ایک ہارر کہانی
جب ہم اس علاقے میں پہنچے تو اندازہ ہوا کہ یہ علاقہ شہری علاقے سے کم از کم سو، سوا سو کیلو میٹر دور ہے اور آس پاس کوئی انسانی آبادی بھی نہیں ہے۔ چند ایک قبائلی گاؤں یہاں سے تین کیلو میٹر کے فاصلے پر تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہمیں ایمرجنسی کی صورت کسی فوری مدد کے امکانات کو خارج کر دینا چاہئیے تھا۔ آرکیالوجی سروے آف انڈیا کے زیر اہتمام ہمیں اس علاقے کا تفصیلی جائزہ لینا تھا، کھدائی کرنی تھی اور ایک رپورٹ تیار کرنی تھی، ابتدائی جائزے کی رپورٹ ایک کمیٹی پیش کر چکی تھی اور اس کے مطابق اس علاقے میں پانچ ہزار سال پرانی کسی تہذیب کے آثار موجود ہیں۔ یہ نتیجہ بعض پائی جانے والی چیزوں کی کاربن ڈیٹنگ رپورٹ سے نکالا گیا تھا، ان چیزوں میں ایک دیوتا نما شخص کی مورتی جس کے سر پر سینگیں اور جس کے اطراف جنگلی جانور کھڑے ہوئے دکھائے گئے تھے، ایک سیاہ رنگ سے رنگا ہوا برہنہ عورت کا مجسمہ تھا جو شاید اس عہد کی کوئی دیوی رہی ہو۔ کچھ انسانی کھوپڑیاں، دانت اور شکستہ ڈھانچے بھی پائے گئے تھی۔ یہ چیزیں اس وقت برآمد ہوئی تھیں جب یہاں کرم ناسا ندی پر ایک پل بنانے کے لئے کھدائی کا کام چل رہا تھا۔ ایک جگہ تو انسانی ڈھانچوں کا ڈھیر برآمد ہوا تھا جیسے بہت سارے لوگوں کو ایک ساتھ ایک ہی قبر میں دفن کر دیا گیا ہو۔ چوں کہ ان ڈھانچوں کا ابھی تجزیہ نہیں کیا گیا تھا اس لئے یہ کہنا مشکل تھا کہ اتنے سارے لوگوں کو کسی گروہ نے قتل کر کے ایک ساتھ گڑھے میں دبا دیا تھا یا یہ لوگ کسی وبائی مرض کا شکار ہوئے تھے اور لوگوں نے انہیں ایک ساتھ مٹی کے اندر دفن کیا تھا۔ بہرحال اس علاقے کا تفصیل سے جائزہ لینے کے لئے یہاں کھدائی کا پروگرام بنایا گیا تھا اور ہم لوگوں کی ایک ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔ بیس پچیس مزدوروں کی خدمات بھی حاصل کی گئی تھیں جو پاس کے قبائلی گاؤں کے باشندے تھے۔ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی ٹیم میں میرے علاوہ ماہر آثار قدیمہ ڈی ڈی پاٹھک، مس کرتی سبرامنیم اور اشوک مجمدار تھے۔ کھدائی کے ماہرین میں رحمت کریم پاشا، انوبھو سنہا تھے۔ علم کیمیا کے ماہر نند کشور سہائے اور ان کی اسسٹنٹ جیوتی راجپوت تھیں۔ اس علاقے کے چپے چپے سے واقف عمر دراز بڑو مانجھی کی خدمات بھی حاصل کی گئی تھیں جو مانجھی قبیلے سے تعلق رکھتا تھا اور جسے اس علاقے کا قدیم ترین قبیلہ مانا جاتا تھا۔ بڑو مانجھی بعض تصویری تحریروں کو پڑھ لیتا تھا۔ اس کے علاوہ کچھ انجینئر، ٹیکنیشین، تیراک اور سیکورٹی کے لوگ بھی تھے۔ ہم لوگ یہاں ابتدائی جائزے کے لئے آئے تھے جس میں تجسس کا جذبہ بھی کارفرما تھا، فی الحال تمام لوگ شہر کے ایک ہوٹل میں قیام پذیر تھے۔ یہاں مستقل قیام کے لئے دوسرے دن سے انتظام کیا جانا تھا اور اس کے لئے ایک کانٹرکٹر کو کانٹکٹ دے دیا گیا تھا۔
ابھی سورج غروب ہونے میں کچھ وقت باقی تھا۔ سرسری طور پر دیکھیں تو یہ علاقہ چھدرے جنگل اور بھوری پہاڑیوں کا ایک سلسلہ تھا، جو نہ جانے کہاں ختم ہوتا تھا۔ ایک طرف کرم ناسا ندی بہہ رہی تھی جس پر ہمارے قریب ہی ایک پل اپنی ادھوری حالت میں موجود تھا۔ یہ پل اس لئے بنایا جا رہا تھا کہ شہر کے کارخانوں میں تیار شدہ مال کو بندرگاہ تک بھیجا جا سکے، اس سے پہلے مال بھیجنے کے لئے تقریباً چار سو کیلو میٹر دور ایک دوسرے شہر کا راستہ اختیار کرنا پڑتا تھا۔ کافی دنوں سے پل بنانے کا کام روک دیا گیا تھا، اس کی وجہ پوری طرح معلوم نہیں ہو سکی، جتنی منہ اتنی باتیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ ٹھیکیدار اور مزدوروں کے درمیان محنتانے کو لے کر اتفاق رائے نہیں ہے۔ بڑو مانجھی جو ہمارا گائڈ تھا اس کا کہنا کچھ اور ہی تھا۔ اس کے مطابق پل کے دوسرے کنارے پر دیوتا ساگون کا مندر ملا تھا جس کی وجہ سے قبائلی مزدوروں نے کھدائی کر کے وہاں ستون گاڑنے سے انکار کر دیا تب سے معاملہ رکا ہوا ہے۔ ہم نے دوسرے کنارے کی طرف دیکھا لیکن مندر کے آثار نظر نہیں آئے۔ مندر شاید اس بڑے گڑھے کے اندر ہو جو دور ہی سے نظر آ رہا تھا۔ بہرحال اس پل کے علاوہ یہاں ایسی کوئی چیز نظر نہیں آ رہی تھی جسے انسانی کاوشوں کا نتیجہ کہا جا سکے۔ ہمیں یہ دیکھ کر بڑا عجب لگا کہ ہمارے قدموں نیچے جو مٹی تھی وہ سرخی مائل تھی۔ نند کشور سہائے جو علم کیمیا کے ماہر تھے ان کا خیال تھا کہ اس مٹی میں آئرن آکسائیڈ کی آمیزش ہو سکتی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہاں زمین کے اندر کچا لوہا موجود ہو سکتا ہے۔
ہم لوگوں نے اس بات پر غور کرنا شروع کیا کہ شہر سے اتنی دور اس ویرانے میں ناگہانی افتاد کی صورت فوری مدد کا امکان بالکل نہیں ہے۔ ویسے کھانے پینے کا سامان، فرج اور دوسرے لوازمات کا انتظام کیا جا چکا تھا۔ ہیوی جنریٹر بھی لایا جا رہا تھا تاکہ اس سے بجلی پیدا کی جا سکے اور اس کے لئے ڈیزل کا بھی مناسب ذخیرہ مہیا کیا جا رہا تھا۔
’’یہ پورا علاقہ عجیب و غریب خاموشی سے گھرا محسوس ہوتا ہے۔‘‘ جیوتی راجپوت دھیرے سے بولی جیسے خود سے کہہ رہی ہو۔
’’ہاں بڑی عجیب بات ہے، جنگل ہونے کے باوجود جانور اور پرندوں کی آوازیں بھی سنائی نہیں دے رہی ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ارے ایسی بات نہیں ہے، ہم لوگ جنگل سے دوری پر ہیں، ہلکی پھلکی آوازیں تو آ ہی رہی ہیں۔‘‘ ڈی ڈی پاٹھک ہنستے ہوئے بولے۔
’’کل شام تک چھولداریاں تیار ہو جائیں گی اور سارا سامان بھی آ جائے گا، مزدور کا ٹھیکیدار بھی کل شام ہی کو مزدور لے کر آنے والا ہے۔‘‘ ایک انجینئر جو پروگرام کارڈینیٹر تھا ہمیں اطلاع دیتے ہوئے بولا۔
’’میں سمجھتا ہوں ہمیں اس حصے سے کھدائی کا کام شروع کرنا چاہئیے جہاں سینگ والے دیوتا کی مورتی برآمد ہوئی تھی اور اس کے قریب ہی ایک بڑے گڑھے میں بہت سارے لوگوں کے ڈھانچے ملے تھے۔ وہ دیکھئے وہاں زمین مسطح بھی ہے اور کام کرنے میں بھی آسانی ہو گی۔‘‘ میں نے مشورہ دیا۔
انوبھو سنہا کچھ کہنا ہی چاہتے تھے کہ رحمت پاشا بول پڑا۔ ’’مشورہ تو آپ کا درست ہے لیکن ڈھلواں علاقے میں اگر کھدائی شروع کی جائے تو ہمیں نچلی تہوں میں موجود قدیم آثار تک پہنچنے میں آسانی ہو گی۔‘‘
’’اس بات پر ہوٹل میں ڈسکس کر لیں گے۔‘‘ انوبھو سنہا نے کہا۔
افق پر شام کی لالی نمودار ہو رہی تھی اور سورج چھدرے جنگل کی پشت پر غروب ہو چکا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ پیڑوں میں آگ لگ گئی ہے اور بھوری پہاڑیاں شعلے اگل رہی ہیں۔ کرم ناسا ندی کا پانی بھی سرخ ہو چکا تھا۔ ہم لوگ گاڑی میں بیٹھ کر شہر کی طرف ہو لئے۔ راستے میں قبیلائی گاؤں کے بعض گھروں سے دھواں اٹھتا نظر آیا، شاید چولہے جلائے جا رہے تھے۔ گاؤں کے یہ گھر کچی مٹی سے بنائے گئے تھے اور دیواروں کو سرخ اور سفید رنگوں سے لیپا گیا تھا۔ ان دیواروں پر طرح طرح کی تصویریں بنائی گئی تھیں، جانور اور انسانی جسم کو ایک ساتھ ملا دیا گیا تھا، اسی طرح پرندے اور چوپائے ایک وجود کی صورت موجود تھے۔ بعض حشرات الارض کی بھی تصویریں تھیں۔ ایک دلچسپ تصویر شیر کا سر اور ایک پرندے کے جسم کو ہم آہنگ کر کے بنائی گئی تھی۔ گو کہ قبیلائی گاؤں کے سارے گھر کچی مٹی کے بنے نظر آ رہے تھے لیکن گاؤں کے درمیان مندر پکی اینٹوں سے تیار کئے گئے تھے۔
ہوٹل پہنچتے پہنچتے رات ہو گئی۔ ہم سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ کمرے میں پہنچ کر میں ابھی کپڑے تبدیل کر ہی رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ ریسیور اٹھایا تو دوسری طرف کوئی آواز نہیں آئی، ڈیڈ ٹون بھی نہیں تھا۔ کچھ دیر تک میں ہاتھ ریسیور لئے ہلو ہلو کرتا رہا، پھر جھنجھلا کر اسے کریڈل پر ڈال دیا۔ میں نہا کر فریش ہونا چاہتا تھا۔ ابھی میں باتھ روم کی طرف بڑھ ہی رہا تھا کہ دوبارہ فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ میں نے اس بار غصے میں لپک کر فون اٹھایا اور زور سے بولا۔ ’’ہلو۔‘‘
’’میں ہوں کرتی سبرامنیم، کیا ہوا اتنی زور سے کیوں چلا رہے ہیں؟‘‘
’’نہیں، کوئی بات نہیں۔ کوئی خاص بات؟‘‘
’’ابھی کچھ دیر پہلے آپ نے رنگ کیا تھا مجھے؟‘‘ کرتی نے پوچھا۔
’’نہیں تو، بلکہ ابھی ابھی کسی نے مجھے رنگ کیا تھا، جب ریسیور اٹھایا تو کسی نے جواب نہیں دیا، یہی وجہ تھی کہ میں جھنجھلایا ہوا تھا۔‘‘
’’ارے یہی بات میرے ساتھ بھی ہوئی ہے، اور جب میں نے ریسیپشن سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کال آپ کے کمرے سے آئی تھی۔‘‘
’’ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ میں نے کال کیا ہی نہیں ہے تمہیں۔‘‘ میں حیرت سے بولا۔
’’پتہ نہیں کیا چکر ہے۔‘‘ کیرتی سبرامنیم حیرت سے بولی اور ریسیور رکھ دیا۔
میں نے جیسے ہی ریسیور رکھا پھر فون کی گھنٹی بجی، اس بار رحمت پاشا تھا اور وہ بھی یہی پوچھ رہا تھا کہ میں نے اسے فون کیوں کیا تھا۔ اب تو ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ میں فون رکھتا اور کسی اور ساتھی کی کال آ جاتی، سب یہی پوچھ رہے تھے کہ میں نے انہیں کال کیا تھا۔ میرا تو دماغ ہی ماؤف ہو گیا۔ نہانے کی بجائے میں سیدھا ریسیپشن پر گیا اور سارا ماجرا بیان کر کے پوچھا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ ریسپشنسٹ بھی حیران تھی۔ اس نے کہا کہ ذرا ٹھہریں شاید فون لائنز میں کوئی پرابلم ہو، ویسے یہ سچ ہے کہ تمام لوگوں کے روم میں آپ ہی کے یہاں سے رنگ کیا گیا ہے اور یہ کمپیوٹر میں درج بھی ہے۔ میں روم میں واپس آ کر باتھ روم میں چلا گیا، نہا کر واپس آیا اور کافی کا آرڈر دے کر بستر پر لیٹ گیا۔ رات سکون سے گزری ایک بار بھی فون کی گھنٹی نہیں بجی، میں نے سوچا شاید لائنز میں کوئی خرابی واقع ہوئی ہو گی جسے ہوٹل والوں نے ٹھیک کر لیا ہو گا۔
صبح ہم لوگ لابی میں یکجا ہوئے اور اس علاقے کے تعلق سے گفتگو کرنے لگے۔ شام چار بجے تک ہمیں پہنچنا تھا۔ اس وقت تک تمام تیاریاں مکمل ہو جانے کا امکان تھا۔ اس سے پہلے راستے میں بڑو مانجھی کو اس کے گاؤں سے لینے کی ذمہ داری میری تھی۔ رات کے فون والے واقعے پر سب حیران تھے بلکہ انوبھو نے ریسپسنشٹ سے جا کر پوچھا بھی، اس نے بتایا کہ لائینیں چیک کی گئی تھیں، کہیں کچھ نہیں ملا بس ایک جگہ ایک وائر کا انسولیسن کٹا ہوا تھا جسے بدل دیا گیا ہے، شاید اسی کی وجہ سے ایسا ہوا ہو، بہرحال کوئی تشفی بخش جواب نہیں ملا۔
جب ہم لوگ بڑو مانجھی کے گاؤں پہنچے تو ایک عجیب صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ بڑو مانجھی کے گھر کے سامنے گاؤں والوں کی ایک بھیڑ جمع تھی۔ قریب پہنچ کر جو منظر نظر آیا اسے دیکھ کر متلی سی ہونے لگی۔ بڑو مانجھی ایک چارپائی پر بیٹھا، دونوں ہاتھ سے سر پکڑے رو رہا تھا اور سامنے ہی زمین پر ایک بکری پڑی ہوئی تھی جس کی آنتیں باہر تھیں اور جس کا نرخرہ ادھڑا ہوا تھا۔ کسی قبائلی کے لئے اس کی بکری کی کتنی اہمیت ہے یہ میں سمجھ سکتا تھا۔ بڑو مانجھی کو ہم لوگوں نے دلاسہ دیا اور پوچھا کہ یہ سب کیسے ہوا۔ اس نے بتایا کہ کچھ دیر پہلے جب وہ فطری ضرورت کے تحت میدان جا رہا تھا تو بنسواڑی (بانس کے پیڑوں کا جھرمٹ) میں اسے اپنی بکری اس حالت میں ملی۔ ہم لوگوں نے کہا کہ شاید کسی جنگلی جانور نے بکری کا یہ حشر کیا ہو لیکن بڑو مانجھی بڑے یقین سے بولا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا اور نہ ہی گاؤں کے اطراف کبھی جنگلی درندے دیکھے گئے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ جنگل یہاں سے تین کیلو میٹر دور ہے اور اس جنگل میں بھی کسی درندے کی موجودگی کے بارے میں کچھ نہیں سنا گیا۔ بڑو مانجھی کی باتیں سن کر ہمیں حیرت بھی ہوئی اور ایک قسم کا خوف بھی محسوس ہوا۔ اسی درمیان ایک غلغلہ بلند ہوا اور ایک وحشت زدہ قبائلی بھیڑ کو چیرتا ہوا میرے سامنے آ گیا۔ اس کی آنکھوں کو دیکھ کر میں لگ بھگ ڈر گیا۔ اس کی آنکھیں ٹھہری ہوئی تھیں اور وہ بالکل پلکیں نہیں جھپکا رہا تھا۔ آنکھوں کی سفیدی اتنی زیادہ سفید تھی کہ اس کی پتلیاں بھی سفیدی مائل نظر آ رہی تھی۔ وہ میرے سامنے کھڑا ہو کر زور زور سے ہاتھ ہلانے لگا اور عجیب و غریب آوازیں نکالتے ہوئے شہر کی طرف جانے والی سڑک کی طرف مجھے متوجہ کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
’’ہن جا، ہن جا، مارو دیبو، ہن جا، ہن جا۔۔۔‘‘ وہ بار بار بک رہا تھا۔
خوف کی ایک سرد لہر میرے جسم میں دوڑ گئی، حالانکہ میں پوری طرح سے سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ آخر وہ کہنا کیا چاہتا ہے۔ میرے ساتھ ساتھ دوسرے ساتھی بھی سراسیمہ نظر آ رہے تھی۔ دفعتاً بڑو مانجھی تیزی سے اٹھا اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنی جھوپڑی کے اندر لے گیا، وہاں کسی کونے سے اس نے ایک چوکور چمڑے کی تعویذ نما شئے نکالی اور اسے میرے گلے میں ڈال دیا، ایسی ہی بہت ساری تعویذ لے کر وہ باہر آیا اور ایک ایک کر کے تمام ساتھیوں کو پہنانے لگا۔ سفید آنکھوں والا وحشت زدہ شخص یہ دیکھ کر کانپنے لگا اور ایک چیخ مار کر ناک کی سدھ ایک سمت دوڑتا چلا گیا۔ میری سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا تھا کہ آخر ماجرا کیا ہے۔
’’یہ کیا ہو رہا ہے بڑو مانجھی؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’اس پر ماتا دیوی آیا ہوا ہے صاحب اور ماتا دیوی ابھی بہت غصے میں ہی۔ ہمارا بکری بھی ماتا دیوی کا بھینٹ چڑھ گیا۔‘‘
میں اپنی ہنسی کو روک نہیں سکا۔ ’’اچھا دیکھو، تم جلدی سے تیار ہو جاؤ، ہمیں ابھی چلنا ہے وہاں پر۔ آج ہی سے کام شروع ہو گا۔‘‘ میں نے بڑو مانجھی سے کہا۔ اسے یہ بھی دلاسہ دیا کہ اسے تین چار بکریاں خرید کر دے دی جائیں گی وہ فکر نہ کرے۔
بڑو مانجھی نے پاس کھڑے ایک نوجوان قبائلی سے اپنی زبان میں کچھ کہا۔ اس نے سر ہلایا۔ شاید اس نے اسے تاکید کی تھی کہ بکری کو گڑھے میں گاڑ دے۔ بڑو مانجھی کچھ دیر تک انگلیوں پر کچھ گنتا رہا پھر بڑبڑایا۔۔ ’’اماوسیہ۔ کالا رات۔‘‘ ایک بار پھر وہ جھوپڑی کے اندر گیا اور جب باہر آیا تو اس کے ہاتھ میں چوکور چمڑے والی بہت ساری تعویذیں تھیں۔ خود اس نے اپنے گلے میں کوئی تعویذ نہیں پہنی تھی۔ وہ ہمارے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا اور ہم تیزی کے ساتھ اپنے منزل مقصود کی طرف بڑھنے لگے۔
شام کے لگ بھگ پانچ بج چکے تھے جب ہم اس علاقے میں پہنچے جہاں قدیم تہذیب کی بازیافت کے لئے کھدائی کا کام کرنا تھا۔ بہت سارے ٹینٹ لگائے جا چکے تھے۔ جنریٹر بھی آ چکا تھا۔ ٹھیکیدار نے بتایا پروگرام کے مطابق مزدور کل صبح حاضر ہو جائیں گے۔ رات میں ہمیں یہ طے کرنا تھا کہ کھدائی کا کام کہاں سے شروع کیا جائے، وہاں سے جہاں ایک اجتماعی قبر ملی تھی یا اس ڈھلواں جگہ سے جہاں سے پرانی تہوں سے تہذیب کے قدیم آثار برآمد ہونے کا امکان تھا۔ یہ فیصلہ ان نقشوں کو پڑھ کر ہی کیا جا سکتا تھا جو ہم ساتھ لائے تھے اور جسے پہلی ٹیم نے تیار کیا تھا۔ سبھی لوگوں کو ٹینٹ دے دیا گیا تھا جس میں بنیادی ضرورت کا سامان بھی موجود تھا۔ ایک ٹینٹ میں کیمیکل لیب بھی تیار کیا گیا تھا تاکہ چیزوں کا تجزیہ کر کے ان کی قدامت اور فطرت کے متعلق معلوم کیا جا سکے۔ ایک اسٹوریج بھی بنایا گیا تھا جہاں چیزوں کو محفوظ کیا جا سکے۔ بڑو مانجھی کو بھی ایک ٹیکنیشین کے ساتھ چھولداری دی گئی تھی۔ تمام لوگ اپنی چھولداریوں کا معائنہ کر کے مطمئن تھے۔ ایک طرف رات کے کھانے کا انتظام ہو رہا تھا اور دوسری طرف ایک میز کی گرد ہم تمام لوگ بیٹھے نقشے دیکھ رہے تھے اور کل کے لائحہ عمل پر گفتگو کر رہے تھے۔
’’اجتماعی قبر کی بیشتر کھدائی ہو چکی ہے اور وہاں سے کچھ اور برآمد ہونے کا امکان نہیں ہے، میں رحمت پاشا کی اس بات سے متفق ہوں کہ اس جگہ ذرا ڈھلواں حصے سے کھدائی کا کام شروع کیا جائے، یہی وہ جگہ ہے جہاں سے سینگوں والے دیوتا کی مورتی برآمد ہوئی تھی۔‘‘ انوبھو سنہا نے نقشے پر ایک جگہ ہاتھ رکھ کر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
’’جی لیکن اس کے لئے اسکافولڈنگ کی ضرورت ہو گی، خیر یہ کوئی مسئلہ نہیں لیکن اس میں وقت لگ جائے گا۔‘‘ انجینئرنگ کوآرڈینیٹر نے کہا۔
’’یار میں نہ جانے کتنے علاقوں میں گیا ہوں، مہینوں رہا ہوں لیکن یہ علاقہ پتہ نہیں کیوں کچھ عجیب اور پر اسرار لگ رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے ہمارے بنگال کے کالے جادو کا اثر ہے یہاں پر۔‘‘ اشوک مجمدار بہ ظاہر ہنستے ہوئے بولا لیکن اس کا چہرہ اس کی ہنسی کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔
’’تم بنگالی لوگ یہ جادو وادو کے چکر میں بہت ہوتا ہے۔‘‘ ڈی ڈی پاٹھک نے قہقہہ لگایا۔ ’’ارے یار کام کی بات کرو۔‘‘
تھوڑی دوری پر بڑو مانجھی آسمان کی طرف منہ اٹھائے کچھ بڑبڑا رہا تھا۔ مجھے لگا وہ کوئی قبائلی منتر کا جاپ کر رہا ہو گا۔ میں نے اشارے سے دوسرے لوگوں کو اس طرف متوجہ کیا۔ جیوتی راجپوت سنجیدہ ہو گئی اور اس نے بڑو مانجھی کو آواز دے کر بلایا۔
’’کیا پڑھ رہے ہو۔‘‘ جیوتی نے پوچھا۔
’’ماتا دیوی کا منتر ہے میم ساب۔‘‘
’’اچھا، اس سے کیا ہو گا؟‘‘ نند کشور سہائے نے ہنس کر پوچھا۔
بڑو مانجھی ہم سب کو عجیب نظروں سے دیکھتا ہوا کچھ بڑبڑاتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔ ’’عجیب خبطی آدمی ہے۔‘‘ جیوتی بولی۔
تمام لوگ ہنسنے لگے لیکن نہ جانے کیوں میری نظر کے سامنے اچانک اس وحشت زدہ آدمی کی تصویر ابھر آئی جو بڑو مانجھی کے گاؤں میں اپنی سفید آنکھوں سے ہم سبھوں کو گھور رہا تھا۔ بڑو مانجھی کے جانے کے بعد ہم لوگ ایک بار پھر سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور اس نتیجہ پر پہنچے کے ڈھلواں حصے سے کھدائی کا کام شروع کیا جائے، رحمت پاشا اور انوبھو سنہا اس سلسلے میں اپنے تجربات کام میں لائیں گے تاکہ چیزیں بحفاظت کسی ٹوٹ پھوٹ کے بغیر نکالی جا سکیں۔ تھوڑی دیر بعد ہم لوگوں نے کھانا کھایا اور اپنے اپنے خیموں میں چلے گئے۔
پتہ نہیں وہ رات کا کون سا پہر تھا کہ اچانک میری آنکھ کھل گئی۔ آنکھ کھلنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔ ابھی میں اس بات پر غور ہی کر رہا تھا کہ کہ ایک عجیب و غریب آواز سنائی تھی، یہ کوئی انسانی آواز ہر گز نہیں تھی اور نہ ہی کسی جانور کی آواز۔ تو پھر یہ کس کی آواز تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی کھردری سطح پر کچھ گھسا جا رہا ہو۔ اچانک آواز تھم گئی۔ میں نے خیمے کے اندر چاروں طرف نظر دوڑائی، نیم تاریکی تھی لیکن چیزیں نظر آ رہی تھیں۔ سامنے ٹیبل پر نقشے پڑے تھے، دوسری چیزیں بھی اپنی جگہ تھیں۔ کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس سے کسی چیز کے گھسنے کا اندازہ قائم کیا جا سکتا۔ میں بستر پر ساکت لیٹا رہا۔ ہر طرف سناٹا طاری ہو چکا تھا، گھسنے کی آواز جو ایک بار بند ہوئی وہ اب تک بند تھی۔ مجھے صرف اپنی سانسیں یا جھینگروں کی پر اسرار آوازیں ہی سنائی دے رہی تھیں۔ دفعتاً ایسا محسوس ہوا جیسے دور ایک ساتھ بہت سارے گھوڑوں کی ٹاپیں ابھر رہی ہوں۔
ہاتھ میں ٹارچ لے کر میں باہر نکل آیا۔ سامنے دور دور تک کوئی نظر نہیں آ رہا تھا، پھر میری نظر اس طرف اٹھ گئی جہاں اجتماعی قبر ملی تھی، اس سے کافی فاصلے پر تیز رفتار گھوڑوں پر سوار پرچھائیاں تیزی سے بڑھتی نظر آ رہی تھیں۔ ان ہاتھوں میں تلواریں تھیں۔ میرے منہ سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی کیونکہ وہ سارے سوار گھوڑوں سمیت اجتماعی قبر پر پہنچ کر غائب ہو گئے۔ میں جیسے ہی پلٹا، چیخ پڑا۔ سامنے کوئی کھڑا تھا۔
’’بابو، بڑو مانجھی۔‘‘
جب میں نے غور سے دیکھا تو وہ کوئی اور نہیں بڑو مانجھی تھا۔ میری جان میں جان آئی۔ ’’تم اتنی رات کو یہاں کیا کر رہے ہو۔‘‘ میرے لہجے میں سختی تھی۔
’’ساب، سینگ والا دیوتا آئے گا۔‘‘
’’کب؟‘‘
’’بہت جلدی۔‘‘ بڑو مانجھی اپنے ہاتھوں کو آپس میں رگڑتے ہوئے بولا۔ میں غور کیا تو دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں ایک سیاہ کھردرا پتھر ہے اور ایک چمڑے کا بڑا سا ٹکرا جو شاید وہ اپنے سامان کے ساتھ لایا تھا۔ شاید وہ گھسنے کی آواز جو میں نے سنی تھی وہ بڑو مانجھی کی حرکت کا نتیجہ تھی۔
’’تم یہ پتھر کیوں گھس رہے ہو؟‘‘
اس نے کوئی جواب نہیں دیا، بس خاموشی سے مجھے دیکھتا رہا۔
میں اسے نظر انداز کر کے خیمے میں چلا آیا اور سوچنے لگا جو کچھ ابھی ابھی میں نے دیکھا ہے وہ حقیقت ہے کہ میری نظروں کا دھوکا۔ شاید نظروں کا دھوکا ہی ہو کیوں کہ ہوا بہت تیز چل رہی تھی اور پیڑوں کے ہلتے ہوئے سایوں نے گھوڑ سواروں کی ہیئت اختیار کر لی ہو گی، لیکن یہ سوچنے کے باوجود میں خود کو پوری طرح تسلی نہ دے سکا۔
صبح جب میں بیدار ہوا تو دن چڑھ چکا تھا، یہاں دھوپ میں تمازت نہیں تھی۔ مزدور کام میں لگے ہوئے تھی۔ ڈھلواں حصے پر اسکافولڈنگ باندھا جا چکا تھا اور رحمت پاشا ایک پلیٹ فارم پر کھڑا مزدوروں کو ہدایت دے رہا تھا۔ ایک بڑے حصے کی کھدائی جاری تھی۔ ٹہلتا ہوا میں لیب والے خیمے میں داخل ہو گیا، یہاں نند کشور سہائے مستعدی سے لگا ہوا تھا اور جیوتی راجپوت کو ہدایت بھی دے رہا تھا۔ میز پر یہاں کی سرخ مٹی رکھی ہوئی تھی اور ایک بیکر میں سہائے کچھ کیمیکل ڈال کر اسے چیک کر رہا تھا۔
’’کیا مٹی کا کیمیکل انالائسس کر رہے ہو۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہاں دیکھ رہا ہوں کہ اس میں آئرن آکسائیڈ ہے یا کوئی اور چیز۔‘‘
’’اور کیا چیز ہو سکتی ہے؟‘‘ میں نے یوں ہی پوچھ لیا۔
’’جیوتی، ذرا وہ بوتل دینا۔‘‘ سہائے نے ایک بوتل کی طرف اشارہ کیا، پھر بولا۔ ’’پتہ نہیں، یہ تو تجزیہ کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا۔‘‘ جیوتی سے بوتل لے کر اس نے بیکر میں چند بوندیں ڈالیں اور پھر اسے اچھی طرح ہلانے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بیکر میں موجود مٹی کا رنگ، سرخ سے گہرا سیاہ ہو گیا۔ سہائے کو میں نے چوکتے ہوئے دیکھا۔
’’کیا بات ہے؟ تم اچانک چونکے کیوں؟‘ سہائے کے چہرے پر پریشانی تھی۔ ’’یار بڑی عجیب بات ہے۔ مٹی میں آئرن آکسائیڈ نہیں خون ملا ہوا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘ میں لگ بھگ چیخ پڑا۔
’’مجھے بھی حیرت ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس زمین میں ہزاروں انسانوں کا خون رل مل گیا ہے۔‘‘
’’ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔‘‘
’’تمہیں وہ اجتماعی قبر یاد ہے نا، ایسا لگتا ہے بڑے پیمانے پر یہاں قتل عام ہوا ہو گا، شاید ایسی اور بھی قبریں برآمد ہوں۔ ہزاروں سال پہلے بہت ممکن ہے مغرب سے آنے والی بربری قوم نے اس علاقے پر حملہ کر کے یہاں کی آبادی کا صفایا کر دیا ہو اور ان کی لاشیں اجتماعی قبروں میں دفن کر دی ہوں تاکہ بدبو نہ پھیلے۔‘‘ سہائے نے اپنا نظریہ پیش کیا۔
ایسا ممکن تھا لیکن ابھی تک اس نہج پر تحقیق نہیں کی گئی تھی۔ سہائے کی اس بات سے مجھے رات والا گھڑ سواروں کا واقعہ یاد آ گیا جسے میں وہم سمجھ کر نظر انداز کر چکا تھا۔ سہائے سے جب میں نے اس واقعہ کا ذکر کیا تو وہ ہنسنے لگا، اس نے بھی اسے وہم ہی سمجھا۔ میں نے سہائے سے کہا کہ اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ بربری قوم نے جب اس ملک پر حملہ کیا تھا تو وہ گھوڑوں پر سوار ہو کر ہی آئی تھی، وہ لوگ اس علاقے میں آئے تھے یا نہیں یہ بات ابھی نامعلوم ہے لیکن دوسرے علاقوں میں ایسے بھی آثار ملے ہیں کہ وہ لوہے کے ہتھیار استعمال کرتے تھے جبکہ اس ملک کے باشندے ابھی تک لوہے سے واقف نہیں تھے، وہ یا تو تانبے کا استعمال کرتے تھے یا برونز کا۔
شام چار بجے تک ایک بڑے حصے کی کھدائی مکمل ہو چکی تھی۔ اس حصے کا باریک بینی سے معائنہ کرنے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ اگر اور گہرا کھودا جائے تو یہاں سے مکانوں کے آثار ملنے کے امکانات ہیں کیونکہ کچھ کچی اینٹوں سے بنی دیواریں نمایاں ہو چکی تھی۔ ایک جگہ ذرا زیادہ گہرائی تک کھودا گیا تھا اور تعجب کی بات ہے کہ نچلی تہوں سے پکی اینٹوں کی دیوار برآمد ہوئی تھی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جن لوگوں نے کچی اینٹوں کا استعمال کیا تھا وہ بعد کے لوگ تھے اور پکی اینٹوں کا استعمال کرنے والے مقامی لوگ یا پہلے سے آباد لوگ، اس سے یہ بھی نتیجہ نکلتا تھا کہ پرانے باشندے بعد میں کچی اینٹوں سے گھر بنانے والے باشندوں سے زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ کھدائی کے دوران سینگ والے دیوتا کی ایک اور مورتی برآمد ہوئی تھی جو پہلے پائی گئی مورتی جیسی ہی تھی لیکن اس کی جسامت دوگنی تھی۔ ایک اور بات یہ تھی کہ اس دیوتا کا سارا جسم ایک سیاہ پرت سے ڈھکا ہوا تھا۔ یہ پرت پپڑی کی طرح کہیں کہیں سے اکھڑ رہی تھی۔ یہ پرت کس چیز کی بنی ہوئی تھی یہ جاننے کے لئے مورتی کو سہائے کے لیب میں بھیج دیا گیا۔
رات کا کھانا کھا کر ہم ایک میز کے گرد اکٹھا ہوئے۔ سہائے نے آتے ہی انکشاف کیا کہ سینگ والے دیوتا کے جسم پر جو پرت جمی تھی وہ در اصل انسانی خون کی پرت تھی، ایسا لگتا ہے کہ اس دیوتا کو لگاتار انسانی خون سے نہلایا جاتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس علاقے میں نربلی کی رسم ہوا کرتی تھی۔ آج کی کھدائی سے بہت ساری کام کی چیزیں برآمد ہوئی تھیں اور ہمارے نقطہ نظر سے یہ ایک کامیاب دن تھا۔ ادھر ادھر کی گفتگو کے بعد ہم لوگ اپنے اپنے خیموں چلے گئے۔
وہ ایک بھیانک چیخ تھی جسے سن کر میری آنکھ کھل گئی، کسی عورت کی چیخ، پھر وہ چیخ قہقہہ میں تبدیل ہو گئی، پھر چیخ اور قہقہہ ایک دوسرے میں مدغم ہو کر ایک عجیب و غریب غیر انسانی آواز میں ڈھل گئے۔ میں بستر پر پڑا دل کی اچانک تیز ہو جانے والی دھڑکن پر قابو پانے کی کوشش کرتا رہا۔ لیکن مسلسل قہقہ اور چیخ کی ملی جلی آوازیں آتی رہیں، ساتھ ساتھ خیمے کے باہر لوگوں کی ہل چل بھی محسوس ہوئی۔ سلیپر پاوں میں ڈال کر میں جلدی سے باہر نکلا۔ لوگ تیزی سے کرتی سبرامنیم کے خیمے کی طرف بھاگ رہے تھے اور وہ خوفناک آوازیں بھی ادھر ہی سے آ رہی تھیں۔ ایک کونے میں مجھے بڑو مانجھی نظر آیا جو چاند کی طرف منہ اٹھائے جلدی جلدی کچھ پڑھ رہا تھا۔ میں اسے نظر انداز کرتا ہوا کرتی سبرامنیم کے خیمے کی طرف بڑھ گیا۔ جیسے ہی میں کرتی کے خیمے میں داخل ہوا میری چیخ نکل گئی، یہی حال دوسروں کا بھی ہوا۔ اندر کرتی سبرامنیم، نہیں وہ کرتی سبرامنیم نہیں ہو سکتی، وہ تو کسی اور ہی روپ میں نظر آ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں حلقوں سے باہر آ رہی تھیں اور منہ پر خون لگا ہوا تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں ایک زنگ آلود تلوار جیسی کوئی شئے تھی اور دوسرے ہاتھ میں، دوسرے ہاتھ میں، اف یہ تو اشوک مجمدار کا کٹا ہوا سر تھا۔ مجمدار کا دھڑ وہیں اس کے قدموں تلے پڑا ہوا تھا اور کٹی ہوئی گردن سے خون نکل دو سینگوں والے دیوتا کے مجسمے پر گر رہا تھا اور چاروں طرف پھیل رہا تھا۔ کرتی کے حلق سے مسلسل قہقہے اور چیخنے کی غیر انسانی آوازیں نکل رہی تھیں۔
اسی وقت بھیڑ کو چیرتا ہوا بڑو مانجھی اندر داخل ہوا۔
’’ہن، ہن، کائی بولبو، ہے ماتا، کائی بولبو، پا لاگی، ماتھا ٹیکی، ہے ماتا، ہے ماتا۔ یا ساگون دیوتا‘‘
بڑو مانجھی زمین پر سجدہ ریز ہو گیا۔ کرتی سبرامنیم یا وہ جو کوئی بھی تھی بڑو مانجھی کی طرف مڑی اور اس کے سفید دانت نمایاں ہو گئے، جیسے وہ مسکرا رہی ہو۔ اچانک اس نے زنگ آلود تلوار نما شئے اور مجمدار کے سر کو نیچے گرا دیا اور زمین پر کسی چوپائے کی طرح گر پڑی۔ اس نے اپنی گردن ادھر ادھر گھمائی اور تیر کی طرح چاروں ہاتھ پاؤں سے چلتی ہوئی لوگوں کی بھیڑ کو چیرتی ہوئی اندھیرے میں باہر نکل گئی۔ اس کی رفتار اتنی تیز تھی کہ کسی جانور کا گمان ہوتا تھا۔ سارے لوگ اس کے پیچھے پیچھے بھاگے لیکن کرتی سبرامنیم کی رفتار بہت تیز تھی۔ وہ ندی کے کنارے کی ڈھلان پر اتری اور چھلانگ لگا کر ندی میں کود پڑی۔
ساری رات ہم کرتی سبرامنیم کو ٹارچ لے کر ندی میں تلاش کرتے رہے لیکن وہ نہیں ملی۔ اسی وقت کسی نے ہیڈ کوارٹر فون کیا اور صبح صبح ہوتے ہوتے پولیس آ گئی۔ ایک بار پھر کرتی کی تلاش شروع ہوئی۔ اس علاقے سے کافی دوری پر ندی کے کنارے کرتی سبرامنیم کی لاش ملی۔ اس واقعہ نے مزدوروں کو بے حد خوفزدہ کر دیا تھا، سارے کے سارے صبح ہوتے ہی رفو چکر ہو گئے۔ پولیس نے اشوک مجمدار اور کرتی کی لاش کو اپنے قبضے میں لے لیا اور علاقے کو سیل کر دیا۔
اتنے برس بیت گئے، آج بھی یہ واقعات میرے ذہن سے محو نہیں ہوئے۔ حکومت نے ان واقعات کے بعد اس علاقے کی کھدائی کا کام ملتوی کر دیا تھا۔ اس سب کے درمیان اچانک مجھے بڑو مانجھی کا چہرہ یاد آتا اور پھر اس کا پورا وجود۔ میں دیکھتا ہوں اس کے ہاتھوں میں سینگ والے دیوتا کی مورتی ہے اور وہ تیزی سے ساگون دیوتا کے مندر کی طرف بھاگا جا رہا ہے جہاں سرخ زبان نکالے ماتا دیوی اس کے انتظار میں کھڑی ہے۔ اپنے گلے میں پڑی ہوئی وہ چمڑے کی چوکور تعویذ واپسی پر میں نے بڑو مانجھی کے گاؤں کے پاس پھینک دی تھی۔
٭٭٭