غزلیں ۔۔۔ رؤف خیر

اب ہو کر رہ گئے ہیں تبرک سنبھال رکھ

ماں باپ ہیں کہ شیشۂ نازک سنبھال رکھ

 

بوسیدہ ہو گئے ہیں یہ اوراق زندگی

ہے اور چھور ہی نہ کوئی تک سنبھال رکھ

 

چیلوں کی سلطنت ہے کھلے آسمان پر

اپنے کبوتروں کا بھی کا بک سنبھال رکھ

 

تیرے خلاف ہوں نہ یہ سرکس کے جانور

تو رِنگ ماسٹر ہے تو چابک سنبھال رکھ

 

باہر پٹاریوں سے کئی سانپ آ گئے

تو منتر اور عصائے تدارک سنبھال رکھ

 

تو بھی گیا سمجھ یہ اگر ہاتھ سے گیا

سینے سے ہی لگا کے تمسک سنبھال رکھ

 

اندھا یہ اعتقاد کسی کام کا نہیں

بنیاد ہے یقین کی تشکک سنبھال رکھ

 

تیشے ہی کی زبان سمجھتے ہیں سنگ دل

ان پتھروں کے سامنے مت جھک سنبھال رکھ

 

اثباتِ خیرؔ بھی ہے کہیں ردِ شر بھی ہے

یہ نظم و نثر خیر ہے توزک سنبھال رکھ

(*توزک عمداً استعمال کیا گیا ہے )

٭٭٭

 

سر نامہ بنا کر جسے ’’ واوین‘‘ میں رکھا

حیرت ہے اسی نے ہمیں قوسین میں رکھا

 

کچھ دن ہی میں رکھا ہے نہ کچھ رین میں رکھا

سچ تو ہے مرا چین ترے نین میں رکھا

 

کچھ لطف نہ شرقین نہ غربین میں رکھا

اب تیرے سوا خاک ہے کونین میں رکھا

 

خیموں کو تنافر نے غم و بین میں رکھا

تفضیلِ معاویّہ و حسنین میں رکھا

 

ہر ذرۂ پر نور کو پلکوں ہی سے چوما

سر جب بھی حرم زارِ شریفین میں رکھا

 

اک ہاتھ میں قرآن ہے ایک ہاتھ میں سنت

اُس نے تو ہمیں حلقۂ نورین میں رکھا

 

خاکی ہوں مگر خاک بسر ہو نہیں سکتا

دنیا کو یہی سوچ کے نعلین میں رکھا

 

اب پار اترنے کی توقع بھی کسے تھی

کاغذ کا سفینہ تھا جو بحر ین میں رکھا

 

دلّی کے حوالے ہوئے صادقؔ  جو تھے مولیٰ

کیا اپنے لیے خیرؔ  ہے اجینؔ میں رکھا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے