پھر فلسطین پر بم گرا
ان گنت لوگ مارے گئے
سیکڑوں بے مکاں ہو گئے
باپ کے سامنے ایک معصوم بیٹے کا سر کٹ گیا
دھڑ کسی کا جدا ہو گیا
ماں کے آغوش میں لاڈلا چل بسا
جسم کے چیتھڑے اڑ گئے
ایک بیٹی کو دشمن اٹھا لے گئے
ماں کوئی مر گئی
گاؤں کے گاؤں بارود کی آگ میں جل گئے
پوری بستی ہی سونی ہوئی
شہر ویراں ہوئے
مسجدیں، مدرسے، خانقاہیں سبھی نذرِ آتش ہوئیں
اس دفعہ جل گئے وہ مقامات بھی
جو جِلاتے تھے انسان کو
جان رکھتے تھے بے جان میں
دانہ، پانی، دوا، ہر طرح کی غذا ہو گئے بند انسان پر
بچ گئے تھے جو بارود سے
بھوک سے مر گئے
کربلا بن گئی پھر سے کوئی زمیں
چپ ہے پھر بھی مہذب جہاں
اے خدا آ گئے ہم کہاں
٭٭٭