غزلیں ۔۔۔ اعجاز گُل

(فیس بک میں آخری پوسٹ کی ہوئی غزل)

 

پڑے ہوئے ہیں کام سب عجیب امتحان میں

کوئی رکا ہے ابتدا میں کوئی درمیان میں

 

جو اڑ رہے ہیں شرق کو تو جا رہے ہیں غرب کو

ہوا بدل رہی ہے طائروں کے رُخ اڑان میں

 

برستے مینہ میں دھوپ نے کسی شگافِ ابر سے

اچھال دی ہے ہفت رنگ پینگ آسمان میں

 

غبار ہے فلک پہ انجمن کے اختتام کا

ستارہ بجھ رہا ہے یا کسی کا کہکشان میں

 

نہیں ہے سہل ڈھونڈنا کہ ایک ہم مزاج کا

ہجوم چھ ارب کا بس رہا ہے اس جہان میں

 

خدا کے اذن سے ہے اہرمن نے اِس زمین کو

لیا ہوا فساد کی حفاظت و امان میں

 

تو طنطنہ سوا ہے ان کی بات چیت میں اگر

ہے طمطراقِ بود و باش اہلِ عزّ و شان میں

 

کھنچے ہوئے ہیں دائیں بائیں خط دروغ و صدق کے

خبر نہیں اُدھر ہوں یا اِدھر کہ درمیان میں

 

ہے بعدِ ربطِ صد زیاں وہ فرصت و فراغ اب

نہ میں کسی کے دھیان میں نہ کوئی میرے دھیان میں

٭٭٭

 

 

 

 

گونج سے دیتا ہے ہونے کا پتا خالی نہیں

شہر بستے ہیں مکینوں سے خلا خالی نہیں

خامشی اُس کی کنایہ ہے اگر اثبات کا

رمز سے انکار کی بھی اَن کہا خالی نہیں

 

ایک جاتا ہے تو دو آتے ٹھہرنے کے لئے

ہجر زادوں سے کبھی ہجرت سرا خالی نہیں

 

سیدھے رستے پر روانہ تھا تو ویرانی سے تنگ

الٹے رستے پاؤں دھرنے کو بھی جا خالی نہیں

 

گر نہیں تھا خط تو لائی نا مرادی کا غبار

اُس گلی سے آئی یہ قاصد ہَوا خالی نہیں

 

کچھ زمیں پر اہرمن کی ہے بہت رسّی دراز

کچھ دگر کارِ خدائی سے خدا خالی نہیں

 

اِس جہاں کی انتہا کا کیا ہو اندازہ کہ جب

صنعتِ کاریگری سے ابتدا خالی نہیں

 

بس کہانی سے ہے آیا اپنے حصّے میں ملال

ورنہ راحت سے یہاں ہر واقعہ خالی نہیں

 

کچھ سبب تو ہے جوابِ مدعا میں دیر کا

ابتری سے لگ رہا یہ التوا خالی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

ماورا عقل سے جو شے ہے کہوں کیسے ہے

ہوئی تعمیر یہ دنیائے فسوں کیسے ہے

 

دخل قسمت کا ہے یا حکمتِ افعال کی رمز

کوئی بھی قوم سر افراز و نگوں کیسے ہے

 

بات بے بات بھڑک اٹھتا ہے کیوں میرا دماغ

آگ غصّے کی تہہِ موجِ سکوں کیسے ہے

 

جس کے مصرف میں ہیں ناکام چرند اور پرند

نطق آور وہ زباں مجھ میں فزوں کیسے ہے

 

کس سبب رکتا ہے یہ سانس کا آنا جانا

منجمد ہوتا رگ و تار میں خوں کیسے ہے

 

خاک ساکت ہے جدھر آب جہاں کم رفتار

اُس زمیں پر یہ ہوا دوڑتی یوں کیسے ہے

 

کس کشش سے یہ خلا گھوم رہا ہے ، سر پر

سقف سا بے در و دیوار و ستوں کیسے ہے

 

صرف آدم ہے خطا کار تو سیّارے پر

ان گنت خلقِ دگر خوار و زبوں کیسے ہے

 

نادرست ایسے اگر ہے تو ہے ویسے کیوں ٹھیک

جو ہے ناخوب کہ یوں خوب وہ یوں کیسے ہے

 

کس کے جادو سے ہے فردا پسِ دیوار نہاں

اور امروز عیاں جوں کا یہ توں کیسے ہے

٭٭٭

 

 

 

 

بات اور بے بات پر وہ آن و ایں کا شور ہے

ہر نہیں پہ ہاں کا ، ہر ہاں پر نہیں کا شور ہے

 

کھینچتا پھرتا ہوں دشمن پر خلا میں تیر کو

جب کہ وجہِ خوف مارِ آستیں کا شور ہے

 

گھومتی ہے سر پہ چرخی چرخِ نیلی فام کی

اور نیچے سانس میں اٹکا زمیں کا شور ہے

 

دسترس میں جن کی محمل تھا ہوا محمل نصیب

کھو گیا صحرا میں ہر صحرا نشیں کا شور ہے

 

کشتیاں الٹی پڑی ہیں بحرِ احمر میں کہیں

ماتمِ طفل و زناں ہے تارکیں کا شور ہے

 

ہر مسافر کو غلط فہمی کہ آگے ہے رواں

اٹھ رہا قدموں سے راہِ واپسیں کا شور ہے

 

گفتگو سے ہے رگ و تارِ سماعت منقطع

خامشی اب دُور کی نزد و قریں کا شور ہے

 

چل رہا بے انتظامی سے ہے اپنا انتظام

لا حکومت ملک میں بس حاکمیں کا شور ہے

٭٭٭

 

 

تماشا ایک سا ہر روز کرتے جا رہے ہیں

غبارہ عمر کا سانسوں سے بھرتے جا رہے ہیں

 

ضروری کام ٹلتا جا رہا ہے آج کل پر

کفِ افسوس مَلتے دن گزرتے جا رہے ہیں

 

بسائیں گے نگر پانی پہ نو زائیدگاں کل

علاقے خاک کے انساں سے بھرتے جا رہے ہیں

 

مقدّر ساعتِ نا سعد سے ٹکرا رہا ہے

ستارے ٹوٹ کر گرتے بکھرتے جا رہے ہیں

 

طلب لا حاصلی کے سحر سے پتھرا گئی ہے

ارادے بے ارادہ ہو کے مرتے جا رہے ہیں

 

ہراساں کر رہا ہے چاپ پر غولِ سگاں بھی

مسافر اپنے سائے سے بھی ڈرتے جا رہے ہیں

 

کھڑے ہیں آئینے سے دُور بے نقش و نگاراں

جنہیں حاصل قد و قامت سنورتے جا رہے ہیں

 

جو چہرے تھے عزیز از جان سب دوری کے باعث

نگاہ و دل کے منظر سے اترتے جا رہے ہیں

 

میں اونچائی پہ چڑھتا جا رہا ہوں بے خبر سا

کہ زینے واپسی سے اب مکرتے جا رہے ہیں

 

جو بے اسباب تھے تکتے ہیں مُنہ اک دوسرے کا

جو با اسباب تھے آگے گزرتے جا رہے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

جو دن بھی تقویم سے نکلے باطل ہوتا ہے

آج سے خارج ہو کر کل میں شامل ہوتا ہے

 

گنتی میں اس عمر کی بعدِ تقسیم و تفریق

صفر حسابِ لا حاصل کا حاصل ہوتا ہے

 

جسم زیادہ دیر رہے آنکھوں سے اوجھل تو

رفتہ رفتہ دل بھی دل سے غافل ہوتا ہے

 

شرط نہیں ہے جھوٹ کہ سچ کی جو کثرت میں ہو

کمتر جا کے اُس اکثر میں شامل ہوتا ہے

 

کھل جاتا ہے نیند کا تالا دھوپ کی چابی سے

اور سورج خوابوں کے اندر داخل ہوتا ہے

 

پانی تنہا دریا ہے تو ریت اکیلی دشت

ریت اور پانی کے ملنے سے ساحل ہوتا ہے

 

اس کا ہے احوال جدا جو ظاہر سے آگے

ایک سرابِ خفتہ صورتِ منزل ہوتا ہے

 

جس کا علم سے یارانہ ہے مشغولِ تدریس

وہ مکتب سے فارغ ہے جو فاضل ہوتا ہے

 

آساں کو اس کی آسانی رکھتی ہے آسان

مشکل اپنے مشکل پن سے مشکل ہوتا ہے

٭٭٭

 

 

 

رفت و گزشتِ ذات پر ہنس بول لیں ذرا

غم میں خوشی کی بات پر ہنس بول لیں ذرا

 

اس شامِ نثریات میں ہو کر غزل سرا

فعلن پہ فاعلات پر ہنس بول لیں ذرا

 

نسیاں کی دست برد سے محفوظ رہ گئیں

یادوں کی باقیات پر ہنس بول لیں ذرا

 

اس عہدِ نامراد کی لا حاصلی کے بیچ

کل کے میسّرات پر ہنس بول لیں ذرا

 

در کھولتا رہا ہے جو ناممکنات میں

اُس وقتِ ممکنات پر ہنس بول لیں ذرا

 

تھے کتنے حادثات جو سر سے گزر گئے

کچھ ایسے معجزات پر ہنس بول لیں ذرا

 

دنیائے بے ثبات پر رونا تھا رو لئے

آ وارداتِ ذات پر ہنس بول لیں ذرا

 

سود و زیاں کے کھیل میں جو بھی ہے دستیاب

اِس حاصلِ حیات پر ہنس بول لیں ذرا

 

ان بعدِ خرچ بچ گئے زنبیلِ عمر میں

انفاس پانچ سات پر ہنس بول لیں ذرا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے