زبیر رضوی سے میں کم کم ملا ہوں۔ اور بڑے طویل وقفوں کے بعد۔ ملاقاتوں میں طویل وقفے حائل ہو جائیں تو ایک اجنبی پن در آتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود مجھے زبیر کی شخصیت میں کوئی تبدیلی نظر نہ آ سکی، وہی اپنا پن، وہی دلکشی ہاں۔ ہر بار ان کی شاعری پہلے سے کچھ مختلف ضرور محسوس ہوئی۔ اُن کی شاعری میں فکر و خیال کے نئے پڑاؤ اور طرزِ احساس کے نئے منطقے روشن نظر آئے۔ شخصیت اور فن کے مابین یہ دو رخی یا تضاد کہئے، کہ شخص وہیں کھڑا رہے اپنی مثبت روایات اور مستحکم قدروں کی زمین پر پاؤں جمائے اور اس کے اندر جو شاعر چھپا بیٹھا ہے، گذرتا ہوا وقت اُسے نئے تجربات، نئے احساس اور نئے علوم کی قبائیں اوڑھائے، اپنے پنکھوں میں سمیٹے نئے نئے جہانوں کی سیر کراتا پھرے۔ زبیر کی شاعری پڑھتے ہوئے مجھے ایسا لگا کہ اس سفر کے دوران اُنہیں جن جن مناظر کی دید حاصل ہوئی، انہوں نے وہ سب کچھ لفظوں میں قید کر کے اپنی شاعری کے ذریعے اپنے قاری تک پہنچانے کا پورا پورا اہتمام کیا ہے۔
میں نے جب حیدرآباد کی ادبی فضا میں آنکھ کھولی اُس وقت تک زبیر دہلی جا چکے تھے۔ "ہم لوگ ذرا دیر سے بازار میں آئے "۔ زبیر رضوی کو میں مشاعروں میں سُن چکا تھا، رسائل میں پڑھتا رہا تھا لیکن اُن سے باقاعدہ پہلی ملاقات ۱۹۵۹ء میں ہوئی۔ مجھے کراچی کا سفر در پیش تھا۔ ویزا دہلی سے لینا تھا اور ویزا کے حصول کے لیے چند روز دہلی میں میرا قیام ناگزیر تھا۔ شاذ تمکنت نے زبیر کے نام ایک خط میرے حوالے کر دیا۔ میں سوچ سکتا تھا شاذ نے اس خط میں کیا لکھا ہو گا۔ زبیر نے مجھ سے کچھ ایسے خلوص اور محبت کا برتاؤ کیا گویا یہ میں نہیں بلکہ شاذ اُن کے مہمان ہوں۔ زبیر، شاذ اور عوض سعید میں آپس میں بڑی محبتیں تھیں۔ یہ لوگ بھی عجیب تھے اور ان لوگوں پر ہی کیا موقوف تھا اس زمانے کے سارے شاعر، ادیب عجیب و غریب تھے۔ ملتے تھے تو ٹوٹ کر، گویا یک جان دو قالب ہوں َ لڑتے تو اُپی ہوئی تلوار بن جاتے لیکن اختلاف کی نوعیت زیادہ تر ادبی یا نظریاتی ہوتی اور کیسے قد آور لوگ تھے۔ شاعروں میں علامہ حیرت، مخدوم، شاہد صدیقی، خورشید احمد جامی، سب کے لیے نہایت محترم۔ کس کس کا ذکر کیجئے ؎
جمگھٹے دیکھے ہیں جن لوگوں کے ان آنکھوں نے
آج ویسا کوئی دے ہم کو دکھا ایک ہی شخص
ان کے علاوہ شاعروں ہی میں اریب، شاذ، زبیر، مغنی تبسم، انور معظم، وحید اختر، عزیز قیسی، وغیرہ ادبی ماحول ایسا نہیں جیسا اب ہے، کچھ اور تھا۔ ہر شخص کو یہ فکر کہ کس نے کیا لکھا ہے، کہاں چَھپا ہے، ادبی بحثیں، نجی محفلیں، مشاعرے۔ مشاعروں میں زبیر کی مقبولیت اوروں سے زیادہ تھی۔ اُن کی غزلیں اُن کا ترنّم۔ ادبی رسائل میں زبیر کی جو توقیر تھی سو الگ۔ حالاں کہ یہ زبیر کی شاعری کا ابتدائی دور رہا ہو گا لیکن اس زمانے میں لوگوں کا ادب سے کمٹ منٹ ہی ایسا تھا کہ آپ کوئی اچھی نظم، غزل لکھیں، کہیں یہ چھپے تو اس کی شہرت لکھنو، حیدرآباد، علی گڑھ، دہلی سے ہوتی ہوئی کراچی، لاہور، مردان تک پہنچ جاتی۔ اسے نہ ڈاک کی ضرورت تھی، نہ ہوائی جہاز کی، نہ ٹیلی فون کی۔ اور ٹیلی فون، ہوائی جہاز کی سہولت تو بس چند ذی حیثیت لوگوں تک محدود تھی۔ شاعر، ادیب عام طور پر مفلس ہوتے تھے۔ تو کہنے کا مطلب مختصراً یہ کہ اس زمانے میں زبیر یا اُن کے ہم رتبہ دوسرے شعراء کی شہرت، مقبولیت یا ہر دلعزیزی کسی کھوٹے سکّے یا پی۔ آر کی مرہون منت نہیں بلکہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی بنا پر تھی، ارضِ دکن سے وابستہ یہ وہ لوگ تھے جن سے پچاس اور ساٹھ کی ادبی فضا جگمگا رہی تھی۔ اگرچہ زبیر حیدرآباد میں کم ہی رہے لیکن شاید وہ خود اپنے آپ کو حیدرآباد سے الگ کر کے اپنے بارے میں نہ سوچ سکیں۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب زبیر رضوی کا پہلا شعری مجموعہ "لہر لہر ندیا گہری” منظر عام پر نہیں آیا تھا، لیکن زیادہ تر رسائل کی وساطت سے اور کم کم مشاعروں کے میڈیم سے اس مجموعے کی بیش تر تخلیقات با ذوق قارئین تک پہنچ چکی تھیں۔ ایک بات میری فہم سے بالا تر ہے کہ شعر، ادب میں تقلیدی رویئے کی مذمت کی جاتی ہے لیکن تنقید میں اگر یہی تقلیدی رویہ عام ہو جائے تو ہمارے لیے قابلِ قبول ہو جاتا ہے۔ زبیر رضوی کے مجموعے "لہر لہر ندیا گہری” کے بعد کی شاعری کی بڑی پذیرائی ہوئی اور بجا طور پر ہوئی لیکن اگر اس مجموعے کے بعد کی شاعری میں زبیر رضوی کے ذہنی رویئے میں واضح تبدیلی نظر آتی ہے اور ایک نئے باطنی احساس کی تشکیل یا شعور کی پھیلتی ہوئی حدوں کا احساس ہوتا ہے اور ہم اس کی قدر کرتے ہیں تو یہ بڑا صحت مندانہ رویہ ہے لیکن اسی بنیاد پر "لہر لہر ندیا گہری” کی شاعری کے بارے میں اگر کسی نے کچھ کہہ دیا تو سب اس شاعری کو مسترد کر دیں اور کہیں کہ اس میں تو بس حسن و عشق کے موضوعات ہیں، یہ زبیر رضوی کے ساتھ سراسر زیادتی ہو گی۔ اگر ایسا ہے تو ہمیں ناصر کاظمی، شاذ تمکنت، ابن انشا، عزیز حامد مدنی اور ایسے کئی بہت اچھے شاعروں کو بھی رد کرنا پڑے گا۔ لطف کی بات یہ کہ اسی مجموعے میں زبیر رضوی کی کئی نظمیں ایسی بھی ہیں جن پر ہم یہ تہمت نہیں لگا سکتے۔ پھر بھی اُنہیں خاطر میں نہیں لاتے۔ "لہر لہر ندیا گہری” میں شامل زبیر کی نظم "تبدیلی” کے یہ مصرعے دیکھئے :
صبح دم جب بھی دیکھا ہے میں نے کہیں
ننھے بچوں کو اسکول جاتے ہوئے
رقص کرتے ہوئے گنگناتے ہوئے
اپنے بستوں کو گردن میں ڈالے ہوئے
انگلیاں ایک کی ایک پکڑے ہوئے
صبح دم جب بھی دیکھا ہے میں نے اُنہیں
میرا جی چاہتا ہے کہ میں دوڑ کر
ایک ننھے کی انگلی پکڑ کر کہوں
مجھ کو بھی اپنے اسکول لیتے چلو
تاکہ یہ تشنۂ آرزو زندگی
پھر سے آغازِ شوقِ سفر کرسکے
(نظم — "تبدیلی”)
موضوع کی حد بندیوں سے قطع نظر اس مجموعے کی اور بھی کئی نظمیں ہیں جیسے "بیکراں "، مُصالِحت”، "نارسا” جو آج بھی زبیر کی بہترین نظموں میں اپنی شمولیت پر اصرار کرتی ہیں۔
زبیر رضوی سے میری دوسری ملاقات ۱۹۷۰ ء میں ہوئی، تقریباً گیارہ سال بعد۔ میں دفتر کی ایک ٹریننگ کے سلسلے میں جئے پور، کُلو، منالی ہوتے ہوئے براہِ دہلی، ٹرین سے حیدرآباد لوٹ رہا تھا۔ ٹرین روانہ ہوئی اور چند اسٹیشنوں کے بعد ایک اسٹیشن پر میں چائے پینے کے لیے نیچے اترا تو وہاں زبیر رضوی کھڑے تھے، اُن کی منزل کوئی اور شہر تھا۔ اس غیر متوقع ملاقات سے بہت خوش ہوئے۔ بولے میرا نیا شعری مجموعہ آیا ہے۔ میرے ساتھ ہے اگلے اسٹیشن پر تمہیں دوں گا۔ یہ ان کا دوسرا مجموعہ "خشتِ دیوار” تھا۔ پھر ایک طویل عرصہ ہو گیا اور بس ابھی چند سال پہلے اُن سے اچانک اسی طرح مڈبھیڑ ہو گئی۔ جیسے ٹرین کے سفر کے دوران وہ ملے تھے۔ علی گڈھ کے ویمنس کالج کے Centenary Celebrations کے موقع پر کالج کی پرنسپل آمنہ کشور نے بڑے پیمانے پر ایک مشاعرہ منعقد کیا تھا۔ نہ جانے میرا نام اُنہیں کس نے سجھایا، انہوں نے اس مشاعرے میں مجھے بھی مدعو کر لیا۔ میں زبیر کو دیکھ کر خوش اور زبیر مجھے دیکھ کر حیران تھے، یہاں ایک ایسا سانحہ ہوا کہ جس روز مشاعرہ تھااسی روز دن میں کالج کی ایک طالبہ نے خود کشی کر لی۔ شام کی چائے پر منتظمین نے ہمیں Honorarium دینے اور یہ اطلاع دینے کی خاطر بلایا کہ اب یہ مشاعرہ نہیں ہو سکے گا۔ زبیر رضوی کا یہ اصرار کہ جب ہم مشاعرہ نہیں پڑھ رہے ہیں تو معاوضہ بھی کیوں قبول کریں، لیکن ایسی باتیں کون سنتا ہے، ظاہر ہے ہم سب نے مخالفت کی اور منتظمین تو کسی طور نہیں مانے، زبیر کی اصول پرستی دھری کی دھری رہ گئی۔ پھر رات کے کھانے کے بعد میں اور زبیر گیسٹ ہاؤز کی دوسر ی منزل کی جانب جانے والی سیڑھیوں پر رات دیر گئے تک بیٹھے رہے۔ زبیر اپنی اور شاذ کے عشق کی داستانیں مجھے سناتے رہے۔ کیسے زبیر کی محبوبہ کے گھر والوں نے اُس پر پابندیاں عائد کر دی تھیں اور جب زبیر اُسے دیکھنے کے لیے ترس ترس گئے تو شاذ نے یہ ترکیب نکالی کہ زبیر خط لکھیں اور شاذ ڈاکیہ بن کر یہ خط پہنچانے اُس کے گھر جائیں زبیر پاس ہی کونے میں چھپے کھڑے رہیں اور پھر جب وہ لڑکی دروازہ کھولے تو زبیر اسے دیکھ لیں اُس سے مل لیں۔ لیکن دروازہ کسی اور نے کھولا۔ اُس کے باپ یا کسی بھائی نے۔ اور وہ ایک نوجوان کو جو حلیے بشرے سے ڈاکیہ لگتا ہی نہ تھا، دیکھ کر ذرا شک میں پڑ گئے۔ پھر یہ دونوں نوجوان، ڈاکیہ اور اس کا ساتھی ایسے سرپٹ بھاگے کہ کوئی دیکھے۔ نہ جانے اس لڑکی کا کیا حشر ہوا۔
اُس باتوں بھری رات سے ملاقات کے بعد زبیر سے ملاقاتوں کا سلسلہ سا نکل آیا، غالب انسٹی ٹیوٹ کے ایک سمینار اور پھر مشاعرے میں اُن سے ملاقات ہوئی۔ زبیر کئی بار حیدرآباد آئے۔ پریم چند پر نہایت بڑے پیمانے پر ایک سمینار منعقد کرنے حیدرآباد ہی میں …، پھر یہاں مخدوم پر سمینار اور دو ایک بار مشاعرے میں شرکت کے لیے۔ تو کبھی سید خالد قادری کے مہمان بن کر۔ میں بھی وہیں کہیں آس پاس رہا۔
اس دوران زبیر رضوی کے کئی مجموعے آ چکے تھے۔ "خشت دیوار” کے بعد "دامن”، "پرانی بات ہے "، "دھوپ کا سائبان”، "انگلیاں فگار اپنی” اور حال ہی میں ان کی منتخب نظموں پر مشتمل کتاب "سبزۂ ساحل”۔ زبیر پہلے ہی خاصے مقبول تھے۔ لیکن اِدھر پچھلی دو تین دہائیوں میں ان کا ایک نیا امیج اُبھر رہا تھا۔ ایک اچھے شاعر کے ساتھ ساتھ ایک ذہین، باخبر، دانشور کا۔ اُن کی تنقیدی تحریروں، خود نوشت، ۱۹۶۰ء اور ۱۹۸۰ء کی نظموں کے انتخاب، اور اُن کے سہ ماہی رسالے "ذہنِ جدید” کے سبب جس میں اردو کی عمدہ تخلیقات کے علاوہ دیگر ہندوستانی زبانوں کے شہ پارے، آرٹ، تھیٹر، رقص، مصوری پر مشتمل خود ان کی تحریر یں اور تراجم۔ اپنے قاری کے دل و دماغ کو ایک نئی بصیرت سے آشنا کر رہے تھے۔ یہ رسالہ اُنہوں نے مخدوم اور سلیمان اریب کی یاد میں جاری کیا تھا۔ یہ اُن منفرد شعراء اور حیدرآباد کی سر زمین سے زبیر رضوی کی محبت اور وابستگی کا ایک اور ثبوت تھا اگر واقعی ایسے کسی ثبوت کی ضرورت تھی۔
"خشتِ دیوار” میں شامل "مضطرب لمحوں کا سفر” کے عنوان سے شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنے مضمون میں جو تحسین آمیز باتیں لکھی ہیں اُن سے ہر با ذوق قاری اتفاق کرے گا۔ اختلاف کی گنجائش وہیں ہو سکتی ہے جہاں اُنہوں نے زبیر کی پچھلی شاعری پر رائے زنی کی ہے۔ فاروقی صاحب نے صحیح لکھا ہے کہ "خشت دیوار تک آتے آتے اب زبیر مسائل سے خود کو ہم آہنگ یا identify نہیں کرتے بلکہ implyکرتے ہیں اور اُس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فن پارہ محدود اور منطقی نہ رہ کر غیر محدود اور وجدانی ہو جاتا ہے، انہوں نے زندہ شعری پیکر خلق کیے ہیں "۔ فاروقی نے زبیر کی نظموں "پرایا احساس”، "رقیب شوق” اور ایک نظم "شریف زادہ” جو بہت مقبول ہوئی اس کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ یہ نظم اس طرح شروع ہوتی ہے ؎
سنو کل تمہیں ہم نے مدراس کیفے میں
اوباش لوگوں کے ہمراہ دیکھا
وہ سب لڑکیاں بد چلن تھیں جنہیں تم
سلیقے سے کافی کے کپ دے رہے تھے
لیکن اس مجموعے میں اور بھی نظمیں ہیں جیسے "خوشبو کی اسیری”، "ملاقات” جو یوں ختم ہوتی” "دل ستم پیشہ ہے رازوں کو اُگل دیتا ہے
رات معصوم ہے رازوں کو چھپا لیتی ہے "۔ غزلوں کے کئی اشعار ہیں جیسے ؎
زندگی جن کی رفاقت پہ بہت نازاں تھی
اُن سے بچھڑی تو کوئی آنکھ میں آنسو بھی نہیں
وضع ارباب جنوں کھینچ کے ملے ہے ہم سے
پھول ٹانکے ہیں نئے ہم نے گریبانوں میں
ترے بدن کی دھنک سو گئی صلیبوں پر
ہوس ہوئی ہے شناسائے رنگ و بو جب سے
پتھر کی قبا پہنے ملا جو بھی ملا ہے
ہر شخص یہاں سوچ کے صحرا میں کھڑا ہے
تم پاس جو ہوتے تو فضا اور ہی ہوتی
موسم مرے پہلو سے ابھی اُٹھ کے گیا ہے
یہ اور ایسے کئی اشعار ہیں جن میں زبیر کی تخلیقی انفرادیت ہمیں متوجہ کرتی ہے۔ یہی بات ان کے مجموعے "دامن” کے بارے میں کہی جا سکتی ہے جس میں کئی خوب صورت نظمیں ہیں جیسے "دوپہر”، "گورے کالے پتھر” وغیرہ۔
زبیر رضوی اپنے مجموعے "سبزۂ ساحل” میں دیباچے کے طور پر اپنے تخلیقی سروکار کے بارے میں لکھتے ہیں "میری جدیدیت ایک Updated classicism تھی۔ میری شاعری میں جو ۱۹۶۰ء کے بعد کی حسیت کی دین تھی، اس کو برتتے ہوئے میں جدید بھی تھا، قدیم بھی…” پھر یہ جملے کہ "میں نے اپنے پہلے مجموعے "لہر لہر ندیا گہری”سے "سبزۂ ساحل”تک خود کو دُہرانے یا اپنی ہی تقلید کرنے کا رویہ نہیں اپنایا۔ اس کے بر خلاف خود کو رَد کرنے کا عمل برابر اپنائے رکھا۔ میرے خیال میں خود کو رَد کرنے کا مطلب اپنی شاعری کو ایک نئی صورت دینے کے عمل سے گزرنا ہے "۔ زبیر رضوی کے دَرون میں قدیم و جدید کی یہ آمیزش اور خود کو رَد کرنے کی یہ خُو۔ ان عوامل نے اُنہیں وہ حکائی لہجہ عطا کیا جس کے زیر اثر "پرانی بات ہے ” کی سلسلہ وار نظمیں ظہور میں آئیں اور کہا گیا کہ "زبیر رضوی کے بارے میں یک رخی اور تاثراتی تحریروں کا سلسلہ یکایک اس وقت رُک سا گیا جب ان کی حکائی لہجے کی نظموں کی اس سیریز کو پڑھ کر نظم کے پارکھوں اور تفہیم سازوں کا لہجہ اور رویہ ہی بدل گیا___” شمیم حنفی نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے بجا لکھا ہے کہ ان نظموں میں "آدمی سطح کے اوپر تیرتے ہوئے بار بار مڑ کر پیچھے کی طرف دیکھتا ہے۔ کبھی گم شدہ اس کے لیے موجود کی مثال ہوتا ہے کبھی موجود غائب کی مثال ___، پرانی بات ہے کے سلسلے کی تمام نظمیں اسی لیے مجھے اپنے ماضی و حال میں ایک ساتھ پیوست دکھائی دیتی ہیں۔ یہ ایک نیا اور نامانوس اسلوب تھا، تجدد پرستی کے پروردہ اُن تمام اسالیب کے مقابلے میں جو اپنی تکرار کی بنا پر پرانے ہو چکے تھے "۔ مجھے زبیر رضوی کی یہ نظمیں پڑھتے ہوئے لگا کہ یہ نظمیں کینٹو یا کانتو ہیں۔ جیسے بائرن کی "چائلڈ ہیرلڈ” یا ن۔ م۔ راشد کے دوسرے مجموعے "ایران میں اجنبی” میں شامل کینٹو۔ جنہیں راشد "قطعے ” کہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ راشد کے خیال میں CANTO اطالوی زبان میں اس طویل نظم کے حصوں کو کہیں گے جو مسلسل گائی یا ترنم سے پڑھی جا سکے اور جس میں بہت سا متنوع مواد جمع کیا جا سکتے۔ راشد نے عراق اور ایران کے جنگ کے زمانے کی کشاکش کو بیان کرنے کے لیے پہلے "البرز کے دامن میں ” کے عنوان سے ایک ناول لکھنا چاہا پھر سوچا کہ جو باتیں ذہن میں ہیں اُن کے لیے نظمیہ اظہار زیادہ موزوں رہے گا اور نظم ہی کو بہتر وسیلۂ اظہار جانا۔ برسبیل تذکرہ ایک بات کہوں، ایک بار شفیق فاطمہ شعریٰ سے گفتگو کے دوران راشد کے مجموعے "ایران میں اجنبی” کا ذکر آیا تو ہنس کر کہنے لگیں راشد ایران میں اجنبی کب سے ہو گئے ؟ وہ تو ایران میں رہے ہیں نہیں انہوں نے تو بس وہاں کے ملٹری کیمپس دیکھے ہیں۔ ایران میں اجنبی تو دراصل رومی عطاّر اور ثنائی تھے جنہیں صفوی سلاطین نے خود اپنے ہی ملک میں اجنبی بنا دیا۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا اور یہ میری نہیں شعریٰ کی رائے ہے، ہم اس رائے سے اتفاق کریں یا نہ کریں اس رائے کا اطلاق زبیر کی "پرانی بات ہے ” والی نظموں پر نہیں کرسکتے : ان نظموں میں اگر زبیر اپنے ہی ملک، اپنے شہر، اپنے گاؤں میں اجنبی نظر آتے ہیں تو اس لیے کہ اُنہیں اپنے ارد گرد حقائق کے چہرے مسخ نظر آتے ہیں، انسانی اقدار پامال نظر آتی ہیں۔ نا انصافی عام ہے، فحاشی، بے حیائی، عریانی اب خواب گاہوں سے نکل کر کھلے عام، بازاروں، گلیوں، محفلوں میں دعوتِ نظارہ دے رہی ہے۔ سچائیاں کہانیاں بن کر رہ گئی ہیں۔ زبیر رضوی ان سچائیوں کا چہرہ دیکھنے کے لیے اپنے بزرگوں کی تصویریں البم سے نکالتے ہیں، تاریخ کے اوراق اُلٹتے ہیں اور پھر تاریخ سے بھی آگے اُن وادیوں کا سفر کرتے ہیں جہاں تخیل کی غیر معین حدیں دائرہ بناتی ہوئی اُن کے وجود کا رشتہ، پھر اپنے عہد اور اپنی زمین سے جوڑ دیتی ہیں۔ "پرانی بات ہے ” کی نظموں کا زمانی کینوس بہت وسیع ہے۔ یہ نظمیں بہ یک وقت، تجسس، تلاش اور احتجاج کا سمبل ہیں۔ "علی بن متقی رویا”، "کتوں کو نوحہ”، "بشارت پانی کی”، "کبوتر باز جب روئے "، بد چلن بزرگوں کا قصہ” اس مجموعے کی نمائندہ نظمیں ہیں۔ زبیر رضوی کی طویل نظم "صادقہ” بھی اسی فکری رَو کا تسلسل ہے جس کے تحت "پرانی بات ہے ” کی نظمیں معرِضِ وُجود میں آئیں۔ یہ نظم اسی فریب شکستگی کا نقطۂ عروج ہے۔ اپنے عہد کا ایسا نوحہ جو opposite poles کی طرح تمام تر تاریخ انسانی کے نوحے سے جڑنے کے لیے مضطرب ہے۔ انسانی جذبات، تاریخ کا جبر، ایٹم کی تباہ کاریاں، جسمانی ارتباط، روحانی انسلاکات، خیر و شر کے مظاہر، امید کے روشن سائے، اس نظم کو زمینی اور غیر معمولی زمانی امکانات سے متصل کرتے ہیں، آیئے دیکھیں یہ نظم کس سے مخاطب ہے، کیا کہہ رہی ہے ؎
صادقہ ! چاند بجھ گیا
رات اکیلی رہ گئی
ایک اندھیرا ہر طرف
ڈستا ہوا قدم قدم
خوف کے تیر چار سُو
چبھتے ہوئے بدن بدن
___
صادقہ ! عرصۂ حیات رنگ بہت بدل چکا
لوگ بہت بدل گئے، ملک بہت بدل گئے
اور محاذِ جنگ کے اسلحے سب بدل گئے
میرے تمہارے سارے خواب آنکھ میں جم کے رہ گئے
ایک نئی زبان میں ایک نئے نظام کی
ایک نئی کتھا لکھو
صبح کے انتظار میں رات کا گریہ مت سنو
زبیر نہیں چاہتے کہ رات کے اس گریہ کی آواز "صادقہ” یا ان کے قاری کے کانوں تک پہنچے یا وہ خود ہی یہ آوازیں سنیں، لیکن اس گریہ کا شور ہم سب کی سماعت کا مقدر ہے۔ اب زبیر چاہتے ہیں وہ سارے خواب جو اُن کی آنکھوں میں جم گئے ہیں، مردہ ہیں پھر سے جی اُٹھیں۔ وہ کہتے ہیں ؎
آؤ کسی پہاڑ سے آدم خاک کے لیے
دستِ دعا اُٹھائیں ہم
صوت و صدا کی مشعلیں
چار طرف جلائیں ہم
زبیر رضوی کی شاعری صوت و صدا کی ان ہی مشعلوں کو جلانے کا اہتمام ہے۔ زبیر خواب دیکھنا چاہتے ہیں عشق کرنا چاہتے ہیں اُن کی شاعری ہر ناانصافی کے خلاف احتجاج سے عبارت ہے۔ وہ ایک نئی صبح کا انتظار کر رہے ہیں جس میں ایک نئی زبان میں ایک نئی کتھا لکھی جا سکے۔
"پرانی بات ہے ” کی نظموں، "صادقہ” اور ۲۰۰۵ء کے بعد کی کئی نظموں کے ذریعے زبیر رضوی نے ہمیں ایک نئے فکری اسلوب اور طرز احساس سے روشناس کیا ہے۔ لیکن خود کو مسلسل رَد کرنے کے عمل میں اب دیکھنا یہ ہے کہ زبیر رضوی اگلے آنے والے برسوں میں اپنی شاعری کو کن نئی جہتوں سے آشنا کریں گے اور اپنے قاری کو کن نئے جہانوں کی سیر کرائیں گے۔
_______
("تحریر نَو”
"متاعِ سخن”)
٭٭٭