میری بے شکوہ آنکھوں میں
جو بینائی تھی، وہ مر چکی تھی
یہ جو منظر لیے پھرتی ہوں میں اکثر
کسی ویران بستی کے
یہاں پر خاک اُڑاتی،
ہوا نوحے سناتی ہے، رُلاتی ہے
یہاں آہیں بھٹکتی ہیں
در و دیوار سے ٹکرانے والی گرم یہ ظالم ہوائیں
بین کرتی ہیں
یہاں پر گونگے لفظوں کی دعائیں
عرش تکتی ہیں، بہت آنسو بہاتی ہیں
لہو کے رنگ میں تر لوٹ آتی ہیں
یہاں معصوم بچے موت کو بانہوں میں لے کر
بھینٹ چڑھ جاتے ہیں دہشت کی
یہاں زیتون کے باغوں میں
مائیں دفن کرتی ہیں
جواں بچے
یہاں پر نوجوانی میں سسکتی شام
مہندی نوچ کر
لباسِ بیوگی تقسیم کرتی ہے
مگر حیرت ہے
جب‘ اللہ اکبر! کی صدائیں
خدا کے شکر میں سجدے میں گرتی ہیں
لہو کی گرم جب بارش برستی ہے
مہک تازہ لہو کی پھر یہ نغمہ گنگناتی ہے
شہادت مرتبہ اولیٰ ہے اور یہ شانِ مومن ہے
(جنگل میں قندیل ۲۰۱۷)
٭٭٭