گیبریل گارشیا مارکیز کا ناول ’’تنہائی کے سو سال‘‘ عالمی نو آبادیات و استعمار کے تناظر میں ۔۔۔ ڈاکٹر محمد خرم یاسین

اجالا بہ سبب تاریکی ہے اور تاریکی کے مطالعے کے بنا روشنی کی کھوج ممکن نہیں۔ انسانی زندگیاں کی بیش تر بڑی مشکلات، فطرت کے خلاف خود کو توانا رکھنے کی جستجو کے بجائے خود انسانوں کے تخلیق کردہ مسائل سے نبرد آزما ہونے کے سبب ہیں۔ انسان، جو مادی دنیا میں اپنے مفادات عزیز تر رکھتا ہے اور فطرتاً بہ جانب تاریکی جلد مائل ہو جاتا ہے، اگر مثبت رویے ترک کر دے تو وہ انفرادی اور اجتماعی، دونوں سطحوں پر ڈارون کے نظریہ ارتقا پر عمل کرتا ہے جس کا مطلب ہے اپنی بقا و نسلی آبیاری کے لیے دیگر ہر ایک کو مسل کر رکھ دینا۔ ڈارون کا نظریہ دنیا بھر کی استعماری قوتوں کا منشور رہا ہے اور ہر استعمار نے نوآبادیات تخلیق کرتے ہوئے نسلِ انسانی کی تاریخ کو سیاہ تر ہی کیا ہے۔ مابعد نوآبادیات کے اثرات و ثمرات، کبھی اس ابتدائی نقصان کو پورا نہیں کر پائے جو جبر و استبداد کے شکنجے نے مادی اور روحانی سطح پر انسانیت کو پہنچایا۔ اس ضمن میں ناول ’’تنہائی کے سو سال‘‘ (One Hundred Years of Solitude) جسے حکومتَ پاکستان کے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے ادبِ عالیہ کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے، کولمبیا اور لاطینی امریکہ کی نوتاریخیت، نوآبادیات، استعمار و تسلط، تہذیبی اختلاط، ثقافتی شناخت کی کھوج اور مسائل کا گہرا تنقیدی اور بصیرت افروز مطالعہ پیش کرتا ہے۔ ناول کا کینوس بہت وسیع ہے اور اس کی دیگر جہات میں سیاست، مذہب، نفسیات، تاریخِ عالم، جغرافیہ اور بشریات ایسے علوم شامل ہیں۔

یہ ناول بظاہر تو بوئندا خاندان کی سو سالہ کثیر النسل تاریخ پر مبنی ہے جو ایک خوابوں کی سرزمین ’ماکونڈو‘ کو مسکن بناتے ہیں لیکن، در حقیقت یہ زمین پر انسان کی پہلی آباد کاری اور اس کے اثرات و ثمرات کا بھی آئینہ دار بھی ہے۔ یہ اس بات کی نشان دہی بھی کرتا ہے کہ کس طرح استعماری قوتیں سادہ لوح انسانوں کو اپنے خونی شکنجے میں جکڑتی چلی جاتی ہیں، لڑواتی ہیں، قدرتی ذخائر کی لوٹ مار کرتی ہیں، سائنسی ایجادات، جبر و استبداد، تشدد، استحصال، بد عنوانی، پالتو غنڈوں اور اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے اپنی حکومت قائم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔ نو آبادیات (کالونیلزم) جو ایک تاریخی عمل ہے، نیو ورلڈ آرڈر کے تحت دنیا کو ایک نئی شکل دے چکا ہے۔ چوں کہ ناول کا وقوعہ استعماری پنجے میں جکڑا ہوا ہے اس لیے ناول کے خطے کی تاریخ، سیاست اور ثقافت، استعمار کے زیرِ اثر تشکیل پاتی دکھائی دیتی ہیں۔ ناول اس حبس زدہ ماحول میں انسانی نفسیات کی بھی گہری عکاسی کرتا ہے اور جنس سے مذہب تک، ہر موضوع پر شناخت کے مسائل کو زیرِ غور لاتا ہے۔ ردِ عمل کے طور پر استعماری قوتوں کے خلاف قومیت‘ کی تشکیل کے لیے اٹھتے ہاتھ اور پھر ان کا نادیدہ انداز میں استعماری قوتوں کے آگے سرنگوں ہونا بھی نظر آتا ہے۔ یوں ناول کو عالمی سچائیوں کا علم بردار کہنا بے جا نہ ہو گا۔ ناول کا پہلا حصہ نو تاریخیت، دوسرا حصہ استعمار اور تیسرا نوآبادیات سے تعلق رکھتا ہے۔

ناول نگار گیبریل گارشیا مارکیز کو اس کی وسیع النظری، تاریخی تناظرات کا وسیع مطالعہ، ایک سو سالہ تاریخ کی کڑی تنقید اور سخت حقیقت نگاری اور اس پر فینٹسی کا تڑکا جس نے جادوئی حقیقت نگاری کو جنم دیا، کی وجہ سے نہ صرف ناول کو عالمی پذیرائی ملی، تراجم کا سلسلہ دراز ہوا بل کہ انھیں 1982ء میں ادب کے نوبل پرائز سے بھی نوازا گیا۔ مارکیز نے، جو 6 مارچ 1928 کو کولمبیا میں پیدا ہوئے اور جنہوں نے 17 اپریل 2014 کو میکسیکو میں وفات پائی، ادب اور صحافت کی خدمت کی اور کئی اہم ناول لکھے لیکن عالمی شہرت ’تنہائی کے سو سال‘، ’پیٹریاک کی خزاں‘، The Autumn of the Patriarch (1975) اور ’وبا کے دنوں میں محبت‘ (1985) Love in the Time of Cholera کے حصے میں آئی۔

’’تنہائی کے سو سال‘‘ کو بیسویں صدی کے ادب کی سب سے بڑی تخلیقات میں سے ایک اور تاریخ اور فکشن کا حسین سنگم سمجھا جاتا ہے۔ مارکیز کی کتابوں کے موضوعات عموماً طنز، تنہائی، جادوئی حقیقت نگاری، تلخ حقیقت پسندی، تشدد اور مذہب بیزاری، نو آبادیات اور نو تاریخیت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ آزاد آدمی تھے اور ان کا زندگی کے مسلمات بشمول مذہب کسی کی بھی اکملیت پر کامل یقین نہیں تھا۔ ان کی پیدائش لاطینی امریکہ ایسی سرزمین پر ہوئی جو کہ جنگ و جدل سے تعبیر تھی اور خانہ جنگی سے بڑی طاقتوں کے سامراج تک کی جبریت کا شکار رہی تھی۔ اس پر مستزاد یہ کہ سولھویں اور سترھویں صدی میں بالخصوص یورپی ممالک نے تسلط قائم کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے وہی اوچھے ہتھکنڈے اپنائے جو بعد ازاں انھوں نے بر صغیر سمیت تقریباً تمام ہی نوآبادیات میں اپنائے تھے۔ یوں سیاسی بے اعتدالی بھی اس علاقے کے حصے میں آئی۔ اس کے علاوہ یہ خطہ قدرتی آفات جن میں زلزلے، سیلاب، طوفان اور ان کے نتائج کے طور پر دیگر بہت ساری متعدی بیماریوں سے گھرا رہا تھا۔ ایسی مصیبت زدہ اور تلخ حقائق والی سرزمین پر مارکیز ایسے بڑے ادیب کا پیدا ہونا بعید از قیاس نہ تھا۔ مارکیز کے مطابق وہ حقیقت نگار ہیں لیکن کچھ قارئین اس لیے اس میں اجنبیت محسوس کرتے ہی یا تحیر میں مبتلا ہوتے ہیں کہ وہ مارکیز کے پس منظر سے ناواقف ہیں۔ اسی ضمن میں مارکیز کہتے ہیں:

’’آپ میری کوئی کتاب اٹھا لیں۔ میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ کس سطر کے پیچھے کون سی حقیقت یا کون سا واقعہ ہے۔‘‘ (1)

ڈاکٹر راج کمار بھی مارکیز کے ناول کو تیسری دنیا کے ممالک کے سیاسی المیے اور کولمبیا کی تاریخ سے تعبیر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ:

"Another important feature of the third world countries is the political turmoil which is an everyday event. Marquez’s novels discuss a great deal of politics through his magical realism. The political situation in his country is the highest reality that he expresses through his novels. It must be noted that Marquez points out that the oppression of the citizens under an authoritarian government never changes even in third world countries even when the foreign government is replaced by an indigenous one. Moreover these countries have highly unstable governments, resulting in civil wars” (2)

مارکیز ہی نہیں، تیسری دنیا کا کوئی بھی ذمہ دار ادیب جب قلم اٹھاتا ہے تو ملکی سیاست، معیشت اور معاشرت کے مسائل پر ضرور خامہ فرسائی کرتا ہے۔ استعماری قوتوں کے زیرِ تسلط رہنے والے ممالک کے مسائل، حالات اور تاریخ میں یکسانیت ہے۔ ناول کا مرکزی خیال یہ ہے کہ بے راہ روی، خروج، گناہ اور نو آبایادت کو جنم دیتی ہے اور یہ نو آبادیات بالآخر استعمار کے ہاتھوں ناگزیر مصائب سے دوچار ہوتے ہوئے، افراد کو تنہائی کا شکار کرتے ہوئے اس کی ہلاکت کا باعث بنتی ہیں۔ نو آبادیات کی اصطلاح گھانا کے پہلے صدر نکروما نے اپنی کتاب Neo Colonialism: The last stage of Imperialism میں متعارف کرائی تھی جس کا مطلب ایک ملک یا گروہ کا دوسرے ملک پر قابض ہو کر اس کے تمام وسائل کی لوٹ مار اور ہر قسم کا استحصال ہے۔ ناول کے آغاز میں جوزے آرکیدو بوئندا کو تین صدیاں قبل اپنے علاقے میں آن بسے خاندان کی ایک خوبصورت لڑکی ارسلا اگواران سے محبت ہو جاتی ہے۔ اس معاشرے میں محبت کی شادی کوئی جرم نہ تھا یہ دونوں چوں کہ رشتہ دار تھے اور شادی خاندانی روایات کے خلاف تھی، اس لیے انھیں یہ کہہ کر ڈرا یا گیا کہ شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کی دم سور کی سی ہو گی۔ کیوں کہ ایسا واقعہ قبل ازیں ایک شادی کے نتیجے میں رو نما ہو چکا تھا۔ وہ دونوں چوں کہ ان توہمات پر یقین رکھتے تھے اس لیے انھوں نے اولاد کو جنم نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس پر جوزے کو نامردی کے طعنے ملے اور ایک ایسے ہی طعنے کے نتیجے میں اس نے اپنے عزیز دوست پرودینسو اگویلار کو قتل کر دیا۔ اب انھیں ضمیر کی خلش ستانے لگی اور میاں بیوی دونوں نے کئی مرتبہ پرودینسوا کی بے چین روح کو ارد گرد منڈلاتے دیکھا۔ اس پر جوزے نے شرمندگی محسوس کی اور ضروری ساز و سامان لے کر اپنی آبادی رہوچا سے مخالف سمت جا کر رہنے کے لیے رختِ سفر باندھا۔ دوسری جانب دلدلی زمین تھی جہاں تھک کر آرام کرنے کے دوران اسے ایک ایک ایسی بستی کا خواب دیکھا۔ جہاں موجود گھروں کی دیواریں شیشے کی تھیں۔ جوزے نے اسے بشارت سمجھتے ہوئے بیدار ہونے پر وہیں ایک بستی کی تعمیر شروع کی جس کا نام ’ماکوندو‘ رکھا گیا۔ یہ قبل از تاریخ کی ایک بستی ہے جو دنیا سے الگ تھلگ واقع ہے اور یہاں موجود جوزے اور ارسلا گویا ایک غلطی کی پاداش میں جنت سے نکالے گئے آدم و حوا ہیں۔ یہ بستی ان کی عرضی جنت ہے جہاں ہر طرف امن ہے، نہ کوئی پابندی ہے نہ کوئی قانون نہ ہی قابض۔ یہ گویا اس عرضی جنت پر پہلی انسانی آباد کاری ہے جہاں زندگی کے کُل اسباب خود انھوں نے ہی مہیا کرنے ہیں۔ اس میں جوزے کے لیے ایک یوٹوپیا اور ارسلا کے لیے غیر متوقع مستقبل موجود ہے۔ یہ قبل از تاریخ کی نو آبادیات ہے اور دریا کے کنارے آبادی انسان کی قدیم ترین آباد کاری کی جانب اشارہ ہے۔

اس رات جوزے ارکیدو بوئندا نے خواب میں اسی جگہ ایک آباد اور با رونق شہر بسا دیکھا۔ اس کے گھروں کی دیواریں شیشے کی تھیں۔ اس نے لوگوں سے پوچھا یہ کون سا شہر ہے؟ انھوں نے ایسا نام لیا جو کبھی پہلے کسی نے سنا تھا نہ اس کے کوئی معنی تھے۔ ماکوندو، جوزے ارکیدو بوئندہ کے خواب میں ایک غیبی بازگشت ابھری۔ (3)

یہیں پر جوزے کے ہاں ایک بیٹی اور دو بیٹے پیدا ہوئے جن کے نام بالترتیب جوزے آرکیدو، آرلیانو بوئندا اور امرانتا تھے۔ پہلے پہل یہ بستی دنیا سے الگ تھلگ رہی اور کئی سالوں تک باہر کی دنیا کو اِس کے بارے میں پتہ نہیں چلتا۔ لیکن ایک عرصے کے بعد یہاں خانہ بدوشوں کے قبیلے پہنچے اور ان کے سائنسی ایجادات کے کرتبوں نے انسانی عقل کو جلا بخشی، جوزے کو ان کی جانب مائل کر کے مستقلاً ایک کمرے کی تجربہ گاہ میں بند کر دیا اور سارے ماکوندو کے لوگوں کو اپنا گرویدہ کر لیا۔ یہ خانہ بدوش وجودی فلسفہ کے تحت آزاد زندگی گزارنے والے لوگ ہیں اور ان کا آج ہی ان کا کُل ہے۔ اس کے بعد آبادی میں پیلارترنیرا کی آمد ہوئی۔ وہ مظلوم عورت تھی اور تاش کے پتوں سے قسمت کا حال بیان کرتی تھی۔ یہ آبادی میں گویا اعتقادات ساتھ لائی اور لوگوں کو اپنے ڈھونگ میں گرفتار کرنے لگی۔ خواتین اس کے جال میں زیادہ پھنستی دکھائی گئی ہیں، جب کہ مردوں کو اپنے جال میں پھانسنے کے لیے اس کے پاس نسوانیت کا کاری ہتھیار پہلے ہی موجود ہے۔ پیلارترنیرا ہی جوزے ارکیدو بوئندا کے بیٹے جوزے آرکیدو کے بچپن کو بلوغت میں ڈھالتی ہے اور اسی سے جوزے آرکیدو کا بیٹا آرکیڈو پیدا ہوتا ہے۔ جوزے پیلار کی اس اطلاع کے جواب میں کہ وہ اس کے بچے کی ماں بننے والی ہے، گھر سے کچھ شرمندہ ہوتا ہے اور پکھی واسوں کی لڑکی سے تعلق بنانے کے بعد انھی کے ساتھ رخصت ہو جاتا ہے۔

نئی آباد کاری کی وجہ ارسلا بنتی ہے جو کہ اپنے بیٹے جوزے ارکیدو کی تلاش میں پکھی واسوں کے پیچھے جاتی ہے اور واپسی پر بہت سے نئے لوگوں کو ساتھ لے آتی ہے۔ یہ لوگ دوسری بستی کے لوگ ہیں جو اپنے سامان کے ساتھ لدے پھندے یہاں کھڑے ہیں۔ یہ نئی آباد کاری آبادی کو وسعت دے دیتی ہے۔ یوں آبادی میں اضافہ ہوتا ہے، نئے رشتے جنم لیتے ہیں اور تہذیب و ثقافت کا تبادلہ ہوتا ہے۔ یہاں یہ بھی اہمیت کی حامل بات ہے کہ تمام تر نئی آباد کاری اور تعلقات میں پہل خواتین ہی کی جانب سے ہوتی ہے۔

وہ پکھی واس نہیں تھے بلکہ سانولے اور سیدھے بالوں والے، انھی کی طرح کی نسل کے تھے۔ ان کی سی زبان بولتے تھے اور ایک جیسے مسائل کا شکار تھے۔ ان کے کھانے پینے کی چیزیں خچروں پر لدی تھیں۔ بیل گاڑیوں پر روز مرہ کے استعمال کے سادہ برتن تھے اور خوانچہ فروش اشیا کو بڑے سکون سے بیچ رہے تھے۔ وہ ساحلی علاقے کے پار سے آئے تھے۔ انھیں پیدل سفر میں دو دن لگے۔ اس بستی میں ہر مہینے ڈاک پہنچتی تھی۔ اس بستی کے باسی زیادہ مہذب تھے۔ (4)

آبادی میں ان لوگوں کے آنے سے نئی آباد کاری ہی نہیں ہوئی بلکہ جغرافیائی اور صنعتی تبدیلیاں بھی رونما ہوئیں۔ یہاں صنعتی پروان چڑھی، بحری راستے واضح ہونے لگے اور تجار آنے لگے۔ ول ڈیورانٹ اور سبطِ حسن سمیت تمام تاریخ دان گواہ ہیں کہ دنیا کی اولین تہذیبیں دریاؤں، سمندروں کے قریب ہی پروان چڑھتی ہیں۔ اور پانی کو عبور کرنے کے جذبے نے انسانوں کے متبادل ثقافتی نمونے کو جنم دیا تھا اور لین دین، تجارت اور دیگر مادی ضروریات کے تحت مختلف نظام بھی وجود میں آئے تھے۔ ماکوندو بھی ان تبدیلیوں سے گزر رہی تھی لیکن تا حال یہ استعماریت کے قابو میں نہیں آئی تھی۔

ماکوندو میں تبدیلی آ گئی۔ جو لوگ ارسلا کے ساتھ بستی آئے تھے۔ ان کے بقول یہاں کی زمین بہت زر خیز ہے اور دلدلی علاقے کی زمین اس کی زرخیزی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس زر خیری نے ماکوندوکو قدیم زمانے کی بستی کی بجائے ایک قصبہ میں بدل دیا۔ دکانیں، ورکشاپیں اور باقاعدہ تجارتی راستے کا فعال قصبہ۔ ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنے، کانوں میں بالے لٹکائے عرب اسی رستے یہاں پہنچے۔ کانچ کے منکوں کے عوض طوطے خریدتے۔ (5)

اس نئی آباد کاری نے جوزے ارکیدو کو اس کے تخیل اور تجربہ گاہ، دونوں سے باہر نکال کھڑا کیا تھا۔ اسے اپنی اور اپنی بستی کی بقا کی خاطر اہم اقدامات کرنے تھے جن میں بہرحال بقا سے زیادہ حاکمیت کا جذبہ غالب تھا۔ یہی حاکمیت دنیا بھر کے آباد کاروں میں نفسیاتی ضرورت کے تحت پیش آتی ہے۔ لیکن یہاں اس کی مصروفیت کسی کاروبار کے عوض نہیں تھی بلکہ انسان کی ازلی حاکمیت کی خواہش کے سبب تھی۔ وہ چوں کہ اس بستی کا اول شخص تھا اور طاقت ور تھا، اس لیے اس نے فوراً یہ حکم صادر کیا تھا کہ کوئی بھی مکان یا دیوار اس کی مرضی کے بنا نہ کھڑی کی جائے۔ وہ اس خوابوں کی سرزمین کو بظاہر اپنی منشا کے مطابق چلانا چاہتا تھا لیکن در حقیقت آبادی کو منظم سے زیادہ قابو میں (کنٹرول) رکھنا چاہتا تھا۔ اس کے اندر مارکسزم کا جذبہ جاگ اٹھا تھا۔ حقیقت کا سامنا کرتے کرتے وہ اپنی کیمیا گری بھول گیا۔ اس نے مہینوں کیمیائی مادوں کو ہاتھ تک نہ لگایا۔

"Jose Arcadio Buendia did not have a moment’s rest. Fascinated by an immediate reality that came to be more fantastic than the vast universe of his imagination, he lost all interest in the alchemist’s laboratory…He acquired such authority among the new arrivals that foundations were not laid or walls built without his being consulted, and it was decided that he should be the one in charge of the distribution of the land” (6).

جوزے کا نئی آباد کاری کے نتیجے میں ترتیب دیا گیا نقشہ گویا پہلی آباد کاری پر حکومت کی حکمت تھی۔ اس بار پکھی واس لوٹے تو وہ ایک ادارے کی صورت اختیار کر چکے تھے۔ لیکن انھیں یہاں آنے اور ٹھہرنے کی اجازت نہیں دی گئی کیوں کہ ان کی وجہ سے بے راہ روی اور جنسیت کا فروغ ہو رہا تھا۔ گویا یہ بستی قائم ہونے کے بعد نظم و ضبط اور قانون کی پاسداری اور قانون سازی کی ایک شکل تھی۔ البتہ اب عربوں سے گھڑیاں خریدی گئیں۔ یعنی آبادی میں اب وقت قیمتی ہونے لگا تھا۔

اب اس آباد کاری میں عربوں سے گھڑیاں خریدی گئیں اور انھیں ہم وقت کر دیا گیا تاکہ ایک ہی وقت میں بستی میں آواز ابھرے۔ یہ اصل میں گھڑی کی آواز کے ساتھ ساتھ ازلی بے فکری سے فکر مندی کی آواز تھی جو انھیں وقت کی قدر و قیمت بھی بتاتی تھی اور نئی راہ بھی دکھاتی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ آبادی میں کیکر کی جگہ بادام کے درختوں کو لگانے سے ایک نئی دنیا کی آبادی کاری کا انتظام ہونے لگا تھا۔ (7)

دوسری جانب ارسلا بھی مچھلیوں اور مرغیوں کے کاروبار میں سرگرداں ہو گئی تھی۔ یعنی آبادی مالی نفع کی جانب تیزی سے بڑھ رہی تھی اور مادیت پرستی کا رجحان بھی ساتھ ساتھ بڑھ رہا تھا۔ نئے آباد کاروں میں دو بہن بھائی ویستاکان اور کاتورے بھی شامل تھے جوا ب ارسلا کے گھر کام کر رہے تھے اور گھر کے بچے اپنے اجداد کی جگہ ان کی زبان گجیرا بولنے لگے تھے۔ گویا دو زبانیں ثقافتی میل جول کو بڑھانے کا کردار ادا کر رہی تھیں۔ وہ دونوں اپنی بستی سے اس لیے نکل بھاگے تھے کہ وہاں لوگوں میں بے خوابی کا مرض پھیل گیا تھا۔ لوگ مادیت پرستی کے تحت بے خواب ہو گئے تھے اور دن رات کاموں میں جتے رہتے تھے۔ ان کے پاس خود ان کی نیند کا وقت نہ رہا تھا۔ وہ اس نئی بستی میں اپنی قسمت سے بچنے کے لیے آئے تھے لیکن بدقسمتی سے ماکوندو میں بھی صنعتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ بے خوابی کا مرض پھیل گیا تھا جو کہ مادیت کا شاخسانہ اور عصرِ حاضر کا نہایت اہم المیہ ہے۔

"They did not sleep a minute, but the following day they felt so rested that they forgot about the bad night. Aureliano commented with surprise at lunchtime that he felt very well in spite of the fact that he had spent the whole night in the laboratory gilding a brooch that he planned to give to Ursula for her birthday. They did not become alarmed until the third day, when no one felt sleepy at bedtime and they realized that they had gone more than fifty hours without sleeping.” (8)

یوں آہستہ آہستہ ساری بستی بے خواب ہو گئی لیکن افسوس اس امر کا ہے کہ وہاں کسی کو اس روحانی آزار کی پروا تک نہیں تھی۔ اس کے بجائے لوگ خوش تھے کہ ان کے پاس وقت کا اور کام نکل آیا ہے۔

دونوں کی ایک لمحے کے لیے آنکھ نہ لگی لیکن دوسرے دن وہ ہشاش بشاش تھے۔ انھیں تھکاوٹ کا احساس نہ ہوا اور نہ پچھلی رات کا عذاب یاد رہا۔ دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے ارلیانو حیران تھا کہ تمام رات ایک بروچ پر سونے کا پانی چڑھاتا رہا ہے جو اس نے ارسالا کو سالگرہ پر دینا تھا لیکن اسے اب تک تھکاوٹ نہیں ہوئی۔ جب تیسرے دن کسی کو رات بھر نیند نہ آئی تو انھیں احساس ہوا کہ وہ پچاس گھنٹے سے نہیں سوئے۔۔۔ وہ سب بے خوابی کا شکار ہو گئے۔ (9)

ایسے میں انھوں نے عربوں سے لی گھنٹیاں بکریوں کے گلے سے اتار لیں اور انہیں بستی کے اندر داخل ہونے والے راہ گیروں کے لیے رکھ دیا۔ تاکہ نئے راہ گیر کی آمد کی خبر ہو جائے لیکن ان کے لیے وقت ساکن ہو چکا تھا اور ہر شے گویا منجمد ہو رہی تھی۔ جوزے کے پرانے دوست ملکیا دیس کی وجہ سے ان سب کی یاد داشت لوٹ آئی تھی۔ جو اپنے ساتھ کوئی محلول لایا تھا۔ گویا ملکیا دیس جو کہ پہلے اس بستی کے پہلے آباد کار کی سائنسی ایجادات کے خوابوں کے ہاتھوں نیند اڑا چکا تھا، اب سائنسی فارمولوں کے ذریعے دوبارہ سے نیند لے آیا۔ یہ سائنسی کی انسانی جبلت پر جیت کی علامت ہے اور نو تاریخیت کی بھی۔ ایسے میں جب کہ بستی کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی تھی، اس پر قبضے اور تسلط کے لیے سرکار نے اپنے ایک مجسٹریٹ کو بھیج دیا جس نے آتے ہی لبرلز اور کنزرویٹو کے درمیان تفرقہ ڈالنے کے لیے بستی کے آغاز پر ایک تختی نصب کر دی جس پر بستی کا نام ’ماکوندو‘ اور ’خدا موجود ہے‘ تحریر تھا۔ ناول میں یہاں سے زمین پر حاکمیت اور استعمار کی نئی کہانی شروع ہوتی ہے۔

مجسٹریٹ ڈان اپولینار مسکاٹ خاموشی سے ماکوندو آیا اور اس ہوٹل میں قیام کیا۔ دوسرے دن اس نے جوزے ارکیدو بوئندا کے گھر سے دو بلاک دور ایک چھوٹا سا کمرہ کرایہ پر لے لیا۔ اس کا دروازہ گلی میں کھلتا تھا۔ اس نے ایک میز اور کرسی ہوٹل سے خرید لی۔ دیوار میں کیل ٹھونک کر جمہوریہ کی مہر لگائی اور باہر مجسٹریٹ کی ایک تختی لگا دی۔ (10)

مجسٹریٹ سب کو اپنی حاکم جماعت میں شریک کرنا چاہتا تھا۔ اس نے ارسلا کو گھر کو سفید رنگ کروانے کی اجازت دینے کے بجائے سبھی گھروں کو سرکاری پارٹی ’کنزرویٹو‘ کے رنگ کی نسبت سے نیلا رنگ کروانے کا حکم دے دیا۔ مجسٹریٹ چوروں کی سی خاموشی سے ماکوندو آیا تھا۔ جوزے ارکیدو بوئندا اس کی موجودگی سے بھڑک اٹھا اور بہادری سے مجسٹریٹ کو وہاں سے جانے کے لیے کہا۔ اس کے خیال میں یہاں کسی بھی مجسٹریٹ کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن جوزے اس حوالے سے بے خبر تھا کہ ایسے لوگ اپنی ضرورت خود پیدا کر لینے کے ماہر ہوتے ہیں۔

یہاں کوئی چیز فیصلہ طلب نہیں۔ جوزے ارکیدو بوئندا نے ڈان اپولینار مسکاٹ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نرم لہجے میں ماکوندو کو آبادی کرنے کی داستان سنائی۔ سرکار کی مدد کے بغیر، کس طرح اس نے زمین تقسیم کی۔ سڑکیں بنائیں۔۔۔۔ اس قصبہ کی تعمیر میں سرکار کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ لہٰذا کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ یہاں آ کر بتائے کہ انھوں نے کیا کرنا ہے۔ (11)

مجسٹریٹ ڈان اپولینار مسکاٹ نے پہلے اسے اسلحے سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی پھر بے عزتی کر کے نکالے جانے پر اپنے ساتھ سپاہی لے آیا۔ یہ غریب اور بے حال سپاہی ایک ایسے افسر کی مدد کر رہے تھے جو ان کا حاکم اور سرکار کی مرضی و منشا کے آگے لوگوں کو جھکنے پر مجبور کرنے والا تھا۔

ایک ہفتے بعد وہ ننگے پیر، پھٹی وردیاں پہنے، چھ مسلح سپاہی لے کر آیا۔ ایک بیل گاڑی میں اس کی بیوی اور سات بیٹیاں تھیں۔ (12)

پہلے تو جوزے نے اسے اجازت نہ دی لیکن ارسلا نے اس کی بیوی اور بیٹیوں کی وجہ سے اسے وہاں رہنے کی اجازت دے دی لیکن اس شرط پر کہ وہ بستی کے معاملات میں عمل دخل نہیں کریں گے۔ ایسے میں جوزے کے بیٹے ارلیانو کو مجسٹریٹ کی سب سے چھوٹی بیٹی ریمیڈیس سے محبت ہو گئی۔ چوں کہ دونوں گھرانے مضبوط تھے، اس لیے انھوں نے بچوں کی اس پسندیدگی کو شادی میں بدلنے کا فیصلہ کیا۔ عموماً یہ عمل ہر معاشرے میں ہوتا ہے کہ دو بڑے خاندان ایک دوسرے کو مضبوط کرنے کے لیے بچوں کو رشتے کے بندھن میں باندھ دیتے ہیں۔ ارلیانو اور ریمیڈیس کی شادی کی تقریب میں بستی کی اشرافیہ کو بلایا گیا جو کہ بستی کے بسانے والے بھی تھے۔ یہ شادی اس لیے بھی ضروری تھی کہ بستی کے حاکم اور سرکار دونوں کے مفادات ایک ہو جائیں۔

مجسٹریٹ نے شطرنج کی چال چلی اور شادی کی تقریب کے لیے عیسائی پادری فادر نیکانار کو گھر لے آیا۔ اسے معلوم تھا کہ جوزے مذہبی روایت کے خلاف تھا لیکن ارسلا اس جانب مائل تھی۔ موقع کا فائدہ اٹھا کر اس نے بستی میں مذہب کو متعارف کروا دیا تاکہ بعد ازاں اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر سکے۔ سرکار کی پارٹی مذہبی بنیاد پر ہی کھڑی تھی۔ پادری ابتداً ایک ہفتے کے لیے آیا تھا لیکن اب وہ یہاں مستقل قیام کر کے چرچ بنانا چاہتا تھا جہاں گناہ گار لوگوں کے درمیان روم سے نیک پادری اور بڑے بڑے سینٹ آئیں اور لوگ ایک ہی رنگ میں رنگتے جائیں۔ اس وقت روم کی عیسائیت پر حکومت تھی یا یوں کہیے کہ روم ہی سے عیسائیت کا سارا سلسلہ چل رہا تھا۔ پادری سیاسی جماعت دونوں وہیں سے جڑے تھے۔ ایسی بستی میں اس سے اچھا موقع اور کوئی نہ تھا کہ لوگوں کو گناہ گار ہونے کا احساس دلایا جائے اور ان کی زندگی مذہب کے مطابق منظم کی جائے۔ ابتداً کسی نے اس کی طرف دھیان نہیں دیا۔ لوگ کہتے کہ ان کے مذہبی تصورات اور روحانی مسائل پادری کے بنا ہی براہ راست خدا کے ساتھ ہیں۔ وہ پہلے گناہ کے شیطان کو بھی بھول چکے ہیں۔ تبلیغ سے تھک کر فادر نیکانار نے چرچ بنانے کے فیصلہ کر لیا۔ (13)

لوگوں کو بہت زیادہ تبلیغ کے بعد بھی جب وہ اس کی جانب مائل نہ ہوئے تو اس نے لوگوں کو مائل کرنے اور کرامات کے ذریعے یا مافوق الفطرت چیزوں کے ذریعے راغب کرنے کے لیے ہوا میں بلند ہونے کی شعبدہ بازی کی۔ تیقن کا ٹیکہ لگانے اور چندہ اکٹھا کرنے کے لیے شعبدہ بازی بہت ضروری تھی۔ جوزے نے اس کا مذاق اڑا یا اور کہا کہ یہ سب کرنا بالکل بھی مشکل نہیں ہے۔ البتہ ضعیف الاعتقاد لوگ جب اس کی جانب مائل ہو گئے تو اس نے گھر گھر جا کر روحانی چاکلیٹ بانٹے اور چندہ اکٹھا کیا۔ بہت سے لوگوں نے اسے مسیحا تصور کیا اور اس کے ممنون ہوئے۔ ہوا بھی کچھ یوں ہی کہ:

"اس خدائی معجزے کا ماسوائے جوزے ارکیدو کے ہر شخص نے یقین کر لیا۔ "(14)

مجسٹریٹ کی بیٹی ریمنڈس زچگی کے دوران فوت ہو گئی اور ارلیانو اپنے سسر کے قریب ہو گیا۔ وہ قریب سے نوآبادیات کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا اور حکومتی امور، خط و کتابت اور نئی چالوں کو غور سے دیکھتا رہتا تھا۔ چوں کہ انتخابات قریب تھے، اس لیے یہاں کا نظام سنبھالنے اور کسی بھی قسم کی مزاحمت سے بچنے کے لیے دار الحکومت سے مسلح سپاہی آنے لگے تھے۔ ارلیانو ذہین اور چست تھا۔ وہ ایک ایک بات کو غور سے دیکھ رہا تھا اور نتائج برآمد کر رہا تھا۔ ایک جانب یومِ آزادی پر بھی سارے گھروں پر حکومتی جماعت کا نیلا رنگ کروا دیا گیا، دوسری جانب پادری کی ترغیب پر تمام ایسی چیزوں کو بستی میں بند کروا دیا گیا تھا جو گناہ کی ترغیب کا کام دیتی تھیں۔ اس دوران میں جوزے کا چھوٹا بیٹا جوزے ارکیدو لوٹ آیا۔ وہ اب قوی جوان تھا اور سبھی خواتین اس کی جانب مائل ہوتی تھیں جو طاقت سے وابستگی کی علامت ہے۔ رابیکا جس کو امرانتا نے کسی عزیز کی اولاد سمجھتے ہوئے بڑی محبت سے بیٹی کی جگہ پالا تھا اس کی شادی جوزے ارکیدو سے کر دی گئی۔ طاقت گویا نئے رشتوں کا تعین کرتی ہے۔ رابیکا گو ایک طرح سے اس کی بہن لگتی تھی اور بظاہر یہ شادی ممکن نہ تھی لیکن نئے رشتے پر چرچ کی مہرِ قبولیت ثبت ہونے کے بعد معاملات آسان ہو گئے اور قابلِ قبول بھی۔

سیاسی کھینچا تانی میں لبرل اور کنزرویٹو پارٹی کو مذہب سے جوڑ دیا گیا اور لبرلز کا ہر عمل مذہب کے منافی قرار دیتے ہوئے انھیں ’فری میسن‘ کا نمائندہ قرار دے دیا گیا اور انتخابات میں کامیابی کے لیے ان کے خلاف یہ پراپیگنڈہ کیا گیا:

وہ ’فری میسن نظام‘ کے حامی ہیں۔ برے لوگ ہیں۔ پادریوں کو پھانسی پر لٹکانا چاہتے ہیں۔ سول میرج اور طلاق کا قانون لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ حرامی اور حلالی بچے کو برابر کا مقام دینا چاہتے ہیں۔ جاگیر داری نظام پر سخت تنقید کرتے ہیں اور اختیاریات کے لیے خدا پر بھروسہ نہیں کرتے۔ دوسری طرف، کنزرویٹو اپنی طاقت کا ارتکاز خدا کو مانتے ہیں۔ خاندان کی اخلاقیات پر زور دیتے ہیں۔ عیسائیت کے اعتقادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ (15)

ارلیانو خود لبرل تھا اور بنیادی طور پر معصوم ذہنیت کا مالک تھا جسے معلوم تک نہ تھا کہ لبرل اور کنزرویٹو جماعتوں اور ان کے منشور میں کیا فرق ہے۔ وہ اس بات پر متفکر تھا کہ لوگ اتنی چھوٹی باتوں پر جنگ کیوں کرتے ہیں۔ اب اقتدار استعمار میں بدلنے لگا اور مجسٹریٹ نے انتخابات کے دنوں میں ساری آبادی کو غیر مسلح کرنے کی کوشش کی تاکہ کسی بھی قسم کی بغاوت، للکار، حق خود ارادیت وغیرہ سے نمٹا جا سکے۔ یہ بذاتِ خود ساری بستی کو جنگ میں دھکیلنے کی سازش تھی۔ وہ اس بات سے بے خبر نہیں تھے کہ نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔ حکومت اس کے لیے پوری طرح سے تیار تھی۔ وہ عمل کے رد عمل کے نظریے کے مطابق خود لوگوں کو اس جنگ کی جانب دھکیل رہی تھی۔

الیکشن کے سلسلے میں اس کے سسر کے پاس ایک سارجنٹ کی زیرِ کمان چھ مسلح سپاہی بھیجے گئے۔ انھوں نے گھر گھر جا کر تلاشی لی اور شکار کرنے والے ہتھیار، یہاں تک کہ کچن میں استعمال ہونے والے چاقو بھی ضبط کر لیے۔ (16)

انتخاب کے سلسلے کا اختتام ہوا تو مجسٹریٹ نے وہی کیا جو ہر آمر، جابر، ظالم، شاطر اور غاصب کرتا ہے۔ اس نے ووٹوں کی تعداد بدل دی اور دوسری جماعت کے بہت سے ووٹ ضایع بھی کر دیے تاکہ ان ہی کی پارٹی برسرِ اقتدار رہے۔

سرخ اور نیلے بیلٹ برابر نکلے لیکن سارجنٹ نے ڈبے میں صرف دس سرخ ووٹ بیلٹ میں رکھ کر واضح فرق سے نیلے بیلٹ بڑھا دئیے۔ نئے لیبل کراس کیے اور سیل لگا کر دستخط کر کے انھیں صوبائی دار الحکومت بھیج دیا گیا۔ ’لبرل خانہ جنگی شروع کر دیں گے‘ ارلیانو نے کہا۔ ’تمھارا اندازہ ممکن ہے ٹھیک ہو لیکن بیلٹ کا جو چکر چلا ہے۔ اب وہ ایسا نہیں کر سکیں گے۔ ہم نے چند سرخ بیلٹ باکس میں چھوڑ دیے ہیں۔ اب انھیں کوئی شکایت نہیں رہے گی۔‘ (17)

اس بات نے ارلیانو کا دل کھٹا کر دیا اور اس کے دوست احباب جن میں سے کئی درپردہ اس کے سسر یعنی مجسٹریٹ کی جان کے درپے تھے، وہ ان سے جا ملا۔ اس نے سسر سے درخواست کی کہ استعمال کے ہتھیار واپس کر دے لیکن وہ اس پر بھی راضی نہ ہوا۔ اسے ڈر تھا کہ اس طرح کوئی بھی شخص انھیں نقصان نہ پہنچا دے۔ یہ عمل خود غرضی اور اپنے مقاصد کی تکمیل کی راہ میں حائل تمام حدیں عبور کرنے کے حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح حکومتیں مسلط کی جاتی ہیں اور کس طرح طاقت کا توازن بدل دیا جاتا ہے۔

آبادی میں سر اٹھانے والوں کے خلاف جھوٹے ثبوت اکٹھے کیے گئے اور سزا دی گئی۔ اس سے رد عمل سامنے آیا اور ارلیانو نے جنگ میں قدم رکھ دیا اور اپنے سسر کو بچاتے ہوئے خود لبرلز کے ساتھ مل کر علم بغاوت بلند کر دیا۔ لبرلز کا جنگی طریقہ بہت مجرمانہ دکھایا گیا تھا۔ وہ چھپ کے وار کرتے ہیں اور طاقت کا توازن بدلنے کے لیے دہشت گردی کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ بستی میں ایک لبرل دہشت گرد ڈاکٹر کا روپ دھارے رہ رہا تھا، اس نے اپنے بہت سے حامی بھی تیار کر لیے تھے۔ یہ موقع اس کے لیے غنیمت تھا اور اس نے اسے ضایع نہیں کیا۔ یہی سب کچھ یہاں ہونا شروع ہو گیا۔ اب یہ بستی جو جنت نظیر تھی، اس پر بد حالی، تباہی اور جنگی مسائل کے سائے امڈنے لگے۔

اسے بستی کے نوجوانوں سے رابطہ قائم کیا جنھیں سیاست کے بارے میں قطعاً علم نہیں تھا۔ وہ آہستہ آہستہ انھیں اس ڈگر پر لا رہا تھا۔ بہت سے سرخ بیلٹ در اصل اسی کی کارستانی تھی۔ ڈاکٹر الیریو ناگیورا اپنے شاگردوں کو یہ باور کروانا چاہتا تھا کہ الیکشن محض ڈھونگ ہیں۔ ’مسئلہ ایک طور ہی حل ہو سکتا ہے۔‘ وہ کہتا۔ ’اور وہ ہے تشدد‘ (18)

وہی ہوا جو ہر ترقی پذیر، ان پڑھ ملک کا المیہ ہے۔ استعماری قوتوں نے انھیں تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور لبرلز نے جیسے ہی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کیا، پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہوا اور باقاعدہ جنگ کا آغاز ہو گیا۔ یہ جنگ اس بستی میں آن پہنچی اور سکول میں فوجی دستوں نے اپنا جنگی دفتر قائم کر لیا اور علاقے میں مارشل لاء کا اعلان کر کے کرفیو لگا دیا گیا۔ گھر گھر تلاشی لینا شروع کی گئی تاکہ لوگوں کو بالکل ہی بے بس کر سکیں۔ اس کا لازمی نتیجہ فسادات پھوٹنے کی صورت میں نکلا۔ ڈاکٹر ناگیوارا کو سرِ عام قتل کر دیا گیا تاکہ دہشت قائم کی جا سکے۔ جنگ اور قتل و غارت گری شروع ہو گئی۔ اب کوئی بھی محفوظ نہ تھا۔ سکول پر فوجی قبضہ ہو چکا تھا اور پادری جسے پہلے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تھا، اپنی جان بچا رہا تھا۔

فادر نیکانار نے اپنے معجزے کے ذریعے فوجیوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔ ایک سپاہی نے رائفل کا بٹ مار کر اس کا سر پھوڑ ڈالا۔ (19)

وقت اور حالات جو کہ ارلیانو کو جنگ میں جھونک چکے تھے، اس نے خود کو اس جنگ کا ہیرو قرار دیا اور اپنے دوست گرینلڈو مارکیز کے ساتھ مل کر تیس لڑکوں کی مدد سے گیریژن پر حملہ کر کے ہتھیار قبضے میں لے لیے جب کہ آبادی کی ایک عورت کے قتل کے جرم میں چار حکومتی فوجیوں کو سزائے موت دے دی۔

اس رات فائرنگ سکواڈ کی آواز دور دور تک سنی جا سکتی تھی۔ ارکیدو کو بستی کا سول اور ملٹری لیڈر بنا دیا گیا۔ شادی شدہ باغیوں کے پاس بہت تھوڑا وقت تھا کہ وہ اپنی بیویوں سے مل لیں جنھیں وہ اپنی مرضی اور خوشی سے چھوڑ کر جا رہے تھے۔ (20)

یہ سب انقلابی لبرل لیڈر جنرل وکٹاریو ماڈینا کی فوج میں شامل ہونے چلے تھے۔ استعمار اپنے پنجے پوری طرح گاڑھ چکا تھا اور جنگ مسلط کر دی گئی تھی۔ اب ہر طرف خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی۔ ارلیانو جو کہ اب کرنل ارلیانو تھا، اس کی زندگی میدانِ جنگ ہی میں بسر ہونے لگی تھی۔ اس نے ایک کے بعد ایک جنگ میں حصہ لیا۔ وہ متوقع جنگی رہنما سے یقینی جنگی رہنما کے درجے تک پہنچا۔ وہ بہت خوش قسمت تھا کہ کتنی ہی بار مخالف جنگی فوجیوں کے مقابل بچ گیا اور کتنی ہی بار سازشوں میں محفوظ رہا۔ ان جنگوں کے درمیان مختلف علاقوں میں رہتے ہوئے اس کا شباب و کباب کا سلسلہ چلتا رہا اور عورتیں جنگی سورما سے بچوں کی خواہش اور مجبوری کے تحت اس کے بستر کی زینت بنتی رہیں۔ یوں اس کے ہاں سترہ بیٹے ہوئے، وہ جوانی کو پہنچے لیکن ممکنہ مزاحمت کے خدشے کے تحت ان سب کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یہ تھا وہ سیاہ انتقام جو استعماری قوتوں نے اس سے لیا:

کرنل ارلیانو بوئندا نے بیس مقامی مسلح جنگوں میں حصہ لیا۔ ایک جھڑپ میں اس کے ساتھ صرف بتیس سپاہی تھے۔ سارے کے سارے مارے گئے۔ وہ بچ گیا۔ سترہ مختلف بیویوں میں سے سترہ لڑکے پیدا ہوئے اور صرف ایک رات کے اندر انھیں چن چن کر ماردیا گیا۔ اس وقت بڑے بیٹے کی عمر پینتیس سال تھی۔ اس پر چودہ قاتلانہ حملے ہوئے۔ پچھتر بار اس پر شب خون مارا گیا۔ ایک مرتبہ اسے فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کیا گیا۔ کچلے کی اتنی زیادہ مقدار کافی میں دی گئی جو ایک گھوڑے کو مارنے کے لیے کافی تھی لیکن وہ ہر بار بچ گیا۔ (21)

کرنل ارلیانو جو کہ نیک مقاصد کے تحت جنگ میں شامل ہوا تھا اور اب بہت دور تک جا چکا تھا، اس کا چھوٹا بھائی ارکیدو بستی کا خود ساختہ نگران بن گیا اور اس نے یہاں وہی سب کچھ کیا جو استعماری قوتیں کر رہی تھیں۔ اس نے زر خیز زمینوں پر قبضہ شروع کر دیا۔ یہ طاقت اور استعمار کا نیا وار تھا۔ وہ خود کو اس کا حق دار سمجھتا تھا کیوں کہ وہ آبادی میں سب سے زیادہ طاقت ور تھا۔ اس نے رجسٹری آفس بنایا اور زمین کے اندراج کے بہانے زمینیں اپنے قبضے میں لینا شروع کر دیں۔ باپ کی تقسیم کی گئی زمینیں بھی اس نے اپنے پاس رکھ لیں اور زمین کے مالک لوگ بیچارے اپنی ہی زمینوں پر مزارعوں کی حیثیت سے جینے لگے۔ استعمار اور غاصبیت کی جھلک ملاحظہ کیجیے:

’’ایک رجسٹری آفس بنایا جائے تاکہ جوزے ارکیدو کے پاس تمام جائیداد کی ملکیت کا ثبوت ہو اور اس کے بعد جوزے ارکیدو کو مقامی حکومت سے ٹیکس وصول کرنے کا اختیار حاصل ہو جائے گا‘‘ (22)

جو دہشت گردی دوسری جانب موجود تھی، اس نے آبادی میں بھی پھیلا دی۔ چرچ جو کہ کنزرویٹو کا نمائندہ تھا، اب طاقت کا توازن بدلتے ہی اس میں لبرلز کے حق میں دعائیہ اجلاس ہونے لگے تھے۔ جوزے نے اپنی فوجی وردی سلوائی جس پر مارشل کے طغرے سجائے، کمر کے ساتھ تلوار لٹکائی، بستی کے آغاز میں چوکیاں قائم کیں، دوستوں کو گلیوں میں چکر لگانے کا حکم دیا۔ وہ جو بھی کہتا وہ حکم بن جاتا اور عمل سے روگردانی کرنا موت کی سزا کے مترادف ٹھہرتا۔ اٹھارہ سال سے اوپر مردوں کے لیے فوجی خدمات دینا لازم تھا، چھ بجے کے بعد پھرنے والے جانوروں کو سرکاری تحویل میں لے لیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں لبرلز اور کنزرویٹو، دونوں کے مظالم ایک ہی جیسے نظر آتے ہیں۔ جب مجسٹریٹ نے یہ تبصرہ کیا کہ لوگوں کو بھگتنے دو، یہی لبرلز کی جنت ہے تو اس نے اسے بھی بالوں سے گھسیٹ کر گھر سے باہر نکالا، سامان توڑ پھوڑ دیا، اس کی بیٹیوں پر تشدد کیا اور مجسٹریٹ کو گولی مارنے کے لیے فائرنگ سکواڈ کو حکم دے دیا۔ ارسلا نے آگے بڑھ کر بوڑھے مجسٹریٹ کو چھڑایا، اسے برا بھلا کہا اور سبھی قیدیوں کو آزاد کروادیا۔ اب طاقت کا توازن ارسلا کی جانب تھا اس لیے سب اس کے آگے ہاتھ جوڑے بیٹھ گئے، لیکن یہ سب عارضی تھا، وہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا۔ اس نے عوامی رقم کو دل بھر کر خرچ کیا۔ عالی شان گھر بنوایا اور اس میں دوسرے ممالک سے فرنیچر منگوایا۔ اسے کوئی پوچھنے والا تھا نہ ہی اس کے آگے سر اٹھانے والا۔ دوسری جانب کرنل ارلیانو ایک محاذ سے پیچھے ہٹ رہا تھا اور اس نے ارکیدو کے نام پیغام بھیجا کہ وہ بستی کو حفاظت کے ساتھ خالی کر دے لیکن وہ طاقت کے نشے میں دھت تھا نہ مانا۔ جواباً کنزرویٹو کی جانب سے بستی پر بم بارود سے حملہ کر دیا گیا اور ہر ایک شے تہس نہس ہو کر رہ گئی۔ یہ بستی کے غریبوں کی قسمت کا فیصلہ تھا۔

’’چند ہفتوں سے بستی پر مسلط خاموشی توپ کے گولوں اور کارنٹ کے دھماکوں سے ٹوٹ گئی۔ گولہ باری سے چرچ کا منارہ گر گیا۔ مزاحمت کا فیصلہ ارکیدو کا پاگل پن تھا۔ اس کے پاس پچاس سے بھی کم سپاہی تھے اور ہر سپاہی کے پاس صرف بیس کارتوس تھے۔ گولہ باری کی وجہ سے اس کے ساتھی بہت جذباتی ہو رہے تھے اور نعرے لگا رہے تھے۔ وہ ایک گم شدہ نظریہ کے لیے اپنی جانوں کی قربانی کے لیے تیار تھے۔ متضاد احکامات، بھاری قدموں کی چاپیں، توپوں کے گولے، جن سے زمین کانپ رہی تھی، اندھا دھند شوٹنگ، کارنٹ کے پاگل کر دینے والے دھماکے۔۔۔‘‘ (23)

ارکیدو اس جنگ میں ہار گیا اور اسے اس کے ساتھی کرنل گریگو سمیت موت کے گھات اتار دیا گیا۔ سزائے موت سے قبل اس پر سنگین الزامات لگائے گئے۔ ایسے الزامات بھی جو بالکل بے بنیاد اور جھوٹے تھے۔ لیکن اسی کا نام استعماریت ہے اور یہی سب استعماری قوتوں نے ہمیشہ سے کیا ہے۔

دو ہفتے قبل سرکار نے بڑے یقین کے ساتھ جنگ کے خاتمے کا اعلان کیا۔ اس اعلامیہ میں ان لوگوں کے خلاف بے رحمانہ سزاؤں کا ذکر بھی تھا جنھوں نے بغاوت کا آغاز کیا تھا۔ (24)

کرنل ارلیانو کو بھی گرفتار کر لیا گیا اور اسے موت کی سزا سنائی گئی لیکن اس کی طاقت اور اثر و رسوخ اتنا زیادہ تھا کہ اس پر عمل نہ کیا جا سکا۔ کیپٹن راکی اسے گولی مارنا چاہتا تھا لیکن اس پر جوزے ارکیدو نے پستول تان لی اور یرغمال بنا کر چھڑا لیا۔ یہاں سے وہ اپنے اس جنگی رہنما کو چھڑانے کے لیے نکل کھڑا ہوا جسے اسی کی طرح سزائے موت کا حکم ہوا تھا۔ یہاں ایک جنگ نے دوسری جنگ کو جنم دے دیا۔ اور یہ سلسلہ کبھی نہ رکنے کے لیے آگے بڑھتا چلا گیا۔ کرنل ارلیانو کے پہنچنے سے پہلے ہی جنرل وکٹاریو کو گولی ماری جاچکی تھی اور اب وہ اس لبرل فوج کا سب سے بڑا رہنما منتخب ہوا۔ اس نے تین ہزار انقلابیوں کو جمع کیا لیکن وہ سب مارے گئے۔ اس کے ساتھ ہی اس کی موت کی افواہ اڑادی گئی تاکہ باقی رہ جانے والے لبرلز میں افراتفری اور مایوسی پھیل جائے۔ لیکن اس کی زندگی کی خبر پھیلتے ہی ہر طرف نیا جوش و جذبہ ابھر پڑا اور اب وہ کریبین ساحل کا سب سے بڑا لیڈر تھا۔ یہاں ایک اور مسئلہ درپیش ہوا۔ اس کی پارٹی یعنی لبرلز نے سیاسی داؤ پیچ کھیلتے ہوئے خود کو محفوظ کرنے کے لیے کانگریس میں شرکت کر لی اور اسے، جسے ہیرو قرار دیا جانا چاہیے تھا، باغی، مہم جو اور ڈاکو قرار دے کر اس کے سر کی قیمت مقرر کر دی گئی۔

اس نے جنگی قیدیوں کے بدلے میں اپنے ساتھی مانگے اور رہوچا، جو اس کے ماں باپ کی سرزمین تھی، اپنا صدر دفتر قائم کر لیا جب کہ دوسرا دفتر ماکوندو میں قائم7 کیا۔ اب اس کے پاس تعداد میں زیادہ فوجی تھے۔ کرنل ارلیانو جو کہ لبرلز میں سے تھا، اس نے عوامی ہمدردی کے لیے چرچ کی دوبارہ تعمیر کا حکم دیا۔ یہی مذہبی سیاست بھی دنیا کے بیشتر ترقی پذیر ممالک میں پلتی بڑھتی نظر آتی ہے:

جب کرنل ارلیانو نے چرچ کی مرمت کا حکم دیا جو سرکاری فوج کی توپوں کی وجہ سے ٹوٹ چکا تھا۔ فادر نیکانار نے اپنے بستر پر لیٹے تبصرہ کیا: "یہ کیا ہے؟” یسوع مسیح پر یقین کرنے والے چرچ توڑتے ہیں اور آزاد خیال اسے دوبارہ تعمیر کر رہے ہیں۔ "(25)

ایک بات جس کا ادراک کئی جنگوں کے بعد ارلیانو کو ہوا، وہ یہ تھا کہ وہ کس کے لیے اور کیوں لڑ رہا تھا؟ کیا یہ جنگ لبرلز کے لیے تھی؟ کنزریٹو کے لیے تھی؟یا پھر خود اس کے اپنے نام اور وجود کے لیے تھی؟ لمحہ بہ لمحہ بدلتی سیاسی صورتِ حال، نہایت بدمست مسائل اور تکالیف نے اسے اس بات کی جانب مائل کیا کہ وہ یہ سوچے کہ کیوں لڑر ہا ہے؟ ایک رات اس نے اپنے سب سے عزیز دوست کرنل گیلنڈو مارکیز سے دریافت کیا:

’’یہ بتاؤ۔ میرے دوست یہ جنگ ہم کیوں لڑ رہے ہیں؟‘‘

’’دوسری وجہ کون سی ہو سکتی ہے۔‘‘ کرنل گرینلڈو مارکیز نے جواب دیا۔ ’’عظیم لبرل پارٹی کے لیے‘‘

’’تم بہت خوش قسمت ہو کہ تمھیں پتہ ہے کہ ہم یہ جنگ کیوں لڑ رہے ہیں۔‘‘ کرنل ارلیانو بوئندا نے کہا۔ ’’جہاں تک میرا تعلق ہے۔ مجھے اب ادراک ہوا ہے کہ میں صرف اپنے نام کی وجہ سے جنگ لڑ رہا ہوں‘‘ (26)

در حقیقت یہ جنگ اس آبادی پر مسلط کی گئی تھی اور وہاں سرکار نے جب چاہا، جسے چاہا استعمال کیا تھا۔ یہی قصہ ارلیانو اور اس کی جنگ کا تھا۔ اس کے ساتھی انقلابیوں نے اندرونی طور پر کنزرویٹو سے ہاتھ ملا لیا تھا اور اس کے بدلے میں ان سے تین نشستوں اور عام معافی کا انعام پایا تھا۔ ان کی یہ شمولیت مشروط تھی۔ وہ اس وقت جب کہ خانہ جنگی شروع ہو چکی تھی اور اس کی پارٹی کے لیے فتح ممکن تھی، سب کچھ داؤ پر لگا نا چاہتا تھا اور امن و امان قائم نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔ اب جب کہ اس کے دیگر ساتھی استعماری قوتوں سے ہاتھ ملا رہے تھے تو اس کے لیے وہاں رہنا خطرے سے خالی نہ تھا۔ اسی لیے وہ سب کو چھوڑ کر دوسرے ملک کے لیے نہایت خفیہ انداز میں روانہ ہو گیا۔ البتہ وہ چوں کہ جنگی جنون میں مبتلا تھا اس لیے اسے ہر حال میں جنگ درکار تھی۔ اس لیے اس نے اس صورتِ حال میں نچلا بیٹھنا گوارا نہ کیا۔ اس کے کمزور ہوتے ہی اس کے چودہ ساتھیوں کو گولی مار دی گئی۔

سرکار اور اپوزیشن کی طرف سے جنگ بندی کے مشترکہ اعلامیہ کے دس دن بعد مغربی محاذ پر کرنل ارلیانو بوئندا کی پہلی مسلح جھڑپ کی خبر اٹھی۔ اس کی چھوٹی اور غیر منظم فوج ایک ہفتہ کے اندر بکھر گئی۔ ایک سال کے اندر جب لبرل اور کنزرویٹو، ملک کی صورتِ حال کی بحالی کی کوشش کر رہے تھے تو کرنل ارلیانو بوئندا نے سات مرتبہ تخت الٹنے کی کوشش کی۔ ایک رات ریہوچا میں بمباری کی۔ سرکاری فوج نے اس حملے کے بدلے میں شہر میں موجود چودہ مشہور لبرل لیڈروں کو گولی ماردی۔ (27)

اسی دوران میں کرنل ارلیانو کا بھائی جوزے اور بیٹا ارلیانو جوزے، دونوں کو مار دیا گیا۔ ارلیانو جوزے کو اس کی بے جا بہادری اور کنزرویٹو کپتان کے ساتھ جھگڑے کے بدلے میں مرنا پڑا۔ جواباً کرنل ارلیانو نے کپتان اور بستی کے نئے مجسٹریٹ جنرل منکاڈا کو گولی ماردی۔ حالاں کہ منکاڈا اس کا دوست، اس کی والدہ کا معترف اور نیک دل آدمی تھا۔ ارسلا نہیں چاہتی تھی کہ وہ مرے لیکن انقلاب کیا کچھ کھا جاتا ہے، اس کا جواب ارلیانو نے یوں دیا:

’’گولی مارنے سے کچھ دیر قبل، صبح کے وقت، کرنل ارلینا بوئندا اس موت کے منتظر قیدی سے ملنے گیا۔ بوڑھے دوست۔ یاد رکھو۔ اس نے جنرل سے کہا۔ یہ میں تمھیں گولی نہیں مار رہا۔ یہ انقلاب ہے جو تمھیں گولی مار رہا ہے۔‘‘ (28)

اس پر جنرل منکاڈا کا جواب ملاحظہ کیجیے جو اس ساری جنگ کا نقشہ، اسباب اور نتائج پیش کرتا ہے:

’’میری پریشانی یہ نہیں ہے کہ تم مجھے گولی مار رہے ہو۔ ہم جیسے لوگوں کے لیے تو یہ ہی فطری موت ہوتی ہے۔ اس نے اپنی عینک اتار کر بستر پر رکھی۔ جو بات مجھے پریشان کر رہی ہے، اس نے گفتگو جاری رکھی۔ وہ یہ ہے کہ فوج کے ادارے سے اتنی نفرت، کے باوجود، ان سے جنگ کرنے کے باوجود، ان کے بارے میں اتنا سوچنے کے باوجود میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ تم بھی اتنے ہی برے ہو جتنے وہ ہیں۔ زندگی میں کوئی نظریہ اس وقت تک قیمتی نہیں ہوتا جب تک اس کی بنیاد مضبوط نہ ہو۔‘‘ (29)

ایسے میں سبھی کو اپنے مفادات عزیز ہو گئے تھے اور زمینداروں نے تیزی سے کنزرویٹو سے معاہدے کر لیے تھے تاکہ وہ امن سے رہ سکیں۔ بہت سے لوگ کرنل کے سخت اقدامات اور مستحکم باغی رویے سے پریشان بھی تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ کنزرویٹو کے کچھ اچھے کاموں کو تسلیم کیا جائے اور ان پر سمجھو تا کر لیا جائے۔ آخر کرنل ارلیانو کے سر پر سوار خونی قسم کی جبریت نے ایک لمحے کے لیے رک کر سانس لیا تھا تاکہ وہ زندگی کو از سرِ نو سمجھ سکے۔ اور اپنے ساتھیوں کے خون خوامخواہ ضایع ہوتا نہ دیکھے۔ اس کے اندر گویا ایک طرح سے یہ خود کو دریافت کرنے کے جستجو تھی۔ لیکن جنگ بندی کس قدر مشکل کام تھا، اس کا اسے اندازہ نہیں تھا۔ اسے اپنی پارٹی کے حق میں شرائط منوانے کے لیے بہت وقت لگا۔ دوسری جانب نوجوان، جن کے خون میں جھوٹے اور کھوکھلے نعروں کا جوش بھر دیا جاتا ہے، انھیں قابو کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ بھی جنگ بندی میں مسئلہ کی وجہ بنتا ہے۔

وہ مسلسل ایک سال تک اس کوشش میں لگا رہا اور اپنے پارٹی کے حق میں شرائط منوانے میں مزید سال لگ گیا۔ وہ اپنے عظیم ساتھیوں کی بغاوت ختم کرنے کے لیے ظلم کی آخری حد تک چلا گیا۔ وہ اسے آخری فتح تک لڑنے کا اصرار کرتے رہے۔ (30)

کرنل نے اپنے اندر کے کھوکھلے پن، بے جان جنگ اور بڑھتے مسائل کی وجہ سے ہتھیار ڈال دیے اور شرمندگی سے بچنے کے لیے سینے پر ایسے جگہ گولی چلائی جہاں سے وہ بچ جائے۔ اس کا یہ اوچھا سیاسی ہتھکنڈہ کام کر گیا۔ اسی بنیاد پر لوگوں نے اسے سر پر اٹھا لیا اور پھر سے اپنا ہیرو بنا لیا۔ اب وہ ان کے درمیان شان و شوکت اور عظمت کی مثال بن کر رہ سکتا تھا۔

چند گھنٹوں کے اندر اس کی موت کی کوشش نے اس کی کھوئی ہوئی عزت بحال کر دی۔ وہی لوگ جو یہ شور مچاتے تھے کہ اس نے جنگ محض ایک کمرے کی خاطر بیچ دی جس کی اینٹیں سونے کی تھیں۔ خود کشی کی کوشش نے ان کی نظروں میں دوبارہ قابلِ احترام بنا دیا۔ اسے شہید کا رتبہ دے ڈالا۔ (31)

جنگ بندی کے اعلان کے بعد ریپبلک حکومت نے جب سمجھا کہ لبرلز کمزور ہیں تو فوجیوں اور باغیوں کو پنشن دینے سے انکار کر دیا۔ اس پر ارلیانو نے حکومت کو خط لکھا لیکن جواباً احتیاط اور حفاظت کی آڑ میں اسے قابو اور نظر بند رکھنے کے لیے اس کی حفاظت پر معمور سپاہیوں کی تعداد بڑھا دی گئی۔ اس کی کسی سے بھی ملاقات پر سخت پابندی لگا دی گئی۔ اس استعماری ہتھکنڈے سے نئے مسائل نے جنم لیا اور کرنل نے دوبارہ جنگ کا اعلان کرنے کی دھمکی دی۔ اس پر اس کے تمام اہم ساتھیوں کو نظر بند کر دیا گیا، مشیروں اور جنگجو ساتھیوں کو بہانے سے مار دیا گیا اور اسے بالکل تنہا کر دیا گیا۔

جوزے خاندان کی تیسری نسل میں سنتو صوفیا کے ہاں جڑواں بچے پیدا ہوئے جن کے نام بالترتیب جوزے ارکیدو سگندو اور ارلیانو سگندو رکھے گئے۔  یہ بچے چوں کہ مادیت پرست ماحول میں پلے بڑھے تھے، اس لیے انھوں نے ماکوندو کو ایک نئی دنیا سے متعارف کروایا۔ جوزے ارکیدو سگندو بستی میں میں ایک جہاز لے آیا جس پر خوبصورت فرانسیسی عورتیں سوار تھیں۔ یہ نئی تہذیب کی عورتیں تھیں جو سایہ دار چھتریوں میں تھیں، دانتوں میں ہیرے جڑے تھے اور بازوؤں پر سنہری سانپ تھے۔ اب بستی کا رنگ ڈھنگ اور ہی ہو گیا۔ یہاں نئی تہذیب و ثقافت ہی داخل نہیں ہو رہی تھی بل کہ یہ بستی ناقابلِ یقین حد تک غیر یقینی ہوتی جا رہی تھی۔ ان لوگوں میں شاہی دستے کے بہترین فوجی بھیس بدل کر آئے اور میلے کی رات فائرنگ کر کے بہت سے نہتوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی اور خاموشی سے وہاں سے غائب ہو گئے۔ یہ ماکوندو میں بسنے والے ہر اس شخص کے لیے ایک پیغام تھا جو سر اٹھا سکتا تھا یا لبرلز کا سہولت کار بن سکتا تھا۔ اس پر انکوائری کمیشن بنانے کا وعدہ کیا گیا لیکن یہ وعدہ کبھی بھی پورا نہ ہو سکا۔

جب امن بحال ہوا تو نقلی بدو بستی میں موجود نہیں تھے۔ بہت سے مر گئے۔ چوک زخمیوں سے بھر گیا۔ ان میں نو مسخرے، چار کولمبین، سترہ موسیقار، ایک شیطان، دو فرانسیسی نواب اور تین جاپانی اداکارئیں شامل تھیں۔ (32)

اب کرنل ارلیانو کے سترہ بیٹے اس سے ملنے ماکوندو آ گئے جن کی خدمت میں جوزے ارکیدو سگندو نے خوب خاطر مدارت کی۔ ان میں سے ایک ارلیانو ٹرسٹی نے برف کی فیکٹری بنالی اور اس کی زیادہ پیداوار کے نتیجے میں یہاں ریل کی پٹڑی بستی تک لے آیا تاکہ یہاں سے کاروبار کے زیادہ مواقع میسر ہو سکیں۔ بستی میں پہلی بار ریل گاڑی داخل ہوئی۔ یہ مادیت پرستی کی انتہا تھی۔

جب سیٹی کی گونج اور سانس کے شور سے سنبھلے تو بستی کے تمام لوگ گلیوں میں بھاگے۔ ارلیانو ٹرسٹی ریلوے انجن سے ہاتھ ہلا رہا تھا۔ خوف کی اس کیفیت میں انھوں نے پہلی مرتبہ پھولوں سے لدی گاڑی دیکھی۔ (33)

اگلے چکر میں ارلیانو ٹرسٹی ایک بلب آبادی میں لے آیا۔ اس پر لوگ نئی حیرت سے دوچار ہوئے۔ مال دار تاجر برنو کرسپی تھیٹر لایا اور ٹکٹوں کی کھڑکی شیر کے سر کی تھی۔ اس کے بعد بستی میں فونو گرام آ گیا اور پھر ٹیلی فون۔

ماکوندو میں مسٹر براؤن اور اس کی کمپنی ’بنانا کمپنی‘ کی آمد بالکل بر صغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد کی یاد دلاتی ہے۔ دونوں کا طریقہ واردات بھی بالکل ایک ایسا ہی تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہاں پنجے گاڑھے تھے اور بعد ازاں اسے مکمل طور پر قابو کر لینے کے بعد دہلی دربار سے بر صغیر کے کونے کونے تک ہر اہم جگہ اور شخصیت کو تباہ و برباد کر ڈالا تھا۔ وہ بظاہر یہاں ترقی لے کر آئے تھے لیکن اس سے زیادہ تنزلی، بربریت اور ظلم و ستم بر صغیر نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ مسٹر براؤن نے ماکوندو کی بستی کو بالکل ہی بدل کر رکھ دیا۔ وہ اپنے ساتھ ایگرونمسٹ، ہائیڈرالوجسٹ، ٹوپو گرافر، سرویز اور مسٹر ہربرٹ کی طرح کے کئی لوگ لایا جنھوں نے بستی میں پکے گھر بنے، جستی چھتیں پڑنے لگیں، پانی کا رخ بدل دیا گیا، طوائفیں عام ہو گئیں، نامردی، جنون اور ایسی بیماریوں کا علاج بالکل آسان ہو گیا۔ ہر طرف نئے آباد کار اور ان کے نئے مکانات تعمیر ہوتے جا رہے تھے۔ ماکوندو نے پہلی بار کار دیکھی مغربی تہذیب کی وہ سب ارزاں سہولیات جنھیں وہ للچائی نظروں سے دیکھ رہے تھے اور یہ سب ان کے لیے موت کا پیغام تھا۔

بنانا کمپنی کی آمد کے ساتھ ہی مقامی انتظامیہ کی جگہ تشدد پسند غیر ملکیوں نے ماکوندو کا انتظام سنبھال لیا۔ مسٹر براؤن نے انھیں بجلی کی رو کے تاروں کے اندر رکھا ہوا تھا تاکہ وہ اس بڑے اعزاز سے لطف اندوز ہوں اور انھیں ان کے سٹیٹس کے مطابق یہ اعزاز ملا تاکہ وہ مچھر، گرمی اور دوسرے بے انتہا مسائل کا شکار نہ ہوں۔ بوڑھے سپاہیوں کی جگہ بڑی بڑی مونچھوں والے کرائے کے قاتلوں نے لے لی۔ (34)

بنانا کمپنی کے لیے ہر قسم کی مزاحمت کی سزا محض موت تھی۔ ناول میں بالکل ایسے ہی مناظر دکھائے گئے ہیں جیسے ’بیگمات کے آنسو‘ میں خواجہ حسن نظامی نے دہلی کے نوحے بیان کیے ہیں۔ موت اور ہر طرف اس کا راج۔ استعمار کی اس سے بد ترین شکل دنیا میں کہیں اور نہیں ملے گی۔ بستی میں ایک بچے کا جوس سپاہی سے ٹکرا نے سے اس کی وردی پر گر گیا، اس پر اس نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ یہ واقعہ بستی کے لیے بہت سوگوار گزرا۔ کرنل نے یہ بات برداشت نہ کی اور دھمکی دی کہ وہ اپنے سترہ بیٹوں کو بدلے کے لیے کہے گا۔ اس کی اس بات پر اس کے سترہ بچوں کو چن چن کر مار دیا گیا۔

اسی ہفتے کے اندر نا معلوم دہشت گردوں نے پوری ساحلی پٹی میں مختلف جگہوں پر خرگوشوں کی طرح اس کے سترہ بیٹوں کا شکار کیا۔ ان کا نشانہ وہی ماتھے پر راکھ کے کراس تھے۔ (35)

ریپبلک کے صدر نے اسے تعزیتی ٹیلی گرام بھیجا۔ اعلیٰ سطحی تحقیقات کا وعدہ کیا اور مرحومین کے حق میں دعا کی۔ صدر کے حکم پر مئیر چاروں میتوں کو سرکاری طور پر دفن کرنے کے لیے حاضر ہوا اور جنازوں پر پھول چڑھانے چاہے لیکن کرنل ارلیانو نے اسے پھول چڑھانے سے منع کر دیا اور پھولوں کو گلی میں رکھنے کا حکم دیا۔ ایسے مواقع پر عموماً خود ہی خونی اقدامات کرنے کے بعد تعزیت کر لی جاتی ہے تاکہ معصوم عوام کے دل و دماغ میں حکمرانوں کی جانب سے نرم گوشہ رہے۔ کرنل ارلیانو نے ٹیلی گرام بھیجنا چاہا تو ٹیلی گرافر نے اس سے بھی انکار کر دیا، کیوں کہ اب ہر شے حکومت کے ہاتھ میں تھی اور کوئی بھی اس کے خلاف جانے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔ کرنل ارلیانو اپنے والد جوزے کی طرح بے بسی کی موت مرگیا۔ اب بنانا کمپنی تیزی سے قدرتی ذرائع لوٹ رہی تھی اور ماکوندو کے مزدوروں کو اجرت اور سہولت کی مد میں کچھ نہیں دے رہی تھی۔ اس پر انھوں نے احتجاج کیا تو انھیں قید کر لیا گیا۔ البتہ انھیں تین ماہ بعد یہ سوچتے ہوئے رہا کر دیا گیا کہ حکومت یا بنانا کمپنی میں سے کوئی بھی انھیں جیل میں کھانا دینے کے لیے راضی نہ تھا۔ مزدوروں کے مزید احتجاج کرنے پر تین ہزار مزدوروں کو ایک ہی جگہ جمع کر کے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ مزدوروں کی طلب نہایت معقول تھی لیکن طاقت کے سامنے سر اٹھانا انھیں مہنگا پڑا تھا:

مزدوروں کا احتجاج تھا کہ انھیں بہتر طبی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ ان کے کوارٹرز میں سینٹری کی سہولیات نہیں۔ ان پر کام کرنے کی کڑی شرائط ہیں۔ ان کا احتجاج تھا کہ انھیں پوری تنخواہ نہیں دی جاتی بل کہ اس کے بجائے انھیں ایسے نوٹوں کی صورت تنخواہ پوری کی جاتی ہے جن سے کمپنی کے سٹور سے صرف ورجینیا ہام خریدی جا سکتی ہے۔ "(36)

کیس عدالت میں گیا تو وکلا نے کمپنی مالک مسٹر براؤن کو معصوم ثابت کر دیا اور یہ بھی کہا کہ مسٹر براؤن کا کمپنی سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔

وکیلوں نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ بنانا کمپنی کا ملک مسٹر جیک براؤن ہے ہی نہیں۔ یہ مسٹر براؤن میڈیکل سے متعلق پودے اگاتا ہے اور اس کی ماکوندو جنم بھومی ہے۔ انھوں نے اس کا ڈیٹھ سرٹیفکیٹ بھی دکھا دیا۔ کورٹ کے فیصلے میں لکھا گیا کہ مزدوروں کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے۔ (37)

علاقے کو قابو میں رکھنے کے لیے ’مفاد عامہ‘ کے نام پر فوج کو طلب کر لیا گیا۔ اس نے آتے ہی بنانا کمپنی کے لیے کیلے کاٹے اور ریل گاڑی میں بھر کر لے گئے۔ مزدوروں کا حق نہ ملا۔ انھوں نے ریل کی پٹڑی اکھیڑ دی، کیلے کے درختوں کو آگ لگا دی۔ یہ ان کا انتقام تھا لیکن استعمار کا انتقام اس سے کروڑوں گنا زیادہ طاقت ور اور تکلیف دہ تھا۔ ان سب کو ایک میدان میں جمع کر کے کیپٹن نے پانچ منٹ دیے کہ وہ یہاں سے غائب ہو جائیں وگرنہ ان کر گولی چلا دی جائے گی۔ ناول کے یہ مناظر بالکل حقیقی ہیں اور بر صغیر میں برطانوی استعمار کی ساری داستان یاد دلاتے ہیں۔ جلیانوالہ باغ اور چورا چوری ایسے کتنے ہی خونی واقعات یہاں کی تاریخ رقم کر چکے ہیں جن میں ہزاروں نہتے احتجاج کرتے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ ناول میں مزدوروں کی تعداد جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے، تین ہزار سے زیادہ بیان کی گئی ہے:

’’چودہ مشین گنوں نے فائر اگل دیے لیکن مجمع یوں ساکت تھا جیسے ان مشین گنوں کی نالوں پر کیپ چڑھے ہوں۔ ان کی نالوں سے صرف آگ نکلتی محسوس ہوتی تھی یا ان کی تیز تڑتڑاہٹ لیکن مجمع میں سکوت سا طاری تھا۔ نہ کوئی چیخ، نہ بھاگ دوڑ۔ اسے منجمد ہجوم کے درمیان کوئی خالی جگہ نہیں تھی جیسے مجمع پتھرا گیا ہو۔‘‘ (38)

ان سب کی لاشیں ریل گاڑی میں بھر کر سمندر میں پھینک دی گئی۔ یہ بنگال میں برطانوی ظلم و ستم کی یاد دلاتا پیراگراف ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ لوگ اس حوالے سے خاموشی اختیار کر چکے تھے اور خوف کی وجہ سے یہ تسلیم ہی کرنے کے لیے تیار نہ تھے کہ یہاں کوئی بھی قتل ہوا ہے۔ اس قتل عام کو بڑی ہوشیاری سے سرکاری سطح پر چھپا لیا گیا تھا:

ایک رات قبل قوم کے نام سرکاری طور پر اعلان ہوا کہ تمام مزدور پر امن طور پر سٹیشن چھوڑ کر گھروں کو چلے گئے تھے۔ اس اعلان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ عظیم ملکی مفادات کے تحت یونین لیڈروں نے اپنے مطالبات کم کر دئیے ہیں۔ اعلان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ملٹری افراد اور مزدوروں میں معاہدہ طے پا گیا ہے۔ جب مسٹر براؤن کو ان شرائط کے بارے میں فوجی حکام نے بتایا تو انھوں نے نہ صرف شرائط مان لیں بلکہ اس تنازعے کے خاتمے کے خوشی میں جشن منانے کا اعلان کیا اور تین دن کی تنخواہ بطور بونس دینے کا اعلان کیا۔ (39)

ماسوائے جوزے ارکیدو سگندو کے تمام یونین رہنماؤں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ وہ جان بچا کر نکلا لیکن اس کی تلاش کا سلسلہ جاری رہا۔ جنگ اور استعمار ایک مسلسل ’خوف‘ بن کر آبادی کے سر پر سوار ہو گیا۔ اس کے بعد بستی پر بارش اور طوفانوں کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ یہ مکمل تباہی و بربادی سے دوچار ہوئی۔ ناول کا اختتام یہ سوال اٹھاتا ہے کہ کیا ماکوندو کی تباہی سے استعمار اور اس کی نوآبادیات کا سلسلہ رک گیا؟ اس کا یقینی جواب نفی میں ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ہارڈ پاور سے سافٹ پاور کی جانب پیرا ڈائم شفٹ کے بعد اب اس کی نئی شکل خارجہ پالیسی، معیشیت اور تکنالوجی کو قابو میں رکھنے اور بعد از نوآبادیات اپنے ہم ذہن لوگوں کی حمایت حاصل کرنے یا انھیں مسلط کرنے سے تعبیر ہے۔ وہ ممالک جو استعماری قوتوں کی آبادیات رہ چکے ہیں، ان میں سے چند ہی مابعد نو آبادیات کے مسائل سے نکل سکے ہیں۔ یوں اس ناول کی موضوعی معنویت تا حال جاری ہے اور اسے عالمی نوآبادیات، مغربی سامراج اور بالخصوص لاطینی امریکہ پر اثرات کی تنقید کے طور پر پڑھا جا سکتا ہے۔

٭٭

حوالہ جات:

  1. مارلائز سائمنز، ’گارشیا سے مارکیز سے مکالمہ‘ مترجم: راشد مفتی، مشمولہ: ماہنامہ امربیل، لاہور، نوبل کہانی نمبر، فروری مارچ 2005، جلد 8، شمارہ نمبر 3-2، ص 11
  2. Dr. K. RAJKUMAR, Elements of Postcolonialism in Gabriel Garcia Marquez’s One Hundred Years of Solitude and Love in the Time of Cholera, Vol. 4 No. 2 January 2020، Bodhi International Journal of Research in Humanities, Arts and Science, P-16
  3. گیبریل گارشیا مارکیز، تنہائی کے سو سال، مترجم: ڈاکٹر نعیم کلاسرا، لاہور: فکشن ہاؤس، 2011، ص: 31
  4. ایضاً، ص: 41
  5. ایضاً، ص: 42
  6. Gabriel Garcia Marquez,‘‘One Hundred Years of Solitude” Translated by: Gregory Rabassa, Penguin Books, London, 1973, P-39
  7. گیبریل گارشیا مارکیز، تنہائی کے سو سال، مترجم: ڈاکٹر نعیم کلاسرا، لاہور: فکشن ہاؤس، 2011، ص: 43
  8. ایضاً، ص: 45
  9. ایضاً، ص: 47
  10. ایضاً، ص: 56
  11. ایضاً، ص: 57
  12. ایضاً
  13. ایضاً، ص: 81
  14. ایضاً، ص: 82-83
  15. ایضاً، ص: 95
  16. ایضاً، ص: 98
  17. ایضاً، ص: 96
  18. ایضاً، ص: 98
  19. ایضاً، ص: 100
  20. ایضاً، ص: 101
  21. ایضاً، ص: 102
  22. ایضاً، ص: 113
  23. ایضاً، ص: 115
  24. ایضاً، ص: 119
  25. ایضاً، ص: 133
  26. ایضاً، ص: 134
  27. ایضاً، ص: 146
  28. ایضاً، ص: 157
  29. ایضاً، ص: 157
  30. ایضاً
  31. ایضاً، ص: 176
  32. ایضاً، ص: 197
  33. ایضاً، ص: 216
  34. ایضاً، ص: 231
  35. ایضاً، ص: 231
  36. ایضاً، ص: 285
  37. ایضاً، ص: 287
  38. ایضاً، ص: 290
  39. ایضاً، ص: 295

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے