اور روشنی بجھ گئی۔۔۔ ۔۔۔ جلیل حیدر لاشاری

اُسے یاد تھا جب امیر ہمسائے کا لڑکا نئے اور قیمتی کھلو نے لے کر اُس کے گھر آتا اور اُسے کھیلنے کے لیے بلاتا اور کبھی کبھی ان قیمتی کھلونوں کا رعب بھی جھاڑنے کی کوشش کرتا تو اُس کے دل میں کبھی بھی یہ خواہش پیدا نہیں ہوئی کہ یہ کھلونے اُس کے پاس بھی ہوں۔ صرف ایک دفعہ اُس نے اپنی ماں سے یہ ضد ضرور کی تھی کہ اُس کے پاس بھی یہ کھلونے ہونے چاہئیں مگر پتہ نہیں ماں نے کس طرح اُسے سمجھایا یا ڈانٹا کہ اُس نے اس کے بعد کھلونوں کی کبھی خواہش نہیں کی۔

جب بڑا ہوا تو سکول میں بھی اُس نے کبھی غربت کی وجہ سے خود کو کم تر محسوس نہیں کیا، آدھی قیمت پر پرانی کتابیں خریدنا، کاپیوں کی بجائے ردی کاغذ استعمال کرنا اور قیمتی پینوں کی بجائے معمولی ایگل پین رکھنا اُس کا معمول تھا۔ سکول میں جب تفریح کا وقفہ ہوتا تو لڑکوں کا ٹک شاپس پر میلہ سا لگ جاتا، ہر کوئی اپنی مرضی کی چیزیں خرید کر مزے مزے سے کھا رہا ہوتا۔ اگر اتفاق سے اس کی نظر ان ٹک شاپس پر لگے جھمگٹ پر پڑ بھی جاتی تو وہ شانِ بے نیازی سے نظر دوسری طرف پھیر لیتا۔ کالج میں بھی اُس کے دل میں کبھی پینٹ شرٹ پہننے کی خواہش پیدا نہ ہوئی حالانکہ اس کے سمارٹ جسم پر پینٹ شرٹ خوب سجتی۔ ایک دفعہ دوستوں کے اسرار پر وہ چپکے سے لنڈے بازار سے پینٹ شرٹ لے بھی آیا۔ لیکن پہن کر اسے ایسے لگا جیسے وہ ایک چلتا پھرتا جھوٹ ہو۔ اپنی حیثیت سے بڑھ کر دِکھنا بھی اسے جھوٹ لگتا تھا۔ دو چار گھنٹے پہننے کے بعد اس نے پینٹ شرٹ ایسی اتاری کہ پھر کبھی نہ پہنی۔ ظاہری شان و شوکت، عمدہ لباس اور گفتگو کے عجیب و غریب سٹائل اسے سب کھوکھلے اور مصنوعی لگتے تھے۔ وہ ان عمدہ لباس والوں، انگریزی فر فر بولنے والوں اور اپنے آپ کو آسمانی مخلوق سمجھنے والوں کے اندر کے کھوکھلے پن سے خوب واقف تھا، اس لیے اُس کے دل میں کبھی ان کی پیروی یا ان سے حسد کا جذبہ پیدا نہیں ہو ا تھا۔ نئی چمکتی کاریں اس کے آگے سے "شاں ” کر کے گزر جاتیں، کبھی کبھی تو پیچھے اتنی گرد اُڑاتیں کہ اُس کا سارا چہرہ گرد سے اٹ جاتا تھا یا سڑک پر پڑے گندے پانی کے چھینٹوں سے اُس کے کپڑے تک بھیگ جاتے تو اُس کے دل میں کار والوں کے خلاف ہلکا سا غصہ ضرور پیدا ہوتا جو صرف چند لمحوں کے لیے ہوتا تھا۔ لیکن اس کے دل میں اپنی کار رکھنے کا کبھی خیال نہیں آتا تھا شاید اس لیے کہ وہ کار خریدنے کی سکت نہیں رکھتا تھا یا وہ مکمل صوفی بن چکا تھا۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ اسے اس وقت تھوڑی خوشی ضرور ہوتی تھی جب کوئی کار والا اپنی کار پنکچر کیے یا پٹرول ختم کیے یا کسی اور فنی خرابی کی وجہ سے کار سے باہر نکل کر پاگلوں کی طرح اِدھر اُدھر دیکھ رہا ہوتا یا خراب کار کو دھکا لگوا رہا ہوتا تو یہ سب مناظر دیکھ کر اُس کے منہ سے بے ساختہ ہنسی ضرور نکل جاتی تھی۔ اور اُسے اپنے پاس کار نہ ہونے کی خوشی بھی ہوتی تھی !۔

مگر آج وہ کار حاصل کرنے کے لیے پاگل ہو رہا تھا۔ ساری نیم خوابیدہ خواہشیں بڑی بے دردی سے جاگ اُٹھی تھیں۔ خواہشوں نے تیز دھار نوکیلے خنجر کی شکل اختیار کر لی تھی جو اس کے دل کو بار بار چیرے جا رہی تھیں۔ وہ جانتا تھا کہ اپنا سارا مال و اسباب فروخت کر کے بھی وہ کار نہیں خرید سکتا مگر پھر بھی کبھی نہ ضد کرنے والا دل آج ضد پر اتر آیا تھا۔

ہوا یوں تھا کہ جب شام ڈھل رہی تھی تو وہ اپنے شوقِ آوارگی کی تسکین کے لیے شہر کے باہر سڑک کے کنارے نکل آیا تھا۔ اسے ڈوبتے سورج کا منظر بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ سورج جو دوپہر کو ہر شے کو جلا دیتا ہے شام کو اس انداز سے ڈوبتا ہے جیسے دوپہر کو اس نے نوخیز کلیوں اور پھولوں کو جھلسایا تک نہ ہو۔ وہ سورج کی اس منافقت پر خوب ہنستا تھا، آج بھی وہ سورج کو ڈوبتا دیکھ رہا تھا۔ سورج آہستہ آہستہ ڈوب رہا تھا اور تاریکی آہستہ آہستہ طلوع ہو رہی تھی۔ اچانک پیچھے سے ایک کار نہایت ہلکی رفتارسے اس کے قریب سے گزری جس میں سے موسیقی کے نام پر ایک شور آ رہا تھا وہ حسب عادت بے نیاز ہو کر چلتا رہتا مگر موسیقی کے بے ہنگم شور کو دباتے ہوئے اک بھرپور قہقہے نے اسے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ اسے سامنے کے منظر پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ وہ پھٹی پھٹی نظروں سے کار اور کار میں بیٹھے سواروں کو دیکھ رہا تھا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا اس کے ساتھ جینے اور مرنے کی قسمیں کھانے والی صائمہ اپنے نئے ہمسائے کے ساتھ سب سے زیادہ قہقہے لگا رہی تھی۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ اسے یاد آ رہا تھا کہ ایک دن صائمہ نے اس سے کہا تھا کہ اگر ساری دنیا ایک طرف ہو جائے وہ پھر بھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑے گی۔ اُس کو پانے کے لیے اگر اسے ساری دنیا کو بھی چھوڑنا پڑا تو وہ یہ سب کر گزرے گی۔ وہ بار بار اسے اپنی غربت کی سنگینی سے آگاہ کرتا مگر ہر بار وہ خود سپردگی اور خوبصورت عہدو پیمان کر کے اس کے غریب ہونے کے احساس کو مٹا دیتی تھی۔ مگر آج تو وہ اپنے نئے ہمسائے کے ساتھ نئی کار میں بیٹھی بہت خوش دکھائی دے رہی تھی اور ستم تو یہ کہ قہقہے پر قہقہے لگائے جا رہی تھی۔ کار اس کے پاس سے کافی وقت ہوا گزر گئی تھی مگر اس کی آنکھوں میں وہ منظر ٹھہر گیا تھا۔ اسے اپنے غریب ہونے کا بہت شدت سے احساس ہو رہا تھا۔ آج اس کے دل میں پہلی بار کہیں سے یہ خواہش سر اُٹھا آئی تھی کہ اس کے پاس بھی اپنی کار ہونی چاہیے۔ اسے خود بھی اپنی اس عجیب خواہش پر حیرت ہو رہی تھی وہ اپنے اندر اس تبدیلی کو سمجھ نہیں پار ہا تھا۔

تاریکی گہری ہوتی جا رہی تھی مگر چاند جو کہ اس رات اتفاق سے چودھویں کا تھا بڑی آب و تاب سے نکل رہا تھا۔ اس کے ذہن میں بس یہی اک بات آ کے ٹھہر گئی تھی کہ اس کے پاس بھی کار ہونی چاہیے تاکہ وہ بے وفا محبوبہ کو دکھا سکے۔ اسے آج یہ بات بہت عجیب لگ رہی تھی کہ امیروں کے پاس اتنی ساری دولت ہے، اتنی ساری خوشیاں ہیں اور غریبوں کے پاس صرف اور صرف آنسو ہیں جنہیں پونچھنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔

وہ دیر تک انہیں باتوں میں الجھا رہا۔ رات اپنا سفر طے کر رہی تھی، چاند پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ سڑک کے کنارے کھڑے گندے پانی میں بھی چاند کا عکس بہت اجلا اور خوبصورت دکھائی دے رہا تھا مگر یہ ساری خوبصورتی، یہ سارا ماحول کا حُسن اس کے بدن کو اور آگ لگا رہا تھا۔ جاڑے کی رات اور دور سے کتوں کے بھونکنے کی آوازوں نے ماحول میں عجیب سی اک اداسی گھول دی تھی۔ ایک سرد ہوا کے جھونکے نے اس کے بدن میں گویا آگ لگا دی تھی۔ وہ دیوانہ وار قہقہے لگانے لگا” کار، یہ کار ہے کیا چیز، مَیں ابھی کار حاصل کر سکتا ہوں، ابھی اور اسی وقت !!”اچانک اسے محسوس ہو ا اس کے اندر بہت زیادہ طاقت آ گئی ہے۔ اتنی طاقت کہ وہ چلتی گاڑی کو روک بھی سکتا ہے۔ وہ پاگلوں کی طرح سڑک پر دوڑنے لگا اور کسی آنے والی گاڑی کا انتظار کرنے لگا۔ وہ سڑک پر دوڑے جا رہا تھا۔ وہ اپنے آپ کو سپر مین محسوس کر رہا تھا۔ سامنے سے ایک روشنی ابھری۔ اُس روشنی نے اس کے وجود میں پڑے گلتے سڑتے اندھیرے کا گلا گھونٹ دیا تھا۔ اُس نے ایک نعرۂ مستانہ بلند کیا اور جھومتا ہوا آگے بڑھا۔ روشنی تیز ہو کر قریب آتی جا رہی تھی اور اس کی خوشی میں اور اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اسے پتہ نہیں کیوں یقین تھا کہ وہ اس کار کو روک لے گا اور اس میں بیٹھے ہوؤں کو کار سے نکال کر باہر پھینک دے گا اور خود اس میں بیٹھ کر سیدھا صائمہ کے پاس پہنچ جائے گا۔ اور اس کو بتائے گا یہی کار تھی ناں جس نے تمہیں مجھ سے جدا کر دیا تھا ۔ بڑھتی ہوئی روشنی اور قریب آ گئی تھی وہ بھی دیوانہ وار اس روشنی کی طرف دوڑے جا رہا تھا۔ پھر اچانک ایک دھماکہ ہوا اور روشنی بجھ گئی!

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے