نیم لاش ۔۔۔ پیغام آفاقی

 

­­­­­­­__________________________________________________

شہر

­­­­­­­

اس کی نگاہوں کے کینوس پر شہر کی اونچی عمارتیں ابھرنے لگی تھیں۔ وہ درخت کے سائے میں آرام کرنے بیٹھ گیا۔ گاڑیوں میں خون سے لت پت اور نیم زندہ لوگوں کو لے جایا جا رہا تھا۔اور ان پر نصب بندوقیں چاروں طرف جھانک رہی تھیں۔ تیز دھوپ سے پوری فضا گرم ہو گئی تھی۔ اسے پیاس لگ گئی لیکن دور دور تک خشک گرم ہواؤں کے سوا کچھ نہ تھا۔ پاؤں پھٹنے لگے تھے۔

اس نے اپنے پھٹے ہوئے جوتوں کو دیکھا، ان پر کتنی دھول جم گئی تھی۔

وہ کہاں جا رہا ہے ؟

کتنے دنوں سے جا رہا ہے ؟

جب چلا تھا تو اس کے جوتے نئے تھے ، اب پرانے ہونے لگے ہیں۔

وہ یہی سب کچھ سوچتا رہا۔

 

­­­­­­­__________________________________________________

موٹر گاڑی

­­­­­­­

اس کی نگاہوں میں ایک کالی سی چیز ابھری اور پھر ابھرتی چلی گئی۔ ایک، دو بچے ، ایک موٹا سا چمکیلا آدمی۔ ڈرائیور کے سامنے شیشے پر جمی ہوئی دھول۔ اور پھر کار تھوڑی دور آگے جا کر رک گئی۔

وہ غور سے دیکھنے لگا۔ شاید چشمے والے نے مجھے تھی ہوئی حالت میں اس بیابان سی جگہ پر دیکھ کر گاڑی روک دی ہے۔

ڈرائیور نے بونٹ اٹھا کر کچھ ٹھیک کیا، اندر بیٹھا، چشمے والے نے کھڑکی سے جھانک کر باہر اس کی طرف دیکھا۔ اس کے بعد ڈرائیور نے باہر نکل کر اسے آواز دی۔

"آنا، بھیا، ذرا دھکا لگا دینا۔”

اوہ، کتنے مناسب وقت پر گاڑی خراب ہوئی ہے۔ اس نے سوچا اور ڈرائیور کی آواز پراس کے پھٹتے ہوئے پاؤں ہرے بھرے ہو گئے۔ وہ جھومتا ہوا دوڑ پڑا۔ دھکا لگایا۔ کار اسٹارٹ ہو گئی۔ سبھی دوبارہ اس میں بیٹھ گئے۔

Thank you very much.

کار دھول میں کھوگئی۔ چشمے والے نے سر باہر نکال کر مسکراتے ہوئے کہا۔

وہ سمجھ نہیں پایا تھا کہ اس سے کیا کہا گیا تھا۔ گاڑی میں خالی جگہ تھی۔ کہیں اس چمکیلے آدمی نے اس سے کار میں بیٹھ لینے کے لئے تو نہیں کہا تھا ؟ بگر وہ سمجھتا کیسے ، وہ تو کسی اجنبی آواز میں کچھ کہا تھا۔

وہ اپنے بھاری پاؤں گھسیٹتا ہوا پھر پیڑ کے نیچے آ کر بیٹھ گیا۔

موسم گرما میں ریت پر بھاگتے ہوئے بگولے ،

جھاڑیوں میں چھپے ہوئے جنگلی جانور،

اور پیاس !

اور کار !

 

­­­­­­­__________________________________________________

جنگل

­­­­­­­__________________________________________________

 

اس کے گھر میں آگ کیوں لگائی گئی تھی

اس کے عزیزوں کا خون کیوں کیا گیا تھا ؟

وہ اپنے وطن میں جلا وطن کیوں کیا گیا تھا ؟

مردے کتنا تیز بھاگ رہے تھے ، ؟ گاڑیوں پر۔

اور وہ زندہ تھا اس لئے چھوڑ دیا گیا تھا۔

وہ کتنا پیچھے چھوٹ گیا تھا۔

لیکن کیوں ؟

وہ تو وہاں سے خود بھاگا تھا۔

لیکن کیوں بھاگا تھا ؟

وہ کہاں جا رہا تھا ؟

شہر کی طرف۔ کیوں ؟ کس لئے ؟

شہر اس کی نگاہوں میں آ چکا تھا۔

اونچی اونچی عمارتیں،

سڑکیں، دکانیں، کاریں

ہسپتال، کونوینٹ اسکول، اسٹیڈیم، الیکٹرونکس کی دنیا، رقص، ایر کنڈیشنڈ کمرے۔

وہ کس کی تلاش میں جا رہا ہے ؟ وہ کہاں تک بھاگ سکتا ہے ؟

سڑک نگاہ سے بھی زیادہ لمبی ہے اور اس کے پاؤں بہت چھوٹے ہیں۔

ان سڑکوں پر تو رولر کے رولر گھس کر کنڈم ہو جاتے ہیں۔ پھر اس کے جوتوں میں کیا رکھا ہے۔

 

­­­­­­­__________________________________________________

کاروبار

­­­­­­­__________________________________________________

 

پٹرول سے آنسوؤں کا کیا مقابلہ۔ کوئی مقابلہ نہیں۔

اسی لئے تو اس کا مکان لٹ گیا۔ وہ لٹیرے کون تھے جو کل آئے تھے اور زندگی کو موت میں بدل گئے تھے۔ اور یہ کون ہیں جو مردوں کو اٹھائے لئے جا رہے ہیں ؟ یہ کیسا کاروبار ہے ؟ یہ مردوں کو کہاں لئے جا رہے ہیں ؟

سب کچھ جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ مجھے کیوں نہیں لے جا رہے ہیں۔

 

­­­­­­­__________________________________________________

شکار

­­­­­­­__________________________________________________

 

اس کے سامنے درخت پر ایک چڑیا بیٹھی تھی۔ وہ اسے غور سے دیکھنے لگا۔ اگر میں بھی اسے مار کر کھا جاؤں تو کیا ہو جائے گا ؟ لیکن آگے ؟ بغیر بھنا ہوا گوشت کھانا، کچا گوشت کھانا، درندگی ہے !

کچھ نہیں۔ سب بکواس ہے۔

کوئی فرق نہیں پکے ہوئے گوشت میں، بھنے ہوئے گوشت میں اور کچے گوشت میں۔

بھوک اس کے پیٹ کو کاٹ رہی تھی۔

پیاس سے اب اس کا حلق سوکھ گیا تھا۔

سامنے کا پتھر اٹھاکر اس نے مارا اور چڑیا گر پڑی۔

اس جا کر چڑیا کو اٹھایا۔ دانتوں سے اس کا گلا کاٹا لیکن خون کے صرف چند قطرے نکلے۔ اس کی پیاس باقی رہ گئی۔ پھر اس نے اس کے پر نوچے اور لگ بھگ ہڈیوں سمیت اسے کھا گیا۔

بھون کر کھانا چاہئے تھا۔ اسے لگا وہ خود دھوپ میں سامنے پھیلی ہوئی ریت میں بھنا جا رہا ہے اور جیسے تھوڑی دیر میں وہ بھنتا ہوا بے ہوش ہو جائے گا۔ کباب، لذیذ کباب بن جائے گا اور کوئی گاڑی اسے بھی اٹھا لے جائے گی۔

ایک کار پھر سامنے رکتی سی لگی اور گزر گئی۔

ایک گاڑی پھر لاشوں سے بھری ہوئی شہر کی طرف چلی گئی۔کی بھوک ختم نہیں ہوئی تھی اور سفر لمبا تھا۔

” مجھے بھی ان لاشوں میں سے ایک دے دو۔”

اس نے کہنا چاہا لیکن بندوقیں دیکھ کر ڈر گیا۔ چڑیا کی بچی کھچی ہڈیاں اس کے سامنے پڑی تھیں۔

 

­­­­­­­__________________________________________________

دھول

­­­­­­­__________________________________________________

 

تھوڑی دیر تک وہ پھر اپنے چاروں طرف دیکھتا رہا۔

اب وہ پھر شہر کی طرف جا رہا تھا۔

کاروں، گاڑیوں کا ایک ریلا پھر آیا اور گزر گیا۔

 

­­­­­­­__________________________________________________

نیم لاش

­­­­­­­__________________________________________________

 

وہ زندہ ہوتے ہوئے بھی نیم لاش ہو چکا تھا۔

وہ چل پڑا۔

ایک گاڑی کی رفتار پھر کم ہوئی۔ اس نے گاڑی کی طرف دیکھا۔ لیکن وہ تو اسے للچائی ہوی بظر سے دیکھ رہے تھے جیسے قصائی بکرے کے گوشت کے وزن کا اندازہ لگاتا ہے۔ وہ پیچھے ہٹ کر سڑک کے بالکل کنارے چلا گیا اور گاڑی رفتار بڑھا کر آگے نگل گئی۔

ہوا اور گرم ہوئی۔

دھول اور اڑی۔

جوتے کا تلوہ ٹوٹ گیا۔

پاؤں جلنے لگے۔

اور وہ نیچے سے گھسنے لگا۔

لیکن وہ گھستا رہا اور چلتا رہا۔

پھر اس کے پاؤں ٹخنوں سے اوپر تک گھسنے لگے۔ اس کے بازوں گھس کر پیچھے گر گئے لیکن وہ بڑھتا رہا۔

شہر اس کی نگاہوں میں تھا۔

اور اب وہ نیچے سے آنکھوں کی جڑ تک گھس گیا تھا۔

اور صرف دو آنکھیں کھوپڑی سمیت دماغ کو اپنے اوپر لئے ہوئے شہر کی طرف بڑھتی جا رہی تھیں۔ اب وہ شہر کی گھنی ٹریفک کے درمیاں آ چکا تھا لیکن وہ اتنا چھوٹا ہو چکا تھا کہ گاڑیوں کے درمیان کھو گیا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے