فکشن میں حقیقت نگاری اور حقیقت بیانی کا فرق ۔۔۔ پیغام آفاقی

 

فکشن نگاری کے مسائل دو طرح کے ہوتے ہیں :

 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

حقیقت کی دریافت

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 

(1) تحریر سے قبل کے ایک مرحلے میں مصنف اور حقیقت کے درمیان ایک فاصلہ ہوتا ہے۔ اس فاصلے کو کبھی کبھی تو وہ تحریر کے آغاز سے پہلے ہی ختم کر چکا ہوتا ہے اور کبھی کبھی تحریر کے دوران ہی حقیقت کی دریافت کے عمل سے گزرتے ہوئے ختم کرتا ہے۔ جہاں وہ تحریر کے آغاز سے پہلے دریافت کی منزل تک پہنچ چکا ہوتا ہے وہاں وہ حقیقت کو ایک خیال کی شکل میں پیش کرتا ہے۔ لیکن جہاں وہ تحریر کے ذریعے حقیقت کی دریافت کرتا ہے وہاں تحریر میں حقیقت کی صورت اور حقیقت شناسی کی بصیرت دونوں ہی عناصر شامل ہوتے ہیں۔ پہلی صورت میں فنکار خیال کو اپنے طور پر بیان کرتا ہے لیکن دوسری صورت میں وہ اس سفر کی روئداد لکھتا ہے جس کو طے کر کے وہ حقیقت کے روبرو پہنچتا ہے اور اس میں تحریر کا فارم تلاش کے فارم کے تابع ہو جاتا ہے۔ چونکہ حقیقت کے علاوہ حقیقت اور انسان کے درمیان کا رشتہ بھی اپنے آپ میں ایک حقیقت ہوتی ہے اس لئے اس نوعیت کی تحریریں حقیقت نگاری کے نقطہ نظر سے دوہری اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

قاری تک ترسیل

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 

پیشکش میں پہلی قسم کی حقیقت نگاری فارمل فکشن کی شکل لیتی ہے لیکن دوسری قسم کی حقیقت نگاری اپنے اندر دریافت کا جلوہ پیدا کرتی ہے اور اپنے کو پوری طرح اس کے تئیں سپرد کر دیتی ہے۔ ایسا فکشن قصے اور کردار سے بے نیاز دکھائی دے سکتا ہے ہر چند کہ وہ ایسا ہوتا نہیں بلکہ یہ اس کی فطری مجبوری ہے۔

(1) دوسری قسم کا فکشن قاری کے تئیں بہت ڈیمانڈنگ ہوتا ہے۔ اس کا آئیڈیل قاری وہ ہوتا ہے جو اسی کی طرح متجسس، ذہین اور فلسفیانہ ذہن کا ہو اور اس کے ساتھ ہمسفری میں اسے بھی مزا آئے۔ اور اس کو ساتھ رکھنے کے لئے اسے اکسٹرا لوازمات کا اہتمام نہیں کرنا پڑے۔ جو قاری اس سے اس طرح کی مطابقت نہیں رکھتے ہوں ان سے اس کی توقع یہ ہوتی ہے کہ وہ دوران قرأت تلاش و جستجو کی اسپرٹ کے تحت قرات کریں گے اور اپنے تخیل کو بھی پوری طرح اڑان پر آمادہ کریں گے اور اور اپنی یاد داشت کو بھی اس تلاش میں فعال کریں گے تاکہ ان کے ذہن میں بھی وہ سب کچھ خود بخود ابھرے جس کو مصنف نے طوالت سے گریز کرنے کے لئے بیان نہیں کیا۔

(3) اس طرح ان دو قسموں کے فکشن کے لئے دو طرح کے قاری ہوتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی مخصوص قاری ان دونوں طرح کے فکشن کو یکساں طور پر یا کم و بیش یکساں طور پر پڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

(4) کوئی ضروری نہیں کہ دوسری قسم کا فکشن مسلسل دوران تحریر ہی ترتیب پائے۔ بنیادی طور پر یہ ایک اسلوب کی شکل رکھتا ہے اور اس کا کنٹنٹ دوران تشکیل آگے پیچھے بھی جا سکتا ہے اور باہر سے درآمد بھی ہو سکتا ہے۔ در اصل اس اسلوب کا فارم خود ہی حقیقت کے بنیادی عناصر کو دریافت کی شکل میں سجانے کا جتن کرتا ہے۔ مکمل حقیقت کے عناصر کو اپنے اندر جذب اور ہضم کرنے کی صلاحیت ہی اس اسلوب کو ایک بھرپور اظہار میں تبدیل کرتی ہے۔

(5) داستانوں اور ناولوں کے عروج اور ان کے دور دورہ کے بعد دوسرے قسم کے فکشن کا وجود ہوا۔ ایسا فکشن زندگی کے حقائق کی قربت کو ہی اپنا جوہر مانتا ہے حتیٰ کہ نان۔فکشن تک کہے جانے کا خطرہ مول لیتا ہے۔ اس طرح کا فکشن فارمل ناول کے عناصر کو لازمی قرار دے کر لکھا ہی نہیں جا سکتا۔ ایسے فکشن میں مصنف خود راوی کے طور پر ایک کردار بننے پر بھی مجبور ہو جاتا ہے۔ ایسا فکشن روایتی قاری کے تصور افسانہ و ناول سے بری طرح ٹکراتا ہے۔ ایسے فکشن میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کنٹنٹ کو کس طرح پیش کیا گیا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ جو کنٹنٹ پیش ہوا ہے وہ مصنف کی نظر میں کیوں قابل ذکر ٹھہرا۔ اس کی اہمیت کیا ہے اور اس کی معنویت کیا ہے۔ ایسے فکشن میں مصنف کا ذہن اور اس کے ذہنی اعمال ہی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔ ایسے فکشن میں فکشن کی اہمیت اس کی پیشکش سے نہیں جوڑی جاتی ہرچند کہ پیشکش کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہوتی ہے۔ ایسا فکشن ایک طرح کی دریافت کی مہم ہوتا ہے۔ یہاں مصنف اپنی دریافت کو حقیقت تو کہتا ہے لیکن اس کو خیال کی طرح ایک حاصل شدہ اور آزمائی ہوئی شئے کے طور پر پیش نہیں کرتا۔ اس میں وہ تخلیقی لچک ہوتی ہے جو حقیقت کو اس کے بدلتے رنگوں کے ساتھ قید کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جبکہ اس کے برعکس خیال والے فکشن میں حقیقت ایک ٹھوس شکل میں سامنے آتی ہے جو حقیقت کی حقیقی تصویر نہیں ہوتی بلکہ اس کی یک رخی تصویر محض ہوتی ہے۔

(6) قاری فکشن کی اپنی جانکاری کی روشنی میں تصدیق کرتا ہے۔ اور اسی کی روشنی میں وہ فکشن کے حقیقی ہونے اور نہ ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔ تبصروں میں اکثر یہ پہلو آتا ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ قاری کے ذہن میں سماج کے مختلف افراد اور دنیا کی بہت سی چیزوں مثلاً جگہوں، اداروں وغیرہ کی فطرت کے بارے میں ایک خاص تصور ہوتا ہے۔ اگر فکشن میں اس سے مختلف بات آتی ہے تو قاری اسے قبول نہیں کرتا۔ اس بات کی مصنف کو جانکاری ہونی چاہئے۔

(7) حقیقت کی واضح اور بامعنی پیشکش۔ جس سے ایک نیا، ضروری یا کارآمد معنی ابھر کر سامنے آئے۔ اگر یہ عمل کی شکل میں آئے تو اور اچھا ہے کیونکہ اس سے اس بات کے مختلف پہلو ابھر کر سامے آتے ہیں۔

(8) زبان حقیقت کی سچی عکاس ہو اور اپنے مروجہ مفہوم سے معنی کی ترسیل میں گمراہی کی فضا نہ قائم کرے۔

(9) جس نقطہ نظر سے حقیقت کو دیکھا گیا ہے اس نقطہ نظر کو ٹھیک سے قائم کیا جائے تاکہ قاری وہیں کھڑے ہو کر چیزوں کو دیکھ سکے۔

(10) نئی حقیقتوں سے سب سے شدید ٹکراؤ اخلاقیات کا ہوتا ہے۔ کسی ناپسندیدہ کردار کو دیکھنے کے مصنف کے نقطہ نظر کو ممکن ہے کہ قاری قبول نہ کرے کیونکہ ایسا کرنے میں اسے یہ خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ کہیں یہ نقطہ نظر جو اس کے اخلاقی نقطہ نظر سے مختلف ہے اس کے شعور کا حصہ نہ بن جائے۔

(11) تحریر میں جہاں کہیں بھی صورتحال قاری کے مفاد کے خلاف دکھائی دیتی ہے وہاں قاری تحریر یا تحریر کے متعلقہ حصے کو پڑھتے ہی اپنے مفاد کے تئیں الرٹ ہو جاتا ہے اور اس کے اندر ایک ہنگامہ سا پیدا ہو جاتا ہے۔

(12) حقیقت اپنی جگہ لاکھ اہم اور ضروری صحیح لیکن قاری کی توقع یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اس طرح اس کے سامنے آئے کہ وہ اسے سمجھ سکے۔ اس سلسلے میں بیان میں سلاست اور مانوس زبان کی توقع کی جاتی ہے۔

(13) یہ درست ہے کہ مصنف کسی بات کو اسی لئے لکھتا ہے کہ وہ اہم ہے لیکن اس کی اہمیت کو قاری پر بھی واضح کرنا ضروری ہے۔

(14) فکشن کی حقیقتیں کردار اور ان کے اعمال اور ماحول اور واقعات کی صورت میں ہی سامنے آتی ہیں اس لئے فکشن میں کردار نگاری، واقعہ نگاری اور منظر نگاری کا حسب ضرورت استعمال ہونا چاہئے۔

(15) ان تمام باتوں کے اشتراک سے فکشن کا بیانیہ بنتا ہے۔

(16) اس کے ساتھ ہی فکشن نگار قاری کے ذہن تک حقیقت کو پہنچانے کے لئے قاری کے اندر اس حقیقت کے تئیں مختلف طریقوں سے دلچسپیاں بھی پیدا کرتا ہے جیسے سوال اٹھا کر، تجسس پیدا کر کے اور حقیقت کو قدرے سجا کر لیکن سجانے کا عمل وہیں تک ہونا چاہئے جہاں تک حقیقت کی تصویر بدلے نہیں کیونکہ اس کی تصویر بدلتے ہی وہ حقیقت نہیں رہ جائے گی اور تحریر کی صداقت ختم ہو جائے گی۔ مقبول اور تفریحی فکشن اکثر یہاں حقیقت سے انحراف کرتے ہیں اور حقیقت کا شائبہ پیدا کرتے ہوئے بھی ایک غیر حقیقی دنیا کی تعمیر کرتے ہیں۔

میں نے جس دوسری قسم کے فکشن کا ذکر کیا ہے اس میں فکشن میں ہمارے اپنے تجربے میں آئے ہوئے انسان ہی کردار بن جاتے ہیں اور درمیان میں روایتی ناول کا ماڈل کردار حائل نہیں ہوتا۔ اس اعتبار سے یہ فکشن روایتی فکشن سے یکسر مختلف نوعیت کی چیز ہے۔

افسانے میں بھی اس طرز کا فکشن روایتی افسانے سے الگ ہو گا۔ اور اس کی قدر و قیمت کرداروں کے تجزیہ سے نہیں بلکہ کرداروں کی موجودگی سے اٹھائے گئے سوالات سے قائم ہو گی کیونکہ یہاں کردار اخلاقی ماڈل کے طور پر پیش نہیں کئے جاتے بلکہ وہ اپنے وجود کی اہمیت کی وجہ سے فوکس میں آتے ہیں۔ ان کی حرکتیں اور نفسیات عجیب و غریب ہو سکتی ہیں۔ ان کا ایسا ہونا ہی مصنف کی توجہ کو کھینچتا ہے۔ اور مصنف یہ چاہتا ہے کہ اس کا قاری بھی اس کو اسی دلچسپی سے دکھے اور اپنے طور پر ری۔ایکٹ کرے۔ اور اس کے لئے وہ مصنف کا دست نگر نہیں رہے بلکہ اپنی آزادی کو مکمل طور پر برقرار رکھے۔ ایسے افسانے قاری کے ذہن میں چپک تو سکتے ہیں اور اس پر چپکے رہنے کی وجہ سے اس کے تصور حقیقت کو تبدیل کرتے رہیں گے لیکن وہ قاری کے ذہن پر کسی واقعہ کی طرح اثر انداز ہو کر اس کی یاد داشت کی پہلی صف میں جگہ بنا لیں یہ ان کا مدعا اور مقصد نہیں ہوتا۔ یعنی جہاں روایتی افسانے امپیکٹ کا استعمال کرتے ہیں وہاں یہ فکشن امپیکٹ کو بنیادی اہمیت نہیں دیتا لیکن جہاں امپیکٹ قاری کی سوچ میں پست میں بیٹھا رہتا وہیں یہ فکشن قاری کے ذہن کے پورے منظر نامے کی از سر نو تخلیق کرتا ہے۔ اس طرح یہ فکشن قاری کے دماغ کو مکمل طور پر تبدیل کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔یہ فکشن حقیقت کے سمندر کو فوکس کرتا ہے محض اس کی لہروں اور گرداب کو نہیں۔ یہ فکشن صرف سمندر کے قابل توجہ اور ارجنٹ مظاہر پر نظر نہیں رکھتا بلکہ ذہن میں سمندر کی پوری نوعیت کی ایک تصویر بناتا ہے۔ یہ فکشن ایک بڑے اور وسیع حقیقت کو اپنا  ٹارگیٹ بناتا ہے۔

یہ فکشن انشائیہ نہیں ہے ، مضمون بھی نہیں ہے ، کیونکہ یہ زندگی کی کلی حقیقت کی عملی اور متحرک تصویر ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ حقیقت کی ہمہ وقت حرکت و عمل کو اتنی ہی دلچسپی سے دیکھتا ہے جتنی دلچسپی سے روایتی فکشن اس پر صرف تب نظر ڈالتا ہے جب وہ سر پر آ پڑتی ہے۔ فرق کوتاہ نظری اور دور اندیشی کی ہے۔ یہ فکشن بڑی بصیرت کا اوزار ہے۔ اور عموماً بڑے ذہن کا تقاضا کرتا ہے۔

عالمی اور ملکی سطح پر مختلف میدانہائے زندگی میں ہو رہی حرکتوں اور تبدیلیوں کی سچی پیش کش اسی فکشن سے ممکن ہے۔ اسی وجہ سے روایتی فکشن اس وقت ماند پڑنے لگتا ہے جب کسی عالمی نوعیت کی حقیقت کو پیش کرنے کا معاملہ درپیش آتا ہے (یہاں عالمی اور آفاقی میں فرق کرنا ضروری ہے )– عالمی سروکار عمومی حالات میں واقعاتی نوعیت کے نہیں ہوتے اور جب تک وہ واقعات کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور بصیرت باسی ہو چکی ہوتی ہے۔ عالمی صورتحال کی چڑھتی ہوئی لہروں کو آخر کس طرح دکھایا جا سکتا ہے جبکہ ان کی شدت توجہ طلب ہوتی ہے۔ اس کے لئے پورے سمندر کو ایک حقیقت کے طور پر کینوس بنانا اور اس کی شکل و صورت کی عکاسی کرنا پہلی ضرورت ہو گی اور اگر ان کو عالمی افسانوی واقعات کی شکل میں پیش کیا جائے گا تو اس میں حقیقت بری طرح غیر حقیقی نوعیت اختیار کر جائے گی۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے