس لیے چھٹی کے دن کو صبا کچھ اسپیشل ٹچ دینا چاہتی ہے، شوہر اور بچوں کے لئے اور اپنے لیے بھی۔ ..اس کے اندر چند دہائیوں پہلے والی ایک عورت زندہ ہے۔ ..۔ جو ہر وقت اس کا دل مٹھیوں میں لے کر بھینچتی رہتی ہے۔ کبھی کبھی ملنے والی چھٹیوں کی اس کے لیے بھی وہی اہمیت ہے جو دوسروں کے لئے ہے۔ اس کا جسم بھی آج بیحس و حرکت بستر پر پڑا رہنا چاہتا ہے پر اس کے اندر والی عورت کا بھوت نکل کر اسے اپنے قابو میں کر لیتا ہے اور اسے بے حسی سے پڑے رہنے کی اجازت نہیں دیتا، صبا بڑی بیچارگی سے مدد کے لیے سب کی طرف دیکھتی ہے پر اسے وہاں کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ .. پر کچھ لوگوں کی پرچھائیاں وہاں ہوتی ہیں۔ ..۔ بلال کی، راجو کی، پنکی اور منی کی۔ .. جو وہاں اتنے ہی موجود ہوتے ہے جتنی اس کی یادوں میں ماضی کی پرچھائیاں۔ ..وہ کام کرتے کرتے کب ماضی کی پرچھائیوں کے ساتھ ہوتی ہے اور کب حال کی۔ اسے خود پتا نہیں چلتا اسے اپنا زمانہ یاد آتا ہے وہ زمانہ جسے اس کے بچے پرانا زمانہ کہہ کر اس کی سوچوں کا مذاق اڑا دیتے ہیں اور اس وقت اس کے بڑے نیا زمانہ کہہ کر جھڑک دیا کرتے تھے – مگر اُس زمانے کا موہ اسے جکڑے رہتا ہے، اس زمانے کی بڑی بڑی ڈیوڑھیاں، آنگن، دالان اور ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والے خاندان اور ان کی تہذیبیں سب غائب ہو گئی ہیں۔  صبا نے سوچا بادشاہ اور نواب کی بات تو وہ نہیں جانتی پر حویلیوں اور کوٹھیوں کو سکڑ سمٹ کر گھر میں بدلتے اس نے اس زمانے سے اس زمانے تک آتے آتے ہی دیکھا تھا –تب اسے بھی چھوٹے اور خوش و خرّم خاندان کا تصوّر بڑا بھلا لگتا تھا۔ پر اب لگتا ہے بڑے خاندان کے ساتھ بڑے بڑے سہا رے اور امداد بھی غائب ہو گئے –نہ جانے کب اور کیسے خوشی کی گٹھری وہیں چھوٹ گئی اور ہم اپنے ساتھ صرف بوجھ اٹھا لائے۔ ..، چھوٹے بڑے کام کا بوجھ، تنہائی کا بوجھ لاتعلقی کا بوجھ۔ ..۔ اور وہ پرانی تہذیبیں ہی ہیں جو اس کی نسوں میں دشمن بن کر دوڑ رہی ہیں اور یہ یوں ہی ایک نسل سے دوسری نسل تک پہونچنے کی کوشش کرتی ہیں پر جب کسی نسل کے ساتھ دم توڑتی ہیں تو پورے معاشرے کو مردہ بنا جاتی ہیں –

"ممیی ی ی۔ ..۔ ” راجو کی آواز نے اسے ماضی سے حال کی پرچھا ئیوں کے بیچ کھینچ لیا۔

اس نے مکسر کا سویچ آف کیا، گلاس ٹرے میں لگا کراس میں موسمبی کا جوس ڈالا اور سب کو جا جا کر جوس کا گلاس پکڑا دیا، فون کی گھنٹی بج رہی تھی، راجو نے صبا کو اپنی طرف دیکھتے ہوئے پا کر کہا، ۔ ..”ممی دو اوور بچے ہیں پلیز آپ دیکھ لیں۔ ” صبا نے اپنا غصہ ضبط کر لیا اور فون کی طرف گئی۔ ..

"رہنے دو ممی میرا ہے۔ "موبایل پر سگنل نہیں مل رہا ہے۔ ”

صبا کا غصہ پھوٹ پڑا۔ .، "کس سے اتنی دیر سے بات کر رہی ہو۔ ”

منی نے کھا جانے والی نظروں سے ماں کو دیکھا اور فون اٹھا لیا۔

” یہ تم نے کس طرح مجھے۔ ..” اس سے پہلے کہ صبا کی بات پوری ہوتی، بلال کی آواز آئی،

” اب اس وقت تم لوگ لڑنے مت لگنا۔ ”

صبا کو اپنی ساس یاد آ گئیں، جو ہمیشہ ایسے موقعے پر بلال کو روک دیا کرتی تھیں – "ماں کچھ بھی بچّے کی بھلائی کے لئے بولتی ہے تم بیچ میں مت کودا کرو۔  ” صبا کا دل بھر آیا، اس بار حال کی نہیں پیچھے سی ماضی کی پرچھائیوں نے اپنا قد بڑا کیا اور اسے دبوچ لیا۔ ..صبا باورچی خانے میں چلی گئی، اور تیزی سے سبزیاں کاٹنے، چاول دھونے اور پیاز تلنے میں لگ گئی ۔

"ممی۔ ..۔ ممی۔ ..۔ کہ دیجئے میں گھر پر نہیں ہوں۔ ” پنکی بغیر چپّل کے ہی ہاتھ میں موبائیل لئے دوڑ کر آئی۔ صبا نے اس کے بغیر چپّل کے پیروں کو چڑھ کر دیکھا، آج ہی اس نے بستر کی چادر بدلی ہے۔  پھر اپنے گیلے ہاتھوں کو دیکھا۔

"لیجئے۔ .” پنکی اس سے ضد کر رہی ہے، وہ ساڑی کے آنچل سے ہاتھ پوچھ کر فون ریسیو کرتی ہے –

"کون آرتی۔ .؟۔ ..آدھے گھنٹے بعد کر لینا، وہ باتھ روم میں ہے۔ .. ہاں نہا رہی ہے –”

پنکی ماں سے ناراض ہو گئی کہ اس نے یہ کیوں نہیں کہا کہ وہ گھر پر ہی نہیں ہے۔

"کیوں جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے ؟”

” آپ نہیں سمجھتی ہیں ممی آ کر بیٹھ جائے گی۔ ”

"تو کون سا تم ضروری کام کر رہی ہو ؟”

” اتنے دن بعد دوستوں سے آن لائن ملی ہوں”

"جن دوستوں سے تم کبھی ملی نہیں آن کے لیے بچپن کی دوست سے۔ ..” اس کی بات پوری ہونے سے پھلے پنکی پیر پٹکتی ہوئی وہاں سے چلی جاتی ہے۔ ..اور صبا پھر سے اپنی پریشان سوچوں کے گرداب میں چکرانے لگتی ہے۔ ..۔ ماں باپ نے پھلے بچوں کو دوست بنایا، پھر دھیرے دھیرے اب وہ کسی بات میں دخل اندازی برداشت نہیں کرتے، بلال پر اپنے کام کی اتنی تھکن رہتی ہے کہ اسے ان چیزوں سے جیسے کوئی مطلب نہیں، سب اپنے اپنے محور پر بس گھوم رہے ہیں کسی کے پاس کسی کے لیے وقت نہیں، جیسے سب کا ساتھ ہونا ایک اتفاقی بات ہو، جیسے کچھ اجنبیوں کا ایک ہی کوپے میں سفر کرنا، ایک دوسرے کو جاننا سمجھنا ایک اجنبیت کے ساتھ اور الگ الگ منزلوں کے انتظار میں –اور صبا کو اپنی دخل اندازی ایسی ہی لگتی ہے جیسے آپ کسی دوسرے کی برتھ پر زبردستی اپنے لئے جگہ بنائیں، اور آپکی اس جرأت پر لوگ آپ کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھیں۔

"کھانا تیار ہو چکا تھا گرم گرم کھانا۔ ..صبا کو خوشی ہے کہ وہ آج اپنے سارے کام پر اپنے بچوں اور شوہر کو ترجیح دے کر ان کے لیے تر و تازہ کھانا تیار کر پائی ہے، جو روز نہ کر پانے پر اس کے اندر دہائیوں پھلے والی عورت اسے کچوکے لگاتی رہتی ہے۔ اور اسے اندر سے خوش نہیں رہنے دیتی مگر اس وقت صبا نے گنگناتے ہوئے ٹیبل پر کھانا لگایا سلاد، رائتہ، گوبھی۔ مٹر اور ٹماٹر کی سبزی، دال، زیرہ چاول اور گرم گرم گھی لگی روٹیاں۔ وہ پنکی اور منی کو آواز دیتی ہوئی بلال اور راجو کو بلانے چلی جاتی ہے۔ .

” چلو کھانا تیار ہے۔ ” اسے ایک منٹ کی دیر بھی اب منظور نہیں۔ ..

” ارے صبا بور مت کرو لا سٹ اوور چل رہا ہے –”

صبا کو غصہ آتا ہے۔ .”راجو تمہیں بھوک لگی تھی ؟؟؟”

” ممی یہیں پر پلیٹ میں لا دیں نا۔ . پلیز۔ . !”

"ہاں صبا۔ ..یہیں پر پلیٹ میں دے دو۔ .ایک دن تو چھٹی کا ملا ہے اسے اپنے طور پر جینے دو۔ .. ”

وہ پلٹ کر جانے لگتی ہے ” تمہاری ممی کو اس کے علاوہ اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ ..کھانا کھانا بس ہر وقت کھانا۔ ..”بلال اور راجو ایک ساتھ ہنستے ہیں۔ ..۔ صبا کو لگتا ہے اس کی بونی پرچھائیں اس کے قدموں سے الگ ہو کر اس پر ہنس رہی ہے۔

صبا کا سر ناچ رہا ہے نہ جانے تھکن سے، مایوسی سے یا غصے سے، اس سے زیادہ اس کے اندر والی عورت مجروح ہوئی ہے –وہ تیزی سے ڈائننگ ٹیبل کے پاس آتی ہے – پنکی اپنا کھانا لے کر واپس لیپ ٹاپ کے پاس جا چکی ہے، منی اسے غصے میں دیکھ کر جلدی سے ٹیبل پر آ جاتی ہے اور اپنا کھانا لے کر کھانے لگتی ہے، صبا نے بلال اور راجو کو پلیٹ میں کھانا نکال کر انہیں تھما دیا اور خود اسٹڈی ٹیبل پر جا کر بیٹھ گئی ٹیبل پر کاپیوں کا انبار لگا ہے اسکول کے امتحان کی رپورٹ بھی تیار کرنی ہے آج کا دن اس نے یوں ہی برباد کر دیا – منی اس سے پوچھنا چاہتی ہے آپ نہیں کھائیں گی۔ .؟ پر نہیں پوچھ پاتی اس کا موڈ دیکھ کر ڈر گئی ہے –صبا اپنے کام میں لگ جاتی ہے وہ اپنے کام میں اتنی محو ہے کہ اسے احساس ہی نہیں ہوتا کب بجلی چلی گئی – پا ور کٹ ہوتے ہی راجو کو اپنے باہر کے دوست یاد آ جاتے ہیں اور وہ ان کے ساتھ کھیلنے چلا جاتا ہے بلال اس کمرے سے اس کمرے میں آتے جاتے کھانس کھنکھار کر صبا کی توجہ کے متمنی ہیں، ” صبا تم نے کھانا کھایا۔ .؟” بلال نے پوچھا،

"یہ کام ختم کر کے کھا لوں گی، "صبا نے مختصر جواب دیا –

"کھانا اچھا تھا۔ !!”بلال نے کہا۔

صبا چپ ہے، وقت گزر جانے کے بعد الفاظ اپنی اہمیت کھو چکے ہیں –

"منی اور پنکی تو سو گئی ہیں _”بلال نے بات آگے بڑھائی۔ ..

"ہاں "جیسے بہت دور سے آواز آئی۔

"بہت بوریت ہے یار۔ ..کیا کروں ؟” بلال کی آواز میں احتجاج ابھر آیا۔

"سو جاؤ۔ ” صبا اپنے کام سے سر نہیں اٹھاتی۔ ..لیکن صبا نے محسوس کیا اس کے اندر کی چند دہائیوں پہلے والی مجروح عورت دور کھڑی حیران اور اجنبی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی ہے جیسے وہ اسے نہیں پہچانتی۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے