شاید 2011 کی گرمی کا موسم تھا جب ندا فاضلی کو ریکارڈ کرنے میں قرول باغ کے ایک ہوٹل میں پہنچا تھا۔ ساتھ میں کیمرا مین نیگی جی تھے۔ ہم لوگ کمرے میں پہنچے، تو بنیان میں ایک شخص بستر پر بے ترتیب لیٹا ہوا تھا۔ ا س کے گلے میں سونے کا ایک موٹا سا سکہ لٹک رہا تھا۔ نیچے پاجامے کا ناڑا جھول رہا تھا۔ جب جسم اوپر اٹھا، تو دونوں کے بیچ تھوڑا است ویست تھوڑا شرمندہ سے ندا فاضلی برآمد ہوئے۔ بیحد متوازن مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے ہم سے لاؤنج میں انتظار کرنے کو کہا۔ اتنی دیر میں نیگی جی نے گملے کے پاس کرسی رکھ کر فریم بنا لیا۔
تھوڑی دیر بعد ندا بھاری قدموں سے باہر آتے نظر آئے۔ ان کا سلک کا کرتا ایسا کڑک تھا کہ چھو جائے تو جلد کو چیر دے۔ انہیں فریم سمجھایا گیا۔ کرسی پر بٹھایا گیا۔ شوٹ شروع ہوا تو ایک کم ظرف مکھی ان کی ناک کے پاس منڈلانے لگی۔ نیگی جی نے مجھ سے اسے بھگانے کو کہا۔ ‘نمک حلال’ کا امیتابھ بچن نہ بننے سے بچنے کی پوری کوشش میں نے کی، لیکن مکھی تھی کہ جانے سے رہی اور تیسرے ری ٹیک میں ندا بپھر گئے۔ کرسی سے اٹھتے ہوئے چڑچڑا کر بولے، ”میں نہیں کرتا۔ ۔ ۔ ناظم سے کہہ دینا بس ہو گیا۔ ” بڑی مشکل سے انہیں منا تو لیا گیا، لیکن مزا جاتا رہا۔ اپنی لائنیں سپاٹ بول کر بنا مسکرائے وہ کمرے میں لوٹ، گئے۔
پچھلے سال جب بہت سے مصنفین عدم رواداری کے خلاف اپنے اپنے اوارڈ لوٹا رہے تھے، تب لمبی مدت کے بعد ندا سے فون پر بات ہوئی۔ وہ اس حرکت کو بیوقوفانہ کہہ رہے تھے۔ سن کر موڈ تو خراب ہوا تھا، لیکن ان کا مطلب کچھ زیادہ ہی گہرا تھا جو بعد میں سمجھ آیا۔ ہم لوگوں نے دنیا میں جو پالے کھینچ دیئے ہیں، ان میں ہر کسی کو فٹ کرنے کی خواہ مخواہ کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ایوارڈواپسی کے خلاف اور تائید کے علاوہ ایک تیسرا پہلو بھی تھا۔ یہ پہلو ندا کا تھا، جسے بعد میں پونیہ پرسون باچپائی نے بڑی خوبصورتی سے ایک ویڈیو میں بیان کیا تھا۔ دیکھیئے، تخلیق کاروں کی تاریخی بغاوت پر ندا کیا کہہ گئے ہیں :
انعاموں کو واپس کرنے سے کیا ہو گا
اخباروں میں جینے مرنے سے کیا ہو گا
قلم تمہارے لکھنا لکھانا بھول چکے ہیں
ناانصافی سے ٹکرانا بھول چکے ہیں
گھر سے نکل کر باہر آؤ
چل کر دھوپ سے ہاتھ ملاؤ
یا پھر اپنا غصہ لے کر اجڑے ہوئے بغداد میں جاؤ
اور کسی لکھنے والے کے دھول بھرے جوتوں سے پوچھو
کیسے درد لکھا جاتا ہے، کیسے بات کہی جاتی ہے
٭٭٭